صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم
صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم
زخم خوشیوں کے ہیں پیغام تمہیں کیا معلوم
بھول کر بھی جو کسی بزم میں آیا نہ گیا
سینکڑوں اس پہ ہیں الزام تمہیں کیا معلوم
لوگ گلشن میں تو چلتے ہیں سرافرازی سے
ان میں کتنے ہیں تہہ دام تمہیں کیا معلوم
کچھ اندھیرے بھی خطا وار تباہی ہیں مگر
روشنی پر بھی ہے الزام تمہیں کیا معلوم
جس کو تم ڈھونڈتے ہو شمع رخ ناز لئے
وہ تو عرصے سے ہے گمنام تمہیں کیا معلوم
جو رخ زیست پہ تھا حرف غلط کی مانند
مل رہا ہے اسے انعام تمہیں کیا معلوم
جو کفن باندھ کے چلتے ہیں وفا کی رہ میں
زندگی کر چکے نیلام تمہیں کیا معلوم
سرخ رو کون ہوا کوچۂ جاناں میں کبھی
نامور بھی ہوئے بدنام تمہیں کیا معلوم
دو قدم بھی نہ چلے راہ وفا میں ہم لوگ
ہے ابھی ذوق طلب خام تمہیں کیا معلوم
جو جلا رات کی تنہائی میں اس پر بھی خیالؔ
بے وفائی کا ہے الزام تمہیں کیا معلوم
مأخذ:
Subh Ka Suraj (Pg. 94)
- مصنف: فیض الحسن خیال
-
- اشاعت: 1972
- ناشر: فیض الحسن خیال
- سن اشاعت: 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.