وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسیٰ کو ہو نوید کہ بیمار مر گیا
آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیران زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اتر گیا
دنیا میں حال آمد و رفت بشر نہ پوچھ
بے اختیار آ کے رہا بے خبر گیا
شاید کہ شام ہجر کے مارے بھی جی اٹھیں
صبح بہار حشر کا چہرہ اتر گیا
آیا کہ دل گیا کوئی پوچھے تو کیا کہوں
یہ جانتا ہوں دل ادھر آیا ادھر گیا
ہاں سچ تو ہے شکایت زخم جگر غلط
دل سے گزر کے تیر تمہارا کدھر گیا
دل کا علاج کیجیے اب یا نہ کیجیے
اپنا جو کام تھا وہ غم یار کر گیا
کیا کہیے اپنی گرم روی ہائے شوق کو
کچھ دور میرے ساتھ مرا راہبر گیا
فانیؔ کی ذات سے غم ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفتر غم کا بکھر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.