Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

MORE BYمرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

    یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں

    فقط اس لیے یہ حجاب ہے کہ کسی کو تاب نظر نہیں

    کہو کچھ حقیقت مشتہر کہ مجھے کہیں کی خبر نہیں

    یہ مناظر دو جہاں ہیں کیا جو فریب ذوق نظر نہیں

    کسی آہ میں نہیں سوز جب کسی نالے میں جب اثر نہیں

    یہ کمال سوزش دل نہیں یہ فروغ داغ جگر نہیں

    چمک اٹھ رہی ہے جو پے بہ پے یہ تجلیوں کا خزانہ ہے

    یہ ہجوم برق تپاں نہیں یہ متاع درد جگر نہیں

    یہ ہے اہتمام حجاب کیوں یہ ہے بند و بست نقاب کیوں

    تمہیں آنکھ بھر کے میں دیکھ لوں وہ نظر نہیں وہ جگر نہیں

    وہ رہین لذت غم ہوں میں نہ ملی ازل میں جسے طرب

    میں ہی اس کرم کا تھا منتظر میں ہی مستحق تھا مگر نہیں

    کبھی وقت ناز و نیاز ہے کبھی محو زلف ایاز ہے

    مگر اس پہ بھی دل غزنوی کرم آشنائے نظر نہیں

    یہ تعینات نظام تھے فقط ایک پردۂ ماسوا

    خبر اس کی جب سے ہوئی مجھے کوئی اس جہاں کی خبر نہیں

    تجھے کارگاہ فنا بتا انہی ہستیوں پہ غرور ہے

    جو شریک سود و زیاں نہیں جو رہین نفع و ضرر نہیں

    چمک اے چراغ ضمیر اب کہ طلوع مہر کمال ہو

    وہ لحد ہوں تیرہ و تار میں کہ جہاں بیاض سحر نہیں

    نہ وہ سوز ہے نہ وہ ساز ہے نہ وہ دل خزانۂ راز ہے

    وہ شرر ہوں جس میں دھواں نہیں وہ حجر ہوں جس میں شرر نہیں

    نظر اس کی ہے مری سمت ابھی مرا دامن گہریں نہ دیکھ

    ابھی خون دل ہے رکا ہوا ابھی آنسوؤں سے یہ تر نہیں

    چمک اے تجلیٔ دل‌ ربا نکل اے خلاصۂ دعا

    کہ نظارۂ دو جہاں فقط یہ مآل ذوق نظر نہیں

    یہ جبہ سائی بے محل مجھے شب کو دے رہی تھی خبر

    نہ مٹا دے ظلمت دہر جو وہ نشان سجدۂ در نہیں

    یہ تغیرات جہاں نہیں اثر تلون طبع ہے

    تری اک نظر کا کرشمہ یہ فلک کی گردش سر نہیں

    کہو شمع سے کہ یہ نقل کیا کوئی اپنا قصۂ غم کہے

    کرے اب فسانے کو مختصر کہ مجھے امید سحر نہیں

    ہے تلاش اپنی فقط مجھے میں ملوں تو ہوں گی شکایتیں

    مجھے اب کسی سے گلا نہیں مجھے اب کسی کی خبر نہیں

    یہی منزلیں ہیں وہ منزلیں کہ جہنم ان سے پناہ لے

    دل نا شناس رہ وفا مجھے کوئی خوف و خطر نہیں

    مری غفلتوں کا گلا نہ کر یہی نظم کون و فساد ہے

    خبر اس طلسم نمود کی مجھے ہو چکی ہے مگر نہیں

    سبق اس سے لے کہ خبر ملے تجھے آنے والے زمانے کی

    ہے تغیرات کا آئنہ یہ شکستہ کاسۂ سر نہیں

    یہ ہیں دار تیری نگاہ کے کسی ناتواں سے رکیں گے کیا

    دل داغ داغ عزیزؔ ہے ستم آزما یہ سپر نہیں

    مأخذ:

    Anjum Kada (Pg. 70)

    • مصنف: مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی
      • اشاعت: 1956
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1956

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے