عریاں تلواروں کا بے سود فسوں ہے یوں ہے
عریاں تلواروں کا بے سود فسوں ہے یوں ہے
جلوہ گر آج بھی مظلوم کا خوں ہے یوں ہے
سر قلم کر کے بھی خنجر کو ہے بے چینی سی
ہم کو نیزے کی بلندی پہ سکوں ہے یوں ہے
بات کرتے ہیں سر دار زباں کٹنے پر
عشق میں اپنا بھی انداز جنوں ہے یوں ہے
جس کا جبریل نگہبان ہے اس چوکھٹ پر
صرف یہ سر ہی نہیں دل بھی نگوں ہے یوں ہے
اس کی مرضی پہ ہے موقوف نظام دنیا
تو نے پوچھا تھا علی لازمی کیوں ہے یوں ہے
بیچ دیتے ہو حکومت کو عمامے اپنے
اور منبر سے کہا کرتے ہو یوں ہے یوں ہے
جان بھی لیتے ذرا تبصرہ کرنے والے
شاعری شوق ہے تسکین دروں ہے یوں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.