یہ عطا بھی ہے ساقی واہ کیا نرالی ہے
یہ عطا بھی ہے ساقی واہ کیا نرالی ہے
ایک جام چھلکا ہے ایک جام خالی ہے
زخم پتہ پتہ ہے درد ڈالی ڈالی ہے
اے مرے چمن آخر کون تیرا مالی ہے
پھر ترے حسیں وعدے یاد آ گئے شاید
میں نے آرزوؤں کی بھیڑ پھر لگا لی ہے
کیا مری وفاؤں کا اب لہو نہیں ملتا
تم نے اپنے ہاتھوں میں کیوں حنا لگا لی ہے
اے مری غزل تیرے ناز کون اٹھائے گا
اب نہ کوئی غالبؔ ہے اب نہ کوئی حالیؔ ہے
حرف حرف ہیرا ہے لفظ لفظ موتی ہے
ان حسین لوگوں کی بات ہی نرالی ہے
پاک باز رندوں کو اور ہم کہاں ڈھونڈھیں
مسجدیں بھی سونی ہیں مے کدہ بھی خالی ہے
رازؔ یہ غزل اپنی اک حسیں کا صدقہ ہے
شعر بھی انوکھے ہیں ہیں طرز بھی نرالی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.