Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تمہید: گلزار جاوید سے گفتگو

شمس الرحمن فاروقی

تمہید: گلزار جاوید سے گفتگو

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    تمہید: شمس الرحمن فاروقی سے گلزار جاوید کی ماہنامہ ’’چہار سو‘‘ راولپنڈی کے لیے کی گئی گفتگو

    گلزار جاوید: آپ کے شجرۂ نسب کی بابت ہمارا اور آپ کے قاری کا اشتیاق آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔ 

    شمس الرحمن فاروقی: میں باپ اور ماں دونوں طرف سے فاروقی ہوں۔ باپ کا گھرانہ زیادہ تر مولویوں اور دیوبندی خیالات والے عالموں کا ہے۔ ماں کی طرف سے زیادہ تر لوگ بریلوی مسلک کے ہیں۔ ماں کے خاندان میں بعض بڑے ممتاز عالم اور صوفی گزرے ہیں۔ 

    گلزار جاوید: علم و ادب سے آپ کاتعلق کس نوعیت کا ہے؟

    شمس الرحمن فاروقی: مے انتہا شوق اور بے غرض محبت۔ 

    گلزار جاوید: آپ کے حالات زندگی پڑھ کر سرگھوم جاتا ہے۔ ایک تن تنہا شخص کس طرح اتنا بار اٹھاسکتا ہے؟

    شمس الرحمن فاروقی: آپ کی خوش فہمی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں۔ میں نے جو لکھا پڑھا ہے میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے کیا ہے اللہ کی مہربانی سمجھتا ہوں کہ میں اس کے بھی لائق نہ تھا۔ 

    گلزار جاوید: اتنی مصروفیات میں اہل خانہ بالخصوص بیگم صاحبہ کا تعاون آپ کو کس حدتک حاصل ہے؟

    شمس الرحمن فاروقی: میری بیوی نے بچوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر گھر کے ا نتظام کی ساری ذمہ داری ہنسی خوشی سنبھالی اور مجھے تمام فکروں سے آزاد کردیا۔ علاوہ ازیں ’شب خون‘ کی اشاعت میں بھی انہوں نے مکمل مالی تعاون دیا۔ 

    گلزار جاوید: نئی نسل کے کتنے افراد کنبہ اردو زبان و ادب سے آشنا ہیں، اور ان کا آپ کی قلمی ریاضت سے کس طرح کا تعلق ہے؟

    شمس الرحمن فاروقی: میری دو اولادیں ہیں، دونوں بیٹیاں۔ ان کے علاوہ میری بیوی کی ایک بھانجی کو ہم لوگوں نے اولاد کی طرح پالا۔ یہ تینوں اردو زبان و ادب سے خوب واقف ہیں۔ تھوڑی بہت فارسی بھی جانتی ہیں۔ انہیں میری تحریروں سے فطری دلچسپی اور واقفیت ہے۔ فطری میں نے اس معنی میں کہا کہ میں نے کبھی ان کو اپنی کوئی تحریر پڑھنے کی تلقین نہیں کی۔ وہ از خود اپنی عقل و شعور کے ارتقا کے ساتھ ساتھ میری تحریریں پڑھتی رہیں اور اب بھی پڑھتی ہیں۔ ان کی اولادیں بھی اردو پڑھتی ہیں کوئی زیادہ کوئی کم۔ لیکن اردو ادب کے بڑے ناموں سے انیں اپنی استعداد کے مطابق واقفیت ہے۔ میرے بھائی بہن سب اردو جانتے ہیں اور ان میں سے اکثر میری تحریروں سے آشنا ہیں۔ ان کے بیٹے بیٹیاں بھی اردو جانتے ہیں، کوئی زیادہ کوئی کم۔ 

    گلزار جاوید: ادبا اور شعرا بالعموم نظم و ضبط کے زیادہ پابند نہیں ہوا کرتے۔ آپ جسمانی و ذہنی صحت کی بحالی کے ساتھ روزمرہ کے معاملات سے کس طور عہدہ برآ ہوتے ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں یہ تو نہیں کہتا کہ ادبا اور شعرا نظم و ضبط سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے اپنے بارے میں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا خاصا حصہ فضولیات میں ضائع کیا۔ میرا خیال ہے کہ آدمی اگر واقعی دل لگا کر کام کرے تو پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں بھی بہت کچھ کرسکتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے بیماری اور سہولتوں اور ضروری وسائل کی کمی کے باوجود اتنا کام کیا ہے کہ ایک ایک کا کام پوری پوری اکادمیاں نہیں کرسکتیں۔ 

    گلزار جاوید: آپ کا گردوپیش اردو سے بہت حدتک نا آشنا ہوچکا ہے۔ ایسے میں تمام تر توانائی اس زبان و ادب کی نذر کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں یہ بات نہیں مانتا کہ میرا گردوپیش اردو سے بہت حد تک ناآشنا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی تو اردو کسی ایک علاقے یا خطے کی زبان نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اردو پرھنے والے، لہٰذا مجھے پڑھنے والے، کم و ب یش تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بعض جگہوں پر وہ زیادہ ہیں اور بعض جگہوں پر کم۔ لیکن ہیں وہ دور دور تک بکھرے ہوئے۔ ایسی صورت میں اردو کا ادیب ہونا ترقی پذیری کی علامت ہے نہ کہ پسماندگی کی۔ 

    گلزار جاوید: یقیناً آپ کی نظر سے ہندی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کا ادب بھی گزرا ہوگا۔ اردو ادب کا ان کے درمیان کیا مقام اور مستقبل ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا میرا منصب نہیں۔ لیکن آثار و قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اردو اس ملک میں مزید پھلے پھولے گی۔ رہا سوال دیگر ہندوستانی زبانوں کے ادب کی محفل میں اردو ادب کے مقام کا، تو میں بے خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اردو کا ادب ہندوستان کی کسی بھی زبان کے ادب سے ہیٹا نہیں ہے اور اکثروں سے تو بڑھ کر ہے۔ اس کے ثبوت میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں۔ عام طور پر خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ہندوستانی ادب میں نئے رجحانات اور جدید ہوش مندی کا اظہار سب سے پہلے بنگالی میں ہوا۔ دس بارہ سال پہلے میں نے قومی ساہتیہ اکیڈمی کی فرمائش پر غالب کے اردو کلام کا ایک انتخاب تیار کیا۔ اس کے دیباچے میں، میں نے یہ لکھا کہ غالب ہندوستان کے پہلے جدید شاعر ہیں اور اپنی رائے کے ثبوت میں کئی دلائل میں نے پیش کیے۔ اس دیباچے کا چرچا غیر اردو حلقوں میں بھی ہوا۔ اور انگریزی کے ایک بہت بڑے اخبار میں ایک کالم شائع ہوا جس میں غالب کے بارے میں میری اس رائے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ میں نے اس سلسلے میں کیا دلائل پیش کیے ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کالم یا میری رائے کے خلاف کہیں کوئی مراسلہ یا مضمون نہیں چھپا۔ گویا ہندوستان کی دوسری زبانوں کے علما نے بھی میری بات مان لی کہ جدید رجحانات اور ہوش مندی کو بروئے کار لانے میں اردو کو دیگر زبانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ 

    گلزار جاوید: دیانت داری سے سوچا جائے تو ہندوستان میں اردو زبان اپنی حیات کے کس مرحلے میں ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اردو زبان کے حالات یہاں پہلے سے بہتر ہیں اور مستقبل میں مزید بہتری کے امکانات ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دہلی میں بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ مل گیا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اردو کو ترقی اور خوش حالی اردو والوں کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔ کچھ دن پہلے میں نے ایک جلسے میں دہلی کی وزیر اعلیٰ محترمہ شیلا دکشت کے سامنے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ حکومت دہلی کا یہ فیصلہ فائلوں میں بند ہوکر نہ رہ جائے، یہ ذمہ داری اردو والوں کی ہے، اور اس ملک میں اردو کو اب تک جو فروغ ہوا ہے وہ زیادہ تر خود اردو والوں کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی مراعات کااس میں عمل دخل زیادہ نہیں۔ 

    گلزار جاوید: تقسیم ہند نے اردو کو نفع نقصان کی صورت میں کیا دیا؟ اگر حالات دوسری صورت میں ہوتے تو اس زبان و ادب کی کیا شکل ہوتی؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: اب تک جو کچھ واقع ہوا ہے اس کی روشنی میں تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ تقسیم ملک نے اردو کو نقصان زیادہ پہنچایا، فائدہ کم۔ لیکن ممکن ہے آئندہ صورت حال کچھ مختلف ہو۔ 

    گلزار جاوید: ہر دو جانب کے جذباتی اہل قلم اپنے یہاں کے ادب اور تنقید کو زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: ’’جذباتی اہل قلم‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے، میں سمجھا نہیں۔ لیکن یہ تو انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ ہم اپنی چیز کو دوسرے کی چیز سے بہتر سمجھتے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں سے یہ شکایت بعض لوگوں کو رہی ہے کہ وہ ہندوستانی ادیبوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے اور اپنے مضامین وغیرہ میں ان کا ذکر نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ بہت سے پاکستانی رسالے اور ادارے (جن میں آپ کا بھی رسالہ شامل ہے ) ہندوستانی اردو ادیبوں کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اگر کچھ لوگوں کی شکایت کو بجا بھی تسلیم کیا جائے تو مجھے اس میں پاکستانی ادیبوں اور ادبی حلقوں کی برائی کا کوئی پہلو نہیں نظر آتا۔ اول تو یہ کہ جیسا میں نے کہا، یہ فطری بات ہے کہ آدمی اپنی چیز کو بہتر کہے یا سمجھے۔ لیکن دوسری بات یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی نیا ملک ہے اور اس لیے بھی یہ بات فطری ہے کہ پاکستانی ادیب ہندوستانی اردو ادب سے کم نہیں۔ 

    گلزار جاوید: پاکستان کے اندر اردو زبان میں پنجابی اور سندھی کے الفاظ تیزی سے شامل ہو رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ امر اردو زبان کے لیے فائدہ مند ہے یا اردو کی اصل شکل ہی اس کی بقا کی ضمانت ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: زندہ زبانوں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ نئے محاورات اور الفاظ داخل ہوتے ہیں۔ پرانے الفاظ نئے معنی یا مزید معنی حاصل کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ’زبان کی اصل شکل‘ کا فقرہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن یہاں سوال محض نئے الفاظ و استعمالات اور نئے معنی کی درآمد کا نہیں۔ پاکستان کی اردو میں پنجابی، سندھی اور انگریزی کے الفاظ نظر آتے ہیں تو ہندوستان کی اردو میں ہندی کے الفاظ و محاورات اور انگریزی کے الفاظ و استعمالات نظر آتے ہیں۔ غیرزبانوں کی یہ درآمدات اگر نئے تصورات اور نئے معنی ہماری زبان میں لارہی ہیں تو بڑی خوبی کی بات ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی دونوں ملکوں کی اردو میں غیرزبانوں کے الفاظ و استعمالات اردو کے خوب صورت، سبک، اور شیریں الفاظ و استعمالات کو بے دخل کرکے لائے جارہے ہیں۔ یعنی اردو کا ایک اچھا لفظ یا محاورہ کم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ غیر زبان کا ایک بھونڈا یا نامناسب لفظ یا محاورہ لایا جارہا ہے۔ یہ بات بہت تشویش ناک ہے اور ہر اردو بولنے لکھنے والے کو اس کی مکمل روک تھام کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں نے ابھی چند ہفتے ہوئے ’لغات روزمرہ‘ نام کی ایک کتاب لکھی ہے جس میں غیرٹکسالی اور غیرزبان کے غیرضروری درآمدات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 

    گلزار جاوید: آج کل بیرون ملک میں مقیم اہل قلم میں اردو زبان کے رسم الخط کی تبدیلی کی بڑے چرچے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں اس موضوع پر ایک سے زیادہ بار اظہار خیال کرچکا ہوں۔ میں ہر زبان کو اس کے رائج رسم الخط میں قائم رکھنے کے حق میں ہوں۔ اردو کے بارے میں تو میری مصمم رائے یہ ہے کہ اس کے رسم الخط میں تبدیلی اس کے لیے سم قاتل ہوگی۔ 

    گلزار جاوید: عالمی ادب میں اردو ادب کا کیا مقام ہے یا مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: مستقبل کے بارے میں، میں نہیں جانتا لیکن آج اردو ادب میں کلاسیکی دور سے لے کر اقبال تک ایسے کئی نام موجود ہیں جنہیں عالمی ادب کی کسی محفل میں بآسانی جگہ مل سکتی ہے۔ 

    گلزار جاوید: آپ کے خیال میں اردو ادب کی کون سی صنف زیادہ ترقی یافتہ اور کس علاقے میں ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: غزل ہماری زبان کی سب سے زیادہ مقبول، دلکش اور ترقی یافتہ صنف ہے۔ اس وقت میرے خیال میں سب سے اچھی اردو غزل پاکستان میں لکھی جارہی ہے۔ 

    گلزار جاوید: ڈاکٹر گیان چند جین صاحب نے ایک سوال کے جواب میں بہت سے مسلم زعما اور اہل قلم کے حوالوں سے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا ہے۔ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف؟ اور اس تصور نے اس زبان کو فائدہ بخشا یا نقصان پہنچایا؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: ڈاکٹر گیان چند یا کسی بھی مسلمان یا غیرمسلم بڑے آدمی یا ا دیب کے کہہ دینے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں۔ اردو برصغیر کی غالباً واحد زبان ہے جس کے لکھنے اور پڑھنے والوں میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ اور جین، ہندوستانی اور غیرملکی شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اپنی سیاسی مصلحت یا فائدے کی بناپر اردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ دیا تو اس سے حقیقت تو نہیں بدل گئی۔ یہ بات صحیح ہے کہ آج ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی زیادہ تر تعداد مسلمان ہے۔ لیکن سارے اردو بولنے والے اور پڑھنے والے مسلمان نہیں ہیں۔ الٰہ آباد جو ہندی کا خاص علاقہ ہے یہاں بھی آپ کو بی۔ اے، ایم۔ اے اور پی۔ ایچ ڈی کی سطح پرہندو طلبا مل جائیں گے۔ دلی اور پنجاب اور جنوب کے علاقوں کی تو بات ہی کیا ہے۔ ان علاقوں میں اردو پڑھنے اور جاننے والوں کی تعداد اچھی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ہماچل پردیش میں اردو آٹھویں درجے تک لازمی مضمون کے طور پرپڑھائی جاتی ہے۔ ہماچل پردیش میں مسلمان بہ مشکل چار فیصدی ہوں گے۔ میں ایسے متعدد ہندوؤں کو جانتا ہوں جو ہندی کے طالب علم تھے لیکن انہوں نے اردو کی محبت میں اردو زبان سیکھی، اس کا رسم الخط سیکھا اور اس میں شعر گوئی یا افسانہ نگاری کو اختیار کیا۔ 

    گلزار جاوید: ڈاکٹر صاحب کچھ ذاتی باتیں۔ آپ نے قلمی ریاضت کی ابتدا کب اور کس کی تحریک پر کی اور ابتدا میں کس طرح کی تخلیق ظہور میں آئی؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: پہلی ذاتی بات تو یہ کہ مجھے ڈاکٹر نہ کہا جائے۔ میں نے ڈاکٹر کی ڈگری کوئی مقالہ لکھ کر نہیں حاصل کی۔ یہ علی گڑھ یونیورسٹی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی، اگرچہ میں نے نہ وہاں پڑھا اور نہ پڑھایا۔ اب رہی لکھنے کی ابتدا کرنے کی بات تو میں نے سات برس کی عمر میں ایک مصرع کہا تھا (اس کا حال میں نے اپنے افسانوں کے مجموعے ’سوار‘ کے دیباچے میں درج کیا ہے ) اگر اس ایک مصرعے کو تخلیق مانا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ میری پہلی تخلیق اس وقت ظہور میں آئی جب میں سات سال کا تھا۔ رہا سوال اس بات کا کہ میں نے لکھنا کس کے تحریک پر شروع کیا تو عرض یہ ہے کہ میرے فوری خاندان میں کوئی شاعر نہ تھا لیکن مجھے اپنے بارے میں پوری طرح سے یقین تھا کہ مجھے شاعر، افسانہ نگار، نقاد، مترجم یہ سب بننا ہے۔ بچپن میں جب میں لفظ ’تنقید‘ اور ’نقاد‘ سے آشنا نہ تھا، میں نے اردو شعرا کی ایک فہرست بنائی تھی جس میں اپنے خیال میں ان کی بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا تھا۔ اس کے کچھ پہلے یا شاید ایک سال، سوا سال پہلے میں نے کسی رسالے میں اردو مرثیے کے بارے میں ایک مضمون پڑھاتھا۔ وہ مضمون مجھے اتنا اچھا لگا کہ اس کی بنیاد پر اورادھر ادھر سے کچھ اور باتیں لے کر میں نے اپنا مضمون بناڈالا۔ سچ پوچھیں تو مجھے یاد نہیں کہ کبھی کوئی ایسا وقت بھی تھا جب مجھے اپنے بارے میں یہ یقین نہ تھا کہ مجھے اردو کا ادیب بننا ہے۔ 

    گلزار جاوید: افسانہ، شاعری، تنقید، تحقیق اور علمی مباحث آپ کے محبوب مشغلے ہیں۔ اولیت کس کو حاصل ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: اس فہرست میں ترجمہ (غیر زبانوں سے اردو میں اور اردو میں غیر زبانوں سے ) لغت نگاری، تبصرہ نگاری اور اردو کی ادبی تہذیب کا مطالعہ شامل کرلیں تو فہرست زیادہ مکمل ہوجائے۔ جہاں تک سوال اولیت کا ہے تو حالات نے اور اتفاقات نے مجھے تنقید کے میدان میں زیادہ وقت صرف کرنے پر مجبور کردیا۔ ورنہ میں خود کو سب سے پہلے افسانہ نگار اور شاعر سمجھتا ہوں۔ 

    گلزار جاوید: آپ ادوار کے حساب سے اور اصناف کے اعتبار سے شاعری کی کس صنف کو معتبر اور معیاری گردانتے ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: معتبر اور معیاری ہونا اصناف کی صفت نہیں۔ ہر صنف اپنی جگہ پر معتبر اور معیاری ہوتی ہے۔ اصناف کے مابین درجہ بندی کی بات اور ہے۔ ورنہ کلیم الدین احمد صاحب مرحوم، ظ۔ انصاری صاحب مرحوم وغیرہ حضرات کی یہ رائے بالکل غلط ہے کہ غزل غیرترقی یافتہ صنف سخن ہے یا یہ کہ غزل میں بڑی شاعری نہیں ہوسکتی۔ 

    گلزار جاوید: اردو افسانے نے بہت سے مدارج طے کیے ہیں اور بہت سے ادوار کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ آپ کس ادوار اور کس مزاج کے افسانے کو درست قرار دیں گے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: نوعیت کے اعتبار سے افسانے دوطرح کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جن میں واقعات کم و بیش اسی زمانی تسلسل کے لحاظ سے بیان کیے جائیں جس ترتیب سے وہ ظہور میں آئے ہوں گے۔ دوسری طرح کے افسانے وہ ہیں جن میں واقعات کے بیان میں زمانی تسلسل کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ یا پھر ان میں کرداروں کے بجائے صرف تصورات پیش کیے جاتے ہیں۔ دونوں طرح کے افسانوں میں اچھے افسانے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ براہ راست زمانی تسلسل کو بیان کرنے والے افسانوں میں خرابی کا امکان زیادہ رہتا ہے کیونکہ ایسے افسانوں میں افسانہ نگار کو براہِ راست بیانیہ میں مداخلت کرنے کی لالچ بہت پیدا ہو جاتی ہے۔ 

    گلزار جاوید: تنقید کافی متنازعہ فیہ ہوچکی ہے۔ آپ کب کب اور کس طرح کی تنقید سے متاثر ہوئے، اور مستقبل میں اردو ادب میں مثبت و منفی تنقید کے کیا امکانات، فوائد اور نقصانات دیکھتے ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: آخری سوال کا جواب پہلے عرض کرتا ہوں۔ منفی تنقید سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور میرے خیال سے وہ تنقید بھی منفی تنقید ہے جس میں کمزور تخلیق کو جانب داری کی بناپر لائق تحسین بتایا جائے۔ یہ بات یقیناً افسوس ناک ہے کہ برصغیر میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی اردو والے کثیر تعداد میں موجود ہیں تنقید کا حال دِگرگوں ہے۔ معلوم ہوتا ہے منفی تنقید ہی آج اکثر ادیبوں کی طرز ادا ٹھہری ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت ہی معتبر نقاد نے اپنے رسالے کے اداریے میں لکھا کہ اس شمارے میں فلاں صاحب کی غزلیں کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ان میں سے اکثر غزلیں، ہلکی اور اکہری معلوم ہوں گی۔ لیکن ہلکا پن اور اکہرا پن بھی غزل کا ایک رنگ ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس ہلکے پن اور اکہرے پن میں معنوی دبازت پوشیدہ ہو۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ صرف یہ کہ ایک خراب شاعر کو اپنے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ عمومی طور پر بھی خراب شاعری پر معیاری ہونے کی مہرلگاتے ہیں۔ اس کا دوسرا روپ یہ ہے کہ ایک بہت معتبر افسانہ نگار اور مدیر نے مجھے لکھا کہ اب یہ عالم ہے کہ تمام شعرا اور ان کے قدرشناس مافیا ٹائپ کے گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ اور کوئی شاعر چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر اسے کسی مافیا ٹائپ گروہ کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال نہ صرف تنقید بلکہ ادب کی رسوائی کی ضمانت ہے۔ اب آپ کے پہلے جملے کا جواب خود بخود مہیا ہوگیا کہ تنقید آج کل خاصی متنازعہ فیہ ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ تنقید جب دیانت اور علمیت دونوں سے عاری ہوگی تو پھر اسے اعتبار کیسے حاصل ہوگا؟

    آپ پوچھتے ہیں کہ میں کس کس طرح کی تنقید سے کب کب متاثر ہوا۔ مختصراً جواب یہ ہ کہ سب سے پہلے میں آل احمد سرو، کلیم الدین احمد اور محمد حسن عسکری سے متاثر ہوا۔ آہستہ آہستہ عسکری کا اثر بڑھتا گیا، دوسروں کا کم ہوتا گیا۔ مغرب کے جن نقادوں نے مجھے شروع شروع میں متاثر کیا ان میں کولرج (Coleridge)، ٹی۔ ایس۔ الیٹ (T.S. Eliot) اورآئی۔ اے۔ رچرڈس (I.A. Richards) کا ذکر خاص طور کرنا چاہتا ہوں۔ ہر چند کہ یہ تینوں الگ الگ رنگ کے نقاد ہیں لیکن تینوں سے میں نے حسب توفیق روشنی حاصل کی۔ بعد میں ولیم ایمپسن (William Empson) اور شکاگو اسکول کے بعض نقادوں سے بھی میں نے اثر قبول کیا۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ میرے تنقیدی اصول اور طریقے سراسر شکاگو اسکول والوں پر مبنی ہیں۔ بعد میں جن نقادوں سے میں نے کچھ نہ کچھ حاصل کیا ان میں روسی ہیئت پسند نقاد اور ایک فرانسیسی وضعیاتی نقاد بھی شامل ہیں۔ لیکن وضعیات، پس وضعیات وغیرہ کو میں زیادہ تر فضول موشگافی سمجھتا ہوں اور اس طرز کے اکثر مفکروں اور نقادوں کو میں ہمیشہ ناپسند کرتا رہتا ہوں۔ یہاں یہ بات بھی عرض کردوں کہ وضعیاتی اور پس وضعیاتی نقادوں کی تحریروں سے میں اس وقت سے آشنا ہوں جب ان لوگوں کا نام برصغیر میں شاید ہی کسی نے سنا ہوگا۔ میری کتاب ’’تنقید افکار‘‘ میں کئی مضمون ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۱ء کے دوران کے ہیں اور ان میں ان لوگوں کا ذکر ملتا ہے۔ 

    مشرقی نقادوں میں مجھے سنسکرت اور عربی کے بعض بنیادی نظریہ ساز نقادوں سے مجھے بہت روشنی ملی۔ عربی میں قدامہ ابن جعفر اور عبدالقاہر جرجانی اور سنسکرت میں آنند وردھن اور ابھینو گپت کے خیالات نے مجھے بہت دور تک متاثر کیا۔ 

    گلزار جاوید: ڈاکٹر صاحب آپ کو اپنی شناخت کا کون سا ایک حوالہ زیادہ محبوب ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: دنیا کی نگاہوں میں تو میری شناخت ایسے نقاد کی ہے جس نے ادب کے ہر میدان میں تنقید کا حق ادا کیا لیکن جس کے خیالات نے لوگوں کو گمراہ بھی کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا جسے گمراہی قرار دے گی میں اسے راہ مستقیم سمجھتا ہوں۔ اور اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ تمہیں اپنی شناحت کا سب سے اہم حوالہ کیا معلوم ہوتا ہے تو میں کہوں گا کہ مجھے اردو کی ادبی تہذیب اور تاریخ کو اپنے اندر زندہ کرلینے والا افسانہ نگار، شاعر اور نقاد کہا جائے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری تنقید کو میری شاعری سے اور میری شاعری کو میری افسانہ نگاری سے الگ کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔ کم سے کم میں تو نہیں ہی دیکھ سکتا۔ 

    گلزار جاوید: آپ کے خیال میں آپ کے اب تک کے فنی سفر نے کس طرح کے اثرات مرتب کیے یعنی آپ کی منشا کے مطابق یا برعکس؟ اور مستقبل میں یعنی آپ کے بعد ان کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا یا ہونا چاہیے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: مستقبل میں کیا ہوگا، اس کے بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم اور نہ ہی میں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ بس یہ امید رکھتا ہوں کہ مستقبل کے قاری کے لیے میں اجنبی نہ ہوں گا۔ اب رہا سوال کہ میں نے معاصر ادب پر کیا اثر ڈالا؟ تو میں اوپر عرض ہی کرچکا ہوں کہ بعض لوگوں کے خیال میں، میں نے ادب میں گمراہی پھیلائی۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ جس چیز کو لوگ گمراہی کہتے ہیں میں اسے راہ مستقیم سمجھتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ادیب کو کسی سیاسی یا غیرادبی نظریے کاپابند نہ ہونا چاہیے، کیونکہ ایسی پابندی اظہار کی آزادی کی راہیں روک دیتی ہیں۔ اسی طرح مثلاً میں نے یہ اصرار کیا کہ تخلیق فن کار کو عوام کی سطح پر نہ اترنا چاہیے بلکہ عوام کو چاہیے کہ خود کو تخلیقی فن کار کی سطح تک پہنچائیں۔ پھر مثلاً میں نے یہ اصرار کیا کہ تجربہ اپنی جگہ پر ایک مثبت قدر ہے لیکن کوئی ضروری نہیں کہ ہر تجربہ کامیابی ہی ہوجائے۔ اسی طرح میں نے اس بات پر زور دیا کہ فن پارہ اور خاص کر شعر کثیر المعنی ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان باتوں کو وہ لوگ یقیناً گمراہی قرار دیں گے جو ادیب کو بندھے ٹکے راستوں پر چلانا اور اس طرح اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہیں جو ادب کو اخباری رپورٹ کی طرح بے تہ اور غیر تخلیقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ادب میں گہرائی اور پیچیدگی اور تازگی کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگ بھی میرے خیالات کو گمراہی کی طرف لے جانے والے خیالات کا ہی نام دیں گے۔ آپ نے پوچھا ہے کہ میرے ادبی سفر نے کس طرح کے اثرات مرتب کیے؟ میرا خیال ہے کہ میں بڑی حد تک مطمئن ہوں کہ میری باتیں دور دور تک پہنچیں اور اگر قبول نہ بھی کی گئی تو ان پر غور کیا گیا اور اس غور کے نتیجے میں عمومی طور پر لوگوں کاانداز فکر بدلا۔ میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ 

    گلزار جاوید: ڈاکٹر صاحب اختصار کے ساتھ اب تک کی گئی قلمی کاوشات اور مستقبل کی بابت اپنے ارادوں سے آگاہ فرمائیے اور اپنے دل و دماغ پر ان کے اثرات پر بھی کچھ روشنی ڈالیے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے اس سے مطمئن نہیں ہوں، نہ کیفیت کے اعتبار سے اور نہ کمیت کے اعتبار سے۔ ہمارے عہد کے ایک بلند پایہ عالم اور نقاد سے کچھ اسی قسم کا سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے جواب میں مصرع پڑھا،

    شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
    افسوس کہ میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ 

    گلزار جاوید: آپ کا علم، تجربہ، فہم و فراست اور دوراندیشی نوجوان نسل بالخصوص اردو زبان و ادب سے وابستہ افراد کو کس طرح کی تنبیہ، نصیحت یا پیش آمدہ خطرات سے آگاہ کرناچاہے گی؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں اپنے کو کسی خاص علم یا فہم و فراست کا حامل نہیں سمجھتا۔ لیکن اردو زبان اور ادب سے محبت کرنے والے ایک عام شخص کی حیثیت سے میں سب سے پہلی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نوجوان نسل اردو زبان، اس کے رسم الخط، اور اس کے املا کے بارے میں کسی قسم کا مدافعانہ یا شرمندگی کا رویہ نہ رکھے۔ بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے کہ ہمیں اس زبان سے محبت ہے۔ ہمیں اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور اگر برائی ہو بھی تو ہم اسے اچھا ہی سمجھتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والے کو محبوب میں اچھائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ نئے لوگ اردو زبان کے بارے میں یہ نہ گمان کریں کہ یہ لشکری زبان ہے، یا مسلمانوں کی زبان ہے، بلکہ یہ جانیں اور سمجھیں کہ یہ زبان برصغیر میں پیدا ہوئی اور برصغیر کے تمام باسیوں کا اس پر حق ہے، اور برصغیر کے تمام باسیوں پر اس کا حق ہے۔ 

    دوسری بات یہ کہ وہ اپنی زبان کو سادہ، شستہ، بامحاورہ بنائیں۔ غیر زبانوں کے الفاظ سے گریز کریں، خاص کر جب اردو زبان میں ان کے متبادل الفاظ موجود ہیں۔ 

    تیسری بات یہ کہ ادب سے محبت اور ادب کا مطالعہ کسی فائدے یا منفعت کی غرض سے نہ کریں، بلکہ زبان اور ادب سے محبت کو اپنی رگ رگ میں پیوست کرلیں۔

     

    مأخذ:

    شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو (Pg. 24)

      • ناشر: رعنا کتاب گھر، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے