اڑا کے لے گئی خوشبو سبھی گھروں کی ہوا
اڑا کے لے گئی خوشبو سبھی گھروں کی ہوا
وطن میں کیسی چلی اب کے نفرتوں کی ہوا
یہ مسئلہ ہے تو حل اس کا سوچنا ہوگا
کہ اب دلوں کو نہ توڑے جہالتوں کی ہوا
نہ اب کے پھول کھلے ہیں نہ خوشبوئیں مہکیں
ہوئی ہے قید کہاں تازہ موسموں کی ہوا
بجھا نہ دے یہ کہیں پیار کے چراغوں کو
اٹھی ہے اب کے برس پھر عداوتوں کی ہوا
بھٹک رہے ہیں مسافر نئے زمانہ کے
سروں پہ چیخ رہی ہے روایتوں کی ہوا
تم اپنے دل کے دریچے سدا کھلے رکھنا
ملے گی روح کو یاروں محبتوں کی ہوا
جو بن کے آئے ہیں دنیا میں سایۂ رحمت
وسیمؔ سر پہ ہے ان کی ہدایتوں کی ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.