Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نقاد اور شاعر کے مابین مکالمہ

شمس الرحمن فاروقی

نقاد اور شاعر کے مابین مکالمہ

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    (یہ گفتگو انگریزی میں ہوئی۔ بعد میں اس کا ترجمہ ’’شب خون‘‘ شمارہ ۲۱۱ میں شائع ہوا۔ اس گفتگو کے سوالات پریم کمار نظر نے مرتب کیے تھے۔) 

    پریم کمار نظر: آپ شاعر کے مقابلے میں نقاد کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کے اندر کے نقاد نے آپ کے اندر کے شاعر پر حاوی ہوکر اسے پس پشت ڈال دیا ہے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میرے اندر کے نقاد نے میرے اندر کے شاعر کو دبالیا یا اس پر حاوی ہوگیا۔ ایسا نہیں کہ، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میرے اندر کے شاعر نے کسی نہ کسی طرح مجھے اس طرح کا نقاد بننے میں مدد کی، جیسا کہ میں بنا۔ اب یہ اور بات ہے کہ اپنے لائحہ عمل میں، میں نے اپنی شاعری کو ذرا حاشیے پر رکھا اور اسے بہت آگے بڑھنے سے روکا۔ مجھے لگتا تھا کہ نقاد کی حیثیت سے جو باتیں میرے پاس کہنے کو ہیں وہ دوسرے نقاد شاید نہیں کہہ رہے تھے۔ اور میرا خیال تھا کہ میری طرح کی شاعری شاید اور لوگ بھی لکھ سکیں گے۔ لیکن جو صورت حال بالآخر بنی اس میں مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اپنی شاعری کے بارے میں میرا خیال غلط تھا۔ کیونکہ میرے تازہ مجموعے ’’آسماں محراب‘‘ کے بارے میں ایک بات جو شاید سب لوگ کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ مجموعہ اس تمام شاعری سے مختلف ہے جو آج اردو میں لکھی جارہی ہے۔ 

    سوال: جب آپ کسی ادبی متن کی طرف راغب ہوتے ہیں تو اس کے معنی تک پہنچنے کے لیے آپ کون سے ذرائع استعمال کرتے ہیں؟ کسی ادبی متن میں معنی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کیا شے ہے؟ 

    جواب: سب سے پہلی اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ تمہیں اس زبان سے بخوبی واقف ہونا چاہیے، جس زبان میں وہ متن لکھا گیا ہے۔ اور اسی کے برابر اہم یہ بات بھی ہے کہ ہمیں متن کی کسی صورت حال میں معنی کے وجود اور اس کے امکان کے بارے میں فطری اور وہبی احساس ہونا چاہیے یعنی یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہاں معنی موجود ہیں۔ 

    اس کے بعد بہت شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ شعریات، وہ تہذیبی مفروضات اور تصورات اور وہ تصور کائنات کیا ہیں جو کسی متن میں جاری و ساری ہیں۔ پھر اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم کسی ایک مقررہ متن کو بخوبی جانیں۔ ہمیں اسی طرح کے اور اسی مصنف اور دیگر مصنفین کے دوسرے متون کو کثیر تعداد میں جاننا چاہیے۔ 

    یہ تو درست ہے کہ نقاد یا متن کا تعبیر کنندہ کسی بھی متن کو اپنی ہی بصیرت اور تصورات کی دھند میں لپٹا ہوا دیکھتا ہے۔ لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ اسے ممکن حدتک اس ادبی تہذیب کے بارے میں معلومات ہو جس میں متن زیر بحث بنایا گیا تھا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ادب کے بارے میں اس ادبی تہذیب کی کیا توقعات تھیں۔ لفظ ’’شاعری‘‘ سے وہ تہذیب کیا مراد لیتی تھی۔ اور وہ اپنے ماضی اور حال کے درمیان کس قسم کے رشتے قائم کرتی تھی اور کس طرح قائم کرتی تھی۔ منظومات (اشعاریا نظمیں جو بھی کہیں) دوسرے منظومات پر اور دوسرے منظومات سے اور ان کے ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ اصول سنسکرت، عربی، فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری پر بطور خاص صادق آتا ہے اور اب تو مغربی شاعری پر بھی اس کا اطلاق کرنے والے نظر آتے ہیں۔ یہ قول ’’فرینک کرموڈ‘‘ (Frank Kermode) کا ہے کہ کسی نظم پر بہترین رائے کوئی اور نظم ہی ہوسکتی ہے۔ 

    ہمیں ژولیا کرسٹیوا (Julia Kristeva) کی یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں کہ سب متن ایک دوسرے کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کسی نظم چاہے وہ غزل ہو یا کچھ اور، کا محاکمہ تب ہی کرسکتے ہیں جب ہمیں اور نظموں کے بارے میں براہ راست معلومات ہو۔ مثال کے طور پر کسی ایسے طالب علم کا تصور کرو جسے تم غزل کے بارے میں بہت کچھ بتاؤ، بہت کچھ معلومات اس تک پہنچاؤ لیکن اسے کوئی غزل پڑھنے کو نہ دو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس طرح کی تربیت کے بعد چاہے وہ کتنے ہی عرصے تک اور تفصیل سے کیوں نہ دی جائے، تمہارا طالب علم کسی واقعی غزل کو سمجھ پائے گا۔ چہ جائیکہ وہ کوئی غزل لکھ بھی سکے۔ ظاہر ہے کہ نہیں۔ 

    اچھا اب جہاں تک معنی کا سوال ہے تو میرا خیال ہے کہ تمام معنی سیاق و سباق پر منحصر ہوتے ہیں اور اس حد تک ہر معنی میں تھوڑی بہت عدم استقلال کی کیفیت ہوتی ہے۔ لیکن تمام متون میں ایک بنیادی اور قابل حصول معنی ضرور ہوتے ہیں یعنی ایسے معنی جن پر تمام تعبیر کنندگان کا اتفاق ہوتا ہے اور ہم جو زبان کو استعمال کرتے ہیں، ہمیں بھی ان پر اتفاق ہوتا ہے۔ ان عقل ترین اور غالباً تخفیف ناپذیر معنی کے علاوہ کوئی ایسے معنی نہیں ہیں جو متن میں بس کسی نے رکھ دیے ہوں اور انہیں کسی ایسے شخص کا انتظار ہو جو متن تک جائے اور انہیں اس طرح پالے جس طرح آثار قدیمہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ماہر آئے اور انہیں ڈھونڈ نکالے۔ 
    رچرڈز کا قول ایک بار پھر ذہن میں لاؤ۔ ’’کسی نظم کو سمجھنا اسے پڑھنے کے لیے تیار کرنا نہیں ہے بلکہ اسے سمجھ لینا ہی دراصل نظم ہے۔‘‘ 

    “Understanding it is not a preparation for reading the poem. It is itself the poem.”

    اس کا مطلب یہ ہے کہ نظم کے باہر کوئی معنی نہیں ہوتے۔ لیکن یہ وہ بات نہیں ہے جو دریدا نے کہی ہے کہ ’’متن کے باہر کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ کہ دریدا بین المتونیت کے تصور کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس اصول کو منطقی انتہا تک لے جایا جائے تو پھر کوئی بھی متن، تمام متن سب کے سب کو ایک آفاقی اور تقریباً الوہی مرتبہ حاصل ہے۔ وہ فلسفی ہمیں سکھاتا ہے کہ کائنات آفاقی شعور (Cosmic Consciousness) میں شامل ہے۔ دریدا کا تصور بین المتونیت مجھے کچھ اسی طرح کی چیز معلوم ہوتا ہے اور اس معنی میں یہ مابعد الطبیعات ہے اور وہ بھی ایسے شخص کی زبان سے مابعد الطبیعات کا منکر ہے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا قاری کے بارے میں میرا یہ خیال نہیں ہے کہ وہ کسی سیاح یا ماہر آثار قدیمہ کی طرح اپنے وجود سے باہر جاکر اشیا کو تلاش اور حاصل کرتا ہے۔ یعنی ایسی اشیا کو جن کا وجود خود سیاح یا ماہر آثار قدیمہ کے وجود کا محتاج نہیں۔ اس کے برخلاف میرا خیال ہے کہ قاری اپنے شعور، اپنے علم، اپنے تہذیبی اور ذاتی مفروضات کو متن پر جاری کرتا ہے۔ لہٰذا یہ قاری ہے جو متن کو روشن کرتا ہے۔ اور یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بعض متن ایسے ہوتے ہیں، جن میں روشنی کی صلاحیت اور امکانات بعض اور علوم سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی فلمی گانے یا ریل گاڑی کے ٹکٹ کے مقابلے میں شیکسپئر کے ڈرامہ ’’ہیملٹ‘‘ معنی کے زیادہ امکانات رکھتا ہے۔ ہم متون کی قدر عام طور پر اس بات سے متعین کرتے ہیں کہ کوئی متن تعداد اور قسم کے اعتبار سے کتنے معنی کا متحمل ثابت کیا جاسکتا ہے۔ 

    سوال: تو کیا آپ کے خیال میں محکم اور پختہ تنقیدی شعور کو استعمال میں لایا جائے تو کسی متن کے بنیادی معنی تک پہنچنا ممکن ہے؟ 

    جواب: میرا خیال ہے کہ زیادہ تر بلکہ تقریباً سب کے سب متن ایسے ہیں جن میں معنی کی ایک اقل مقدار ہوتی ہے جسے وہ سب لوگ حاصل کرسکتے ہیں جنہیں اس متن کے تعلق سے ضروری کہانی اور ادبی صلاحیت حاصل ہو، لیکن کوئی ضروری نہیں کہ وہ معنی اس متن زیر بحث کی بنیادی یا اصلی معنی ہوں۔ عام طور پر معنی یابی میں یعنی اقل معنی کو حاصل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوجاتے ہیں کہ کسی متن یا قول میں جو الفاظ یا دال Signifier معنی کو قائم کرتے ہیں، ان کے بارے میں اس متن کی زبان کے تمام بولنے والوں کا اتفاق رائے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ کہوں کہ ’’بلی چٹائی پر ہے‘‘ تو ہوسکتا ہے کہ بلی اور چٹائی کے مابعد الطبیعاتی معنی کے بارے میں کچھ جھگڑا اٹھ سکے۔ لیکن اس بات پر کوئی جھگڑا نہ ہوگا کہ لفظ ’’بلی‘‘ کے معنی ’’کتا‘‘ نہیں ہیں اور لفظ ’’چٹائی‘‘ کے معنی ’’آسماں‘‘ نہیں۔ لفظ ’’پر‘‘ کے معنی کے بارے میں کچھ جھگڑا ہوسکتا ہے لیکن وہ جھگڑا بھی معنویت کے ایک مقررہ مربعہ یا منطقہ کے اندر ہی رہے گا۔ اسی وجہ سے رچرڈز نے کہا تھا کہ اس جملے میں ’’پر‘‘ یعنی ON کا مطلب پوری طرح یہ ہے کہ بلی CAT لکھ کر اس کے نیچے چٹائی (MAT) لکھ دیا جائے۔ اس طرح Cat/Mat کیونکہ بقول رچرڈز ایسا کرنے پر ہی لفظ ’’پر‘‘ کو ایہام سے دور رکھا جاسکتا ہے۔ حالانکہ آپ مجھ سے پوچھیں تو کہوں گا کہ یہ طریقہ بھی بالکل تیر بہ ہدف ثابت نہ ہوگا۔ 

    اس مثال پر غور کریں جو چامکسی (Chomski) نے وضع کی تھی: Fruit flies like bananas

    ظاہر ہے کہ ہم سب جملے کے معنی برآمد کرنے میں اس لیے کا میاب ہوجاتے ہیں کہ ہمیں یہ خوب معلوم ہے کہ پھل پھلاری کچھ بھی کریں لیکن وہ اڑ نہیں سکتے۔ لیکن استعاراتی یا ٹاڈاروف (Tadarof) کی اصطلاح میں علامتی زبان میں معنی ہوتے ہیں جن کو پوری طرح بیان کرنا یا جنہیں پوری طرح بیان کے احاطے میں لے آنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ بات سب سے پہلے شیخ عبدالقاہر جرجانی نے کہی تھی۔ 

    سوال: ایسا کیوں ہے کہ آپ نے فیض حاصل کرنے کی غرض سے میر اور دوسرے کلاسیکی اساتذہ کی طرف دیکھا ہے؟ 

    جواب: میرا خیال ہے کہ جو چیز میں حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں اس کو بیان کرنے کے لیے لفظ فیض صحیح ترین لفظ نہ ہو۔ دیکھو بات یہ ہے کہ ہمارا اور ہماری طرح ان تمام تہذیبوں کا جو نو آبادیاتی سامراج کی آمد کے پہلے بھی تہذیبی طور پر ترقی یافتہ تھیں اور جن کی ادبی تہذیب پہلے ہی سے موجود اور متحرک تھی ان سب کا ایک مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ انقطاع کا ہے۔ نوآبادیاتی سامراج کی مداخلت کے باعث ہمارے حال اور ماضی کے درمیان انقطاع پیدا ہوگیا ہے۔ ہم اپنی روایت کے ساتھ خلاقانہ اور بصیرت انگیز طریقے سے رشتہ نہیں قائم کرسکتے۔ ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اپنے ادبی ماضی کو (اور صرف ادبی کیوں، سیاسی ماضی کو بھی) مغرب کی آنکھوں سے دیکھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بہت سی چیزیں تو ہم دیکھ ہی نہیں پاتے اور بہت سی چیزیں جو ہم دیکھتے بھی ہیں تو ایسے آئینے میں منعکس دیکھتے ہیں جس میں شکل تھوڑی یا زیادہ بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب میں اپنے کلاسیکی مصنفوں کی طرف لوٹتا ہوں تو اس مقصد سے کہ میں انہیں اس طرح کچھ سمجھ لو ں کہ ہمارا تہذیبی انقطاع ختم ہوکر تسلسل میں بدل سکے۔ ایسا کیے بغیر ہم جدید شاعروں مثلاً راشد، میراجی، اخترالایمان وغیرہ کے کارنامے کو بھی پوری طرح نہ پہچان سکیں گے۔ 

    سوال: کیا آپ کا خیال ہے کہ کلاسیکی اساتذہ آج کے زمانے میں مثال اور نمونے کا کام دے سکتے ہیں۔ اور اگر ہاں تو کس معنی میں؟ 

    جواب: دیکھو، معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ماضی سے مثال اور نمونے ڈھونڈ کر لائیں۔ ویسے وہ معاملہ بھی ہے بہت اہم۔ الیٹ نے ہی تو کہا تھا کہ وہی جدید شاعر اپنے زمانے کے سب سے زیادہ انفرادی اور مہلک شاعر بن سکتے ہیں جو کلاسیکی اساتذہ کاشعور رکھتے ہوں اور انہیں تخلیقی طور پر اپنے کام میں لاسکیں۔ لیکن ہمارا اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ ہم زمانہ حال میں بھی اپنے راستے کا مکمل نقشہ نہیں بناسکتے جب تک کہ ہم ماضی کے جغرافیے سے پوری طرح مانوس اور باخبر نہ ہوں۔ اہل جدید کے ایک سربرآوردہ شاعر اور نقاد نے ایک بار بھرے مجمع میں کہا ’’میں ا ردو کی زیادہ تر کلاسیکی شاعری اور خاص کردرجہ دوم کے شعرا کی شاعری کے ساتھ کوئی رشتہ قائم نہیں کرسکا اگرچہ میں نے انہیں پڑھا ضرور ہے۔‘‘ پھر میں نے جواب میں کہا کہ ’’چونکہ درجہ دوم کے شعرا کی تعداد درجہ اول کے شعرا کے مقابلے میں بہت کثیر ہے اس لیے کیا یہ افسوس اور رنج کی بات نہیں کہ ان کے جیسے پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی ہمارے کلاسیکی ورثے کا کم و بیش نوے فی صدی حصہ ضائع ہوگیا ہے؟ 

    اس طرح اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ معاملہ صرف کلاسیکی اساتذہ کو مثال یا نمونے کے طور پر استعمال کرنے کا نہیں بلکہ تاریخ ادب اور تہذیب اور فہرست استناد کا بھی ہے۔ 

    سوال: کچھ ایسا لگتا ہے کہ آج کلاسیکی طرز و محاورہ معاصر زبان پر حاوی ہے، لہٰذا کلاسیکی جڑوں کی طرف واپسی کو آخر تجزیے میں کلاسیکیت کی جیت کہا جاسکتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ صورت حال ادب کی ترقی یا ترقی کے رک جانے کا حکم رکھتی ہے؟ 

    جواب: میرا خیال یہ ہے کہ ادب میں ترقی یا نشوونما یا بازگردانی (Repression) کے تصورات غلط ہیں۔ ادب کی تاریخ خط مستقیم میں نہیں سفر کرتی جب فلسفے یا موسیقی کی تاریخ خط مستقیم میں سفر نہیں کرتی تو تاریخ ادب کا معاملہ مختلف کیوں سمجھا جائے؟ کسی مقررہ دوران یا مدت میں ترقی یا بازگردانی کا تصور عہد وکٹوریہ کی یادگار ہے۔ اس زمانے کے انگریز لوگ خود کو تمدن کے گل و ثمر سمجھتے تھے۔ اور اپنے بارے میں خیال کرتے تھے کہ ہم تبدیلی، نشوونما اور ارتقا کے ایک طویل قاعدہ عمل کی انتہائی صورت ہیں۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ تاریخ نے انہیں غلط ثابت کردیا ہے۔ 

    جہاں تک معاملہ تمہارے سوال کا ہے تو میرے خیال میں یہ ممکن نہیں کہ کلاسیکیت کی جیت اس طرح واقع ہوجائے کہ معاصر ادبی محاورہ منسوخ ہوکر کلاسیکی محاورہ جاری ہوجائے۔ بہت سے بہت یہ ہوسکتا ہے کہ کلاسیکی لفظیات جدید محاورے کو سہارا دے اور اس میں اضافہ کرے۔ کلاسیکی نمونوں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ پہلے کیا ہوچکا ہے اور وہ کس طرح ہوا۔ ان سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ کون سی چیزیں کامیاب ہوئیں اور کون سی ناکام ٹھہریں۔ ممکن ہے ہمیں اس سے یہ بھی معلوم ہوسکے کہ چیزیں جیسی کہ تھیں تو کیوں تھیں۔ ماضی سے خوفزدہ ہونا غیرصحت مند ادبی رویہ ہے۔ لیکن ماضی کو حقیر سمجھنا جیسا کہ ہم میں سے بعض لوگ آج کر رہے ہیں، اس سے بھی بدتر ہے۔ 

    سوال: ڈاکٹر جانسن کا قول ہے کہ کلاسیکی اقتباس تمام دنیا کے ادبی لوگوں کا مستعمل روزمرہ معلوم ہوتا ہے یہ بات آپ پر بطور خاص صادق آتی ہے کیا آپ ڈاکٹر جانسن سے اتفاق کرتے ہیں؟ 

    جواب: میرا خیال ہے کہ میں جانسن سے پوری طرح متفق نہیں ہوں اور شاید ٹھیک سے سمجھا بھی نہیں کہ وہ کہہ کیا رہا ہے، بہرحال جانسن کا یہ قول ہماری صورت حال کے لیے درست نہیں ہوسکتا کیونکہ جانسن کے لیے تو یورپ کی کلاسیکی روایت کم و بیش مسلسل اور غیر منقطع تھی۔ جانسن کو تو چھوڑیے۔ ٹی ایس الیٹ بھی تمام یورپ کی شاعری کو ایک وجود واحد اور ایک روایت قرار دے کر اس کے بارے میں بات کرسکتا تھا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ کلاسیکی روایت کے بارے میں ہمارا احساس اور کلاسیکی روایت کے تعلق سے ہماری فہم ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح ہے۔ ہمارے یہاں ایسے ایسے انقطاع ہیں جن کا ڈاکٹر جانسن کو کبھی مقابلہ نہ کرنا پڑا تھا۔ ہمیں اپنے کلاسیکی ورثے کو دوبارہ جمع کرنا اور تعمیر کرنا ہے اور کلام کے کھوئے ہوئے ضوابط اور گم شدہ بصیرتوں کو دوبارہ دریافت کرنا ہے، تبھی ہم فیصلہ کرسکیں گے کہ ہماری کلاسیکی روایت ہمارے ساتھ بہت زیادہ ہے یا بہت کم۔ 

    سوال: اچھا اب جدیدیت کی موت پر بات کرتے ہیں۔ کیا اردو شاعری سے جدیدیت غائب ہوتی جارہی ہے؟ اگر مجھے غلط یاد نہیں تو آپ کا خیال یہ ہے کہ مابعد جدیدیت تو دور رہی اردو کی جدید شاعری پوری طرح دید ہی نہیں ہے۔ 

    جواب: میرا خیال یہ ہے کہ ادبی تہذیب میں ایک رہنما اصول کی طرح جدیدیت نہ صرف ہمارے یہاں اردو میں بلکہ جدید دنیا کے بڑے حصے میں قائم اور مستحکم ہوچکی ہے۔ جدیدیت کے جتنے بنیادی اصول تھے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے آج دنیا میں کہیں بھی صفحۂ ادب سے محو کردیا گیا ہو۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ معاصر اردو ادیب اپنے اس دعوے کے باوجود کہ وہ جدیدیت سے منحرف ہوگئے ہیں دراصل اپنے انحراف کا کوئی ثبوت نہیں فراہم کرپائے۔ تو میرا مطلب بس اتنا ہوتا ہے کہ معاصر اردو ادب آج بھی جدیدیت کی راہ پر گامزن ہے۔ 

    مابعد جدیدیت ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو لازمی طور پر جدیدیت کے بعد آئے اور نہ ایسی کوئی چیز ہے جسے جدیدیت کی ترقی یافتہ شکل یاجدیدیت کا اگلا قدم کہیں۔ دراصل مابعد جدیدیت تو ذہن اور احساس کی ایک صورت حال ہے۔ اہاب حسن جس نے مغربی تنقید میں مابعد جدیدیت کی اصطلاح پر سب سے پہلے بحث کی، وہ کہتا ہے کہ مابعد جدید رجحانات ۱۹۲۰ کی دہائی میں ہی دکھائی دینے لگے جب یورپی جدیدیت کا دھارا اپنی پوری قوت سے بہہ رہا تھا۔ اہاب حسن نے واضح کیا ہے کہ جدیدیت کبھی کبھی مابعد جدیدیت کے بعد بھی ظاہر ہوتی نظر آتی ہے۔ 

    سوال: اگر اردو میں مابعد جدیدیت کا میدان تنگ ہے تو پھر معاصر جدید شاعری کے لیے ممکن راستہ کیا ہوگا؟ 

    جواب: مابعد جدیدیت کے پاس کوئی لائحہ عمل، ایجنڈا نہیں اور نہ کوئی ادبی یا فلسفیانہ پروگرام ہے۔ محض ایک انکار ہے اور مایوسی کی پکار ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کوئی ادبی نظریاتی پوزیشن نہیں ہے یہ ایک عمومی فلسفیانہ پوزیشن ہے اور جیسا کہ تم جانتے ہو، کسی فلسفیانہ پوزیشن کے ساتھ پرجوش یا باعمل وا بستگی کے بغیر بھی انسان بہت عمدہ ادب تخلیق کرسکتا ہے۔ 

    سوال: کیا آپ اب بھی اس خیال کے ہیں کہ نثری نظم میں باقاعدہ صنف بن جانے کی قوت نہیں ہے؟ آج کی نثری نظم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ 

    جواب: آج ہندوستان میں اعلیٰ درجے کی نثری نظم بہت کم لکھی جارہی ہے۔ اس کا رواج اب کچھ گھٹ سا گیا ہے اور اس کے رواج میں یہ تخفیف میری بات کو ثابت کرتی ہے کہ نثری نظم کوئی ایسی صنف نہیں ہے جس کے لیے اردو میں ضرورت محسوس کی جارہی ہو۔ 

    جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، کراچی اور اسلام آباد میں نثری نظم کا چلن بہت ہے اور وہاں کچھ بہت عمدہ نثری نظمیں لکھی بھی جارہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے آصف فرخی کو لکھا تھا، اردو کی نثری نظم کاوہی حال ہوتا نظر آتا ہے جو ہندی میں ہوچکا ہے۔ آج پاکستان میں لکھے جانے والی نثری نظموں کے آہنگ میں ایک بہت واضح مشابہت جو ایک خاندان کے لوگوں کی ایسی مماثلت سے زیادہ ہے۔ یعنی ان تمام نظموں کے آہنگ اور موسیقیاتی تاثراتی ڈھانچا بالکل ایک لگتا ہے۔ اگر بہت سی ایسی نظمیں اکٹھا پڑھی جائیں تو کارخانے میں سے ڈھلی ڈھلائی نکل کر آنے والی چیزوں کا احساس ہوتا ہے۔ شاید تمہیں ہندی کی صورت حال کا علم ہو۔ وہاں اب ایک پرزور اور پرجوش تقاضا بحر کی طرف واپسی کا ہے۔ ہندی والے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ وزن اوربحر کے ذریعے وضع اور آہنگ کے تنوع اور شاعر کی مختلف مہارتوں کے استعمال کا موقع زیادہ ملتا ہے۔ 

    سوال: شروع شروع میں آپ پر یہ الزام لگایا گیا کہ آپ اردو ادب خاص کر اردو شاعری کو مغربی اصول نقد کی روشنی میں پرکھتے ہیں، اور آج کل آپ مکمل زور اس چیز پر دے رہے ہیں جسے آپ مشرقی شعریات یا ہندوستانی شعریات کہتے ہیں۔ کیا یہ داخلی تضاد نہیں؟ 

    جواب: یقیناً میں نے اپنی زندگی کی کسی بھی منزل پر مغربی تصورات اور معیارات کو اپنے ادب پر اندھے استخراجی طور پر جاری کرنے کی کوشش کی ہوتی تو یہ آج کی صورت حال کی روشنی میں بہت بڑا تضاد ہوتا۔ لیکن میں نے مغربی تصورات و معیارات کو اردو پر منطبق کرنے کی کوشش کبھی کی ہی نہیں۔ 

    یہ صحیح ہے کہ میں نے ادبی نظریات اور طریق عمل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ فکر کے بعض منطقے مغرب والوں کے یہاں ایسے ہیں جہاں ہمارے نظریہ سازوں نے زیادہ کام نہیں کیا تھا۔ وہ سب چیزیں میں نے مغرب سے طالب العلمانہ طور پر حاصل کیں۔ لیکن میں نے مغربی تصورات کو تنقید اور انتخاب کی نظر سے گزار کر اردو ادب پر استعمال کیا۔ اور مغرب مرکزیت کی غلطی کبھی میں نے نہیں کی۔ جن بنیادی مغربی تصورات کو میں نے قبول نہ کیا یا رد کیا ان میں افلاطون کا پورا نظریۂ شعر اور نمائندگی محاکات کی نام نہاد حرکیات شامل ہیں۔ ان چیزوں کے خلاف میں نے اس وقت لکھا جب ان کے بارے میں اردو میں کچھ سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ میں نے اپنے سنہ ۱۹۷۰ کی دہائی کے مضامین میں بہت سارے رومانی اور نورومانی نظریات کو نامنظور کیا۔ اردو میں غالباً میں پہلا شخص ہوں جس نے کانٹ کی جمالیات پر سوالیہ نشان لگایا۔ اور مارکسی افکار ادب پر میری تنقیدیں تو بہرحال مشہور و معروف ہیں۔ اگر اس کے باوجود لوگ خود کو یہ فریب دیں کہ میں نے مغربی خیالات کی اندھادھن درآمد کی ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ 

    یہ صحیح ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں میری توجہ کا زیادہ حصہ ہمارے اپنے نظریاتی ورثے یعنی سنسکرت عربی، فارسی، اور اردو پر صرف ہوا ہے لیکن اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آج کل میں اپنے کلاسیکی ادب کے بارے میں زیادہ لکھ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ وہ آج سارے کا سارا پس نوآبادیاتی کلام پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کی تعین قدر از سرنو کرنی چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ہماری اپنے نظریاتی تنقید کی روشنی میں ممکن ہے نہ کہ مغربی اقوال و مقدمات کی روشنی میں۔ ہچکچاہٹ کے ساتھ اور آہستہ آہستہ سہی لیکن دنیا اب کثیر پسندی Pluralism کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مغربی کلام کے ماڈل کو مسلم الثبوت قرار دینے کے زمانے اب چلے گئے۔ 

    سوال: آپ فراق کو بار بار اپنی تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اب فراق پر آپ کی تنقیدوں کا طرز تشویشناک ہوگیا ہے، کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ آپ کے مزاج میں فراق کے خلاف کوئی تعصب ہے جس کی وجہ سے آپ ان کے شاعرانہ مرتبے سے انکار کرتے ہیں۔ بعض دوسروں کا خیال ہے کہ آپ کی نظر میں ایسی رائے بالکل بیکار ہے جس میں جانب داری کا شائبہ ہو۔ یعنی تنقید غیرجانبدار ہو ہی نہیں سکتی۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گے؟ 

    جواب: فراق صاحب مجھ سے اس قدر زیادہ سینئر اور میرے اتنے بڑے بزرگ تھے کہ میں اس جگہ پر بیٹھنا شروع بھی نہیں کرسکتا جس جگہ وہ متمکن تھے جب میں پیدا ہوا۔ میں نے فراق صاحب کے مقابل خود کو کبھی پیش نہیں کیا اور اگر کوشش کرتا تو بھی ایسا نہ کرسکتا تھا۔ میرے ان کے ذاتی تعلقات خوشگوار تھے سوائے اس کے کہ انہوں نے میری بعض تنقیدوں کو پسند نہ کیا جو ان کی شاعری کے بارے میں تھیں اور جو میں نے ۱۹۷۱ میں لکھیں تھیں تو پھر میری ان سے کسی ذاتی مخاصمت کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان کی تحریروں کے بعد بھی ہمارے تعلقات خوشگوار رہے۔ میں فراق صاحب کے کارناموں اور ان کی شخصیت کا احترام کرتا ہوں لیکن میں تب اس بات پر تیار تھا اور نہ اب تیار ہوں کہ ان کو دیوی دیوتاؤں کی جگہ بٹھادیا جائے۔ 

    میں نہیں سمجھتا کہ فراق صاحب پر میری تنقیدیں تشویشناک صورت اختیار کرگئی ہیں۔ میں نے فراق صاحب پر جتنے اعتراضات کیے ہیں ان سے بہت زیادہ اور مزید شدت کے ساتھ اعتراضات میں نے نظیر اکبرآبادی، کلیم الدین احمد، فیض احمد فیض، اسلوب احمد انصاری، خوشونت سنگھ، سردار جعفری اور بہت سے دوسروں پر کیے ہیں۔ سچ پوچھیے تو محمد حسن عسکری کے بعد اردو میں شاید واحد نقاد میں ہوں جس نے غیر ہر دل عزیز رایوں کا اظہار کرنے میں کوئی جھجک نہیں دکھائی۔ اور ان چیزوں کو بھی ان کی کاغذی قیمت پر قبول نہ کیا جو استناد کا درجہ اختیار کرچکی تھیں۔ اس کی تازہ مثالیں گزشتہ چند برسوں میں حالی پر میری تنقیدیں ہیں۔ اور محمد حسین آزاد کی آب حیات کا بنیادی تبدیلی پسند Radical مطالعہ ہے۔ یہ تحریریں تو انگریزی میں بھی موجود ہیں۔ نہ ہی میں بالکل یہ کہتا کہ جو تنقید غیرجانبدار ہو اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن پھیکی سوکھی غیرتنقیدی طور پر کسی چیز کو قبول کرنے کی ادا بھی کچھ سودمند نہیں۔ سچ پوچھیں تو فراق صاحب کی تحریروں کے طالب العلم کی حیثیت سے میری سوانح حیات وہی ہے جو مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتح پوری کی تحریروں کے طالب العلم کی حیثیت سے ہے۔ یہ تینوں میری نوجوانی کے ہیرو تھے اور میری زندگی میں ان تینوں پر دیوتا جو دیوتا ثابت نہ ہوئے “The gods that failed” کا فقرہ صادق آتا ہے۔ ان تینوں کے تعلق سے میری کہانی فریب شکستگی کی کہانی ہے۔ نوجوانی میں میرا رویہ ان کے بارے میں ہیروپرستی اور دیوتا سازی کا تھا۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ان تینوں کے پاؤں مٹی کے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان کا علم اور ان کی تخلیقی صلاحیت دونوں ہی کچھ بہت اطمینان بخش نہ تھے۔ انجام کار میں نے ان تینوں کے خلاف لکھا اور ان پر نکتہ چینی کی۔ سب سے مشکل معاملہ مجنوں صاحب کا تھا جو میرے والد کے ملاقاتیوں میں تھے۔ ۶۰ کی دہائی کے شروع میں ایک منصوبہ بنایا کہ مغربی ادبی اور فلسفیانہ اصطلاحوں کی ایک فرہنگ اردو میں تیار کی جائے۔ انھوں نے نمونے کے طور پر مجوزہ فرہنگ کی دوتین قسطیں ہماری زبان میں شائع کرائیں۔ مجھے یہ فرہنگ بہت غیراطمینان بخش لگی اور میں نے اس پر ایک طویل اگرچہ مودبانہ مراسلہ لکھا جس میں اس فرہنگ کے نقائص کی نشاندہی کی، مجنوں صاحب نے میری تحریر کا برا نہ مانا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کا الہ آباد آنا ہوا تو وہ غریب خانے پر تشریف لائے۔ سرور صاحب ان کے ساتھ تھے۔ مجنوں صاحب نے فرمایا کہ ہر شخص کی طرح مجھے بھی اپنی رائے قائم کرنے کا حق تھا اس کے کئی سال بعد میں نے اپنے طویل مضمون بعنوان ’’کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟ ‘‘ میں مجنوں صاحب کے بعض خیالات پر سخت تنقید کی۔ اس مضمون کا ایک بڑا حصہ انگریزی میں بھی شائع ہوچکاہے۔ 

    نیاز صاحب کی علمیت مجھے خیال انگیز لیکن جزئیات میں کمزور لگیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو شب خون میں میں نے ان پر ایک نوٹ لکھا جس میں ان کا کچھ ذکر تھا اور ’’تفہیم غالب‘‘ میں میں نے نیاز صاحب پر بہت کچھ تیز و تند لکھا ہے۔ 

    چونکہ فراق صاحب شاعری اور تنقید دونوں میں سربرآوردہ حیثیت کے مالک ہیں اس لیے ان سے میری مایوسی بھی، اسی نسبت سے زیادہ ہوئی۔ فراق صاحب پر میری تنقید اور میرا ان سے عدم اطمینان ایک پورے سلسلے کا حصہ ہے اور اسے سلسلے سے الگ کرکے نہ دیکھنا چاہیے۔ اصلاً اور اصولاً ان تینوں کے خلاف میری بغاوت ادب کے بارے میں نوآبادیاتی سامراجی نظریات کے خلاف بغاوت ہے اور اس نوآبادیاتی نظام تعلیم کے خلاف بغاوت ہے جو بعض چیزوں کو بعض چیزوں پر غلط طریقے سے فوقیت دیتا ہے۔ 

    سوال: جب فراق کے بارے میں آپ کے خیالات لوگوں کو بخوبی معلوم ہیں تو انہیں دہرانے کی کیا ضرورت تھی؟ 

    جواب: ایسا تو نہیں ہے کہ میں فراق صاحب کے بارے میں اپنے نظریات اور خیالات کو اضطراری یا مجنونانہ ڈھنگ سے بار بار دہرائے جاتا ہوں۔ خیر، لیکن یہ بات بھی ہے کہ بعض خیالات کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انہیں بار بار پیش کیا جائے، ان کا بار بار محاکمہ کیا جائے، ان کی بار بار چھان بین کی جائے اور ان پر بحث کی جائے۔ یہ ان خیالات کے بارے میں زیادہ صحیح ہے جو نئے اور مروجہ رایوں کے خلاف ہوں۔ کیونکہ ان کی وجہ سے پرانے موضوعات پر ازسرنو غور کرنے کو مہمیز ملتی ہے۔ میں نے فراق صاحب کی شاعری کے بارے میں اسی وقت اظہار خیال کیا جب کوئی موقع تھا۔ لوگوں کو سکتے میں ڈالنے اور پریشان کرنے کے لیے میں کبھی کچھ نہیں لکھتا۔ اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا وہ نقاد نقاد نہیں ہے جو غیر ہردل عزیز رایوں اور فیصلوں کو اختیار کرنے کی جرأت نہ رکھتا ہے۔ 

    آخری بات یہ کہ لوگوں کی نظر میں فراق صاحب بہت بڑے شاعر ہیں اور اگر ایسا ہے تو انہیں میری تنقید سے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا۔ فراق صاحب سے بہت زیادہ تنقید تو غالب پر کی گئی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس تنقید سے غالب کو کوئی نقصان پہنچا ہے۔ 

    سوال: آپ کہتے ہیں کہ فیض کی شاعری بالکل شفاف اور تہ سے عاری ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ شاعری کی Numinous صفت کو نہیں دیکھ پارہے ہیں؟ فیض کی شاعری کے سیاق و سباق ہیں، تعبیرات ہیں۔ اس میں سیاسی لہجہ سطح کے نیچے رواں ہے اور اس کی معاصر معنویت ہے۔ 

    جواب: میں سمجھا نہیں کہ یہاں لفظ Numinous سے کیا مراد ہے۔ اکسفورڈ انگلش ڈکشنری کلاں میں معنی دیے ہوئے ہیں۔ الوہی، روحانی، کسی دیوتا کے وجود کا انکشاف کرتی ہوئی یا اس کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کوئی چیز۔ کوئی چیز جو عقیدت اور رعب کا تاثر پیدا کرے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کوئی بھی بات فیض پر صادق آتی ہے۔ ہاں اس لفظ کو میر یا غالب یا اقبال، شیکسپیئر، رومی، بھرتری ہری، کالی داس اور بودلییر وغیرہ کے لیے یقیناً استعمال کرسکتے ہیں۔ بے شک فیض کی شاعری بڑی شیریں، دل کو خوش کرنے والی اور کیفیت انگیز ہے لیکن اس میں تکرار ہے اور ایسی تکرار جو کمزوری کی پیدا کردہ ہے۔ ان کی شاعری کا غالب رجحان پہلے سے طے کردہ مفرضات اور فارمولوں کی طرف ہے۔ خاص کر اس بات میں کہ ادب اور تہذیب میں شاعر کا مقام کیا ہے۔ 

    جہاں تک سوال فیض کی معاصر معنویت کا ہے اور ان سیاسی مفاہیم کا جو ہم ان کی شاعری سے حاصل کرتے ہیں تو میں ان سے ہرگز انکار نہیں کرتا۔ لیکن سوال دراصل یہ ہے کہ یہ معنویت خود کب تک بامعنی رہے گی۔ اگر وہ مارکسی ریطوریقا نہ رہے تو فیض کی شاعری کے لیے ذہنی اور جذباتی سہارا قائم کرتی ہے تو وہ معنویت کہاں رہے گی؟ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے یہ سب رسمی رسومیاتی آدرش کاری امید اور آرزو کے کسی جملہ پیکر کی اور کسی غیرقطعی مستقبل میں کسی انقلاب کے آنے کا مژدہ جو ایسی کسی سرزمین پر برپا ہوگا جو خود بھی ابھی مستقبل میں ہے۔ یہ سب کچھ مجھے متاثر نہ کرسکا اور پھر یہ سب اشک فشانی جو انسانی ہمدردی اور جذباتی یک آہنگی کے پردے میں صرف رحم کی درخواست ہے۔ (مثلاً ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے، جو راہ ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے۔) یہ چیزیں بہت دور تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فیض کا سیاسی پیغام ان کی شاعری کا جزولاینفک نہیں ہے۔ ہم اسے ان کی شاعری سے برآمد کرتے ہیں۔ خارجی معلومات کے تحت میں نے اس باب میں انگریزی اردو دونوں میں لکھا ہے۔ 

    سوال: کیا آپ اپنے ساتھی نقادوں کی صحبت میں کسی قسم کی الجھن محسوس کرتے ہیں؟ یا آپ کو ہم آہنگی کا احساس ہوتا ہے؟ 

    جواب: میں یقیناً ہم آہنگی محسوس کرتا ہوں اور مجھے اپنے ساتھیوں کے درمیان کوئی الجھن نہیں لگتی۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ میں اکثر اپنے ساتھیوں سے اتفاق نہ کروں اور یہ بھی کہ بہت کم تنقید اردو میں ایسی ہے جسے پڑھ کر علم میں اضافہ ہو۔ لیکن مجھے اپنے معاصر نقادوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی الجھن یا کسی فاصلے کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ ضرور ہے کہ مجھے ایسی تنقیدی تحریریں پسند ہیں جن کی زبان صاف واضح اور جن کے معنی آسانی سے سمجھ میں آنے والے ہوں۔ نام نہاد شاعرانہ یا انشاپردازانہ تنقید مجھے بے حد ناپسند ہے۔ 

    اور میرے اوپر جو تنقیدیں ہوتی ہیں مجھے ان پر بھی کوئی پریشانی یا شکایت نہیں ہوتی، ہاں یہ ضرور ہے کہ غیرمنطقی اور تعصب آمیز اور اضطراری ردعمل مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔ (مثلاً مجھے یقین ہے کہ میری بہت سی باتوں کی مخالفت صرف اس لیے ہوئی ہے کہ وہ میں نے کہی ہیں۔ وہی بات کوئی اور کہے تو شاید فوراً قبول کرلی جائے۔)

    سوال: غزل کا ترجمہ ممکن کیوں نہیں؟ 

    جواب: بنیادی طور پر سب متن ناقابل ترجمہ ہوتے ہیں۔ کچھ زیادہ کچھ کم اور شاعری غالباً سب سے زیادہ ترجمہ ناپذیر شے ہے۔ پھر غزل میں ایک مخصوص ادبی تہذیب رچی بسی ہے اور اصلاً یہ ایسی شاعری ہے جو رسومیات اور ضوابط و قواعد کے ذریعہ بامعنی بنتی ہے۔ لہٰذا یہ ان لوگوں کے لیے تقریباً ناقابل فہم ہے جنہیں اس تہذیب اور اس رسومیات سے واقفیت نہیں اور ظاہر ہے کہ جو شخص غزل کو ترجمے میں پڑھتا ہے وہ اصلاً ایسا ہی شخص ہوگا جو غزل کے رسومیات اور ضوابط سے نابلد ہے۔ 

    دوسرا معاملہ یہ ہے کہ غزل کے کلام میں معنی کا وفور، وہ بعض غزل کے شعر کے ایک معنی دوسرے معنی کو منسوخ کرتے نظر آتے ہیں اور آخری بات یہ کہ صدیوں کے طریق عمل اور سامع قاری کے استعجاب کی بنا پر غزل کی لفظیات نے اشاراتی زبان Code کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اور بعض اوقات تو یہ لفظیات سامع/قاری کو فریب دینے کا بھی کام کرتی ہے اور سامع/قاری اسے پسند کرتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ہم کسی Code کو Decode کرسکتے ہیں یعنی اشاراتی زبان کے اشاروں کو حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کا ترجمہ نہیں کرسکتے۔ لیکن پھر بھی غزل کا ترجمہ باصلاحیت مترجم کی دسترس سے بالکل باہر نہیں ہے۔ غزل کا ترجمہ کرنے والا تنگ آکر اپنا سرپیٹ لیتا ہے لیکن ترجمہ اگر ٹھیک ہوجائے تو بڑے کام کی چیزبنتی ہے۔ 

    سوال: عام طور پر خیال ہے کہ اردو کے نقاد ادبی نظریات کو مغرب سے درآمد کرتے ہیں لیکن اسی وقت جب وہ اپنے اصل دیس میں پرانے ہوچکے ہوتے ہیں یا معنویت کھوچکے ہوتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ 

    جواب: میرا خیال ہے کہ یہ بات کم و بیش صحیح ہے۔ 

    سوال: میر اور غالب کی تعبیروں میں آپ نے معنی بیان کرنے کی مہم میں بعض اوقات اشعار پر اپنے ہی معنی جاری کر رہے ہیں، تو کیا یہ معنی کا قبضۂ غاصبانہ نہ کہلائے گا؟ 

    جواب: متن کی تعبیر کے میدان میں معنی کا قبضۂ غاصبانہ کوئی وجود نہیں رکھتا۔ ہر دومعنی جو متن سے برآمد ہوسکتے ہیں، صحیح اور معتبر ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ معنی متن سے برآمد ہوں۔ اس معاملے میں میں Stanley fish کے ابتدائی دور والی حد تک تو نہیں جاتا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ بنیادی طور پر یہ قاری ہی ہے جو کسی متن میں معنی بناتا ہے۔ جیسا کہ ہرش Hirsch نے کہا ہے۔ ’’متن کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ تعبیر کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ 

    شیخ جرجانی نے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر کسی متن میں دو یا دو سے زیادہ معنی ہیں تو کیا ہمیں یہ نہ کہنا چاہیے کہ دراصل دو یا دو سے زیادہ متن ہیں جو ایک ہی میں لپیٹ دیے گئے ہیں؟ شیخ جرجانی کی رائے میں منطقی اعتبار سے ایک متن میں ایک ہی معنی ہوتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے یہ نہ پوچھا کہ وہ معنی کس کے ہوتے ہیں؟ لیکن اپنے اصل سوال کا جواب انہوں نے یہ کہہ کر دیا کہ ’’معنی سے ایسی صورتوں میں ہم مراد لیتے ہیں، متکلم کا اپنے کلام سے حتمی اور انتہائی مقصود کیا ہے، یعنی وہ مقصود یا شے کیا ہے جسے وہ بالآخر قائم یا رد کرنا چاہتا ہے۔‘‘ 

    لہٰذا جرجانی کے خیال میں یہ ضروری نہیں کہ کسی قول کے اصل معنی اور اس کے ابتدائی دونوں ایک ہی ہوں۔ بھرتری ہری نے لکھا ہے کہ اگر ہم کوئی ایسا لفظ استعمال کررہے ہیں جس کے دو یا زیادہ معنی ہیں تو دراصل یہ کئی الفاظ ہیں جنہیں ہم ایک وقت میں اور ایک ہی جگہ برت رہے ہیں۔ 

    سوال: آپ کے تنقیدی مزاج میں کچھ رعونت اور خودپسندی اور کچھ تلاطم آمیزی معلوم ہوتی ہے۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہنا پسند کریں گے؟ 

    جواب: جس چیز کو تم رعونت یا خودپسندی کہتے ہو، اسے یوں بیان کیا جائے تو بہتر ہوگا کہ میں اپنے خیالات کو بے کم و کاست بیان کرنے کی جرأت رکھتا ہوں اور جس چیز کو میں صحیح سمجھتا ہوں اسے صحیح کہنے سے جھنجھلاتا نہیں اور میرا خیال یہ ہے کہ اختیار دارانہ آواز اور فیصلہ کن انداز میں کلام کرنا نقاد کے لیے اہم ہے، خاص کر جب وہ رائج تعصبات تاثرات، افسانوں اور مسلم الثبوت اشیا کو رد کرنے کی یا کم سے کم معرض سوال میں لانے کی کوشش کر رہا ہو۔ رچرڈز نے نقاد کی تشبیہ ڈاکٹر سے دی تھی، اس نے لکھا کہ نقاد کو ذہن کی صحت سے اتنا ہی سروکار ہوتا ہے جتنا ڈاکٹر کو جسم کی صحت سے۔ تنقید کا کاروبار قائم کرنے کے معنی ہیں اقدار کے نقاد اور منصف کی حیثیت سے خود کو قائم کرنا تو اب ظاہر ہے کوئی یہ تو نہ چاہے گا کہ اس کا ڈاکٹر تذبذب میں گرفتار اور تشخیص و تجویز کے بارے میں گومگو میں مبتلا ہو۔ یقیناً کوئی یہ چاہے گا کہ نقاد ہٹ دھرم اور ادعائیت پرست ہو۔ لیکن یہ بھی کون پسند کرے گا کہ وہ یوں بھی ہے اور ووں بھی ہے کی بیماری میں مبتلا ہو۔ 

    اب جہاں تک سوال تلاطم آمیزی (Agitation) تلاطم انگیزی کا ہے تو بھائی، میں سمجھا نہیں کہ ادب کے سیاق و سباق میں تم اس لفظ سے کیا مراد لیتے ہو؟ آڈن Auden نے کہا تھا کہ کوئی نسل اس وقت جدید نہیں کہلاسکتی جب تک وہ اپنی فوری پیش رو نسل کو مسترد نہ کرے۔ میں نے نئی اردو تحریر کی موافقت میں یونین بازوں کے انداز میں کوئی تحریک تو چلائی نہیں لیکن میں نے اس کی پرزور موافقت ضرور کی اور میرا خیال ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ 

    سوال: شیلی نے یہ کس بناپر کہا کہ شاعری اخلاقیات اور سیاسیات سے بہت کم تر درجے کی چیز ہے، اس خیال کا معاصر ہندوستانی منظرنامے سے آپ کیا رشتہ یا تعلق دیکھتے ہیں؟ 

    جواب: شیلی جو کئی معنوں میں خود نوافلاطونی تھا خود کو افلاطونی بندھنوں سے آزاد کرنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ افلاطون کی تعلیم تھی کہ شاعری کو آئینی ریاست میں کارآمد عمل قرار دیا جانا اسی وقت ممکن ہے جب شاعری لوگوں کے اخلاقی اور ذہنی صفات کو بہتر بنائے اور لوگوں کو کچھ اس طرح کا بنادے جسے آج کی اصطلاح میں سیاسی طور پر درست (Politically) کہا جاتا ہے۔ اپنی عینیت کے اعتبار سے توشیلی افلاطون کا پیرو ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ وہ فکریاتی پابندیاں بھی قبول نہیں کرنا چاہتا۔ لہٰذا ادھر ادھر کی ہانکتا ہے اور ایسی باتیں کہنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے خیال میں افلاطون کو قبول ہوتیں لیکن جن سے رومانی شاعر کی آزادی کا استحکام بھی ہوتا۔ مثال کے طور پر تمہیں شیلی کے مشہور مضمون A Defence of Poetry کا اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں،

    The whole objection of the immorality of poetry rests upon a misconception of the manner in which poetry acts to produce the moral improvement of man. poetry acts in another and deviner manner. It awakens and inlarges the mind itself by rendering it the recpatacle of a thousand unaprehended combinations of thought. Poetry lifts the veil from the hidden beauty of the world, and makes familiar objects as if they were not familiar the great instrument of maral good is he imagination poetry strengthens the fautty which is the organ of the moral nature of man, in the same manner as exercise strengthens a limb.

    میں چونکہ افلاطون مخالف ہوں اس لیے مجھے شیلی کے محولہ بالا خیالات سے کوئی ہمدری نہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ شاعری کو کسی Defence یعنی وکیل صفائی کی ضرورت ہے۔ شیلی نے قوت متخیلہ کی طاقت کے بارے میں کچھ باتیں ایسی ضرور کہی ہیں جن سے میں خود کو متفق پاتا ہوں۔ لیکن مجموعی طور پر اس مضمون میں اس کا رویہ کچھ زیادہ ہی مدافعانہ ہے۔ 

    سوال: آپ کے بارے میں اکثر یہ کہا گیا ہے کہ آپ کے کچھ محبوب یعنی Favourite ادیب و شاعر ہیں، کیا واقعی؟ 

    جواب: یہ ہر شخص کے ساتھ ہے کہ اسے کچھ چیزیں کچھ اور چیزوں کے مقابلے میں زیادہ اچھی لگتی ہیں اور میں اس کے کلیے سے باہر نہیں ہوں۔ لیکن میں نے کبھی کسی کو چاہے وہ میرا دشمن ہی کیوں نہ ہو، اس کی مناسب جگہ سے گرانے کی یعنی کسی کو منظور نظر بنانے اور کسی کو معتوب رکھنے والا کھیل کبھی نہیں کھیلا۔ نہ میرا کوئی منظور نظر ہے اور نہ میں اصلاً کسی کو ناپسند کرتا ہوں۔ میں نے کسی کی تعریف اس بنا پر کبھی نہیں کی کہ وہ میرا دوست ہے۔ تم خود میرے قدیم ترین اور عزیز ترین دوستوں میں ہو۔ اس لیے تمہیں تو خوب معلوم ہونا چاہیے کہ تمہاری تعریف میں نے دوستی کی بنا پر کبھی نہیں کی۔ 

    سوال: کیا اردو نے تفریحی صنعت و حرفت کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں؟ 

    جواب: نہیں میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ہاں اردو غزل گائیکی کو ایک بزنس کا درجہ ضرور حاصل ہوگیا ہے اور یہ افسوس کی بات ہے۔ کیونکہ غزل گائیگی کی زبردست مقبولیت کو اردو شاعری کی سچی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں تعلیم و تربیت دینے کا ذریعہ بنایا جاسکتا تھا۔ جیسا کہ تم جانتے ہو اردو شاعری کے بارے میں، اردو نہ جاننے والوں یا کم جاننے والوں کی عام رائے یہ ہے کہ یہ شاعری شراب، معشوق اور رقص و تفریح کے بارے میں ہے اور اس کا تعلق سستی روحانی محبت کے عامیانہ جذبات سے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے۔ لیکن جو بات چل جائے اسے رد کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور آج کی غزل گانے والوں کی مقبولیت میں جو طاقت ہے اسے غزل کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ یعنی اگر غزل گانے والوں کو اردو شاعری کی صحیح تحسین کا علم و فن سکھایا گیا تو ان کی جھولی میں اچھی شاعری ہوتی جن میں شاعری کا سچا ذائقہ ہوتا۔ نہ کہ وہ نقلی یا گھٹیا شاعری جسے وہ آج تمام گاتے پھرتے ہیں، دوسری بات یہ کہ انہیں کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی کے بارے میں بھی کچھ زیادہ نہیں معلوم۔ لہٰذا جو چیز وہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ خراب موسیقی ہی ہے اور خراب شاعری بھی۔ یوں تو مشاعرہ بھی ایک طرح کی تفریحی صنعت و حرفت بن گیا ہے لیکن ابھی اسے زیادہ سے زیادہ چھوٹی انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے۔ 

    سوال: آپ کے خیال میں ادیب کو سماج میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے؟ یعنی سماج کے فرد کی حیثیت سے ادیب کے فرض کی ذمہ داری کیا ہے؟ 

    جواب: ادیب کی ذمہ داری اچھا لکھنا ہے۔ جوزف براڈسکی نے کیا پتے کی بات کہی ہے کہ شاعروں کے بغیر سماج کا کام بخوبی چل سکتا ہے اور سماج کے تئیں شاعر کا اور کوئی فرض نہیں بجز اس کے کہ وہ اچھا لکھے۔ 

    سوال: کہا جاتا ہے کہ جب کوئی نابغہ Genious پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے اس طرح پہچان سکتے ہیں کہ سارے احمق اس کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں۔ اپنے تعلق سے آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟ 

    جواب: بھائی مجھے نہیں معلوم نابغہ کیا اور کون شے ہے۔ بہرحال نابغہ کے بارے میں جو تصور میرے ذہن میں ہے۔ میں خود کو اس سے کم تر پاتا ہوں۔ جہاں تک سوال میرے مخالفوں کا ہے، تو میں ان کی صاف بیانی کی وجہ سے ان کی عزت کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں کسی یونیورسٹی کا پروفیسر یا وائس چانسلر ہوتا تو میرے مخالفین کس حدتک صاف گو ہوتے۔ 

    سوال: ادبی شہرتوں میں خوش نصیبی کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟ 

    جواب: بدنصیبی تو یقیناً خاصی نظر آتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اچھے لکھنے والوں کو ہمیشہ کامیابی ملے یا اگر ملتی بھی ہے تو صحیح وقت پر نہیں ملتی۔ اسی طرح کبھی کبھی تقدیر کی یاوری بھی بروئے کار آجاتی ہے۔ ایک بار نیپولین کے سامنے کسی جرنیل کی جنگی فہم و فراست کی تعریف کی گئی تو پھر پوچھا کہ وہ سب ٹھیک ہے لیکن وہ قسمت دار بھی ہے کہ نہیں۔ 

    سوال: آپ نے بڑی مصروف زندگی گزاری ہے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ گزشتہ کئی برس سے آپ بیمار چلے آتے ہیں تو یہ اتنی مصروفیت اور پڑھنے اور لکھنے کا اتنا بوجھ آپ کس طرح سنبھالتے ہیں؟ آپ کی قوت اور فیضان کے سرچشمے کیا ہیں؟ 

    جواب: میرا خیال ہے میں نے کچھ اتنا بہت تو نہیں کیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو کسی ایسے منطقے کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ اپنا کہہ سکے اور وہ اس منطقے کو خلق کرنے یا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جاں تک الہام اور فیضان کے سرچشموں کا معاملہ ہے، میرا سرچشمہ یہ احساس تھا کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ اور آج بھی وہی کیفیت ہے۔ مجھے اپنے اندر اس بات کا اشد تقاضا محسوس ہوتا ہے کہ میں شعر کہوں، ادب کے بارے میں لکھوں، اپنی تہذیب کی شانیں اور عظمتیں دریافت کروں اور انہیں دریافت کرنے میں دوسروں کی مدد بھی کروں۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے کچھ ایسی باتیں کہنا ہے جو اور لوگ نہیں کہہ رہے تھے یا نہیں کہنا چاہتے تھے۔ یہ احساس اب بھی باقی ہے۔ 

    سوال: کسی ادیب کی زندگی میں سب سے زیادہ مطمئن کن لمحہ کون سا ہوسکتا ہے؟ کیا آپ کی زندگی میں وہ لمحہ آچکا ہے؟ 

    جواب: میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ مطمن کن لمحہ وہ ہوگا جب کوئی شخص کاغذ پر پورے غور و فکر اور مکمل طور پر سوچی سمجھی ہوئی کوئی پوزیشن یا بات لکھے اور لکھنے کا انداز منطقی ہی ہو اور شستہ و پاکیزہ ہو اور جو بات کہی گئی ہو اس میں نظریے کی قوت بھی ہو اور وجدان کا حسن بھی۔ میں ایسی چیز لکھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن مجھے پتہ نہیں کہ ایسی کوئی تحریر میں بنا بھی سکا ہوں یا نہیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ میری نظریاتی تحریروں میں سے کچھ ایسی ہیں اور غالب اور میر اور جدید اردو شاعری اور افسانہ کے بارے میں بھی کچھ تحریریں ایسی ہیں، جن میں کئی برس گزرجانے کے باوجود تازگی باقی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا انعام ہے۔ 

    سوال: ساہتیہ اکیڈمی کے لیے آپ نے جو کلیات غالب کا اردو انتخاب کیا ہے۔ آپ کے سامنے اصول انتخاب کیا تھے؟ 

    جواب: میں نے ساہتیہ اکیڈمی کی فرمائش پر اپنے خیال میں غالب کے بہترین کلام کا نمونہ پیش کیا ہے اور اس دیباچے میں میں نے غالب کی بطور جدید شاعر حیثیت اور پہچان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

    سوال: کیا آپ نے کبھی دوسروں کے نام سے لکھا ہے یعنی وہ چیز کی ہے جسے انگریزی Ghost writing کہتے ہیں۔ 

    جواب: نہیں یہ ضرور ہے کہ میں نے خود کئی ناموں سے لکھا ہے مثلاً شہرزاد، جاوید جمیل، اور ایک دو نام 1 اور۔ یہ سب تحریریں ’’شب خون‘‘ میں چھپیں۔ اپنے بہت لڑکپن کے زمانے میں میں نے شمسی رحمانی کے نام سے لکھا۔ اگر مجھے اپنی تحریر کے ذریعہ روٹی کمانی پڑتی اور اس میں مجھے Ghost writing بھی کرنی پڑتی تو میں بخوشی کرتا۔ 

    سوال: نقاد کو بیان کرنا چاہیے، تجویز نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کے بارے میں اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ آپ بیان سے زیادہ تجویز سے کام لیتے ہیں۔ 

    جواب: جتنے بیان ہیں وہ سب کسی نہ کسی سطح پر تجویزی یا فیصلہ جاتی ہوتے ہیں۔ اقداری فیصلے سے کسی کو مفر نہیں۔ یہ باتیں تنقید کی دنیا میں کم سے کم ۱۹۵۰ کی دہائی سے معروف ہیں۔ میں نے ایسی تحریریں بھی لکھی ہیں جن میں بیان زیادہ ہے اور تجویز کم لیکن میں نے تجویز یا فیصلہ کرنے کے عمل کو ادب کے لیے ضرر رساں کبھی نہیں سمجھا۔ جب تک آپ کی تجویز میں ادبی تصورات اور اصول ہیں، آپ بطور نقاد اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے، اگر یہ کہا جائے کے کسی نظم کو کیا ہونا چاہیے۔ چاہے آپ Macleish کی طرح سے یہی کیوں نہ کہیں کہ نظم میں معنی ہونا ضروری نہیں نظم ہونا چاہیے۔ 

    سوال: نقاد کی حیثیت سے آپ شاعروں سے ہر بار معجزے یا کرامت کی توقع رکھتے ہیں؟ 

    جواب: نہیں، لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ شاعر نے جو حاصل کرلیا ہے اسی پر قانع ہوکر بیٹھ رہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لائیں۔ 

    سوال: یہ اکثر دیکھا گیا ہے (خاص کر شب خون میں) کہ آپ ان معاملات میں بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں جنہیں آپ بآسانی نظر انداز کرسکتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ برہمی ہے یا آپ کو واقعی تکلیف پہنچتی ہے، جس وجہ سے آپ جواب دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 

    جواب: سب سے پہلی بات تو یہ کہنے کی ہے کہ بہت سے اخباروں، رسالوں اور سیمیناروں میں مجھ پر مسلسل حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر یہ حملے ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور بدمذاقی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن شب خون کے باہر چھپنے یا کہی جانے والی باتوں کا میں کبھی جواب نہیں دیتا لیکن جب شب خون میں ایسی تحریریں چھپنے کے لیے آتی ہیں (اور اگر ان کا چھاپنا ضروری سمجھا جاتا ہے) تو میں خود کو جواب کے لیے محبور پاتا ہوں۔ اس کی وجہ بالکل سامنے کی بات ہے۔ زیادہ تر ایسی تنقیدیں اور نکتہ چینیاں اسی لیے ہوتی ہیں کہ مجھ سے جواب لکھوا لیا جائے۔ شب خون میں جو بھی تحریر، مضمون یا خط میرے خلاف چھپنے کے لیے آتا ہے، ان کا بڑا حصہ میں چھاپ دیتا ہوں اور جواب میں تقریباً نصف دیتا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ کبھی کبھی مجھے تکلیف بھی پہنچتی ہے۔ خاص کر جب حملے کسی ذاتی مقصد کی بناپر ہوں یا عملی وقار اور دیانت سے عاری ہوں یا ذاتیات پر مبنی ہوں۔ 

    سوال: فاروقی صاحب آپ کے خیال میں شاعری کا تفاعل جدید زمانے میں کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے؟ 

    جواب: ممکن ہے کہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات لگے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کا زمانہ حال وہی تفاعل ہے جو Myth یعنی اسطور کا زمانۂ قدیم میں تھا۔ شاعری ہماری داخلی اور خارجی دونوں دنیاؤں کو بامعنی بنانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ زندگی کو کچھ زیادہ لائق زیست بناتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ فرانسیسی مارکسی ناول نگار Claide simon فرانس پر جرمنی کے قبضے کے زمانے میں جرمنوں کے خلاف خفیہ مقاومت میں سرگرم تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سخت کوشی اور خطرۂ جان کے ان دنوں میں شاعری اس کے لیے قوت کا بہت بڑا سرچشمہ تھی۔ وہ کہتا ہے کہ شاعری پڑھنے سے بھوک تو نہیں مٹتی تھی لیکن اس کے باعث زندگی کسی نہ کسی سطح پر قابل قدر معلوم ہونے لگتی تھی۔ 

    آڈن Auden نے لکھا ہے کہ شاعری عملی دنیا میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دیتی۔ آڈن کا کہنا بالکل صحیح ہے اور اس میں شاعری کی قوت بھی ہے کیونکہ اس نقطہ نظر سے شاعری میں کچھ وہ بات پیدا ہوجاتی ہے جو کانٹ کے نظریے کے مطابق خوبصورتی میں ہے۔ تمہیں خیال ہوگا کہ کانٹ نے خوبصورتی کی تعریف یہ کی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے باعث ہم اس چیز سے بے غرض لطف اندوز ہوتے ہیں جس میں ہو یعنی خوب صورتی پائی جائے۔ تو وہی حال شاعری کا ہے کہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اگرچہ ہمارا پیٹ نہیں بھرتی۔ اور آخر میں ولیم کارلیس ولیمز William Carlos Williams کی چند سطریں تمہاری نذر کرکے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں،

    It is difficult
    to get the News from poems
    yet men die everyday
    for lack
    of what is found there

     

    حاشیہ

    (۱) عمر شیخ مرزا اور بینی مادھو رسوا

    مأخذ:

    شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو (Pg. 203)

      • ناشر: رعنا کتاب گھر، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے