سیر کرتے اسے دیکھا ہے جو بازاروں میں
سیر کرتے اسے دیکھا ہے جو بازاروں میں
مشورے ہوتے ہیں یوسف کے خریداروں میں
چاہتے ہیں کہ کوئی غیرت یوسف پھنس جائے
کس قدر کھوٹے کھرے بنتے ہیں بازاروں میں
دو قدم چل کے جو تو چال دکھا دے اپنی
ٹھوکریں کھاتے پھریں کبک بھی کہساروں میں
خون عشاق سے لازم ہے یہ پرہیز کریں
کہ شمار آپ کی آنکھوں کا ہے بیماروں میں
شیخ کعبہ ہو دیا برہمن بتخانہ
ایک ہی کے در یہ دونوں ہیں پرستاروں میں
دیکھیے کتنے خریدار ہیں کیا اٹھنا ہے
جنس دل بھیج کے ان کو کوئی ہے بازاروں میں
فصل گل آئی خزاں بھی ہوئے گلزار مگر
طائر دل ہے ہنوز ان کے گرفتاروں میں
سیر کے واسطے نکلا جو وہ رشک یوسف
بند رستے ہوئے ٹھٹ لگ گئے بازاروں میں
یہ نیا یار کی سرکار میں دیکھا انصاف
بے گنہ بھی گنے جاتے ہیں گنہ گاروں میں
کہیں ڈھونڈے سے بھی ملتے تھے نہ ارباب کمال
جن دنوں قدر شناسی تھی خریداروں میں
تیغ قاتل کے گلے ملتے ہیں خوش ہو ہو کر
عید قرباں ہے محبت کے گنہگاروں میں
کسی امن سے نہ الجھا نہ ہوئی صحبت گل
اے ضعیفی تن زار اپنا ہے ان خاروں میں
قلقؔ اثبات دہن منہ کو نہ کھلوائے کہیں
ہے بڑی بات اگر بات رہی یاروں میں
مأخذ:
Mazhar-e-Ishq (Pg. e-119 p-117)
- مصنف: اسد علی خان قلق
-
- اشاعت: 1911
- ناشر: منشی نول کشور،کانپور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.