aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک گفتگو

شمس الرحمن فاروقی

شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک گفتگو

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    (یہ انٹرویو ’نیا دور‘ لکھنؤ کے لیے فاروقی صاحب کی قیام گاہ پر دو نشستوں میں کیا گیا تھا۔ یہ گفتگو عارف ہندی اور جاوید انور نے ریکارڈ کی تھی)

    سوال: فاروقی صاحب سے پہلے جدیدیت پر بات کی جائے۔ وہ کون سی وجوہ تھیں کہ آپ نے ترقی پسند نظریات کی پرزورمخالفت کرتے ہوے جدیدیت کی سربراہی کی؟

    جواب: بھائی جدیدیت کی سربراہی کا رتبہ تو میں قبول نہیں کرسکتا۔ میں اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں۔ جدیدیت کی تاریخ میں بہت سے لوگ ہوئے ہیں۔ لیکن میں بہرحال یہ کہہ سکتا ہوں کہ باقاعدہ اور مسلسل طور پر ادبی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی تحریریں شاید پہلے میں نے لکھیں جن میں ترقی پسند نظریات ادب کو ردّ کرنے اور جدیدیت کو قائم کرنے کی کو شش کی گئی تھی، ترقی پسند نظریات میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ نامکمل معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ ان کے یہاں فرد پر کوئی زور نہیں تھا۔ انسان کے اپنے وجود پر، اس کے مسائل پر، اس کے اپنے داخلی باطنی تصورات پر، کوئی زور نہیں تھا۔ انسان صرف سماج کا ایک حصہ تھا اور مفروضہ یہ تھا کہ سماج کے مسائل اگر بیان ہوجائیں تو انسان کے مسائل بیان ہوجائیں گے۔ اس پر طرہ یہ کہ سماج کے مسائل کے بارے میں بتانے والا کون ہے؟ کمیونسٹ پارٹی یا مارکس۔ یعنی سماج کے کوئی ایسے مقائل ہیں جنہیں پارٹی پروگرام یا مارکسی تھیوری میں جگہ حاصل نہیں ہے۔ تو وہ سماج کے مسائل نہیں کہلائیں گے۔ اس طرح دو مشکلیں پیدا ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے وہی مسائل درست اور قابل ذکر مانے جائیں گے جن کا تصور پارٹی کے خیالات میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پسند تحریک کے زمانے میں عورتوں کے مسائل کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔ عورتوں کے صرف ایک طرح کے مسائل یعنی جنسی مسائل کے بارے میں صرف عصمت نے لکھا تو ان کو برا بھلا کہا گیا اور کہا گیا کہ یہ ترقی پسند تصورات کے منافی ہے کہ ہم اس طرح کی چیزیں لکھیں اور ان کو فحش بھی قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ فحش یا غیرفحش کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مسئلہ دراصل پارٹی لائن کا تھا۔ طوائف کے بارے میں سب نے لکھا۔ طوائف ایک فیشن ایبل مسئلہ تھی۔ لہٰذا اس کے بارے میں بیدی نے بھی لکھا منٹو نے بھی لکھا جو اگرچہ ترقی پسندی سے بعد میں ہٹادیے گئے۔ 

    سوال: لیکن شاعری میں تو لکھا گیا۔ جیسے مجاز نے، جوش وغیرہ نے لکھا۔ 

    جواب: جوش، مجاز دونوں ہی ترقی پسند شاعر نہیں ہیں۔ لیکن اگر ان کو ترقی پسند مان بھی لیا جائے تو عورتوں کے مسائل سے مراد یہ نہیں ہے کہ

    ترے ماتھے پہ لہراتا یہ آنچل خوب ہے لیکن تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

    عورتوں کے مسائل سے مطلب ہے کہ عورت بطور طبقے کے، سماج کے ایک حصے کے طور پر، اتنی ہی ناانصافی اور ظلم کا شکار ہے جتنا کہ مثال کے طور پر مزدور۔ لیکن مارکسی تھیوری میں اس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مارکسی تھیوری میں تو یہ ہے کہ دو ہی طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں ایک تو Super Structure ہوگا جو طاقت والے لوگ ہیں اور ایک نچلا طبقہ ہوگا۔ جس میں ہم آپ آتے ہیں۔ اور طبقاتی کشمکش ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہے جو لوگ طاقت ور اور دولت مند ہیں اور جو طاقت ور اور دولت مند نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نقشے میں کہیں سے عورتوں کا کوئی حصہ الگ سے نہیں۔ ہرچند یہاں عورتیں بھی مظلوم ہیں اور انصاف ان کو نہیں مل رہا ہے۔ لیکن ترقی پسندوں کو اس سے غرض نہیں۔ یعنی کلاس یا طبقے کی حیثیت سے عورت کا وجود ترقی پسند ادب میں نہیں ملتا ہے۔ طوائف کا وجود ضرور ملتا ہے۔ وہ سماج کے بے انصاف نظام کا ایک نمونہ ہے۔ طوائف اس وجہ سے مظلوم نہیں کہ وہ عورت ہے، بلکہ تصور یہ تھا کہ وہ طوائف ہے، لہٰذا مظلوم ہے۔ تو مطلب کہنے کا یہ ہے کہ سب سے پہلی بات مجھے یہ نظر آئی کہ خود میرے ایک انسان کی حیثیت سے، کوئی تصورات یا خیالات ہیں، کچھ پریشانیاں ہیں، کچھ ذہنی الجھنیں ہیں، کچھ گہرائیاں ہیں میری، لیکن ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے میں ان کو ظاہر نہیں کرسکتا کہ میرا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ وجود تو سماج کا یا پارٹی کا ہے۔ 

    دوسری بات جو مجھے ناپسند لگی وہ یہ کہ انہوں نے تحریر کی پیچیدگی کو، کثیر المعنویت کو برا سمجھا۔ استعارے کو برا سمجھا۔ اسی تحریر کو جس میں کئی معنی نکل سکتے ہیں، برا سمجھا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ بالکل صاف تحریر ہو۔ جیسے کہ نعرہ یا تقریری بیان ہوتا ہے جس میں کسی کو شک کی گنجائش نہ ہو۔ لوگوں کو ایک خاص طرح سے، خاص لہجے میں زبان استعمال کرتے ہوئے سماجی تبدیلیوں اور انقلاب کی طرف مائل کیا جائے جو کچھ ادب میں نے پڑھا تھا اس میں تو میں نے یہ دیکھا تھا کہ ادب کی خوبی اس میں ہے کہ وہ کتنا معنی خیز ہے، اس میں کتنی باریکیاں ہیں۔ 

    تیسری بات یہ تھی کہ ترقی پسند تحریک میں ادب بطور فن کا ذکر نہیں آتا۔ ایک زمانے میں جب بہت نعرہ بازی تھی اور براہ راست گفتگو کا بڑا زور تھا، ترقی پسند تحریریں بالکل اخبار بیان کی طرح ہو کر رہ گئیں۔ تو ڈاکٹر علیم صاحب نے لکھا ضرور کہ صاحب ادب وہ ہے جو نظریاتی طور پر بھی ٹھوس اور درست ہو اور فنی تقاضوں کو بھی پورا کرسکے۔ لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ فنی تقاصے کون سے ہیں اور کس طرح سے پورے ہوسکتے ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ نظریاتی تبلیغ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہم فنی تقاضوں کو پورا کرسکیں؟ اس کا جواب انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ کیسے پورا کرسکیں گے؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ فنی تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ 

    چوتھی بات یہ کہ میں نے یہ دیکھا کہ ترقی پسند مزاج میں تجربے کی طرف سے بھاگنے کا رجحان ہے۔ یہ لوگ تجربے سے بھاگتے ہیں۔ بہت دن تک تو ان لوگوں نے معرا نظم کو قبول نہیں کیا۔ آزاد نظم کو قبول نہیں کیا۔ بہ مشکل تمام قبول کیا پھر یہ بھی تھا کہ غزل کے بھی منکر تھے وہ۔ میں نے د یکھا کہ نہ ان کے پاؤں روایت میں مضبوط ہیں اور نہ ان کے پاؤں جدید تجربے کی طرف قدم بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ بلکہ وہ ۱۹۲۵ء اور ۱۹۳۰ء کی شاعری جس میں زیادہ تر سادہ اور سیدھی بات کہی جاتی تھی۔ اسی طرح کی شاعری کے دلدادہ نظر آتے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ ادب میں نئے خیالات آئیں۔ نئے تجربات بھی آئیں۔ تجربات چاہے وہ ہیئت کے ہوں، چاہے موضوع، چاہے زبان کے ہوں، ان سب باتوں کے باعث میں نے محسوس کیا کہ ترقی پسند تحریک ختم ہوچکی۔ جو کچھ بھی اس کا کام تھا وہ ہوچکا۔ اچھایا برا۔ اب اس نے جو پابندیاں ادب پر عائد کردی ہیں۔ وہ پابندیاں ادب کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ 

    سوال: جدیدیت کو فروغ دینے میں آپ کے بنیادی خیالات کیا تھے؟

    جواب: اب جو میں نے آپ سے کہا اسی کو دیکھ لیجیے کہ اسی میں میرے خیالات منعکس ہیں۔ جدیدیت نے سب سے پہلے یہ کہا کہ ادب کو کسی فلسفے، کسی نظریے، کسی پابندی کا محکوم نہیں ہونا چاہیے۔ ترقی پسند ادب کہتا تھا کہ ادیب کو ایک خاص نظریے کا محکوم ہونا چاہیے۔ ہم نے کہا کہ ادیب کو حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے نہ لکھے بلکہ وہ اپنے طور پر جو سمجھتا سوچتا ہے وہ بیان کرے۔ 

    دوسری بات یہ کہ زمانے کے نئے تقاضوں نے ادب کے معاملے میں بھی کچھ تبدیلیاں برپا کر دی ہیں۔ مثلاً اب لوگ ادب سے یہ توقع نہیں کرتے کہ اس سے کچھ اصلاح یا فائدہ ہو۔ بلکہ لوگ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ادب سے مجھے اپنے بارے میں، انسان کے وجود کے بارے میں، کیا معلوم ہو سکتا ہے۔ مسائل بدل گئے۔ اب جب ا نسان کی توقعات بہت حد تک ختم ہوچکی ہیں، اصلاح کی اور ترقی کی۔ پہلے جو بہت سی توقعات وابستہ کی تھیں، سائنس سے، فلسفے سے، مذہب سے، بڑی حدتک وہ شکست ہوچکی ہیں۔ اقدار جو پہلے اچھی تھیں اب ان کو برا کہا جارہا ہے۔ نسل کشی کو اب اچھا سمجھا جارہا ہے۔ ہم اپنے یہاں دیکھ رہے ہیں، یورپ میں دیکھ رہے ہیں، ویتنام میں دیکھ رہے ہیں، جگہ جگہ دیکھ رہے ہیں، نئے حالات کو، نئے ذہنی تناظر کو، بیان کرنے کے لیے نئی زبان چاہیے اور وہ نئی زبان اکثر مشکل ہوگی۔ اس لیے میں نے خاص کر، اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ جدید شاعری اگر مشکل ہے، مبہم ہے یا سمجھ میں آسانی سے نہیں آتی ہے تو یہ قصور پڑھنے والوں کا ہے کہ وہ اپنے ذہن کو اس طرح مائل نہیں کر رہے ہیں ورنہ یہ لامحالہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات، بدلے ہوئے مسائل کو بیان کرنے کے لیے بدلی ہوئی زبان کا استعمال کیا جائے۔ 

    سوال: ابتدا میں جدیدیت پر دوالزامات عاید کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ جدیدیت مغرب کی نقالی ہے۔ دوسرے یہ کہ جدیدیت کو اپنے روایتی ادب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جدیدیت نے ان الزامات کی تلافی کہاں تک کی؟ اور کیا یہ الزامات درست تھے؟

    جواب: ظاہر ہے کہ درست نہیں ہیں۔ نہ تھے اور نہ ہیں۔ میں نے لکھا ہے اور کہا بھی ہے میری جو کتاب بہت مرکزی مانی جاتی ہے۔ ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ اس میں اشاریہ اسماء شامل ہے۔ آپ دیکھ لیں، اس میں کتنے نام مغربی ہیں اور کتنے نام مشرقی ہیں؟ اسی سے معلوم ہوجائے گا آپ کو کہ اگر اس کتاب کا لکھنے والا سراسر مغرب سے متاثر ہوکر لکھ رہا ہوتا تو اس میں زیادہ تر ذکر مغربی لوگوں کا ہوتا اور زیادہ تفصیل ان کے بارے میں ہوتی، مگر ایسا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ مغرب سے مستعار لینا یا کہیں سے مستعار لینا، یہ ہماری تاریخی ضرورت تھی۔ جب ہمیں انگریزوں نے شکست دی اور اپنا نظام ہمارے اوپر عائد کیا تو انہوں نے منظم طریقے سے ہماری اپنی روایات کی بیخ کنی شروع کردی جس میں وہ بڑی حدتک بلکہ تقریباً پوری طرح کامیاب ہوئے۔ لہٰذا دنیا کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ہم مغربی تصورات کی طرف رجوع ہوں کہ دیکھیں وہ کیا کررہے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ جب زمانہ ترقی کر گیا۔ اس معنی میں ترقی کر گیا کہ دنیا پہلے بہت لمبی چوڑی تھی، پھر بہت چھوٹی ہوگئی۔ سائنس نے دنیا کے ممالک کو نزدیک کردیا اور بہت سی قومیں مغرب کی محکوم ہوگئیں تو یہ عام ہوگیا کہ مغرب کے خیالات کا احترام ہو۔ 

    اب رہا سوال یہ کہ مغرب کے خیالات کو ہم بالکل مثل نوکر چاکر اور غلام کے برت رہے تھے، تو یہ صحیح نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ صحیح ہے تو ترقی پسندوں کے بارے میں صحیح ہے کیونکہ ترقی پسندوں کا پورا کا پورا فلسفہ مغرب سے لایا گیا ہے۔ آپ مغرب سے مراد یورپ لیں، روس لیں تو، مغرب سے مراد آپ جرمنی لیں، مغربی یورپ لیں تو جس طرح سے آپ دیکھیں پوری پوری مارکسی تھیوری وہیں سے آئی ہوئی ہے۔ ہمارے یہاں پیدا نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا مغرب کی غلامانہ تقلید کا کوئی الزام اگر لگتا ہے تو وہ ترقی پسندوں پر لگتا ہے ہم لوگوں پر نہیں لگتا۔ 

     ویسے ہی یہ کہنا ہے کہ ہم روایت سے منحرف ہیں، روایت سے منحرف ہونے کے معنی اگر یہ نکالے جائیں کہ ہم لوگ نہیں چاہتے کہ ہماری شاعری حالی اور آزاد کی ’’نیچرل شاعری‘‘ کے تقاضوں کو پورا کرے تو یقیناً ہم روایت سے منحرف ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ آپ غالب کے منکر ہیں، میر کے منکر ہیں سودا کے منکر ہیں۔ تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ بلکہ ترقی پسند البتہ ان کے منکر تھے۔ ان لوگوں نے بار بار پرانے لوگوں کا انکار کیا اور کہا کہ یہ شاعری بالکل بے کار ہے، اور ازکار رفتہ ہوچکی ہے۔ غزل کو ان لوگوں نے کہا کہ جاگیردارانہ سماج اور مزاج کی آئینہ دار ہے۔ یہ تو بہت بعد میں سردار جعفری نے میر کی غزل میں انقلابی تصورات کے عنصر ڈھونڈے، ورنہ پہلے یہ سب کہاں تھا؟ غزل لکھتے ہی نہیں تھے یہ لوگ۔ مجروح صاحب نے غزل لکھی بہت مشکل سے۔ پھر ان کی غزل مقبول ہوئی۔ شروع میں مجروح سلطانپوری کے مقبول نہ ہونے کی وجہ ترقی پسندوں کے یہاں ایک یہ بھی تھی کہ وہ غزل لکھتے رہے۔ آخرکار مجبور ہوکر ان کو ایسی غزل لکھنی پڑی۔ 

    آ نکل کے میداں میں دو رخی کے خانے سے کام چل نہیں سکتا اب کسی کے بہانے سے 

    میں نے ایک دفعہ فیض صاحب سے کہا تھا کہ صاحب آپ ترقی پسند ضرور ہیں لیکن آپ کی شاعری کے بارے میں جو بہترین تحریریں ہیں وہ ہم لوگوں نے لکھی ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک مضمون پڑھا، علی گڑھ میں، تو فیض صاحب کی نظم ’’ملاقات‘‘ کا ذکر تھا۔ میں نے اس نظم کی بہت تعریف کی۔ جذبی صاحب جو ظاہر ہے فیض صاحب کے بزرگ دوست بھی ہیں، اور ترقی پسندوں کے بڑے شاعر بھی ہیں۔ مجھ سے انہوں نے کہا، کیا یہ نظم آپ کی سمجھ میں آتی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، تو انہوں نے کہا میری سمجھ میں تو بالکل نہیں آئی۔ تو ترقی پسند ہوتے ہوئے بھی جذبی صاحب کو اس نظم کے بارے میں شک رہا کہ یہ بامعنی ہے کہ نہیں۔ میں نے فیض صاحب سے کہا کہ اس نظم کے بارے میں سب سے اچھا مضمون افتخار جالب نے لکھا ہے۔ 

    یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے پیش روؤں کی ہر چیز کو مسترد کیا۔ نہیں، جو چیزیں مسترد کرنے کے لائق تھیں انہیں مسترد کیا گیا۔ اچھا اب میرے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ صاحب آپ صرف میر ہی میر اور غالب ہی غالب کر رہے ہیں۔ داستان پر لکھ رہے ہیں۔ لیکن سوچیے تو پھر میں یہ کیوں لکھ رہا ہوں؟ اگر میری آنکھ پر صرف مغرب کی عینک چڑھی ہوئی تھی۔ اور میں شیکسئپر، ملٹن، بودلیئر اور ملارمے وغیرہ کے سوا کسی سے واقف نہیں تھا۔ تو میر، غالب اور داستان اور کلاسیکی اردو شعریات، یہ چیزیں میں کہاں سے لکھ رہا ہوں؟

    سوال: تو کیا روایتی ادب کو اس کا مرکزی مقام جدیدیت نے عطا کیا ہے؟

    جواب: میں تو یہی سمجھتا ہوں اور کم از کم میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں۔ روایتی ادب سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس طرح کا ادب جس میں کوئی تخلیقی قوت نہ ہو۔ بلکہ یہ کہ جو ہماری روایت ہے، جو ہمارا تہذیبی ورثہ ہے، جو ہماری تہذیبی تاریخ ہے، جو ہمارا تاریخی حافظہ ہے۔ ایسی تحریروں کو اپنی ادبی تاریخ کے مرکز میں ڈالنا، یہ کوئی خراب بات ہے؟ یہ کام کیا میں نے ضرور۔ یہ کام ترقی پسندوں کے وقت میں نہیں کیا گیا تھا، بلکہ ان کے پہلے بھی نہیں کیا گیا تھا۔ ترقی پسندوں ہی کو آپ کیوں کہتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ پچھلے سو سوا سو برس سے ہمارے تہذیبی ورثے کو، ہماری روایت کو، بڑی حدتک بے دخل کرنے کا کام انگریزوں کے زیر نگرانی ہو رہا تھا۔ اور اس کے کرنے والے ہمیں لوگ تھے۔ کیا حالی اور کیا آزاد سب لوگ یہی کرتے تھے۔ 

    سوال: جدیدیت کو عام طور پر ایک تحریک قرار دیا گیا۔ ترقی پسندوں کے نزدیک تو یہ تحریک تھی ہی لیکن بعض جدیدیوں نے بھی اسے تحریک کہا۔ تو کیا اصل میں یہ کوئی تحریک تھی یا صرف ایک میلان تھا؟

    جواب: جدیدیوں نے تو نہیں کہا کہ یہ تحریک ہے۔ لیکن اگر کہا ہوگا۔۔۔ 

    سوال: مثال کے طور پر لطف الرحمٰن نے اپنی کتاب ’’جدیدیت کی جمالیات‘‘ میں اسے جگہ جگہ تحریک لکھا ہے۔ 

    جواب: انہوں نے لکھ دیا ہوگا۔ میں پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں، یہاں بڑی خوبی یہی ہے کہ سب لوگ کسی ایک پارٹی لائن پر نہیں ہیں۔ جدیدیوں کا یہ کہنا تھا کہ جدیدیت تحریک نہیں ہے کیونکہ تحریک کے ساتھ ایک نظم و ضبط وابستہ ہوتا ہے۔ اس کا منشور ہوتا ہے۔ اس کی ممبر شپ ہوتی ہے، اس کا کوی صدر ہوتا ہے۔ شعوری طو رپر اس کے کارکن اس تحریک کو جگہ جگہ عام کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ پھر یہ کہ ہر تحریک کے پیچھے کوئی فلسفہ کوئی ذہنی اور فکری چوکھٹا ہوتا ہے جس میں وہ فٹ ہوتی ہے۔ اگر ہم جدیدیت کو کوئی تحریک مان لیں تو یہیں یہ پوچھنا پڑے گا کہ وہ کون سا فلسفہ یا نظام ہے جس کو ہم جدیدیت کے چوکھٹے میں فٹ کرسکیں۔ ظاہر ہے کوئی نہیں ہے۔ 

    فلسفے سے انکار سے یہ مراد نہیں کہ ہم فلسفے کو مانتے نہیں ہیں۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنے فلسفے کو خود اختیار کرے۔ وہ اس کا پابند نہیں ہے کہ مارکس کو وہ اپنا خدا مان لے یا شیطان۔ ہمارے یہاں تو یہ تھا کہ آپ کامیو کو پڑھیے، آپ سارتر کو پڑھیے آپ شنکرآچاریہ کو پڑھیے، آپ ابن عربی کو پڑھیے، جو کچھ اچھا لگے آپ اس کو پڑھیے۔ پھر دیکھیے کہ اس میں سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ جو حاصل ہوسکتا ہے وہ لے لیجیے۔ اگر یہ تحریک ہوتی تو ہم یہ کہتے کہ فلاں کو پڑھیے فلاں کو نہ پڑھیے جیسا کہ ترقی پسندوں نے کہا تھا۔ ترقی پسندوں نے اپنے یہاں کے تھرڈ کلاس کے لوگوں کو مثلاً Christophor caud well جیسے لوگوں کو جو بالکل دوکوڑی کے لکھنے والے تھے۔ ان کو بہت بڑا نقاد بناکر پیش کیا اور ہاورڈ فاسٹ (Aoward fast) جو نہایت تھرڈ کلاس ناول نگار تھا اس کو بڑا ناول نگار بناکر پیش کیا۔ یہ چیزیں ان کی پارٹی لائن کے مطابق تھیں۔ ہم نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ 

    سوال: ترقی پسندوں کا آج یہ خیال ہے کہ چند جدیدیت پسندوں کا بھی خیال ہے کہ جدیدیت کوئی الگ نظریۂ ادب نہیں بلکہ ترقی پسندی کا ہی اگلا قدم ہے۔ اس خیال سے آپ کہاں تک اتفاق کرتے ہیں؟

    جواب: ظاہر ہے کہ میں بالکل متفق نہیں ہوں۔ ابھی تک میں جو کہہ چکا ہوں اور جو آپ سن چکے ہیں کہ ترقی پسند نظریۂ ادب کی جو بنیادی باتیں ہیں ان سب سے میں انکار کرتا ہوں۔ میں ادب کو کسی فلسفے کسی نظریے کا پابند بنانا نہیں چاہتا۔ میں ادب کو ذات کا اظہار سمجھتا ہوں نہ کہ کسی سماجی مسئلے کا اظہار۔ اور اگر سماجی مسئلے کا اظہار بھی سمجھتا ہوں تو اس معنی میں نہیں کہ وہی مسئلہ ہے جس کے بارے میں پارٹی طے کرے گی کہ مسئلہ ہے کہ نہیں ہے۔ اور ادب کو تجربے کے اظہار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو کہ کسی صورت سے بھی ترقی پسندوں کو قبول نہیں ہوسکتیں۔ وہ ختم ہوگئے تو اب رو رو کے کہتے ہیں کہ ادب میں سماجی معنویت ہونا چاہیے۔ چنانچہ وہ پہلے تو یہ دعوی کرتے تھے کہ مارکسزم ہونا چاہیے اس سے کھسکے تو کہنے لگے صاحب سوشلزم ہونا چاہیے۔ اس سے کھسکے تو سوشلسٹ حقیقت نگاری کا ذکر کیا۔ وہاں سے پیچھے ہٹے تو سماجی معنویت پر آگئے یعنی اپنے کو انہوں نے اتنا بے چارہ پایا کہ اب وہ اس کا اصرار نہیں کرتے کہ آپ مارکس کے یا انگلو کے یا لینن کے خیالات کی ترجمانی کریں۔ بلکہ اب وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ اگر آپ سماجی شعور رکھتے ہیں تو ترقی پسند افسانہ نگار یا شاعر ہیں تو ظاہر ہے کہ سماجی شعور تو ہر آدمی رکھتا ہے۔ سماجی شعور کے بارے میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ کسی میں نہ ہو۔ ہم لوگوں میں ہے۔ لیکن ہم اس سماجی شعور کو کسی کی پابندی کا اظہار نہیں سمجھتے بلکہ اپنے طور پر بیان کرتے ہیں۔ 

    تو بہرحال ترقی پسندوں سے میرا بنیادی اختلاف ہے۔ ترقی پسندوں میں سے کچھ لوگوں نے مثلاً اسے نئی ترقی پسندی کہنا چاہا۔ کچھ لوگوں نے توسیع کہنا چاہا۔ لیکن نہ وہی لوگ اپنی بات پر قائم رہے نہ ان کی بات کوئی آج مانتا ہے۔ آج یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ بنیادی طور پر جو اختلافات ہیں، فکری اور ادب کے نظریے کے بارے میں، ترقی پسندی جدیدیت کے درمیان، وہ اتنے گہرے ہیں کہ اب یہ سمجھنا کہ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی ایسا رشتہ قائم ہوسکتا ہے جو کہ تسلسل کا ہو، ایسا ممکن نہیں ہے۔ 

    سوال: جدیدیت کس سنہ میں آپ کے نزدیک مکمل طور پر وجود میں آئی۔ ترقی پسند تحریک کے ختم ہونے کے فوراً بعد یا اور بعد میں؟

    جواب: اصل میں ترقی پسند تحریک کا معاملہ اور ہے۔ تحریک کے بارے میں آپ ایک تاریخ مقرر کرسکتے ہیں، ۱۹۳۵ میں جلسہ ہوا ہندوستان میں۔ یہ تاریخ آپ مقرر کرسکتے ہیں۔ چونکہ جدیدیت کوئی تحریک نہیں ہے، لہٰذا اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں لگاسکتے کہ صاحب فلاں جگہ فلاں تاریخ فلاں وقت پیدا ہوئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسندی کے بیس سال کے اندر اندر ہی ایک حلقہ ایسے لوگوں کاپیدا ہوگیا تھا کہ لاہور میں حلقۂ ارباب ذوق نام کا جو کہ ترقی پسند تحریک کے موید اور معاون نہیں تھے۔ وہ الگ سمجھتے تھے اپنے آپ کو۔ پھر ایسے لوگ تھے جیسے منٹو صاحب تھے، ن۔ م۔ راشد تھے، میراجی تھے، اخترالایمان تھے، یہ وہ لوگ تھے جن کو ترقی پسند تحریک کے زمانے میں شہرت ملی لیکن وہ آہستہ آہستہ یا تو ترقی پسندی سے الگ ہوگئے یا نکال دیے گئے۔ محمد حسن عسکری تھے، ان کو بھی ترقی پسند کہہ دیا گیا۔ ایک زمانے تک یہ خیال رہا کہ جو نیا لکھ رہا ہے وہ ترقی پسند ہے۔ لیکن محمد حسن عسکری ظاہر ہے، کبھی ترقی پسند نہیں رہے۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ترقی پسند نہیں تھے یا اپنے کو ترقی پسند مانتے بھی تھے تو ان کو ترقی پسند تحریک کے بڑے لوگوں نے ترقی پسند قرار نہیں دیا اور ان کو ترقی پسندی سے خارج کردیا، یا وہ خود ہی اس سے الگ ہوتے چلے گئے۔ ان لوگوں کے یہاں کچھ تصورات اور تھے ادب کے بارے میں۔ وہ ترقی پسند خیالات سے مختلف تھے۔ یہ لوگ ترقی پسندی سے منکر تھے۔ لیکن بنیادی طور پر ادب کے بارے میں کوئی خاص نظریہ لے کر نہیں آئے تے۔ ترقی پسندی کے ۲۵۔ ۳۰ سال کے اندر یہ ہوا کہ ایسے لکھنے والے پیدا ہوئے جنہوں نے ایک تو یہ کیا کہ ترقی پسندی کی نظریاتی بنیادوں کو پوری طرح سے رد کیا۔ راشد نے میراجی نے، اخترالایمان، محمد حسن عسکری نے بھی یہ کام نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنے طور پر لکھ رہے تھے۔ منظم ادبی نظریے کے طور پر جدیدیوں نے ادب کے بارے میں ایسی باتیں لکھیں یا ادب کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں جو کہ ترقی پسندی کی غلطیاں ثابت کریں۔ 

    سوال: بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ۱۹۶۰ کے پہلے کی جدیدیت اور ۱۹۶۰ کے بعد کی جدیدیت میں فرق تھا۔ اس طرح ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی جدیدیت نے بھی الگ الگ ابعاد تلاش کیے اور اب نئی نسل ۱۹۹۰ کے بعد بھی جدیدیت کے نئے ڈائمینشز کی تلاش میں ہے؟

    جواب: میں نے ابھی کہا کہ ۱۹۶۰ء کے پہلے ایسے لوگ موجود تھے جن کے نام ابھی لیے گئے پھر سے دہرا لو وہ نام، جیسے راشد ہیں، میراجی ہیں، اختر الایمان ہیں، منٹو ہیں، محمد حسن عسکری ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ترقی پسند تھے یا ترقی پسند شمار کیے جاتے تھے۔ لیکن یہ ان سے الگ ہوگئے، یا الگ قرار دیے گئے۔ ان لوگوں کو ہم اپنا پیش رو ما نتے ہیں۔ خاص کر نظم میں شعر میں ہم میراجی کو، راشد کو اپنا پیش رو مانیں گے۔ اب رہا یہ کہ ۱۹۶۰ء کے بعد جو لوگ آئے یعنی ہم لوگ، تو میں نے، وارث علوی نے، گوپی چند نارنگ نے، وزیر آغا نے، سلیم احمد نے، ایسے مضامین لکھے، کتابیں لکھیں، جن میں ترقی پسند نظریے کو سامنے رکھ کر باضابطہ طور پر اور پورے استدلال کے ساتھ اس کی غلطیاں واضح کی گئیں۔ دوکام اس میں کیے گئے ایک تو یہ کہ ترقی پسند ادب میں جو خامیاں ہیں اور اس ادب میں جو کمزوریاں ہیں ان کو کھل کر واضح کیا جائے۔ مخدوم پر میں نے سخت تبصرہ لکھا۔ اس زمانے میں مخدوم کی شہرت کا آفتاب بالکل عروج پر تھا۔ لیکن میں نے تبصرہ اتنا ہی سخت لکھا۔ سردار جعفری پر میں نے سخت تبصرہ لکھا۔ بتایا کہ ان کی شاعری میں کیا کیا خرابیاں ہیں۔ تبصروں اور مضامین کی شکل میں میں نے ایسے ترقی پسند ادیبوں کی جو بالکل مستحکم ہوچکے تھے خرابیاں واضح کیں۔ دوسری بات یہ کہ نظریاتی طور پر ترقی پسند تحریک کے نظریے میرے لیے کہاں تک قابل قبول ہیں اور کہاں تک قابل قبول نہیں ہیں اور کیوں قبول نہیں ہیں، ان کا تفصیلی محاکمہ میں نے کیا۔ گویا جس کو آپ لٹریری تھیوری کہیے۔ اس کو میں نے پیش کیا۔ پھر وہ لوگ جن کو ترقی پسند بہت بڑا شاعر سمجھتے تھے، جیسے فراق اور جوش ان کے یہاں بھی میں نے بتایا۔ کیا کمزوریاں ہیں کیا خامیاں ہیں۔ تیسری بات یہ کہ بہت سے جدید شعرا اور ادیب تھے جن کے بارے میں انفرادی طور پر میں نے لکھا۔ 

    سوال: تو کیا کل کی جدیدیت اور آج کی جدیدیت میں کوئی فرق نہیں ہے؟

    جواب: جدیدیت کی بنیاد میں فرق اس لیے نہیں ہوسکتا کہ جدیدیت کی جو پوزیشن ہے وہی ہے، جو تھی۔ لیکن فرق ایک طرح سے ہوسکتا ہے۔ مثلاً ایک خاص طرح کی شاعری جو ۱۹۶۰ء کے آس پاس بہت مقبول ہو رہی تھی آج اس کا چرچا سننے میں کم آتا ہے۔ ایک خاص طرح کاافسانہ اس کا بھی چرچا کم سننے میں آتا ہے۔ تو ان چیزوں کو کبھی میں نے جدیدیت کا جوہر نہیں کہا۔ میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ دوچار پانچ سات بنیادی تصورات ہیں جو ان کو تسلیم کرے۔ ان پر عمل کرے وہ جدید ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ تجریدی افسانہ لکھ رہا ہے، مشکل افسانہ لکھ رہا ہے۔ آسان افسانہ لکھ رہا ہے، اس کی شاعری مشکل ہے آسان ہے، یہ ضرور ہے کہ نئی شاعری میں مشکل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ نئی شاعری ایسے مسائل کااظہار کرنا چاہتی ہے جن کااظہار پہلے نہیں ہوا ہے۔ اب یہ ہے کہ ہر پانچ، سات دس برس کے بعد نئے لکھنے والے سامنے آئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے پرانوں سے کچھ چیزیں لیتے ہیں، کچھ نہیں لیتے۔ ہم لوگوں نے بھی بہت چیزیں راشد سے لیں، بہت چیزیں نہیں لیں۔ میراجی سے کچھ لیا۔ بہت سارا نہیں لیا۔ اخترالایمان سے بھی کچھ لیا، بہت سارا نہیں لیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہوتا ہی رہتا ہے، کوئی حرج نہیں۔ جدیدیت کے جواصول ہیں جن کا کہ میں نے شروع میں بھی ذکر کیا ہے، جو ادبی اصول ہیں جو بھی ان کو مانتا ہے وہ جدید کہلائے گا، چاہے اس کی شاعری افتخار جالب کی شاعری جیسی ہو یا اس سے مختلف ہو لیکن کہلائے گا وہ بھی جدید ہی۔ 

    سوال: آپ نے یہ کہا کہ محمد حسن عسکری نے فراق کو عظیم شاعر مانا تھا لیکن آپ ان سے مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ محمد حسن عسکری سے آپ کن وجوہ کی بناپر اختلاف رکھتے ہیں؟

    جواب: پہلی بات یہ ہے کہ جدیدیت کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی اپنی رائے قائم کرے۔ محمد حسن عسکری کو ہم اپنا پیش رو مانتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ان سے بڑا نقاد اردو میں کوئی نہیں ہوا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ہر بات کو صحیح مانا جائے۔ اس لیے یہ بالکل جدید طرز عمل کے مناسب اور موافق ہے کہ کوئی شخص محمد حسن عسکری کی بات سے انکار کرے اور اس انکار کے وجوہ اس کے پاس ہوں۔ تو میں ان سے اختلاف کرتا ہوں، فراق کے معاملے میں میں فراق کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکاہوں جو تحریری طور پر موجود ہے، یہاں دوبارہ دہرانے کا وقت نہیں ہے۔ 

    سوال: فراق پر آپ نے ایک مضمون لکھا۔ اس کے جواب میں شمیم احمد نے ایک طویل مضمون لکھا۔ آپ نے وہ مضمون پڑھا ہوگا۔ اس مضمون کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتے ہیں آپ؟

    جواب: شمیم صاحب کا مضمون تو گویا گالیوں پر مشتمل تھا، اس میں اور کچھ تھا ہی نہیں۔ اس کے جواب میں خاموشی ہی ممکن ہے۔ افسوس مجھے یہی رہا کہ فراق کیا، کسی اور بھی مسئلے پر کچھ میں نے لکھا تو رد کرنے والوں نے صرف ذاتیات پر بات رکھی۔ یا تو گالیاں دیں یا پھر منفی باتیں کہیں کہ یہ نہیں جانتے، فلاں چیز نہیں پڑھی ہے۔ لیکن اس سے یہ ثابت کہاں ہوتا ہے کہ جو باتیں میں نے کہی ہیں غلط ہیں؟ شمیم صاحب نے بھی گالیاں بہت دیں مجھے۔ نثر نہیں جانتے ادب نہیں سمجھتے الفاظ کے معنی نہیں جانتے۔ اس کے کچھ دن بعد احمد ہمدانی نے ایک مضمون میں فراق کے حوالے سے کہا؟ فاروقی الفاظ کے معنی نہیں جانتے۔ یہ کوئی استدلال تو ہے نہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جائے؟

    سوال: فراق کے طرفداروں کا یہ کہنا ہے کہ آپ احمد مشتاق کو فراق سے بڑا شاعر مانتے ہیں۔ 

    جواب: ہاں میں نے ایسا لکھا ہے میں اب بھی یہ کہتا ہوں۔ نہ مانیں لوگ تو کوئی بات نہیں۔ کل کے لوگ شاید مانیں گے۔ آپ دیکھیے گا، کل کو جب لوگوں کی آنکھوں سے چربی ہٹے گی اور وہ لوگ سامنے آئیں گے جو اس نسل کے نہیں ہیں۔ جنہوں نے فراق کو بڑا شاعر قرار دیا تو وہ لوگ مانیں گے۔ (۱) اگر ہمیں بچپن سے یہ بتایا گیا کہ چنے کی دال اچھی ہوتی ہے، ہمارے باپ کھایا کرتے تھے، دادا کھایا کرتے تھے، ہم بھی کھا رہے ہیں لیکن آج کے جاوید انور کہنے لگیں کہ نہ کھایا کرو بری ہوتی ہے تو پہلا ردعمل یہ ہوگا کہ ان کو کیوں مانیں؟ ہم تو اپنے باپ کی مانیں گے۔ لیکن کچھ دن کے بعد جب لوگ دیکھیں گے کہ چنے کی دال نقصان کر رہی ہے تو نہیں کھائیں گے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ بات کھل جائے گی لوگوں پر، لیکن اس ایک بات کو کہاں تک آپ کھنگالیں گے؟ یہ تو ایسی اہم بات بھی نہیں ہے۔ مان لیجیے فراق کے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں، نظیراکبرآبادی کے بارے میں، جوش کے بارے میں میری رائے صحیح نہیں بھی ہے۔ تو فرق کیا پڑتا ہے۔ یہ تو وہی معاملہ ہے کہ عسکری صاحب کی رائے کو میں صحیح نہیں مانتا فراق کے بارے میں۔ لیکن میں ان کو بہت بڑا نقاد مانتا ہوں۔ تو کسی نقاد کی کسی ایک دو رایوں کو صحیح نہ ماننا اتنی اہم بات تھوڑے ہی ہے کہ اس کے پیچھے ڈنڈا لے کر کھڑا رہا جائے۔ 

    (۱) نئی نسل کے لوگ فاروقی صاحب کی اس رائے کو تسلیم کرتے ہیں۔ 

    سوال: تو کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہوسکتی کہ بہت سے لوگوں نے احمد مشتاق کو پڑھا ہی نہ ہو جب کہ فراق کو غالباً سبھی نے پڑھا ہے۔ 

    جواب: یہ بالکل صحیح ہے کہ احمد مشتاق نے کہا بہت کم ہے اور جو کہا ہے وہ سب ہندوستان میں پہنچا نہیں ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے بھی شاید اتنا نہیں پڑھا ہے احمد مشتاق کو۔ ناصر کاظمی کا عسکری صاحب نے بہت خیرمقدم کیا تو اس پر تو کسی نے نہیں کہا کہ یہ کیا ظلم کر رہے ہیں آپ۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ صاحب نئی غزل کی نئی کروٹوں کو میں ناصر اور احمد مشتاق کے کلام میں دیکھتا ہوں تو کسی نے نہیں کہا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں نے کم و بیش وہی بات کہی جو عسکری نے کہی تھی۔ عسکری صاحب کا رویہ ظاہر ہے کہ فراق کے بارے میں نرم تھا۔ میرا رویہ ایسا نہیں ہے اور احمد مشتاق ہوں، ناصر کاظمی ہوں، سلیم احمد ہوں، کتنے لوگوں نے غور سے پڑھا ہے ان لوگوں کو؟

    سوال: کیا احمد مشتاق اور ظفر اقبال میں آپ کوئی قدر مشترک دیکھتے ہیں؟

    جواب: احمد مشتاق اور ظفر اقبال میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کو غزل کہنے کا فن آتا ہے۔ غزل کو غزل بنانا آتا ہے۔ مصرعے کو مربوط کرنا آتا ہے۔ بات کو مکمل کرکے کہنا آتا ہے۔ جھول نہیں ملے گا آپ کو۔ غیر ضروری الفاظ نہیں ملیں گے۔ شعر کہنے کے ضروری تقاضے یہ ہیں کہ الفاظ غیر ضروری نہ ہوں۔ جو الفاظ ہوں وہ پورا پورا اپنا کام کر رہے ہوں، معنویت رکھتے ہوں۔ مصرعے برابر کے ہوں، یا ان میں بہت تفاوت نہ ہو، دونوں مصرعوں میں وحدت ہو۔ فراق کے یہاں کیا بڑے بڑے لوگوں کے یہاں یہ بات نہیں ملتی ہے۔ مگر ظفراقبال اور احمد مشتاق کے یہاں یہ کمی نہ پائیے گا۔ آپ ان کے شعر کو ناپسند کردیجیے وہ الگ بات ہے۔ آپ پسند نہ کریں آپ کی مرضی۔ 

    سوال: جدیدیت نے جس جہان نو کی تلاش شروع کی تھی کیا اس میں کامیاب ہے؟

    جواب: میں سمجھتا ہوں سراسر کامیاب ہے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہوتی تو جو نقشہ تم ادب میں اس وقت دیکھ رہے ہو وہ نہ ہوتا۔ جن لوگوں کو آج ہم اپنی گفتگو میں روزانہ لاتے ہیں جیسے احمد مشتاق کا ذکر ہو رہا ہے، ظفر اقبال کاذکر ہو رہا ہے۔ سلیم احمد کا ذکر ہو رہا ہے۔ بیدی صاحب کے یہاں نئی نئی معنویتیں کھل رہی ہیں، منٹو کے یہاں نئی نئی معنویتیں زیر بحث آرہی ہیں، اقبال کو نئے رنگ سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ غالب کو دیکھ رہے ہیں، افسانے کے بارے میں توقعات بدل گئی ہیں۔ انتظار حسین اور انور سجاد کو بیک وقت پڑھا جارہا ہے۔ سریندر پرکاش اور سید محمد اشرف کا ذکر ایک ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ سب کہاں ممکن ہوتا؟ جہاں ۱۹۶۰ء میں ادب ٹھہرا ہوا تھا، جب کہ لوگ قرۃ العین حیدر کو، بیدی کو، منٹو کو ترقی پسند ادب سے نکال چکے تھے۔ اگر وہاں ادب ٹھہرا ہوتا تو کیا جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ ہوتا؟ ظاہر ہے کہ نہ ہوتا۔ تو جس چیز کے لیے ہم نے جدوجہد کی، برے بنے تو میرا خیال ہے کہ اس میں میں اور میرے ساتھی کامیاب ہوئے۔ جیسا میں نے کہا اور میں بار بار کہتا ہوں کہ آج کوئی ایسا آدمی نہیں ہے۔ ترقی پسندوں کو ہی لے لو یعنی ان کو جو اپنے کو ترقی پسند کہتے ہیں، ان میں بھی ایسا کوئی آدمی نہیں ہے جو یہ کہے کہ ادیب کو فرد کے داخلی مسائل کو بیان کرنے کا حق نہیں ہے۔ کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو یہ کہے ادیب کو اپنے طور پر اپنی بات کہنے کا حق نہیں ہے۔ کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو یہ کہے کہ ادیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی خاص ازم یا کسی خاص فلسفے کا اپنے آپ کو ماتحت رکھے۔ ایسا کیوں ہے؟

    سوال: جدیدیت نے اپنا سب سے کامیاب تجربہ صنف غزل پر کیا ہے لیکن جہاں جدیدیت نے غزل میں ایک نئی روح پھونک کر اسے ازسرِنو زندہ کیا ہے وہیں کچھ جدید شعرا نے ا نٹی غزلیں بھی تخلیق کی ہیں جن سے جدید غزل بدنام ہوئی۔ اس طرح کے تجربے کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ 

    جواب: دیکھیے صاحب جدید غزل کے بدنام ہونے یا بد نام کرنے کا معاملہ ایسا ہے کہ اگر ہم لوگ اپنے تہذیبی ورثے سے واقفیت نہیں رکھتے تو ہمیں بعض چیزیں انوکھی معلوم ہوتی ہیں۔ جب ہم سے کہا جانے لگا کہ اصغر گونڈوی، حسرت موہانی یا اس طرح کے اور جو شعرا ہیں، یہ غزل کے بہت بڑے شاعر ہیں غزل کے لیے انہیں نمونہ ہونا چاہیے۔ مثلاً آنسو بہانایاد ہے۔ بام پر آنا یاد ہے جیسی غزلیں ہی غزلیں ہیں۔ تو جو اینٹی Anti غزل کہی گئیں ان کے پیچھے دراصل دوچیزیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ اگر اصغر گونڈوی، حسرت موہانی، جگر مرادآبادی وغیرہ کی غزل غزل ہے تو ہم غزل نہیں کہہ رہے ہیں۔ ہم کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ حالی کے بعد کا جو منظر ہے ہمارے یہاں، وہ کلاسیکی منظر نہیں ہے بلکہ کلاسیکی منظر سے کٹا ہوا منظر ہے۔ جس میں یہ کہا گیا کہ شاعری میں استعارہ نہ ہو، شاعری میں پیچیدگی نہ ہو، شاعری میں تجربہ نہ ہو، شاعری میں بے تکلفی نہ ہو، شاعری چونچال نہ ہو، شاعر مذاق نہ کرے۔ یہ سب منظر حالی کے بعد کا پیدا کردہ ہے۔ اگر کسی نے آدھی آنکھ بھی پھوڑ کر میر کو، مصحفی کو، یا سودا کو یا سوز کو پڑھا ہوگا تو اس نے دیکھا ہوگا کہ غزل کی شاعری میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ غزل کے شاعر نے کبھی اپنے آپ کو بند نہیں کیا ہے، پھکڑپن سے، غصہ کرنے سے، ناراض ہونے سے، لڑنے جھگڑنے سے، ہنسی کی بات کہنے سے۔ کیونکہ غزل کا شاعر تو اس بات میں اپنی خوبی سمجھتا ہے کہ ہم جو چاہیں سو کہہ دیں۔ انسانی فطرت کے بارے میں جو کچھ ہم نے دیکھا جو کچھ سوچا، ہم کہہ سکتے ہیں۔ غزل کی عام شاعری کا یہ مزاج ضرور ہے کہ اس میں ایک طرح کی نارسائی، ایک طرح کی محرومی، ایک طرح کی ناکامیابی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غزل کا شاعر ہمیشہ ہی آنسو بہاتا رہے۔ بھائی شاعر انسان ہوتا ہے۔ اس کو بھوک لگتی ہے، غصہ بھی آتا ہے، ناراض بھی ہوتا ہے، مذاق بھی کرتا ہے۔ آخر وہ ہماری ہی دنیا کا باسی ہے۔ تو اگر کسی نے کانی آنکھ سے بھی پڑھا ہوگا انشا کو سودا، جرأت کو، سوز کو، یا کسی کلاسیکی شاعر کو بھی پڑھا ہوگا (غالب کو بھی پڑھا ہوگا کیونکہ غالب نے اپنے آپ کو خاص طور پر ان چیزوں سے الگ رکھا کیونکہ غالب کا زمانہ آتے آتے بعض چیزیں ایسی تھیں جو گویا انہوں نے اپنے یہاں غزل سے خارج قرار دیں۔ غالب کو چھوڑ دیجیے) لیکن اور کوئی شاعرآپ کو نہیں ملے گا۔ کیا ناسخ کیا آتش جن کے یہاں اس طرح کے شعر نہ ملیں جن شعروں پر آپ ظفر اقبال یا عادل منصوری کو، محمدعلوی کو یا کسی اور شاعر کو بدنام کرتے ہیں۔ 

    سوال: جدید غزل پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اس کے اندر یاسیت بہت ہے؟

    جواب: یاسیت تو نہیں لیکن ہاں پوری کی پوری جدید شاعری میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ امید کی کمی ہے۔ مایوسی آج کل تمام عالم انسانیت پر طاری ہے۔ جب آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کوئی ایسا فلسفہ یا لائحہ عمل یا لائحہ حیات ہوسکتا ہے جو کہ تمام انسانوں کو بھلائی کی طرف لے جائے جب کہ انسان کے اندر برائی کے امکانات زیادہ پائے جارہے ہیں، خاص کر آج ہم لوگ دیکھ رہے ہیں کہ تباہی زیادہ پھیل رہی ہے اور تیسری دنیا پر ظلم بھی بڑھتے جارہے ہیں تو اس لیے ایک طرح کی ناامیدی کا ماحول اور موت کی ناکامی کا احساس جدید ادب میں نظر آتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ ہمیشہ ہو۔ ایک زمانے میں تھا، ممکن کہ کل نہ ہو۔ ان چیزوں سے شعر کی خوبی خرابی طے نہیں ہوتی۔ یہ سب چیزیں اوپر اوپر گویا تشخیصی علامات ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ انسان کے مستقبل سے ایک طرح کی ناامیدی آج ضرور پائی جاتی ہے جدید شعرا کے یہاں۔ اور وہ اس ناامیدی کو شاعری کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ انسان کے لیے اگر کوئی پناہ گاہ ہے، آماجگاہ ہے تو وہ تخلیقی قوت ہے، تخلیقی عمل ہے، تخلیقی قوت کے ذریعے سے ہم اپنا عالم آپ بنائیں گے، اپنی کائنات آپ بنائیں گے۔ جگر صاحب نے بہت پہلے کہا کہ، 

    اپنی اپنی وسعت فکر و نظر کی بات ہے
    جس نے جو عالم بنا ڈالا اسی کا ہوگیا

    یہ تو شاعر کا حق ہے، فرض ہے کہ وہ اپنا عالم آپ بنائے۔ اپنا عالم وہ اس لیے بنائے گا کہ وہ باہر کے عالم سے مطمئن نہیں ہے۔ لیکن یاسیت، رجائیت، یہ سب سطحی اور سرسری بیانات ہیں شاعری ان سب سے زیادہ پیچیدہ اور بلند شے ہے۔ 

    سوال: کیا جدید غزل عصری مسائل اور مستقبل کے آفاقی تقاضوں کو پورا کرنے میں حسب سابق صف اول کی صنف قرار پائے گی یا آگے چل کر فکشن کو زیادہ کارآمد سمجھا جائے گا؟

    جواب: بھئی آگے چل کے کیا ہوگا اس کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔ یہ تو وہی بتاسکتا ہے جو منجم ہو۔ ہمیں معلوم نہیں آگے چل کر کیا ہوگا۔ غزل کی مقبولیت میں کمی غالباً نہیں آئے گی۔ لیکن اس سے آگے چل کر کوئی دعویٰ کرنا اس بارے میں ممکن نظر نہیں آتا۔ اب رہ گئے آفاقی تقاضے تو یہ کیا ہوتے ہیں؟ پتہ نہیں کیا ہوتے ہیں؟ شاعری کے کچھ تقاضے ضرور ہیں۔ شاعری بنیادی طور پر آج کے زمانے میں اپنے خیالات کا، محسوسات کا، تصورات کا، تجربات کا، انسان کی باطنی کیفیات کا، انسان اور معاشرے کی کشمکش کا، ا نسان اور کائنات کی کشمکش کا، انسان میں کائنات کا وجود ہے کہ نہیں ہے، انسان تنہا ہے کہ نہیں ہے۔ اس طرح کی چیزوں کا اظہار شاعری میں ادب میں ہم کرتے ہیں۔ اب یہ آفاقی ہیں، غیرآفاقی ہیں، میں نہیں جانتا۔ 

    سوال: تو کیا آج کی غزل عصری مسائل کو پورا کر پا رہی ہے؟

    جواب: عصری مسائل کو پورا کرنے سے مطلب کیا ہے؟ ارے بھائی انسان معاشرے میں ہے، معاشرے میں جو کچھ محسوس کرتا ہے اسی کو بیان کرتا ہے۔ اب اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ اس نے قحط پڑجانے پر، سیلاب پر کتنا لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں لکھا ہے۔ یا لکھا تو کیا نہیں لکھا تو کیا؟ ممکن ہے لکھا ہو تو خراب لکھا ہو، مطلب یہ کہ شاعر کوئی اخباری بیان نہیں لکھتا ہے۔ مثلاً آج کی خبر کیا ہے، آج کیا ہوا ہے، یہ خبر اخبار میں ہے کہ نہیں ہے؟ اگر کسی اخبار میں نہیں ہے تو آپ کہیں گے کہ صاحب وہ اخبار ناکام ہے کیونکہ آج اس نے خبر نہیں بتائی یا بتائی تو کم بتائی۔ تو آپ کہیں گے، یہ اخبار نامکمل ہے اس نے اصل بات بتائی نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن غزل ہو یا کوئی بھی ادبی صنف ہو اس کا کام معاصر حالات کا اس طرح اظہار کرنا نہیں ہے جس طرح اخبار کا ہے۔ بلکہ جو معاصر تصورات ہیں، ذہنی کیفیات ہیں، جو روحانی کوائف ہیں، ان کے نتیجے میں آدمی کبھی کسی خاص بات کا اظہار کرتا ہے، کبھی نہیں کرتاہے۔ اپنی بات کہتا ہے لیکن رہتا وہ معاشرے کے اندر ہی ہے، معاشرے کے باہر نہیں جاتا۔ وہ کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتا جو معاشرے سے حاصل نہ ہوتی ہو۔ 

    سوال: جدید غزل یا جدید نظم زبان، استعارہ، علائم، لہجے اور آہنگ، کے اعتبار سے کہیں سکہ بند چیزوں کی طرف تو مائل نہیں ہو رہی ہے؟

    جواب: سکہ بند سے کیا مطلب؟ سکہ بند سے تمہاری کیا مراد ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ 

    سوال: یعنی سبھی لوگ کسی خاص پلان کے تحت کام کر رہے ہوں؟

    جواب: کون لوگ ہیں، بتاؤ، کیا جدیدیت کو آپ سکہ بند کہہ سکتے ہیں؟ ابھی جاوید انور سے بات ہو رہی تھی کہ آپ نے چار جدید شاعروں کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا ہے لیکن چاروں الگ طرح کے شاعر ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی، بانی، شہریار اور محمد علوی۔ چاروں جدید شاعر ہیں لیکن الگ الگ طرح کے شاعر ہیں۔ پھر وہ سکہ بند کہاں سے ہوئے؟ اب یہ ضرور ہے ک جو شاعر اوسط سے بہت کم درجے کا ہوتا ہے تو وہ زیادہ دور تک بھاگتا نہیں ہے۔ وہ اپنی اسی میں عافیت سمجھتا ہے جو آمنے سامنے کہا جارہا ہے اسی کو الٹ پلٹ کر کہہ دیا جائے تو اسی میں کام چل جائے گا اپنا۔ اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ دور تک بھاگے یا نیا راستہ ڈھونڈنے کا حوصلہ کرے۔ جتنا جوکھم مثال کے طور پر بانی مول لیتے تھے، اتنا جوکھم کوئی معمولی شاعر نہیں مول لے سکتا۔ یہ تو ضرور ہوگا، لیکن اس میں سکہ بندی نہیں ہے۔ یہ تو ایک ادبی صورت حال ہے۔ کیا غالب کے زمانے میں ہر آدمی غالب تھا؟ میر کے زمانے میں ہر آدمی میر تھا۔ ظاہر ہے نہیں تھا۔ ارے بھائی! چار پانچ بڑے شاعر تھے کچھ اوسط درجے کے شاعر تھے۔ کچھ تھرڈ کلاس (Third Class) شاعر تھے۔ کچھ بہت زیادہ خراب شاعر تھے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ میں نے پچاسوں بار یہ بات کہی ہے، لیکن کوئی سنتا ہی نہیں کہ بھائی کس زمانے میں ایسا ہوا ہے کہ ہر شاعر اعلیٰ درجے کا شاعر ہو؟

    سوال: تو اس کے بعد کے جو شاعر ہیں یعنی جو شاعر صف اول کے قرار پائے ان کے بعد کے شاعروں کی شناخت کس طرح ہوگی؟

    جواب: شناخت کی ضرورت کیا ہے؟ میں نے تو کہا ہے، کتنی ہی بار کہا ہے کہ اچھا کہنا ضروری ہے، منفرد ہونا ضروری نہیں۔ اور یہ کہنا کہ شاعری اظہار شخصیت ہے اور ہر انسان کی شخصیت مختلف ہوتی ہے تو یہ بات اور بھی غلط ہے اگر ہر انسان کی شخصیت مختلف ہوتی ہے تو وہ خود شاعری کی شخصیت سے باہر نہیں ہے۔ شاعری بہت سی چیزوں کا اظہار ہے۔ بڑے پتے کی بات ایک انگریز نقاد نے کہی ہے کہ یہ اکثر ہوسکتا ہے کہ ادیب اپنی اصل شخصیت کا اظہار تخلیق میں نہ کرے۔ دیکھیے خسرو اتنے بڑے شاعر تھے جن سے بڑا شاعر ہندستان میں کوئی ہوا نہیں، کم از کم فارسی میں۔ اور دنیا کے بڑے شاعروں میں تو وہ ہیں ہی۔ انہوں نے صاف لکھا کہ استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے طرز کا موجود ہوتا ہے۔ اور خود کو لکھا ہے کہ میں استاد نہیں ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں تو کہوں گا وہ استاد تھے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ان کو یہ معلوم تھا کہ شاعر کا کسی طرز کا موجد ہونا آسان کام نہیں ہے کہ ہم ہر ایرے غیرے کو صاحب طرز ہونے پر مکلف ٹھہرائیں۔ 

    غالب طرز تو ہر زمانے میں ایک ہوتا ہے۔ جو طرز ہمارے زمانے میں مقبول ہے وہ پہلے زمانے میں نہ تھا۔ جو طرز غالب کے زمانے میں مقبول تھا، وہ غالب سے پہلے نہیں تھا، ہر زمانے میں ایک طرز ہوتا ہے۔ اس طرز میں ہر آدمی شعر کہتا ہے کچھ اچھے ہوتے ہیں کچھ خراب ہوتے ہیں۔ 

    سوال: اس طرح تو ہمارا ۹۰فیصد ادب برباد ہوجائے گا۔ 

    جواب: کیوں؟

    سوال: جب صف اول کے بعد کے شاعروں کی شناخت نہیں ہوپائے گی تو ان کا شمار کس طرح ہوگا وہ کس خانے میں جائیں گے؟

    جواب: کیوں نہیں شناخت ہوگی بھائی۔ اول تو یہ کوئی بہت Important بات نہیں ہے۔ تذکرے آپ کے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ ہر تذکرے میں کتنے شعرا کا ذکر ہے؟ ان میں کتنے شعرا کو آپ جانتے ہیں؟ کوئی تذکرہ لکھتا ہے اس میں پچاس شاعروں کا ذکر کرتا ہے، کوئی لکھتا ہے تو سو شاعر کا ذکر کرتا ہے، کسی کے یہاں آٹھ سو شاعر ہیں، کسی کے یہاں نو سو شاعر ہیں لیکن ان میں سے چند ہی شاعروں کو ہم جانتے ہیں۔ تو اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہی نہ کہ ہر شاعر کا ہر وقت موجود ہونا ضروری تھوڑے ہی ہے۔ کچھ ہیں موجود، کچھ نہیں ہیں مگر وہ آپ کے ادب کا حصہ ہیں۔ یہ مان لیجیے کہ آپ کے ادب کی جو چوٹیاں ہیں پانچ سات، دس جو بڑے بڑے سربلند مینار ہیں ان کے بعد جو چیزیں ہیں ان کے بغیر وہ بلند مینار نہیں ہوسکتا۔ جیسے بیدی کا ہونا ضروری ہے تاکہ بیدی کے ذریعے سے ہم مہندرناتھ کا قد ناپ سکیں اور مہندر ناتھ کا ہونا ضروری ہے تاکہ مہندر ناتھ کو پڑھ کر ہم سمجھ سکیں کہ بیدی کے یہاں کیا باریکیاں ہیں جو مہندر ناتھ کے یہاں نہیں ہیں۔ 

    سوال: لوگوں کو جدید شاعری اور کلاسیکی شاعری میں بنیاد ی فرق اسلوب کا ہی نظر آتا ہے۔ جب کہ آپ کے نزدیک یہ فرق کائنات کے بارے میں رویے کا ہے، اس کی وضاحت فرمائیں۔ 

    جواب: بھائی پڑھ کے دیکھو ہم کیا بتاسکتے ہیں۔ دیکھو زندگی کے بارے میں جو رویہ غالب کا ہے، وہ ہم لوگوں کے رویے کے بہت نزدیک ہے، لیکن پھر بھی مجموعی حیثیت سے ہم لوگوں کے مقابلے میں ان کا رویہ قدیم ہے۔ ان کے یہاں کچھ چیزیں موجود ہیں، جو اٹل ہیں۔ بدلتی نہیں ہیں۔ میر کے یہاں تو یقیناً اور میر کے پہلے تو اور بھی یقیناً، مثلاً خسرو کے یہاں کیا کسی کے یہاں بھی کائنات کی بعض چیزیں مقرر اور اٹل ہیں کہ ایسی ہی ہوں گی۔ جدید شاعر کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ جدید شاعر ہر جگہ سوالہ نشان لگاتا ہے۔ بہت سی چیزوں کو تو مانتا ہی نہیں ہے، بہت سی چیزوں کو مانتا ہے لیکن سوال و جواب سے مانتا ہے۔ یہ تو بالکل سامنے کی چیز ہے کہ جس طرح کا شعر جس طرح کا افسانہ آج لکھا جارہا ہے یا کل لکھا گیا یا دس بیس تیس سال کے اندر لکھا گیا اس میں جو سوال ہیں، جو بے اطمینانیاں ہیں، جو فریب شکستگیاں ہیں، جو انکار ہیں، وہ آپ کو کلاسیکی زمانے کے ادیب و شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ وہ بنے بنائے نظام کائنات کو قبول کرتے ہیں اور اسی میں خوش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کم از کم اٹل نہیں بدلے گا یہاں تو یہ معاملہ نہیں ہے۔ 

    اب رہ گیا اسلوب کا معاملہ تو میں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ آج سینکڑوں لفظ ایسے ہیں جو ۱۹۵۵ء یا ۱۹۷۰ء میں نہیں بولے جارہے تھے؟ تو مجروح صاحب نے مجھ کو لکھا کہ تم نے جدید شاعری کا جو چکر چلایا اس میں تم نے لوگوں کی زبان خراب کردی ہے۔ تم خود تو زبان اچھی لکھتے ہو مگر جو لوگ خراب لکھتے ہیں ان کو تم ٹوکتے نہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ صاحب دیکھیے زبان تو بدلتی رہتی ہے۔ اور زبان کا استعمال ادیب کے لیے ذاتی عمل ہوتا ہے۔ مثلاً یہ مجھے حق ہے کہ آج جو محاورہ بولا جارہا ہے میں اسے قبول نہ کروں۔ لیکن جو تسلیم ہو چکا ہے اس کے وجود سے آپ انکار نہیں کرسکتے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ دیکھیے آپ کے کلام کے شروع ہی کے صفحوں میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ’’نوراللغات‘‘ میں نہیں ہیں۔ تو کیا میں یہ کہوں کہ آپ کی زبان الگ ہے؟ یا آپ کی زبان خراب ہے؟ بس یہ ہے کہ ’’نوراللغات‘‘ لکھی گئی ۱۹۲۴ء میں۔ ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۱ء سات سال میں مکمل ہوئی ہے۔ اب اس ساٹھ ستر سال میں زبان میں بہت سے نئے لفظ آگئے اور انہیں آپ نے بھی قبول کر لیا۔ اور آپ اپنے آپ کو کلاسیکی طرز کا کہنے والا شاعر سمجھتے ہیں، لیکن آپ کے یہاں فلاں فلاں الفاظ ایسے ہیں جو ’’نوراللغات‘‘ میں نہیں ملتے۔ اس کا مطلب میں یہ نہیں نکالتا کہ آپ کی زبان خراب ہے۔ 

    ہم الفاظ کو پوری طرح برتنا چاہتے ہیں، الفاظ کے معنی کو پوری طرح کارگر بنانا چاہتے ہیں، اب اصل فرق بس یہ رہ گیا کہ قدیم لوگوں کے لیے کائنات اٹل چیز تھی۔ شاہ حاتم کے لیے، میر کے لیے، یا سوز کے لیے، یا غالب کے لیے کائنات بڑی حدتک اٹل چیز تھی لیکن ہمارے لیے نہیں ہے۔ اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ 

    سوال: بعض لوگوں کا بیان ہے کہ آپ بات تو جدید شاعری کی کرتے ہیں مگر جب کوئی مثال دینی ہوتی ہے تو کلاسیکی شعروں سے دیتے ہیں تو کیا جدیدیت کے پاس ایسے اشعار مفقود ہیں؟

    جواب: اگر ان لوگوں کا یہ بیان ہے تو قطعی غلط ہے۔ یہ تو میں آج سے ۳۰۔ ۳۵ برس پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ جدید شاعری اور کلاسیکی شاعری میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں شاعری ہی ہیں۔ لہٰذا یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔ میر کو پڑھنا مجھے اتنا ہی اچھا لگتا ہے مثال کے طور پر جیسے شہر یار کو پڑھنا، علوی کو پڑھنا، کومل کو پڑھنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے وقت ہمارے یہاں رویہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اردو میں، ہندوستانی فارسی روایت میں، سنسکرت کی روایت میں، شاعری کو ہمیشہ موجود مانتے ہیں۔ ہم لوگ یہ نہیں کہتے کہ میر کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اب نہیں کھلے گا۔ غالب بند کردیے گئے کوٹھری میں، اب نکالے نہیں جاسکتے۔ تو کیا حرج ہے کہ ہم جدید شاعری کی گفتگو کرتے وقت حسب ضرورت حسب حال کسی کلاسیکی شاعری کا ذکر کردیں۔ لیکن یہ مان لیجیے کہ میں لکھ رہا ہوں عمیق حنفی کے بارے میں، منیر نیازی کے بارے میں یا عادل منصوری کے بارے میں تو ظاہر ہے کہ بیوقوفی ہوگی اگر میں دلیل کے لیے کہوں کہ صاحب کتنا اچھا شعر کہا ہے کیونکہ غالب نے بھی لکھا ہے میر نے لکھا ہے۔ ایسا نہیں ہے لیکن ہاں جہاں فکری یا تصوراتی طریق کار کی مشابہتیں ہوتی ہیں، میں ضرور انہیں سامنے لاتا ہوں۔ 

    سوال: کیا مشرقی اور مغربی جدیدیت میں کوئی بنیادی فرق ہے؟ مغربی ادب کی جدیدیت نے ادب میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور مشرقی جدیدیت کے کارنامے ان کے مقابلے میں کہاں ٹھہرتے ہیں؟

    جواب: آخری سوال کا جواب تو یہ ہے کہ کچھ کہنا ابھی مشکل ہے، یہ بہت دن میں طے ہوگا جدید خیالات مغرب میں سو سوا سو برس پہلے آئے ہیں۔ بلکہ کچھ پہلے بھی کہہ سکتے ہیں ہم، کیونکہ وہاں جب یہ تصور قائم ہوا کہ جس چیز کو کہ Enlightenment کہتے ہیں، روشن خیالی کہتے ہیں۔ روشن خیالی یا روشن فکری کو جب ناکام دیکھا گیا، یہ دیکھا گیا کہ روشن فکری کے ذریعے سے انسانی مسائل حل نہیں ہوسکتے تو پھر ہر جگہ سوالیہ نشان لوگوں نے لگانا شروع کیا۔ فرانس میں Symbolists نے اور جرمنی کے Expressionists نے۔ انگریزی میں Edwardious کے بعد جو شعرا آئے ۱۹۱۵ء کے آس پاس جن میں الیٹ Eliot بھی شامل ہے، یہ کام کیا۔ اس طرح وہاں جدیدیت کی عمر زیادہ ہے، اور یہ بھی ہے کہ وہ لوگ آہستہ آہستہ ایک فکری ارتقا کے طور پر قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے اس منزل پر پہنچے۔ ہمارے یہاں یہ معاملہ ہے کہ ہم لوگوں کی پچھلی سو برس کی جو تاریخ ہے، بلکہ کچھ اور زیادہ وہ گویا تھی ہی نہیں۔ ہمارے یہاں یہ ہوا کہ انگریزی تعلیم کے پھیل جانے کی بناپر ہماری تاریخ بیچ میں سے غائب ہوگئی۔ ہمارا رشتہ میر سے، غالب سے، سوز سے، قلی قطب شاہ سے، غواصی سے، مصحفی سے اس طرح کا نہیں رہ گیا جو ایک جدید انگریزی کا تعلق Spenser یا Pope سے ہے۔ ان کے یہاں تو ایک تسلسل باقی تھا۔ ہم لوگوں نے جدید خیالات کو جب اختیار کیا تو ایک طرح سے مغربی اثر سے دور ہونے پر اختیار کیا۔ جب مغربی اثر سے ہم آزاد ہوئے اور ہمیں پتہ لگا کہ مغربی سائنس اور مغربی فلسفے میں ہر بیماری کا علاج نہیں ہے تو جدیدیت پیدا ہوئی ہمارے یہاں تو یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ 

    سوال: مشرقی جدیدیت کے کارنامے مغربی جدیدیت کے مقابلے میں کہاں ٹھہرتے ہیں؟

    جواب: میں نے آپ سے پہلے ہی کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ مقابلہ کریں، موازنہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ موازنہ کرنا ہی چاہتے ہیں تو یہاں کا معاملہ ۳۰۔ ۳۵۔ ۴۰ برس کا ہے۔ ان کے یہاں تو سو برس سے زیادہ سے چل رہا ہے، اس لیے ان کے یہاں ایسے کارنامے وجود میں آچکے ہیں جن کو ہم Modernism کے کارنامے کہتے ہیں۔ 

    الیٹ کی نظم The waste land ۱۹۹۲ میں سامنے آئی۔ اسی سال جوائس Joyce کا ناول Ulysses سامنے آیا۔ جرمن اور روسی اور فرانسیسی ادب میں نیا سیلاب آیا۔ تو اس طرح سے ایسے کارنامے بھی وجود میں آچکے ہیں ان کے یہاں جو کہ آج سے ۵۰۔ ۶۰۔ ۷۰۔ ۸۰ برس پہلے لکھے گئے تھے۔ تو وقت مل چکا ہے ان کو اپنے آپ کو قائم کرنے کا۔ ہمارے یہاں کہاں وقت ملا؟ ہمارے یہاں جو کہا گیا پچھلے ۲۵۔ ۳۰۔ ۴۰ برس میں اس میں کتنا اگلے ۵۰ برس تک قائم رہے گا۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 

    سوال: کیا جدید غزل میں بڑی شاعری کے امکانات ہیں؟

    جواب: امکانات یقیناً ہیں۔ لیکن وہ امکانات کب بروئے کار آئیں گے اور کیا وہ امکانات بروئے کار بھی آچکے ہیں، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، ’’بڑے‘‘ کا تصور ادب میں ہمیشہ دو چیزوں سے قائم ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس ادب کو یا اس تحریک کو معاصرین نے اور بعد کے لوگوں نے کس حد تک قبول کیا؟ اسے کس حدتک اپنے تجربے کا حصہ بنایا اور کس بنا پر بنایا؟ دوسری بات یہ کہ ادبی معاشرے میں کیا کوئی ایسے قوانین اور اصول اور حالات موجود تھے جن کی روشنی میں بے تکلف ہم یہ کہہ سکیں کہ ہاں وہ معاشرہ اس شاعر کو بڑا شاعر مانتا تھا۔ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ ظاہر بات ہے کہ جدیدیت کو بہت کم دن ابھی ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے دس پندرہ سال کے بعد کوئی بڑا شاعر پیدا ہوجائے یا آج کے شعرا میں سے کوئی شاعر بڑا شاعر مان لیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا ادبی معاشرہ ابھی بہت منتشر ہے۔ مثلاً پہلے زمانے میں بڑی حدتک لوگوں کو غالب کے بارے میں اتفاق تھا کہ غالب بڑے شاعر ہیں۔ جو لوگ یہ قصہ سناتے ہیں کہ غالب کی قدر ان کے زمانے میں نہیں ہوتی تو جھوٹ کہتے ہیں۔ قدران کی بہت تھی اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آپ گن لیجیے کہ غالب کے شاگرد کون تھے اور کہاں کہاں تھے؟ ذوق کے شاگرد مدراس سے لے کر لاہور تک اور سورت اور احمد آباد سے لے کر کلکتہ تک پھیلے ہوئے تھے؟ غالب کے سوا کوئی تھا نہیں۔ تو یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ غالب کی قدر نہیں تھی۔ یہ تو ہم لوگوں نے ایک قصہ گڑھ لیا ہے کہ غالب اپنے دور میں بڑے شاعر نہیں مانے جاتے تھے۔ بہرحال، غالب کے دور تک Literary Community یا جو ادبی معاشرہ تھا تو اس ادبی معاشرے کا اکثر باتوں پر اتفاق رائے تھا۔ آج کا ادبی معاشرہ اتنا بکھرا ہوا ہے کہ وہ کسی ایک بات پر اتفاق رائے نہیں رکھتا۔ اقبال تک کے بارے میں اتفاق رائے مشکل ہے۔ لہٰذا راشد یا میراجی یا فیض اور ان کے بعد کے شاعروں کے بارے میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔ اب دیکھیے کہ انگریزی میں Yeats ہے، الیٹ ہے یا فرانسیسی لکھنے والوں میں سارتر Sartre ہے، کامیو (Camus) ہے یہ اپنے زمانے ہی کے ادبی سماج میں پوری طرح سے قائم ہوچکے تھے کہ ہاں یہ ہمارے بڑے لوگ ہیں۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ کامیو کو مرے ہوئے آج ۴۰سال ہوگئے۔ وہ ۱۹۶۰ میں مرا تھا۔ اس کے ناول پھر بھی پڑھے جارہے ہیں۔ سارتر کے اچھے ناول، ڈرامے جو ۷۰ سال پہلے لکھے گئے تھے۔ ۲۰۔ ۳۰۔ ۴۰ میں، آج بھی وہ پڑھے جارہے ہیں تو ان کے بارے میں دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ان سے ہمارا زمانی فاصلہ بھی ہے اور اس کے باوجود وہ مقبول ہیں۔ اور وہ اپنے زمانے میں بھی، اپنیLiterary Community میں، بڑے مانے جاتے تھے۔ تمہیں خیال ہوگا جب پولس کے محکمے نے ڈی گال کو مشورہ دیا کہ سارتر کو قید کر دیا جائے تو ڈی گال نے جواب دیا، کیا میں فرانس کو قید کردوں؟ ہمارے یہاں ابھی دونوں باتیں نہیں ہیں۔ آج یہ بھی نہیں ہے کہ کسی ایک کے بارے میں سبھی لوگ اتفاق رائے رکھتے ہوں، مثلاً فراق کے بارے میں سب لوگوں کا اتفاق نہیں ہے۔ فیض کے بارے میں کچھ لوگوں کا ہے۔ کچھ لوگوں کا نہیں ہے۔ باقی لوگ معرض سوال میں ہیں، راشد کیا، میراجی کیا اور اخترالایمان کیا، منٹو اور بیدی اور کرشن کیا۔ لہٰذا ایک تو یہ اور دوسری بات کہ فاصلہ بھی ابھی نہیں ہوا، یہ لوگ کم و بیش ہمارے معاصر ہیں، دور نہیں گئے ہیں۔ 

    سوال: اردو شاعری میں لسانی تشکیلات کا عمل جدیدیت کے دور میں نمایاں نظر آتا ہے۔ کیا یہ عمل اس زمانے میں درست تھا یا اس زمانے میں درست ہے؟

    جواب: یہ عمل کوئی ایسی چیز تھوڑی ہے جو ایک خاص زمانے میں ہو۔ ہمارا رویہ ہے کہ شاعری یا ادب زبان کا عمل ہے اور الفاظ کے ذریعے خوبصورتی خلق کرنے کا عمل ہے۔ ادب کے لکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ ادب بنیادی طور پر لفظی کارگزاری ہے اس کے پیچھے کوئی سماجی مقصد یا کوئی اصلاحی نظریہ یا پروگرام نہیں ہے بلکہ وہ الفاظ کو مجتمع کرکے ایک معنی خیز بیان مرتب کرتا ہے۔ تو اسے اس زمانے میں افتخار جالب نے اور دوسرے نقادوں نے یہ نام دیا کہ ادب ایک Linguistic Construct ہے۔ اسے انہوں نے اردو میں لسانی تشکیل کہا۔ تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ایک زمانے میں ہوتی ہے۔ یہ کوئی موسم کا پھل نہیں ہے کہ آم گرمی میں اور سنگترہ سردی میں ہوتا ہے۔ ادب کے بارے میں یہ ایک رویہ ہے جو تب بھی درست تھا اور اب بھی درستہ ہے۔ اگر ادب سے یہ مراد لی جائے کہ الفاظ کو معنی خیز طور پر مجتمع کرنے کا نام ہے تو یقیناً یہ بات آج بھی صحیح ہے اور کل بھی صحیح تھی۔ 

    سوال: جیسا کہ ظفر اقبال اور عادل منصوری اور صلاح الدین محمود وغیرہ نے تجربے کیے ہیں تو کیا یہ رائج ہوسکیں گے؟

    جواب: یہ تو مختلف طرز ہیں شعر گوئی کے اور ان میں سے کچھ مقبول ہوں گے، کچھ نہیں ہوں گے۔ بنیادی بات یہ نہیں ہے کہ کتنے مقول ہوئے؟ بلکہ بنیادی بات یہ ہے کہ ان کا اثر کیا پڑا؟ ظفر اقبال نے یا صلاح الدین محمود نے یا عادل منصوری نے یا افتخار جالب نے ایسے اشعار لکھے، اس طرح کی نظم لکھی، تو اس سے یہ فائدہ لوگوں کو ہوا کہ لوگوں کی ہمت کھلی اور انہیں معلوم ہوا کہ ہاں شاعری اسے بھی کہتے ہیں۔ شاعری ایسی بھی ہوسکتی ہے۔ شعر کہنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہر بات کو جیسے لوگ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۲۵ء میں کہا کرتے تھے، اسی پر ہم عمل کریں اور راستے بھی نکالے جاسکتے ہیں۔ تو یہ ایک آزادی کی ہوا جو چلی ادب کے میدان میں، زیادہ اہم بات ہے۔ لیکن افتخار جالب کے جو انتہائی نمونے تھے۔ ان میں ایک خاص بات تھی کہ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ نہ ان کی نقل ممکن تھی نہ ان سے اثر لینا ممکن تھا۔ سوائے اس کے کہ اس طرح سے اثر لیا جائے نمونے کے طور پر، کہ صاحب ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ تجربہ مقبوبل ہوجائے تو اچھی بات ہے مگر ضروری بات یہ ہے کہ آدمی تجربہ کرتا ہے تو اپنی ہمت کا اظہار کرتا ہے۔ 

    سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جدید افسانے جسے تجریدی افسانہ بھی کہا جاسکتا ہے اس نے ایک طرح سے اپنی سپرڈال دی ہے۔ تو کیا فکشن میں جدیدیت کمزور ہوتی جارہی ہے؟

    جواب: جدیدیت اور تجریدی افسانہ بالکل ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی تحریر تجریدی افسانہ نہ ہو لیکن جدید افسانہ پھر بھی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تجریدی افسانہ ہو اور میں اسے جدید نہ کہوں۔ تجریدی افسانہ ایک زمانہ میں بہت مقبول ہوا تھا جس طرح کہ Anti غزل کا ایک میلان تھا۔ وہ لوگ یہ کہنا چاہتے تھے کہ افسانے کی جو روایت یا جو ضابطے پریم چند سے لے کر ہمارے اوپر جاری کیے جارہے ہیں، ہم ان کو نہیں مانتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ افسانہ بنانے کی اور بھی شکلیں ہوتی ہیں۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ افسانے میں پلاٹ کو اور واقعات کو اس طرح پیش کریں جس طرح پریم چند اور ان کے ساتھی پیش کرتے تھے۔ پھر یہ کہ افسانے میں بھی مشکل کہنے کا رجحان پیدا ہوا جیسا کہ نظم میں تھا، غزل میں تھا۔ مشکل کہا جائے مبہم کہا جائے، زیادہ معنویت پیدا کی جائے۔ یہ کوشش تھی۔ لیکن یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ہمیشہ ہی جدیدیت کے ہم معنی ہوں۔ ایک زمانہ تھا ان چیزوں کا اور ان سے فائدہ بھی بہت ہوا۔ تو اگر ایسا افسانہ آج نہیں لکھا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس افسانے نے اپنا کام پورا کرلیا۔ یہ بھی ہے کہ افسانے سے جو توقعات تھیں لوگوں کو وہ آج بہت بدل گئی ہیں۔ جس طرح کا افسانہ پریم چند لکھتے تھے اس طرح کا افسانہ اگر آج آپ لکھیں تو اسے کوئی پڑھے گا بھی نہیں، کیونکہ وہ افسانے آج اپنی معنویت کھوچکے ہیں۔ اور جدید افسانے نے افسانے کی طرز کو اتنا بدل دیا ہے کہ براہ راست اظہار اور بیان کا وہ رنگ کہ جس میں ہر بات پہلے سے معلوم تھی کہ جو غریب آدمی ہوگا وہ اچھا ہوگا اور امیر آدمی ہے وہ برا ہوگا، جو دیہات کی لڑکی ہے، وہ معصوم ہوگی جو شہر کا لڑکا ہے وہ بدمعاش ہوگا، طوائف ہے تو یقیناً وہ بہن بھی ہوگی، بیٹی بھی ہوگی، شہر کی لڑکی ہے یونیورسٹی میں پڑھتی ہے تو وہ بے وفا بھی یقیناً ہوگی۔ اس طرح کے جو عمومی تصورات اور اوہام تھے ان پر اب افسانہ نہیں قائم ہوسکتا۔ اور افسانے میں جدیدیت کا مطلب یہی ہے کہ تصورات کی جو پہلے سے سوچی ہوئی Position اور رویے جو دوسرے لوگوں کے ہم پر جاری کیے گئے تھے۔ اس سے ہم انکار کرتے ہیں۔ جدید افسانہ تجریدی افسانہ بھی ہے اور نہیں بھی، ممکن ہے تجریدی افسانہ نہ ہو مگر جدید نہ ہو۔ 

    سوال: آج کل ہمارے ادب میں بحث کا ایک موضوع مابعد جدیدیت ہے۔ کیا آپ کے نزدیک کوئی ایسا نظریہ ہے جسے مابعد جدیدیت قرار دیا جائے؟ یا جس کے ہونے کا اعتراف کیا جائے؟

    جواب: مابعد جدیدیت پرکوئی بحث وحث تو نہیں ہو رہی ہے ہاں کبھی کبھار کوئی لکھ دیتا ہے یہ کوئی ایسی بحث نہیں ہے جسے ہم جدید صورت حال کا حصہ قرار دیں۔ وہ لوگ خود یہ کہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت کوئی نظریہ نہیں کوئی فلسفہ نہیں، بلکہ یہ ایک صورت حال ہے۔ وہ لوگ دوباتیں کہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی ادبی نظریہ نہیں ہے، دوسری یہ کہ ہم ہرنظریے سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ چلیے مان لیجیے نظریہ نہیں ہے کوئی، آپ ہر نظریے سے عاری ہیں۔ تو لکھنے کے لیے تو کوئی نظریہ چاہیے نہ۔ ہوسکتا ہے، آپ کے پاس کوئی فلسفیانہ نظریہ نہ ہو، کوئی عقیدہ نہ ہو، کوئی تصوراتی نظام نہ ہو۔ لیکن لکھنے کا طریقہ تو معلوم ہوگا؟ لکھنا تو پڑے گا نہ؟ بغیر لکھے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم آپ کو بتاسکیں کہ کسی چیز کو ہم کیا کہیں گے؟ اور لکھنا بھی تو نظریے کی بات ہے۔ غزل کہنا بھی نظریاتی کارگزاری ہے۔ تو مابعد جدیدیت ہمارے ادب کے لیے ہماری ادبی صورت حال کے لیے کوئی معنی رکھتی ہی نہیں ہے۔ مغرب میں مابعد جدیدیت کا ایک ریلا چلا تھا وہ اس طرح چلا تھا کہ جدیدیت نے انسان کی تخلیقی قوت کو اس کی آخری پناہ گاہ قرار دیا تھا کہ سائنس یا سماجی علوم یا فلسفے جو کہ تمام مسئلوں کا حل رکھنے کا دعوی رکھتے تھے وہ سب ناکام ہوگئے ہیں، لیکن اگر انسان اپنی تخلیقی قوت کے بل بوتے پر رہے تو یقیناً کائنات میں اپنی جگہ بناسکتا ہے۔ یہ نکتہ جدیدیت کا بنیادی مرکز تھا۔ 

    اب مابعد جدیدیت والے کہتے ہیں کہ ہم اس کو بھی نہیں مانتے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں رہ گئی ہے جسے انسان کی تخلیقی قوت کا نام دے سکیں اور جس کے بل بوتے پر کائنات میں معنی تلاش کیے جاسکیں۔ لیکن یہ بات غلط ہے۔ جس نے لکھنا شروع کیا یا جو لکھ رہا ہے وہ یقناً اپنی کائنات بنارہا ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہمارے پاس کوئی کائنات یا ایسی کوئی جائے پناہ نہیں ہے جہاں ہم بیٹھ سکیں۔ جہاں انسان کی عظمت یا انسان کی بنیادی معنویت کا اعتراف کرسکیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ معنی کچھ نہیں ہے اور لفظ کے اندر کوئی شیئت نہیں، لفظ محض علامت ہیں۔ تو یہ صحیح ہے۔ لیکن لفظ جس شے کی نمائندگی کرتا ہے اس شے کا وجود کہیں نہ کہیں تو ہوگا۔ اور اگر اس شے کا وجود کہیں نہیں ہے تو پھر آپ کس معیار پر قائم ہوکر ظلم کے خلاف، بے ایمانی کے خلاف، ناانصافی کے خلاف، لڑسکتے ہیں؟ اگر معنی کا وجود نہیں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سچائی ایک قابل قدر چیز ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ ایک غلط شے ہے؟ اگر جھوٹ کے کوئی معنی نہیں ہیں تو اسے غلط بھی نہیں کہنا چاہیے؟ اگر بے ایمانی، ناانصافی کے کوئی معنی نہیں ہیں تو اسے غلط بھی کہنا نہیں چاہیے۔ تو معنی کے انکار سے یہ مراد نہیں ہوسکتی کہ معنی کا وجود ہی نہیں ہے۔ 

    سوال: نئی نسل (۱) خاص طور سے جدیدیت سے اپنی عام بیزاری کا اعلان کر رہی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ ہماری شناخت الگ ہے، ہماری تخلیقات کو نئے ادبی اصولوں پر رکھاجائے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل جدیدیت سے مطمئن نہیں ہے؟ یا یہ ایک طرح کی سیاست ہے جس کے ذریعے جدید نظریات یا آپ کے مرتب کردہ اصولوں کو پسپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

    (۱) نئی نسل خاص طور سے ۱۹۸۰ کے بعد کی نسل شمس الرحمن فاروقی کے اسلوب اور اصول و نظریات کے اثرات قبول کر رہی ہے۔ اس بحث کے لیے دیکھیں فاروقی محو گفتگو جلد دوم۔ 

    جواب: دیکھیے جناب! میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ کوئی سیاست ہے۔ اگر ادبی معاملات کا فیصلہ سیاست سے ہونے لگے تو یہ ادب کے لیے بڑے افسوس کی بات ہوگی۔ لیکن میرے خیال میں سیاست وغیرہ اس میں چل نہیں سکتی۔ رہی بات نئے لوگوں کی تو اگر کچھ نئے لوگ کچھ نوجوان لوگ اپنے آپ کو جدیدیت سے الگ قرار دیتے ہیں تو قراردیں۔ وہ ان کا حق ہے بالکل۔ جدیدیت کوئی فوج تو ہے نہیں، جس میں آدمی کو بھرتی کیا جائے۔ ڈنڈامار مار کر سکھایا جائے کہ Left-Right مارچ کرو۔ جدیدیت تو ایک رجحان ہے، ایک طرز فکر ہے۔ ایک تصور ہے، ادب کے بارے میں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، تو نہ سہی۔ رہی بات یہ کہ آپ جدیدیت سے الگ ہیں اور آپ کے لیے ایک نیا معیار قائم کیا جائے تو آپ ضرور قائم کیجیے ہم آپ کو منع تو نہیں کرتے۔ جب ہم نے جدیدیت کی بات شروع کی تو اپنا معیار خود لے کر آئے۔ اپنا نقاد بھی لے کر آئے۔ تو آج اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ہم جدیدیت سے الگ ہیں تو ضرور الگ رہیے۔ مگر ہم سے یہ توقع نہ رکھیے آپ کہ آپ کے بارے میں ہم دلیل ڈھونڈیں۔ جو دعویٰ رکھتا ہے وہ دلیل لاتا ہے۔ ۱۹۸۶ء میں مجھ سے سوال پوچھا گیا اسلام آباد میں کہ جناب آپ نئے لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے، حالانکہ آپ نے اپنے بہت سے معاصروں پر لکھا ہے تو میں نے کہا کہ اول تو میرے اوپر یہ کوئی فرض تو ہے نہیں کہ میں سب پرلکھوں۔ میری اپنی مرضی ہے جس پر چاہوں لکھوں۔ دوسری بات یہ کہ آپ لوگ نئے لکھنے والے ہیں، اپنے نقاد لے کر آئیے۔ ہم اپنے نقاد لے کر آئے تھے۔ ترقی پسند اپنے نقاد لے کر آئے تھے۔ 

    سوال: ایک سوال جدیدیت کے متعلق ہے فاروقی صاحب۔ ایک صاحب نے جن کا نام بلراج کمار ہے اپنے مضمون مطبوعہ شاعر ممبئی میں کہا کہ جدیدیوں نے مغربی اصطلاحات اور موضوعات تو مستعار لیے لیکن وہ مشاہدے اور تجربے سے عاری رہ گئے۔ یعنی یہاں تکنیک کی سطح پر نظر آنے والی تبدیلیاں مشاہدے اور تجربے سے خالی ہیں تو کیا یہ درست ہے؟

    جواب: یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہت پہلے بھی لوگ اس بات کو کہہ چکے ہیں کہ جدیدیت مغرب کی نقل ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اس میں دو باتیں مجھے کہنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نقل کوئی بری چیز تو ہوتی نہیں۔ اگر نقل سے فائدہ پہنچے تو کیا حرج ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مصوری سیکھنا چاہیں تو آپ کو نقل کی مشق کرائی جائے گی۔ آپ کو لے جاکر بیٹھا دیا جائے گا کسی Museum میں اور کہا جائے گا کہ فلاں تصویر کی نقل بناکر لاؤ۔ کیونکہ جس طریقے سے برش لگا ہے، جس طرح کے رنگ لگے ہیں، جس طرح کی لکیریں کھینچی ہیں۔ اس کو سیکھنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کی Painting ہو اور آپ اس کی نقل بنادیجیے۔ اگر آپ موسیقی سیکھنے جائیے تو آپ سے کہا جائے گا کہ بڑے غلام علی خاں صاحب کی طرح آپ بھی گائیے۔ تو اس میں بری بات کیا ہے؟ تو نقل خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ پتہ نہیں کیوں لوگ نقل کو خراب سمجھتے ہیں۔ نقل تب خراب ہے جب آپ کسی چیز کو سمجھے بغیر نقل کرنا شروع کردیجیے۔ جب ہم کو اپنے بیان کے لیے، اپنے اظہار کے لیے نمونے کی تلاش ہوتی ہے تو جہاں سے ملتا ہے وہاں سے لاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جدیدیوں نے مغرب کی اندھی نقل کی۔ ہمارے ادب میں مغرب کی نقل کا جو دور تھا وہ اس صدی کے آغاز میں تھا، کوئی ۱۹۲۰ء تک چھوٹے موٹے انگریزی شاعروں کے جو کہ ہائی اسکول انٹرمیڈیٹ وغیرہ کے کورس میں تھے ان کی شاعری کے ترجمے اس وقت ہم لوگ خوب کر رہے تھے۔ شاعر صاحب نے کچھ کہا۔ ترجمہ کچھ اور ہوا، کیونکہ زبان کا بہت زیادہ شعور نہ تھا۔ اور ادبی اسالیب سے بالکل واقفیت نہ تھی۔ کسی غیرزبان کی نظم کا ترجمہ یوں نہیں ہوسکتا کہ آپ اس زبان کے اسالیب ادب سے واقف نہ ہوں اور ترجمہ شروع کردیں۔ ارے بھائی افکار کی بنیاد میں کسی کا Copyright تو ہے نہیں۔ جہاں سے اچھے افکار ملیں گے وہاں سے لیے جائیں گے۔ جدیدیوں نے بہت سے مغربی افکار کو رد بھی کیا۔ ناقبول بھی کیا۔ کچھ چیزوں کو قبول بھی کیا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا۔ میں کہتا ہوں کہ سب سے زیادہ نقال تو ترقی پسند لوگ تھے۔ ہمارا تو یہ کہ ہم نے اپنے لوگوں کو پڑھا، ڈھونڈا، دریافت کیا۔ ہم نے اپنے یہاں کی سنسکرت کو دیکھا۔ عربی فارسی کو دیکھا۔ اودھی کو دیکھا، برج کو دیکھا۔ کچھ نکالا، کچھ نہیں نکالا، مگر ہم نے دیکھا تو کہا کہ ہاں یہ بھی ہمارے لیے معنی خیز ہیں۔ ترقی پسند لوگوں نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ان کے یہاں تو بس مارکس اور لینن وغیرہ ہیں اور کیا ہے ان کے پاس اس کے علاوہ؟

    سوال: اب آپ سے مابعد جدیدیت کے متعلق ایک اور سوال۔ مابعد جدیدیت کے حامیوں کا خیال ہے کہ نئی نسل کے سامنے آج مذہبی، لسانی، معاشی، اور سیاسی سطح پر جو مسائل ہیں ان کے ڈانڈے نہ تو جدیدیوں سے ملتے ہیں نہ ترقی پسندوں سے، یعنی ان کے نزدیک نئی نسل کے مسائل بالکل الگ ہیں۔ اس لیے ان کے اظہار کے لیے انہیں اپنی ادبی تھیوری کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ آپ کے نزدیک یہ کہاں تک درست ہے؟

    جواب: درست ہے، بالکل مناسب ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے مسائل مختلف ہیں اور آپ کے حالات مختلف ہیں۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کسی نئی تھیوری کی، تو لائیے ضرور لائیے۔ ہم کب منع کرتے ہیں؟ لیکن یہ دکھادیجیے کہ آپ مختلف کہاں سے ہیں؟ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جنگ عظیم کے بعد ہماری آزادی کے بعد انسان نے کئی چیزیں حاصل کیں، کئی چیزیں گنوائیں۔ مثلاً ہمارا یہ خیال تھاکہ آزادی حاصل ہوتے ہی ایک سنہرا دور آجائے گا۔ چندرگپت اور اکبر کا زمانہ آجائے گا۔ جہاں کے لوگ سونا اچھالتے پھریں گے۔ بھوک ختم ہوجائے گی اور ظلم ختم ہوجائے گا۔ لیکن ختم تو کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ کچھ بڑھ گیا۔ ظلم بڑھ گیا۔ بے ایمانی بڑھ گئی۔ فرقہ واریت بڑھ گئی۔ ہم کو ایک بہت بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ فیض کی نظم پر ترقی پسندوں نے اعتراض کیا کہ یہ نظم ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس میں مایوسی نظر آتی ہے۔ 

    کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

    کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

    چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

    تو ۱۹۴۷ء کے بعد جو ہمیں دیکھنا پڑا، وہ اتنا خراب تجربہ تھا ناکامی اور مایوسی کا کہ پورے اس نظام پر، پورے آدرش کے نظام پر، ہمیں نظرثانی کرنی پڑی۔ جنگ عظیم ختم ہوئی معلوم ہوا ۳۰۔ ۳۵ کروڑ آدمی مرگئے اور اس میں زیادہ تر غیرفوجی تھے۔ معلوم ہوا ۵۰۔ ۶۰ لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیونکہ وہ یہودی تھے۔ نہ ان کا کوئی اور قصور تھا نہ وہ چور تھے نہ بدمعاش تھے۔ محض نسل کے نام پر قتل کردیے گئے۔ کروڑوں انسانوں کو آزادی سے محروم رکھا گیا۔ معلوم ہوا ایک بم گرادیا گیا۔ ہیروشیما پر اور دس بیس لاکھ آدمی مرگئے۔ تو اس طرح یہ پتہ لگا کہ انسان کو اپنی ہی نوع کے اوپر ظلم کرنے کا کتنا شوق ہے اور اس پر طرہ یہ کہ یہ انسان اپنے کو بڑا ہی سمجھ دار اور نفیس کہتا ہے۔ نصف صدی کے ختم ہوتے ہوتے ہمارے سامنے جو بھی آدرش تھے۔ جو بھی آئیڈیل تھے وہ سب شکست ہوگئے اور اس کے نتیجے میں جدیدیت کے احساس نے جنم لیا کہ اب نہ سیاست میں پناہ ہے نہ سائنس میں پناہ ہے۔ یہ سب دھوکا دینے والے ہیں۔ غلط یا صحیح لیکن یہ خیال تھا ان کا۔ آج ۱۹۹۹ء ہے۔ دوسرا نصف ختم ہو رہا ہے صدی کا۔ تو ٹھیک ہے اگر آج کی نسل کو یہ خیال آرہا ہے کہ آج ہمارے مسائل بدل گئے ہیں، آج وہ مسائل نہیں ہیں جو ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے زمانے میں تھے۔ کوئی بات نہیں۔ بیان کردیں وہ کیا مسائل ہیں۔ اور ان مسائل کے لیے کوئی نیا طرز چاہیے تو کہیں، جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ ہمارے مسائل نئے ہیں۔ ہمارے لیے ایک نیا طرز چاہیے۔ 

    بقول ناصر کاظمی،
    میری نوائیں الگ میری فضائیں الگ
    میرے لیے آشیاں کوئی نیا چاہیے 

    تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہماری باتیں بالکل الگ ہیں۔ اگر آج کے زمانے کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے مسائل بدل گئے ہیں تو بتائیں کہاں بدلے ہیں؟ اور اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے بدلے ہوئے مسائل کے لیے ضرورت ہے ہمیں ایک نئے طرز اظہار کی تو یقیناً بہت مبارک بات ہے طرز اظہار لائیے۔ آپ کو ہم منع نہیں کرتے۔ 

    سوال: نارنگ صاحب کاخیال یہ ہے کہ جدیدیت ہمارے یہاں اس وقت پہنچی جب مغرب میں اس کا دور ختم ہوچکا تھا۔ کیاآپ نے ان کا یہ مضمون ’’کتاب نما‘‘ میں دیکھا ہے؟

    جواب: نارنگ صاحب کا وہ مضمون میرے سامنے ہو تو بتاؤں مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ ضرور کہیں کہا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں ہندوستان میں جدیدیت عام ہوئی۔ اس وقت مغرب میں اس کا رواج کمزور پڑچکا تھا۔ میرے لیے اس بات کا ماننا ذرا مشکل ہے کیونکہ جدیدیت سے اگر یہ مراد لی جائے کہ انسان اپنی تخلیقی قوت پر کائنات فہمی کا مدار رکھے، ذہن کو انسان کی آخری پناہ گاہ قرار دے تو یہ تصور یقیناً ۱۹۶۰ء میں موجود تھا۔ اور اب بھی موجود ہے۔ ہوا یہ ہے کہ اس وقت یورپ میں کمیونزم بالکل فیل ہوگئی اور یوروکمیونزم کا جو تجربہ تھا، وہ بالکل ناکام ہوگیا تھا۔ ۶۹۔ ۱۹۶۸ء کی بات ہے کہ طالب علموں نے یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ صاحب ہمیں ادب کیوں پڑھایا جارہا ہے؟ ہمیں فلسفہ کیوں پڑھایا جارہا ہے؟ ہمیں History کیوں پڑھائی جارہی ہے؟ اس سے ہمیں کیا فائدہ؟ تو گویا انہوں نے بہت بڑا سوالیہ نشان قائم کیا یورپ کے طرز تعلیم اور تصور علم پر۔ ہمیں کیا پڑھایا جارہا ہے؟ یہ ہماری خوشی میں اضافہ نہیں کرتا، بلکہ ہمارے غم میں اضافہ کرتا ہے، کیونکہ یہ کوئی سوال ہمارے حل نہیں کرتا۔ مغربی مفکروں کو اس کا جواب مہیا کرنے میں دشواری ہوئی۔ Euro Communism کا نظریہ یہ تھا کہ وہ کمیونزم جو مارکس نے پیش کیا تھا اس میں یہ تھا کہ انقلاب ضرور آئے گا، خونی انقلاب آئے گا۔ اس کی یہی ایک منطق تھی کہ خونی انقلاب آتا ہے تو زمانہ بدلتا ہے۔ لیکن Euro Communism والوں نے کہا کہ ہم خونی انقلاب میں یقین نہیں رکھتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کمیونسٹ انقلاب آسکتا ہے براہ جمہوریت براہ ووٹ۔ ہمارے یہاں بھی شروع میں کمیونسٹ لوگ کہا کرتے تھے کہ براہ ووٹ انقلاب نہیں آئے گا۔ بندوق سے انقلاب آئے گا۔ ہمارے کمیونسٹ بہت بعد میں جاکر شریک ہوئے ہندوستان کی جمہوری سیاست میں تو یوروکمیونزم نے کہا کہ جناب ہم تو انقلاب بذریعہ ووٹ لائیں گے نہ کہ تلوار اور بندوق سے۔ لیکن افسوس کہ یوروکمیونزم بھی فیل ہوئی تو اس وجہ سے بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ سچائی دنیا میں باقی نہیں رہ گئی ہے۔ جس کو کہ ہم یہ سمجھ کر قبول کرسکیں کہ یہ سارے مسائل کو بیان کرسکتی ہے۔ فرانس کے مشہور فلسفی Lyatard نے کہا کہ کوئی اسم اعظم نہیں رہ گیا یعنی کوئی ایسا Narration نہیں ہے جو پوری دنیا کو محیط ہو۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جدیدیت پر مبنی جو خیالات تھے، شاعری میں، افسانے میں اور فن میں وہ نہیں رہ گئے۔ کچھ دن یہ بات مقبول رہی کہ کوئی مرکزی خیال باقی نہیں رہ گیا کوئی سچائی باقی نہیں رہ گئی۔ سب اقدار قوت و طاقت کی پروردہ ہیں۔ لیکن اب لوگ اس بات پر یقین کم کر رہے ہیں اب لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، انسان کے یہاں ضمیر بھی ہے۔ روح بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ انسان کے یہاں اس کے کچھ نصب العین بھی ہوتے ہیں جو احساس فرض کے عینی تصور پر مبنی ہوتے ہیں۔ خودغرضی ہی انسان کا مقدر نہیں ہے۔ یہ باتیں جدیدیت کہا کرتی تھی، کچھ دن کے لیے وہ پیچھے ہٹ گئی تھی۔ اب وہ پھر سامنے آنے لگی ہے کہ صاحب یہ چیزیں ضروری ہیں۔ تو یہ نہیں کہہ سکتے آپ کہ جدیدیت نے جو طرز قائم کیے تھے سوچنے اور بیان کرنے کے۔ وہ منسوخ ہوگئے ہیں۔ 

    شاید لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ جس طرح فیشن میں ہوتا ہے ویسے ہی ادب میں بھی ہوتا ہے۔ یہ فیشن آیا کہ آج سے پتلون کے پانچے بڑے بڑے ہوں گے تو سب وہی پہنیں گے۔ کل بدل جائے گا تو پتلون کے پانچے تنگ کردیے جائیں گے۔ لیکن ادب میں ایسا نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کے بارے میں جو آج کے مابعد جدید لوگ کہلاتے ہیں Structuralism کہیے یا Post Structuralism یا ساختیات کہیے، پس ساختیات کہیے، جو بھی کہیے۔ ان سب کو میں نے بہت پڑھا تھا لیکن میں نے ان کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے مطلب کے نظر نہیں آئے سوائے فکشن کے۔ فکشن کی تنقید میں یقیناً Structuralism کا ایک حصہ ہے اور میں نے اس کو استعمال بھی کیا ہے۔ تو مطلب میرے کہنے کا یہ ہے کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی ختم ہوتے ہوتے یقیناً ایک لہر آئی تھی یورپ اور امریکہ میں، جس کے نتیجے میں ہر چیز کو معرض سوال میں لایا گیا تھا۔ لیکن جدیدیت ختم نہیں ہوئی۔ اور جدیدیت اس لیے ختم نہیں ہوئی کہ جدیدیت کے جو بنیادی تقاضے تھے وہ موجود ہیں۔ جدیدیت کی اس بات پر کہ سچائی انسان کے اندر ہوتی ہے، اس پر سوالیہ نشان لگایا گیا۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگ پھر ادھر واپس آئے انسان کی مرکزیت پر انسان کی روح اور ذہن کے سچائی پر مبنی ہونے پر انسان میں ایک بے غرض اور محبت کرنے والی شے ہے جسے روح کہیے یا جو بھی کہیے آپ۔ یہ باتیں پھر ہونے لگی ہیں۔ 

    سوال: کہا جاتا ہے کہ آپ کی شاعری بہت مشکل ہے اور آپ شاعری میں مشکل پسندی ہی کے قائل ہیں۔ جب کہ جدیدیت کے کئی شعرا نے آسان زبان استعمال کی اور ان میں سے اکثر کی شناخت آپ ہی کے ذریعے ہوئی۔ 

    جواب: تو کیا ہوا اس میں؟ اپنا اپنا طریقہ ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے شاعری کو کسی بات پر پابندی نہیں کیا۔ ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ شاعری وہی اچھی ہے جو مشکل ہو۔ نہ ہم نے یہ کہا کہ شاعری وہی اچھی ہے جو آسان ہو۔ ہم نے کہا ہے کہ جو اچھا لگے کرو بھائی۔ شاعری تمہارے لیے اوڑنا بچھونا ہے۔ کوئی سلک کا پائجاما پہنتا ہے، کوئی کھدر کا، کوئی ململ کا دوپٹہ اوڑھتا ہے۔ اوڑھتا ہو بھائی ہم کو کیا۔ 

    ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہمارے ایک دوست نوجوان شاعر علی ظہیر صاحب جو کہ حیدرآباد میں رہتے ہیں، آدمی بھی بڑے اچھے ہیں اور شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ جب ایران میں انقلاب آیا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئے۔ اور انہوں نے اس پر نظمیں لکھیں۔ تو پھر ہم سے انہوں نے پوچھا ایک خط لکھ کر کہ میں اپنے آپ کو جدید شاعر سمجھتا ہوں۔ لیکن اب میرے دل میں یہ ہے کہ میں ایرانی انقلاب کے بارے میں کچھ لکھوں۔ تو کیا یہ جدیدیت کے منافی قرار دیا جائے گا؟ میں نے کہا نہیں بالکل نہیں۔ اور اس کے کچھ دن کے بعد جب میں حیدرآباد گیا تو انہوں نے ایک جلسہ کیااور اس بات کو پھر اٹھایا تو میں نے کہا کہ جب جدیدیت یہ کہتی ہے کہ آپ کے جو جی میں آئے لکھیے تو ہم کیسے منع کریں آپ کو انقلاب ایران کے بارے میں نہ لکھیے؟ ہاں اگر علی ظہیر صاحب کہیں کہ جو آدمی انقلابی نظم نہ لکھے وہ شاعر نہیں ہے اگر وہ یہ کہیں کہ جناب جو شخص آیت اللہ خمینی کی تائید میں نہ لکھے وہ شاعر نہیں ہے۔ تو وہ غلط ہے۔ جدید شاعر کہتا ہے کہ جو میرے جی میں آئے گی میں لکھوں گا۔ شاعری اچھی ہوگی تو قبول کی جائے گی اگر اچھی نہیں ہوگی تو باہر نکال دی جائے گی کان پکڑ کر۔ ہم نے یہ کب کہا کہ آیت اللہ خمینی پر ضرور لکھو یا نہ لکھو یا ان کے خلاف لکھو۔ ہم نے تو یہ کہا ہے کہ جو چاہو لکھو۔ 

    ایسی باتیں کوئی کہنا چاہتا ہے جو پہلے زمانے میں نہیں تھیں۔ اس کے لیے زبان موجود نہیں تھی۔ نئی زبان بنائی گئی۔ جب زبان موجود نہیں ہوگی تو شاعر زبان بنائے گا، اور جب نئی زبان بنے گی تو ظاہر ہے کہ اس کے اندر ایک نامانوسیت محسوس ہوگی۔ خوبصورتی سب سے بڑی ہمارے یہاں یہی ہے کہ ہر آدمی کو اپنے رنگ کی آزادی ہے۔ جیسا چاہو ویسا لکھو اچھا لکھو بس۔ یہ بات درست نہیں کہ احتشام حسین جیسا بڑا شخص خود کو اس بات کا پابند قرار دے کہ غمگین غزل لکھو تو ’’ویت نام‘‘ عنوان دو نہیں تو ترقی پسند کہیں گے کہ ترقی پسند ہو کر اس طرح کی غزل لکھ رہے ہو۔ ظاہر ہے کہ شاعر پر ایسی پابندی ناروا ہے۔ 

    سوال: ظفراقبال کی شاعری کو آپ بہت پسند کرتے ہیں۔ آپ نے ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں ظفراقبال آپ کو کھردرے، تلخ و تند لفنگے اور مسٹنڈے نظر آتے ہیں۔ دوسرا وہ جس میں آپ ظفر اقبال کے یہاں کلاسیکی رکھ رکھاؤ، غالب کی پیچیدگی اور بیدل جیسی طباعی نظر آتی ہے۔ ایک ہی شاعر کے یہاں بیک وقت دو مختلف رنگ نظر آتے ہیں اور آپ دونوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

    جواب: وہ کچھ نہیں ہے۔ جو ہے وہ ہے۔ اس میں ہم کیا کریں۔ انتظار حسین نے ایک بات لکھی ہے کہ ظفر اقبال کا کلام ایسا ہے جسے ناند میں بہت سے آم رکھے ہوئے ہیں، پانی میں بھگوئے ہوئے۔ آپ شام کو آئے۔ کھنا شروع کیا تو کوئی آم میٹھا نکلا ہے۔ کوئی کم میٹھا کوئی کھٹا نکلتا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ایک پیڑ کے سبھی آم ایک طرح کہ ہوں گے ارے بھائی فرق تو ہوگا ہی۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ یہ قطعی غلط خیال ہے کہ مثلاً مصحفی کا کوئی رنگ نہیں ہے۔ یہ رنگ کیا ہوتا ہے؟ آٹھ دیوان اس نے لکھے غزلوں کے ایک دیوان قصیدوں کا، دو دیوان اس نے فارسی کے لکھے ہیں، اور آپ اس سے رنگ پوچھ رہے ہیں؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ اپنا رنگ ہونا چاہیے؟ جو آدمی اتنا کچھ لکھ رہا ہے اس کا ایک رنگ کیسے ہوسکتا ہے؟ کس نے کہا ہے؟ کیا خوبی ہے اس بات میں کہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ شاعر وہ بھی اچھا ہوتا ہے جو ہر رنگ میں کہہ سکتا ہو۔ خسرو نے یہ بات ضرور کہی تھی کہ استاد وہ ہے جو اپنی طرز ایجاد کرے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں خود استاد نہیں ہوں۔ یعنی اپنی طرز ایجاد کیے بغیر وہ دنیا کے بڑے شاعروں میں ٹھہرتے ہیں۔ ہم لوگ لے دے کے غالب پر آکر اٹک جاتے ہیں۔ غالب کے یہاں ضرور ایک خاص طرز ملتا ہے لیکن اس پر بھی ناسخ اور شاہ نصیر کا اثر ہے۔ ایک بات یہ ضرور ہے کہ غالب کے یہاں ایسے شعر کم ملتے ہیں۔ 

    بغل میں غیر کی آج آپ سوئے ہیں کہیں ورنہ
    سبب کیا خواب میں آکر تبسم ہائے پنہاں کا

    اور یہ تو بہت پھیکا شعر ہے۔ اس سے حددرجہ شوخ شعر مصحفی نے کہے ہیں، میر نے کہے ہیں۔ لیکن ہم لوگوں کے سامنے غالب کی دیوار ایسی کھڑی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں اگر غالب کے یہاں نہیں ہے تو پھر یہ غزل میں نہیں ہوگا؟ غالب نے بہت سی چیزیں جو کلاسیکی غزل میں تھیں اپنے یہاں نہیں رکھی ہیں مثلاً معشوق سے کھیلنے کا انداز۔ ان کے یہاں طنز ہے ان کے یہاں ظرافت ہے، اوپر ہنسنے کا انداز ہے، اپنے اوپر غصہ کرنے کا انداز ہے۔ لیکن معشوق سے لڑنے کا انداز نہیں ہے جو میر کے یہاں ہے یا ان کے یہاں اس طرح کا پھکڑ پن نہیں ہے، اس طرح کا لفنگاپن نہیں ہے جیسا کہ مصحفی کے یہاں ہے۔ 

    ہم ہیں فقیر اللہ کے یارو پھر ہے اس کا پریکھا کیا
    گر ہم پاس بھی آکر کوئی بہنی مائی بیٹھ گئی

    یہ مصحفی کا شعر ہے یہ ہمت غالب میں نہیں ہے۔ اس طرح کا شہدا پن ان کے بس میں نہیں۔ تو غالب نے بہت سی چیزیں اپنے اوپر بند کر رکھیں ہیں۔ غالب اس معنی میں ضرور ہمارے لیے ماڈل ہیں کہ جدید کو یا پچھلے برسوں کی تمام شاعری کو غالب نے بہت متاثر کیا ہے۔ لیکن کلاسیکی شاعری صرف غالب پر ہی مبنی نہیں ہے۔ 

    اقبال کو لے لیجیے۔ اقبال کے یہاں دسیوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اقبال اگر غالب کے زمانے میں ہوتے تو قصیدے کے بہت بڑے شاعر ہوتے۔ بہت بڑے مثنوی نگار ہوتے اور اب بھی ان کے یہاں حافظ کے رنگ کی غزلیں ملتی ہیں۔ ان کے یہاں غالب کے رنگ کی غزلیں ملتی ہے۔ ان کے یہاں افسانوی شاعری ملتی ہے۔ ڈرامائی شاعری ملتی ہے۔ کون سا رنگ ان کے یہاں نہیں ملتا پھر اقبال کو آپ کیوں نہیں کہتے کہ ان کے یہاں اپنا رنگ نہیں ہے اقبال اتنا تنگ کرتے ہیں لوگوں کو۔ ترقی پسندوں کو انہوں نے بہت تنگ کیا ہے۔ کوئی رنگ ہی نہیں ملتا صاحب کیا کریں کبھی مولوی ہے، کبھی مارکسسٹ ہوا جارہا ہے، کبھی فاشسٹ ہوا جارہا ہے، کبھی رومی کے پیر پکڑے بیٹھا ہے۔ اللہ میاں سے جنگ کر رہا ہے۔ عجیب آدمی ہوتا ہے یہ تو۔ لیکن یہ اقبال کی عظمت ہے۔ 

    سوال: خلیل الرحمٰن اعظمی کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وصف اول کے جدید شاعر تو ہیں لیکن ان کی جو تنقیدی بشارت ہے اس میں وہ کہیں کہیں چوک جاتے ہیں جب کہ جدیدیوں کا خیال ہے کہ ان کی تنقید مستحکم اور مکمل ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

    جواب: پتہ نہیں کس کا خیال ہے کہ تنقید ان کی مستحکم اور مکمل ہے۔ خلیل الرحمٰن اعظمی کی تنقید سے اتفاق تو ہم کرسکتے ہیں لیکن اس میں کمی یہ ہے کہ وہ بہت دور نہیں جاتے۔ ان کے یہاں معلومات بہت ہے اور ان کی رائے اچھی ہوتی ہے۔ لیکن تجزیہ اور گہرائی ان کے یہاں نہیں ہے۔ انہوں نے فراق پر لکھا ہے، آتش پر لکھا ہے۔ ظفر پر لکھا ہے، یہ ان کے ایسے مضمون ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ وہ آتش اور ظفر کے یہاں ان کا اپنا رنگ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ بات نظرانداز کرجاتے ہیں کہ رنگ کی مشکل نہیں تھی ان لوگوں کی۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ جو شاعری کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے شعر کہیں۔ خیر، خلیل الرحمٰن صاحب کی سب سے بڑی اہمیت تو تاریخی ہے۔ اس معنی میں کہ ترقی پسند تحریک کے پورے شباب کا عالم تھا اس وقت انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوئے۔ ۴۶۔ ۴۷ میں انہوں نے لکھنا شروع کیا اور ۱۹۴۸ء تک آتے آتے وہ معروف ہوچکے تھے۔ اس وقت خود ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری تھے علی گڑھ میں۔ لیکن انہوں نے بہت جلد محسوس کرلیا کہ ترقی پسند ادب میں وہ لچک اور گنجائش نہیں ہے جو ادب کی ترقی اور نئے خیالات اور انسان کے تجربات کے اظہار میں کام آسکے۔ جو پابندیاں اور جکڑ بندیاں لگائی جارہی ہیں اس سے ادب کو سکیڑ نے کا عمل پیدا ہو رہا ہے نہ کہ اسے وسعت دینے کا۔ لہٰذا وہ الگ ہوئے اور صاف کہہ کر الگ ہوئے کہ میں الگ ہو رہا ہوں۔ یہ بڑی ہمت کی بات تھی۔ پھر انہوں نے ایسی نظمیں کہیں ایسے شعر کہے۔ ایسے مضمون لکھے جو مشعل راہ ثابت ہوئے نئے لوگوں کے لیے۔ وہ ترقی پسند ہوتے تو وہ بھی آتش کی شاعری کے بارے میں یہی کہتے جو کہ عام طور پر ترقی پسند لوگوں نے کہا کہ ڈھونڈئے تو آتش کے یہاں انقلاب نظر آتا ہے۔ طبقاتی کشمکش بھی نظر آجاتی ہے۔ لیکن خلیل صاحب نے آتش کے فنی پہلوؤں پر، ان کے لہجے کے بانکپن پر زور دیا۔ فراق کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اول درجے کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کے یہاں فنی کمزوریاں بہت ہیں۔ نئی بات بہت کہتے ہیں لیکن لڑکھڑا جاتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے تنقید میں بھی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی روشنی میں ہم اپنے معاصر شعرا کو دوبارہ پڑھ سکے اپنے دور کے اعتبار سے وہ ایک غیرمعمولی شاعر اور نقاد تھے۔ 

    سوال: جدیدیت نے ان چاردہائیوں میں اپنے نظریے کو سمجھانے کے لیے چار ناقد بھی ایسے نہیں دیے جو ۴۵۔ ۵۰ سال کی عمر کے لکھنے والے جن کی ادبی خدمات دو تین دہائیوں پر محیط ہیں اور جن کی تخلیقات قابل توجہ ہیں، ان کی شناخت اور ان کے فن کی ماہیت پر کچھ قابل ذکر یا قابل اطمینان کام کرسکیں۔ 

    جواب: یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ جدیدیت نے ایسے نقاد نہیں دیے۔ نقاد تو موجود ہیں انہوں نے تنقید کے اصول قائم کردیے، انہوں نے بنیادی باتیں بیان کردیں، اپنے نظریات پیش کردیے ادب کے بارے میں۔ اب ان کی روشنی میں آپ ان لوگوں کے بارے میں لکھیے جو بقول آپ کے پینتالیس پچاس برس سے کم عمر کے ہیں۔ اگر تم یہ کہہ رہے ہو کہ جدید نقادوں نے وہ نظریات بیان ہی نہیں کیے جن کی روشنی میں ہم نویں اور دسویں دہائی کے شعرا کو پڑھ سکیں، سمجھ سکیں تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اصول تو انہوں نے بیان کردیے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں جس طرح آپ میر کو پڑھتے ہیں، اقبال کو پڑھتے ہیں اسی طرح آپ بعد کے شاعروں کو بھی پڑھ سکتے ہیں؟

    سوال: ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم اپنے اچھے اور بڑے شعرا کی شناخت ان کی زندگی ہی میں کرلیں یا فوری طور پر کرلیں؟

    جواب: میں کچھ دیر پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کام کے لیے دوشرطیں کم سے کم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شاعر کا اپنا ادبی معاشرہ تقریباً یک زبان ہوکر اسے بڑا مان لے۔ دوسرا یہ کہ اس کے فن کو دیکھنے کے لیے فاصلہ چاہیے۔ فاصلے سے بڑا نظرآئے وہ۔ یعنی اپنے زمانے میں بڑا ہو اور فاصلے سے بھی بڑا نظرآئے۔ یہ دوشرطیں ایسی ہیں کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ Literary History کی Logic سے پیدا ہوتی ہیں، براہ راست اس بات سے پیدا نہیں ہوتیں کہ کسی شخص میں ادبی خوبیاں کتنی ہیں۔ معاصر ادب کا معاملہ ہمیشہ معاصر اور اچھے ادب کا ہوتا ہے۔ بڑے ادب کا نہیں۔ 

    سوال: تو آپ اچھے اور بڑے شاعر میں امتیاز رکھتے ہیں؟

    جواب: میں نے ابھی کہا نا بڑا شاعر وہ ہوتا ہے جسے اس کی زندگی میں ادبی معاشرہ قبول کرلے اور پھر وہ فاصلے سے بھی بڑا نظر آئے۔ یعنی جو امکان ہمیں سامنے سے عظمت کا معلوم ہو رہا تھا۔ چارسو برس کی دوری پر بھی عظیم نظر آرہا ہے۔ اس میں ایسی کوئی کمیت ہے، ایسی کوئی بات ہے۔ وہ Capacity اس وقت ظاہر نہیں ہوگی جب وہ لکھ رہا ہے کیونکہ اسے پتہ ہی نہیں ہے کہ دس برس بعد لوگ کیا چاہیں گے؟ یہ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ آج سے سوبرس بعد، دو سو برس بعد، پانچ سو برس بعد، اس سے کیا مانگا جائے گا۔ تو اس کے بارے میں وہ پہلے سے منصوبہ نہیں بناسکتا۔ اچھا ادیب وہ ہے جو اپنے زمانے کے ادبی معیاروں اور گزشتہ ادبی تہذیب کے ماحول میں بامعنی اور اہم معلوم ہو۔ 

    سوال: ہندوستان اور پاکستان سے ان دنوں جو رسائل شائع ہو رہے ہیں ان میں لکھنے والوں کی خاصی تعداد ایسی ہے جو تمام رسائل میں مشترک ہے۔ وہ ’’شب خون‘‘ ہو یا ’’ذہن جدید‘‘ ’’نیاورق‘‘ ہو یا ’’کتاب نما‘‘ زیادہ تر وہی لکھنے والے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا بھی وہی حال ہے۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اب لکھنے والے نہ ترقی پسند ہیں نہ جدید نہ مابعد جدید؟ ان رسائل پر ترقی پسندی، جدیدیت یا مابعد جدیدیت کے لیبل لگائے جاتے ہیں۔ لیکن لکھنے والے تو وہی ہیں۔ 

    جواب: اس کا جواب تو انہیں سے پوچھیے جو چھپ رہے ہیں۔ اگر مختلف رسائل میں بیش تر لکھنے والے مشترک ہیں اور ان پر کٹر جدید یا ترقی پسند کا لیبل نہیں لگ سکتا تو اس کے ایک معنی یہ ہوئے کہ ایک طرح کا اعتدال پیدا ہوگیا۔ ترقی پسندوں نے بھی اپنا کٹر پن چھوڑدیا ہے اور جدیدیوں نے بھی۔ لیکن ایک معنی یہ بھی ہے کہ ترقی پسندی اب باقی نہیں رہی۔ جو رویہ اور طرز جدیدیوں نے قائم کیا تھا۔ اسی پر زیادہ تر لوگ چل رہے ہیں۔ ورنہ ترقی پسندوں میں یہ لچک کہاں سے پیدا ہوتی جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ ترقی پسند لوگ جن یورپی مارکسی نقادوں کا کلمہ پڑھتے تھے۔ اب ان کا ذکر اور بھی کم نظر آتا ہے۔ مارکسی فکر تو ختم ہے۔ اور اب تو پرانے ترقی پسند بے چارے یہی کہتے ہیں ارے بھئی تمہارے ادب میں ذرا سا کوئی سیاسی معاملہ ہو، ذرا سا اس میں کوئی سماجی شعور ہو، ہم تمہیں ترقی پسند مان لیتے ہیں۔ اب وہ ادیبوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ مارکس کا مقلد ہے کہ نہیں؟ جدیدیت کا معاملہ یہ ہے کہ جدیدیت کے شروع میں ایک لہر آئی تھی۔ وہ اپنے پیش روؤں کا سختی سے انکار کر رہے تھے۔ نظم میں، غزل میں، افسانے میں، ایک انحراف کی شکل پیدا ہو رہی تھی۔ یہ انحراف اب قائم ہوچکا۔ اب یہ بات لوگوں نے مان لی ہے کہ انحراف بھی ہوسکتا ہے افسانے اور شاعری میں۔ اب ضرورت نہیں ہے کہ بار بار اس کو قائم کیا جائے۔ وہ تو ہوگیا۔ سریندر پرکاش کو، بلراج مین را کو، انور سجاد کو، خالدہ اصغر کو لوگوں نے مان لیا کہ یہ افسانہ نگار ہیں۔ گویا یہ طے ہوگیا کہ پریم چند سے یا منٹو سے الگ بھی افسانے کی شکل ہوسکتی ہے۔ ظفر اقبال سے بھلے ہی لوگوں کو کچھ اختلاف ہو لیکن ان کو شاعر ماننے سے وہ انکار نہیں کرتے۔ منیر نیازی کو شاعر ماننے سے انکار نہیں کرتے۔ تو اب جب کہ یہ چیزیں قائم ہوچکی ہیں تو کیا ضروری ہے کہ ہم بار بار اپنے انحراف کا اعلان کریں؟ لہٰذا جو سختی تھی جدیدیت میں وہ کم ہوگئی کیونکہ اس نے اپنا کام کرلیا۔ ترقی پسند تحریک، ترقی پسند لوگوں نے ہر قدم پر مصالحت کرلی۔ جب ترقی پسندوں نے دیکھا کہ ہم مارکس کے، انگلو کے، اور کرسٹوفر کاڈویل کے اور لوکاچ کے کہنے پر چلیں گے تو ہمیں کوئی پڑھے گا نہیں۔ زمانہ ہمیں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ لہٰذا ان کے یہاں بھی اب استعارے کی بات ہوتی ہے۔ اب ان کے یہاں معنی کی بات ہوتی ہے۔ اب ان کے یہاں تشبیہ اور خوبصورتی کی بات ہوتی ہے۔ سردار جعفری پوری کتاب ہی لکھ رہے تھے جس میں ان تشبیہوں اور استعاروں کو بیان کر رہے تھے جو شاعری میں استعمال ہوئے ہیں۔ کل ایسا کرنا ان کے لیے کیا ممکن تھا کہ وہ لکھتے کہ مزدور یا انقلاب کا لفظ کتنی بار آیا ہے، یہ نہیں کہ آتش گل کی ترکیب کتنی بار آئی ہے؟ اس سے کیا معلوم ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل زیادہ تر پرچوں میں ایک طرح کی چیزیں چھپ رہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ جدیدیت کے پوری طرح فتح مند ہونے کی دلیل ہے۔ آج کے زمانے میں ہر طرح کے پرچے نکل رہے ہیں اور ان پر الگ الگ لیبل لگے ہوئے ہیں لیکن مال وہی ہے۔ 

    سوال: لیکن اس سے قارئین تو گمراہ ہوتے ہیں کہ صاحب یہ کس نظریے کے لکھنے والے ہیں؟

    جواب: کوئی گمراہ نہیں ہے۔ قارئین کیوں گمراہ ہیں؟ قارئین کیا بے وقوف ہیں؟ تم لوگ گمراہ ہو رہے ہو تم لوگ بے وقوف ہو۔ ارے بھئی جب تم دیکھ رہے ہو کہ وہی لوگ جو کہ ’’شب خون‘‘ سے متعارف ہوئے، ادبی دنیا میں آئے۔ جنہیں ’’شب خون‘‘ نے افسانہ نگار اور شاعر بناکر پیش کیا، ناقد بناکر پیش کیا، وہی لوگ ان جگہوں میں چھپ رہے ہیں جو خود کو جدیدیت کے مخالف کہہ رہے ہیں تو کیا مطلب ہے اس کا بھئی۔ معاملہ بالکل ظاہر ہوگیا نہ، اس میں گمراہی کی کیا بات ہے گمراہی تو بالکل نہیں۔ 

    سوال: پہلے رسائل میں نئی تخلیق یا فن پارہ آتا تھا، دیکھ کر لوگ چونک جاتے تھے۔ تمام لوگ اس جانب متوجہ ہوتے تھے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے، اس کا ذکر اذکار کرتے تھے۔ لیکن آج رسائل میں کارگزاریوں کی تعریف تو بہت ہوتی ہے۔ لیکن جب تک کسی تخلق کار کی کوئی کتاب منظرعام پر نہ آئے اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ ادب میں میں اس طرح کی تبدیلی کیوں اور کیسے آئی؟

    جواب: نہیں، میرا خیال ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ کوئی کتاب ہی سامنے آئے تبھی لوگ مصنف کو مانیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کتابیں زیادہ چھپنے لگی ہیں۔ کیونکہ امداد مل جاتی ہے مختلف کمیٹیوں سے اور چھاپنے والے بھی مل جاتے ہیں۔ آج کل کتابیں چھپنے کی آسانیاں زیادہ ہوگئی ہیں۔ کمیپوٹر ہوگیا ہے، پریس ہوگیا ہے۔ تمام طرح کی سہولتیں ہوگئی ہیں۔ مجموعے چھپ رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ مجموعہ نہ چھپے تو ہم اسے شاعر یا افسانہ نگار نہ مانیں۔ 

    کچھ دن ہوئے آسٹریلیا کے ایک پروفیسر صاحب آئے تھے مجھ سے ملنے کے لیے۔ وہ اس موضوع ہی پر کام کر رہے تھے، ہندوستان میں اخباروں اور رسالوں کی جو صورت حال ہے۔ ایک بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھی۔ انہوں نے کہا صاحب یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ اردو کے پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں۔ اور کتابیں جو چھپ رہی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے یعنی چارسو پانچ سو۔ اور ایک طرف اردو کے پرچے بہت نکل رہے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں آپ کیا مطابقت کرتے ہیں؟ میں نے کہا مطابقت تو بالکل سامنے کی ہے۔ مطابقت دراصل یہ ہے کہ رسالہ کوئی نہ کوئی پڑھنے والا ضرور ہے۔ چاہے اس رسالے یا اس اخبار کی اشاعت دوڈھائی سو سے زیادہ نہ ہو اور وہ فرضی گنتی لکھ کر سرکاری اشتہار لے لیتا ہے۔ لیکن بیشتر رسالے اور اخبار ایسے ہیں جن کے پڑھنے والے کچھ موجود ہیں۔ پانچ سات سو ہیں، ہزار بارہ سو ہیں۔ کچھ بھی ہیں۔ کتابوں کا پرنٹ آرڈر یقیناً چھوٹا ہوگیا ہے، اس لیے چھوٹا ہوگیاہے کیونکہ رسالے اتنے موجود ہیں اور ان کتابوں کی تخلیقات رسالوں میں پہلے چھپ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، چار رسالے ملک سے نکل رہے ہیں۔ ایک مشرق سے، ایک مغرب سے، ایک شمال سے، ایک جنوب سے۔ ان چاروں رسالوں میں اگر چار افسانے آپ کے چھپ جائیں تو کچھ مشترک پڑھنے والے ہوں گے۔ مان لیجیے پانچ سو پڑھنے والے مشترک ہیں اور تین سو پڑھنے والے غیرمشترک، تو بارہ سو آدمی نئے پڑھنے والے مل گئے آپ کو۔ اس طرح سے آپ کو سترہ سو آدمیوں نے پڑھا۔ چارافسانے چھپوانے کے بعد آپ کی کتاب کا پرنٹ آرڈر اگر کم ہے تو کوئی بات نہیں، کہ رسالے کے ذریعے لوگوں نے آپ کو پڑھ ہی لیا ہے۔ ضرورت نہیں سمجھتے کتاب پڑھنے کی۔ رسالہ موجود ہے۔ رسالوں کی کثرت سے کتابوں کی اشاعت پر یہ اثر پڑا کہ کتابوں کا پرنٹ آرڈر چھوٹا ہوگیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ لوگ خریدتے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہی لوگ خریدتے ہیں جو کتاب جمع کرتے ہیں۔ باقی لوگ پرچوں کو پڑھ پڑھ کر رکھ دیتے ہیں۔ تو اس میں کوئی افسوس کی بات نہیں ہے۔ 

    ایک بات تم نے کہی کہ صاحب کوئی اچھی تخلیق چھپی تو فوراً لوگوں میں اس کا ذکر ہوا۔ سنسنی پیدا ہوگئی۔ دوباتیں ہیں اس میں۔ ایک تو یہ کہ پہلے زمانے میں آج سے ۴۰۔ ۴۲ سال پہلے رسالے ہی کتنے تھے؟ چار پانچ تھے، بمشکل اور وہ بھی گنڈے دار کوئی تخلیق چھپی تو فوراً لوگوں کی نظر میں آجاتی تھی۔ ارے بھئی دیکھا آج فلاں صاحب نے فلاں چیز چھپوائی۔ آج رسالے میں فلاں کی یہ نظم خاص ہے۔ اب تو معاملہ یہ ہے کہ محلے محلے پرچے نکل رہے ہیں۔ تو وہ سنسنی کہاں سے پیدا ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ کم ہی سہی لیکن اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فہمیدہ ریاض کا ناولٹ نما سفرنامہ یا بینی مادھو رسوا(۱) کا غالب افسانہ اور یہاں بھی وہی بات ہے کہ یہ لوگ ہر جگہ نہیں لکھتے۔ 

    (۱) شمس الرحمٰن فاروقی نے کچھ افسانے بینی مادھو رسوا، اور عمر شیخ مرزا کے نام سے بھی لکھے ہیں جو سوار اور دوسرے افسانے کے عنوان سے کراچی پاکستان سے شائع ہوچکا ہے۔ فاروقی صاحب نے شہرزاد اور جاوید جمیل کے نام سے بھی افسانے لکھے ہیں۔ یہ افسانے مجموعہ کی شکل میں جلد ہی منظر عام پر آنے والے ہیں۔ 

    سوال: وہ بات جو پردہ راز میں ہے کہ بینی مادھو رسوا کون ہیں، آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟

    جواب: بھئی میں کیا وضاحت کروں۔ لیکن میں تمہاری بات کا جواب اس طرح دیتا ہوں کہ اب بھی کوئی چیز واقعی بحث کی مستحق ہوتی ہے تو اس کا ذکر تو ہوتا ہے۔ لوگ پڑھتے ہیں ذکر کرتے ہیں۔ ایک چیز اور بھی ہے اگر آپ لوگ برا نہ مانیں تو۔ ہمارے زمانے کے جو شاعر تھے ان میں واقعی ایک نیاپن تھا۔ ہمارے ایک دوست مرغوب صاحب لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ جب وہ علی گڑھ میں پڑھتے تھے تو انہوں نے سنا کہ فلاں پرچے میں نظم چھپی بلراج کومل کی یا عمیق حنفی کی تو وہ فوراً سائیکل اٹھائے بک اسٹال پہنچ جاتے تھے اور ڈھونڈتے تھے کہ کس کے یہاں وہ پرچہ ملے گا۔ دوستوں کے یہاں جارہے ہیں۔ لائبریری جارہے ہیں جہاں سے ملا وہ پرچہ لے آئے۔ تو اس زمانے میں شاعری میں جان اتنی تھی۔ شاید آج کی شاعری میں جان اتنی نہیں ہے۔ تو بھائی ہم کیا کرسکتے ہیں۔ 

    سوال: فاروقی صاحب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کلاسیکی شعرا ترقی پسند تحریک سے منسلک شعرا اور آج کے سکہ بند شعرا، جدید شعرا کے متعلق بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس طرح کہہ نہیں پارہے ہیں جو آپ کا مخصوص انداز ہے۔ کہیں یہ کسی طرح کا دباؤ تو نہیں ہے جو آپ کو روکتاہے؟

    جواب: یہ کہاں سے آپ نے فرض کرلیا کہ میرے اوپر دباؤ ہے کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ نہیں کہہ پا رہا ہوں؟ جن لوگوں کے بارے میں مجھے جو کچھ کہنا ہے میں کہہ چکا ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے لیے مجھے وقت نہیں مل رہا ہے۔ جیسے مصحفی کی شاعری ہے، میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں مصحفی پر لکھوں لیکن وقت نہیں مل رہا ہے۔ انیس پر لکھنا چاہتا ہوں، ولی کی شاعری کی اہمیت سمجھانا چاہتا ہوں، اقبال پر کچھ کہنا ہے۔ لیکن وقت نہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بہت Compelling ہوتی ہیں۔ جیسے غالب بچپن اورجوانی میں میرے لیے بے انتہا Compelling تھے۔ میرا خیال تھا کہ جو غالب پر نہ لکھے وہ بے وقوف ہے، تو میں نے بھی غالب پر لکھا، بہت لکھا۔ اور میں نے غالب سے حاصل بھی بہت کچھ کیا، بہت کچھ سیکھا۔ سب سے بڑا شاعر نہیں تو میں انہیں میر کے بعد سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں۔ میر کو پڑھنا شروع کیا تو میر نے مجھے بالکل ہی باندھ کر رکھ دیا۔ میں نے اور بہت لوگوں کو بھی میر کی خاطر پڑھا۔ ساری کلاسیکی شاعری میں نے پڑھ ڈالی یا اس پر نئی نظر ڈالی۔ ترقی پسند شاعری، ترقی پسند افسانہ دونوں پر مضمون تو کیا، میرا ایک کتاب لکھنے کا ارادہ پچھلے پچیس تیس برس سے ہے۔ مگر وہ شاید پورا نہ ہوگا کیونکہ فرصت نہیں۔ 

    ایک بات یہ بھی ہے کہ ترقی پسند شاعری اور ترقی پسند افسانے کے بارے میں لکھنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ داستان امیر حمزہ کے بارے میں لکھنا، میں نے اپنے معاصرین پر بہت کم لکھا۔ ان میں کیا کمی ہے؟ سلیم احمد پر میں نے بہت کم لکھا ہے۔ سلیم احمد بطور شاعر مجھے بے انتہا پسند ہیں۔ نقاد کی حیثیت سے ان کا ذکر میں نے کیا ہے۔ ان کے ادبی نظریات کا میں قائل نہیں ہوں۔ لیکن سوچنے کے لیے بہت کچھ ان کے یہاں ہے۔ اسی طرح سے عسکری صاحب کو میں اردو کا سب سے بڑا نقاد سمجھتا ہوں۔ اور بے تکلف انہیں بڑے مغربی نقادوں کے برابر رکھتا ہوں۔ (۱) لیکن ان پر بھی نہیں لکھ سکا میں۔ فرصت نہیں ملی، ذہن حاضر نہیں ہوسکا۔ تو ایسا نہیں ہے کہ میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن مجھے کوی دباؤ روکے ہوئے ہے۔ بس ایسا ہے کہ فرصت نہیں مل رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ ’’شب خون‘‘ ہی اب میرا بہت وقت کھاجاتا ہے۔ پھر ’’تضمین اللغات‘‘ ہے، اردو کی کلاسیکی ادبی تہذیب اور تاریخ ہے، میری ترجیح یہ ہے کہ میں داستان پر لکھوں۔ (۲) کیونکہ سردار جعفری یا اور دوسروں پر لکھنے والا تو شاید ممکن ہوگا لیکن میرے بعد داستان پر لکھنے والا نظر نہیں آتا۔ بظاہر ایسا کوئی نہیں ہے جو جمع کرے تمام داستانوں کو اور پڑھے ان کو۔ میں تو اٹھارہ سال سے یہی کام کر رہا ہوں۔ اب تو میرا بڑھاپا ہے۔ اب تو مجھے دن گن گن کرکے دیکھنا ہے کہ اتنے دن جو باقی ہیں ان میں کیا کرسکتا ہوں۔ اس وقت یہ میرے لیے بالکل اہم نہیں ہے کہ میں ترقی پسندوں پر یا اپنے معاصرین یا بعد کے جو لوگ آئے ان پر، یا پہلے کے لوگوں پر، لکھوں۔ کبھی کسی پر لکھ بھی دوں گا۔ لیکن ان معاملات میں اب وہ Urgency میرے لیے نہیں رہ گئی ہے۔ میرا خیال ہے میں نے جدید ادب کا حق ادا کردیا ہے۔ اب مجھے کلاسیکی ادب اور تہذیب کاحق ادا کرنا ہے۔ 

    (۱) اس کی مثال فاروقی کا انٹرویو ہے جو عسکری اور ادب کے بارے میں مکمل احاطہ کرتا ہے۔ دیکھیں صفحہ نمبر ۱۰۰ سے ۱۵۰ تک۔ 

    (۲) داستان امیر حمزہ پر فاروقی صاحب کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں،

    ۱۔ داستان امیر حمزہ: زبانی بیانیہ، بیان کنندہ اور سامعین۔ مکتبہ جامعہ، نئی دہلی

    ۲۔ ساحری، شاہی صاحب قرانی، داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد اول۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے