تارے جو آسماں سے گرے خاک ہو گئے
ذرے اٹھے تو برق غضبناک ہو گئے
پرسان حال دیدۂ نمناک ہو گئے
یہ کب سے آپ صاحب ادراک ہو گئے
انجام انبساط چمن کے سوال پر
اتنا ہنسے کہ پھول جگر چاک ہو گئے
ہونا پڑے گا قائل تعمیر عہدنو
جس دن غریب درخور املاک ہو گئے
تفتیش حال موسم گل کو چلے ہیں آپ
اب جب کہ آشیاں خس و خاشاک ہو گئے
سادہ دلوں نے راہنمایان قوم سے
اتنے فریب کھائے کہ چالاک ہو گئے
دہ ذہن وہ دماغ جو آئے وطن کے کام
نذر نشاط بادہ و تریاک ہو گئے
چھوٹا نہ ہم سے دامن تہذیب انجمن
دشمن ذرا سی ڈھیل پہ بے باک ہو گئے
تسلیم کر نہ پائے جنہیں خاکسار ہم
وہ آپ کی بلا سے اگر خاک ہو گئے
سر پر چڑھا لیا ہے جنہیں آج آپ نے
کل دیکھ لیں گے آپ خطرناک ہو گئے
ہم بھی امام مسجد جامع کی طرح شادؔ
دھوئے گئے کچھ ایسے کہ بس پاک ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.