وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
تم گلے سے کیا ملے سارا گلہ جاتا رہا
یار تک پہنچا دیا بیتابی دل نے ہمیں
اک تڑپ میں منزلوں کا فاصلہ جاتا رہا
ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا
کہیے اب تو کم نگاہی کا گلہ جاتا رہا
روز جاتے تھے خط اپنے روز آتے تھے پیام
ایک مدت ہو گئی وہ سلسلہ جاتا رہا
رو رہے تھے دل کو ہم یاں ہوش بھی جاتے رہے
گمشدہ یوسف کے پیچھے قافلہ جاتا رہا
مڑ کے قاتل نے نہ دیکھا وار پورا ہو گیا
کشتگان نیم بسمل کا گلہ جاتا رہا
وادئ غربت کے ساتھی ہیں ہمیں دل سے عزیز
رو دئیے ہم پھوٹ کر جب آبلہ جاتا رہا
بے خودی میں محو نظارہ تھے ہم کیوں چونک اٹھے
ہائے وہ اپنا مزے کا مشغلہ جاتا رہا
کیا مہذب بن کے پیش یار بیٹھے ہیں جلیلؔ
آج وہ جوش جنوں وہ ولولہ جاتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.