عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا
عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا
زندگی میں تو ترے ناز اٹھانے سے رہا
جب بھی دیکھا تو کناروں پہ تڑپتا دیکھا
یہ سمندر تو مری پیاس بجھانے سے رہا
بس یہی سوچ کے سر اپنا قلم کر ڈالا
اب وہ الزام مرے سر تو لگانے سے رہا
اس زمانہ میں جہالت سے گزر ہوتی ہے
اب ہنر سے تو کوئی گھر کو چلانے سے رہا
ہم ہی ترکیب کریں کوئی اجالوں کے لئے
اب اندھیرا تو چراغوں کو جلانے سے رہا
وقت کے مرمریں پتھر پہ غزل لکھتا ہوں
یہ عبارت کوئی موسم تو مٹانے سے رہا
بے تعلق تو نہیں عمر گزاری ہے نفسؔ
رشتۂ غیر سہی کچھ تو زمانہ سے رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.