زندگی کو اک کہانی دے گیا
زندگی کو اک کہانی دے گیا
ہم سفر اپنی نشانی دے گیا
ابر رویا آنسوؤں سے اس قدر
سوکھے دریا کو بھی پانی دے گیا
رکھ گیا ویرانیٔ گلشن کو پاس
اور مجھ کو باغبانی دے گیا
جاگتی آنکھوں میں رکھ کر خواب سا
زندگانی کو روانی دے گیا
بوڑھا برگد پی گیا سورج کی آگ
دھوپ کیسی سائبانی دے گیا
اپنے بچوں کی شرارت سے لگا
میرا بچپن دور ثانی دے گیا
اب ظفرؔ بس ایک موسم یاد ہے
پیار کی جو اک نشانی دے گیا
مأخذ:
خموش لب (Pg. 45)
- مصنف: ظفر محمود
-
- ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز دہلی۔95
- سن اشاعت: 2019
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.