Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کا مسئلہ سیاسی نہیں وجودی ہے

شمس الرحمن فاروقی

اردو کا مسئلہ سیاسی نہیں وجودی ہے

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    اطہر فاروقی: آزادی کے بعد سے اب تک اردو کے مسائل کو آپ کتنے ادوار میں تقسیم کرتے ہیں؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: آپ کا یہ سوال ایک سیاق و سباق میں بے حد اہم ہے۔ آزادی کے فوراً بعد اردو کے تمام حالات سے میں خود بہ خوبی واقف ہوں کہ میری تعلیم و تربیت کا زمانہ یہی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اردو کے لیے سب سے برا زمانہ ابتدا کے پانچ سال کا زمانہ ہے۔ یعنی ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۲ تک۔ ۱۹۴۹ میں جب میں نے ہائی اسکول کا امتحان دیا تو اچانک یہ بات ظاہر ہوئی کہ اردو سے ہائی اسکول کا امتحان دینے والے طالب علم رہ ہی نہیں گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑا سبب اردو طلبہ اور ان خاندانوں کی، جن کے بچے اردو پڑھتے تھے، پاکستان مہاجرت تھی اور جو لڑکے پہلے سے اردو پڑھ رہے تھے انہوں نے تبدیل شدہ حالات میں یا تو ہندی یا پھر انگریزی کو اختیار کرلیا۔ اردو طلبہ کے اردو چھوڑنے اور ہندی یا انگریزی کو اختیار کرنے کے متعدد اسباب تھے، لیکن سب سے اہم یہی تھا کہ اردو کو ہٹانے اور اس کی جگہ ہندی کو لانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ یہ کوشش صرف ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں تھی بلکہ اردو کو ختم کرنے کی کوشش بھی تھی۔ اس وقت تک ایک اہم ترین تبدیلی جو اس وقت کے مخصوص سیاسی حالات کا جبر تھی، یہ ہوئی کہ اردو جن طالب علموں کی پہلی زبان تھی انہوں نے بھی اس کو چھوڑ د یا۔ 

    اطہر فاروقی: مگر تقسیم ہند کے بعد جن مسلمانوں نے ہندوستان میں ٹھہر جانے کا فیصلہ کیا تھا انہوں نے بعد میں اردو کو کس لیے خیرباد کہہ دیا؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اردو کو خیرباد کہنے کا بڑا سبب مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں یہ خوف تھا کہ اردو پر تقسیم ہند کا الزام لگ چکا تھا اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان خصوصاً اترپردیش کے مسلمان اس ناکردہ گناہ سے زیادہ ہی متاثر تھے۔ اس وقت حالات واقعی خراب تھے۔ آپ لوگ اس زمانے کے حالات کا اندازہ آج نہیں کرسکتے۔ اردو نہ پڑھانے کے پس پردہ یہ خوف بھی کارفرما تھا کہ اردو پڑھانے سے روزگار کے حصوں کے رہے سہے امکانات بھی معدوم نہ ہوجائیں یا بلا سبب حکومت کا عتاب نازل نہ ہوجائے۔ اس وقت جن لوگوں نے اپنے بچوں کو اردو پڑھائی ان میں بڑی تعداد ایسے گھرانوں کی تھی جن کے لیے اردو ایک لازمی قدر کی حیثیت رکھتی تھی۔ خود میرا گھرانہ علما کا گھرانہ ہے۔ میں نے بھی اردو اور فارسی گھر میں پڑھی اور میرے دوسرے بھائیوں نے بھی جب کہ د یگر دو بھائیوں کی اردو استعداد زیادہ نہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ اردو کو آزاد ہندوستان میں تقسیم کی زبان قرار دے کر جو سزادی گئی اس کا سب سے زیادہ اثر اترپردیش پر پڑا کیونکہ اترپردیش کے مسلمانوں کو ان کے مخصوص تہذیبی اور سماجی حالات کے سبب تمام ہندوستان کا بہترین نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ خود اترپردیش کے مسلمانوں میں ایک خاص طرح کا احساس برتری ہے جسے میں حماقت ہی سے تعبیر کرتا ہوں۔ 

    اترپردیش کے مسلمانوں کو اپنی ناک کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں اس وقت حالات مختلف اور نسبتاً بہتر تھے۔ مگر اترپردیش کے مسلمانوں نے صرف اترپردیش میں اردو کے ناگفتہ بہ حالات کے مفروضے کا اطلاق سارے ہندوستان پر کرکے یہ نعرہ لگانا شروع کردیا کہ اردو ہندوستان میں ختم ہوگئی یا بہت جلد ختم ہوجائے گی اس لیے اس زبان کا پڑھنا پڑھانا بیکار ہے۔ 

    اطہر فاروقی: لیکن اس ذہنیت کے پیچھے خاص طرح کا احساسِ کمتری بھی کارفرما تھا۔ اترپردیش کے تمام مسلمان اردو کے ان حالات کے لیے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اردو کے لیے اترپردیش میں امکانات کو معدومی کی حد تک محدود کردیا۔ مگر اس کی بڑی ذمہ داری اس دور کے خصوصاً اترپردیش کے سربرآوردہ اہل قلم (جن میں اکثریت ترقی پسندوں کی تھی) حضرات پر بھی ہے جنہوں نے عجیب و غریب اور حماقت آمیز باتیں کرنا شروع کردیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ اگر اردو کو زندہ رکھنا ہے تو اس کا رسم الخط تبدیل کردیا جائے۔ اس لیے اترپردیش کے مسلمانوں کے اس وقت کے رویوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں تمام حالات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ جب قیادت ہی غلط راستے پر جارہی ہو تو پھر ہم نواؤں کو ذمہ دار ٹھہرانا اور خصوصاً اس وقت کے حالات میں جب مسلمان پوری طرح حواس باختہ تھا، کتنا مناسب ہے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ آپ نے ترقی پسندوں کی تبدیلی رسم خط کی تحریک کی طرف صحیح اشارہ کیا۔ اس تحریک کی بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس میں بعض اچھے لکھنے والے بھی شامل ہوگئے مثلاً احتشام حسین مرحوم تک نے کہہ دیا کہ اردو رسم الخط ترک کرکے دیوناگری رسم الخط اختیار کرلینا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی اور اردو والوں نے اسے پوری طرح اور پوری قوت سے ختم کردیا۔ ترقی پسندوں میں یہ تحریک دوبارہ ۱۹۷۱ کے آس پاس شروع ہوئی۔ 

    ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ۱۹۷۱ کے آس پاس کا زمانہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف پاکستان میں قیامِ بنگلہ دیش کی تحریک زوروں پر تھی جس میں اردو ایک اہم ترین مسئلہ تھی پھر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہی ہندوستانی مسلمانوں نے یہ مصمم ارادہ کرلیا کہ اب انہیں ہندوستان چھوڑ کر کبھی پاکستان منتقل ہونے کے بارے میں نہیں سوچنا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اردو پر وہ برا وقت تھا کیونکہ اس کا وجود خود پاکستان میں بہت سے خدشات و خطرات میں گھرا ہوا تھا ایسے حالات میں ترقی پسندوں کا دوبارہ رسم الخط تبدیل کرنے کے تحریک کا شروع کرنا ان کی ابن الوقتی اور اپنی سرکاری وفاداری کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرنا تھا مگر ۱۹۷۱ میں یہ تحریک ۱۹۵۲ سے بھی کم کامیاب رہی۔ خود ترقی پسند حلقوں میں ان لوگوں کے علاوہ جن کے ذاتی مفادات اس تحریک سے وابستہ تھے، زیادہ تر اس بار اس احمقانہ تحریک کی مخالفت کی۔ مگر اس تحریک سے اس وقت ان فسطائی ہندو قوتوں کو بہت فائدہ پہنچا جو اردو کو غیرملکی زبان قرار دیتی تھیں۔ آپ کو یاد ہوگا چودھری چرن سنگھ تک نے اس وقت اردو کو غیرملکی زبان قرار دے کر اردو مخالف فسطائی قوتوں کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ ترقی پسند حلقوں میں اس تحریک کے مخالفین میں ایک اہم نام احتشام حسین صاحب مرحوم کا ہے۔ ۱۹۷۱ میں اردو کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی تحریک کو انہوں نے فسطائیت پسند رویہ قرار دیا اور ایک مضمون لکھ کر رسم الخط کی تبدیلی کے حامیوں کو واشگاف الفاظ میں فاشسٹ کہا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ۱۹۵۲ سے ۱۹۷۰ تک آتے آتے اردو اور اردو کے حوالے سے مسلمانوں کے حالات میں کس قدر تبدیلی رونما ہوچکی تھی۔ 

    اطہر فاروقی: آزادی کے بعد ہندو اردو کی تعلیم ترک کرچکے تھے۔ آزادی سے پہلے اترپردیش کے نظامِ تعلیم میں یہ طریقہ رائج تھا کہ پہلی زبان کی حیثیت سے اردو کا مطالعہ کرنے والے کو ہندی لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھنی ہوتی تھی اور بالکل یہی فارمولا ہندی کو پہلی زبان کی حیثیت سے اختیار کرنے والوں پر منطبق ہوتا تھا کہ انہیں اردو ایک لازمی زبان کی حیثیت سے پڑھنا پڑھتی تھی۔ آزادی کے بعد حکومت نے اردو تعلیم کا نظم یک قلم موقوف کردیا اور ہندوؤں نے بھی اس زبان کو خیرباد کہہ دیا۔ جب ابتدائی سطح پر ہی اردو کی تعلیم ختم ہوگئی تو پھر ہائی اسکول اور انٹر اور اس کے بعد کے اعلا درجات میں اردو طلبہ کہاں سے آئے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میرا خیال یہ ہے کہ اس موقع پر اور ان تبدیل شدہ حالات میں یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کے اساتذہ نے اپنی نوکری بچانے کے لیے جو مفاد پرستانہ لائحہ عمل مرتب کیا۔ اس نے اردو کی بنیادوں کو بالکل اکھاڑ پھینکا۔ اردو اساتذہ نے اپنے نئے ترتیب شدہ لائحہ عمل کے مطابق یونیورسٹی کے ارباب اقتدار کواس بات پر راضی کرلیا کہ جن طالب علموں نے کسی بھی سطح پر اردو کا مطالعہ نہیں کیا ہے یا جو اچھے طالب علم نہیں ہیں، اگر وہ ایک مضمون کے طور پر بی۔ اے میں اردو کو اختیار کرنا چاہیں یا اردو میں ایم۔ اے کرنا چاہیں تو انہیں داخلے کی اجازت دی جائے۔ صرف اپنی نوکری کے تحفظ کے لیے ذاتی مفادات کے تابع بالخصوص یونیورسٹیوں کے اردو اساتذہ کا یہ قدم اردو کے لیے بے حد ضرر رساں ثابت ہوا۔ 

    ان کے اس اقدام کے نتیجے میں یونیورسٹیوں کے اردو طالب علموں میں اکثریت جاہلوں کی ہوگئی ہے۔ بی۔ اے۔ میں اردو کو بہ حیثیت مضمون اختیار کرنے یا اردو میں ایم۔ اے۔ کرنے والے طلبہ میں اکثریت ان کی تھی جن کی علمی صلاحیت بہت کم تھی اور دوسرے طریقوں کے ذریعے انہیں یونیورسٹی میں کبھی داخلہ نہیں مل سکتا تھا۔ یہ ۵۵۔ ۱۹۵۰ کے آس پاس کی بات ہے۔ جب یونیورسٹی کے اردو شعبوں میں انہی جاہل طالب علموں کی بھرتی بطور استاد شروع ہوئی۔ پھر ان اساتذہ کے جاہل شاگردوں کی کھیپیں تیارہونا شروع ہوئیں اور جاہل درجاہل کا یہ سلسلہ خدا جانے کب رکے۔ 

    ۱۹۵۵  آتے آتے مسلمانوں نے اس سوال پر غور کرنا شروع کیا کہ آخر اردو کے ساتھ زیادتی کیوں ہو رہی ہے؟ انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان کے قیام کی ذمہ داری اردو زبان پر ڈال کر ہماری عظیم پانچ سو سالہ مشترکہ تہذیبی وراثت کو تباہ کرنا تنگ خیال ہندوؤں کی سازش ہے۔ اس زمانے میں مسلمانوں میں یہ احساس بھی پیدا ہونا شروع ہوا کہ اگر اب اردو مسلمانوں ہی کی زبان ہے تو اس میں ایسی کوئی قابل اعتراض یا باعث شرم بات بھی نہیں ہے کیونکہ مسلمان بہرحال اس ملک کے شہری ہیں اور ہمارا ملک آخر جمہوری ملک ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اردو کو جب مسلمانوں نے واشگاف الفاظ میں اپنی زبان تسلیم کرنا شروع کیا تو ابتداءً ان کا انداز معذرت خواہانہ تھا کیونکہ اردو پر رتقسیم ہند کے ناکردہ گناہ کا جرم عائد ہوچکا تھا اور بہ استثنائے چند ہندوستانی ہندوؤں نے اردو کو اپنی زبان تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ 

    ۱۹۶۰ میں اترپردیش اور بہار کے مسلمانوں میں دینی تعلیم کا رجحان بڑھنا شروع ہوا۔ جنوب کی ریاستوں اور مہاراشٹر وغیرہ میں حالات مختلف تھے۔ وہاں اردو اسکول جو پہلے سے قائم تھے، بند نہیں کیے گئے تھے۔ دراصل شمال اور جنوب کے مسلمانوں کے مزاج میں بہت فرق ہے۔ شمالی ہند میں ۱۹۶۰ تک صرف اردو کا ماتم ہو رہا تھا جب کہ جنوب کی ریاستوں اور مہاراشٹر میں مسلمانوں نے اردو کی ترویج کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں اور وہاں اردو تعلیم کا نظم نہ صرف یہ کہ تباہ نہیں ہوا بلکہ آہستہ آہستہ ہی سہی مگر مستقل ترقی پذیر رہا۔ شمال اور جنوب کے مسلمانوں کے مزاج کا فرق آج تک برقرار ہے۔ ۱۹۷۰ کے بعد حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے ووٹ کے حصول کی خاطر اردو کے نعرے بلند کرنا شروع کیے اور حکومت کی طرف سے اردو کو مراعات ملنا شروع ہوئیں جس کے نتیجے میں ترقی اردو بورڈ اور تقریباً ہر اہم صوبے میں اردو اکادمیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج بھی اترپردیش میں اردو کے حالات بدترین ہیں جس کا سبب وہاں کے اردو والوں کا مخصوص احساسِ برتری اور غیرمتحرک رویہ ہے۔ 

    اطہر فاروقی: آپ نے اردو کو مسلمانوں کی زبان تو تسلیم کرلیا مگر آپ کے خیال میں اردو کے مسئلے کی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کیا نوعیت ہے؟ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ ہندوستان میں اردو کا مسئلہ وجودی ہے اور مسلم معاشرے کے لیے جزوِلاینفک بن چکا ہے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: بالکل! ہندوستان میں اردو کا مسئلہ وجودی ہے اور اسے سیاسی کہنا غلط ہے۔ اگر اردو سے مسلمانوں کا وجود وابستہ ہے اور وہ اس کے لیے انفرادی کوششیں نہیں کرسکتے تو پھر حکومت لاکھ مراعات دے اکادمیاں قائم کرے، وظیفے جاری کرے، اردو کے حالات میں بہتری ناممکن ہے۔ مسلمانوں نے اردو کے لیے انفرادی کوششیں بہت کم کیں اور خصوصاً مسلم دانشوروں نے تو اس سلسلے میں بہت مایوس کن رول ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھائی بلکہ اردو نہ پڑھانے کے لیے احمقانہ جواز تراشے اور ان کی تبلیغ کرکے مسئلے کو اور مشکل بنادیا۔ خود اپنے بچوں کو اردو نہ پڑھانے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینے والوں میں اکثریت انہی جہلاء کی ہے جنہیں ابتداً اردو کے نام پر غلط طریقے سے یونیورسٹیوں میں داخلہ دے دیا گیا تھا اور پھر یہ استاد بن گئے۔ 

    اپنے بچوں کو اردو نہ پڑھانے کے جو نامعقول جواز ہمارے اکثر اردو پروفیسر پیش کرتے ہیں ان میں سرفہرست یہ ہوتا ہے کہ کیا کریں، اسکول میں اردو تعلیم کا نظم نہیں ہے، یا ہمارے گھر کے قریب اردو تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک اردو پروفیسر کے ایسے ہی فرضی جوازوں سے بھرے ایک نامعقول مضمون کے جواب میں، میں نے کہا تھا کہ جب آپ اپنے بچے کو کسی پبلک اسکول میں داخلہ دلانے کے لیے اربابِ اقتدار کی جوتیاں چاٹتے پھرتے ہیں اور آپ کا بچہ تنہا ۲۵۔ ۲۰ کلومیٹر دور انگریزی پڑھنے جانے کی صعوبت برداشت کرسکتا ہے پھر آپ اسے خود گھر پر اردو کیوں نہیں پڑھاسکتے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ دراصل اردو ان لوگوں کے لیے کوئی قدر نہیں بلکہ صرف روزی روٹی کمانے کا وسیلہ ہے۔ اردو کے تئیں ان کا رویہ استعمال پسند طبقے (Consumer class) کا وہ مخصوص رویہ ہے جو کوئی غیر منفعت بخش سودا نہیں خریدنا چاہتا۔ 

    اطہر فاروقی: تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ اردو ہندو مسلمان دونوں کی زبان ہے مگر جب تقسیم کے بعد حالات اور خود سیاسی جماعتوں مع کانگریس نے اسے مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کیا تو پھر مسلم عمائدین کو کھلے طور پر اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنے اور اردو کی لڑائی مسلم اقلیت کی تہذیبی زبان کے لیے تحفظ کی لڑائی کے طور پر لڑنے میں کیا قباحت تھی؟ اس سلسلے میں میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ آزادی کے فوراً بعد کے حالات میں مولانا آزاد جیسے قدآور دانش ور جب بَونے ہوگئے تو ان کے سامنے ایک ہی چارہ تھا کہ وہ علی گڑھ اور ندوۃ العلماء جیسے اداروں کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کریں اور بعد میں یہ ادارے خود اردو کاتحفظ کریں جو بدقسمتی سے نہ ہوسکا اور خصوصاً علی گڑھ نے آزادی کے بعد اردو کے تحفظ کے سلسلے میں انتہائی مایوس کن رویہ اختیار کیا۔ آپ خود بھی اردو کو مسلمانوں کا وجودی مسئلہ تسلیم کرنے کے نظریے سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر اپنے وجودی مسئلے کے تناظر میں آپ میری اس تھیسس سے کہاں تک اتفاق کرتے ہیں کہ اگر آزادی کے بعد مسلمان اپنی توانائی صرف اردو کے لیے صرف کردیتے تو آج تہذیبی و ثقافتی طور پر مزید خسارے میں ہوتے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں آپ کی اس رائے سے بہت حدتک اتفاق کرتا ہوں اور اسی لیے میں مولانا آزاد اور ذاکر صاحب وغیرہ کے ناقدین کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس زمانے میں جو حالات تھے، ان اکابرین کا رویہ بہت حدتک ان کے تناظر میں مدبرانہ تھا یا اس سے بہتر ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ 

    میرے خیال میں اس بات میں کوئی برائی اور قباحت نہیں ہے کہ آج ہم صاف صاف یہ کہنا شروع کردیں کہ اردو شمالی ہند کے مسلمانوں کی زبان ہے اور اردو کے اس معذرت خواہانہ رویے کا بھی مخالف ہوں جس کے پیش نظر وہ یہ کہتے ہیں کہ اردو سکھوں کی بھی زبان ہے اور ہندوؤں کی بھی۔ ارے بھئی، اردو اب صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ ہاں یہ کبھی ہندوؤں اور سکھوں کی زبان تھی مگر اب اردو زبان کا منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہے۔ اگر اردو کے مسئلے کو مسلمانوں کے مسئلے کے طور پر یہ کہہ کر اٹھایا جاتا ہے کہ یہ بہرحال ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت جو دس بارہ کروڑ ہے، کی زبان ہے تو میرے خیال میں ابتدا ہی میں اردو پریشر گروپ اردو کے لیے بہت سی مراعات حاصل کرسکتا تھا جن سے اردو کو واقعی فائدہ ہوتا لیکن ہمارے معذرت خواہانہ رویے کے سبب ہمیں پرائمری اسکول تو نہیں ملے مگر اردو اکادمیاں مل گئیں، پرائمری اسکولوں کی عدم موجودگی میں جن کی کوئی افادیت نہیں۔ 

    لیکن یہاں میں ان ناگفتہ بہ حالات کا مزید ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو تقسیم کے بعد تھے۔ اس وقت مسلمانوں پر ایسا خوف و ہراس مسلط تھا، آپ جس کا اندازہ کر ہی نہیں سکتے۔ غدار ہونے کے الزامات، مسلمان کہہ کر ہندوستان سے نکال دیے جانے کا خوف، مسلمانوں کا کسی اہم عہدے پر فائز نہ ہونا، پولس میں بھرتی نہ کرنے کے خفیہ احکامات (جو اندرا گاندھی کے زمانے میں واپس لیے گئے) ان سب کے درمیان مسلمان اپنے وجود کی بقا کی کشمکش سے دوچار تھا۔ بہت سے مسلمان جو وطن کی محبت میں پاکستان نہیں گئے تھے، بعد میں انہیں مستعفی تک ہونا پڑا۔ مسلمانوں میں دیر تک ہجرت جاری رہنے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے۔ 

    اطہر فاروقی: آزادی کے بعد اردو کے نام پر ابتداً کچھ ایسے لیڈر بھی تو ابھرے جنہیں اردو اور مسلمانوں کے مفادات سے کوئی جزوی دلچسپی بھی نہیں تھی اور ان کے ہر کام کا مقصد کانگریس کو خوش کرنا ہوتا تھا مثلاً حیات اللہ انصاری ایسے ہی لیڈر تھے تو اردو کو کچھ نقصان ان حضرات کی وجہ سے بھی ہوا ہوگا۔ اب تو خیر ہر اردو والا کسی نہ کسی سرکاری ادارے سے وابستہ ہوکر خود فیض یاب ہو رہا ہے اور حکومت کے ایماپر اردو کی بیخ کنی میں مصروف ہے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: آزادی کے بعد اردو اکابرین کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ انہوں نے آسان راستہ اختیار کیا۔ تحرک، جو اسلام کا بہت بڑا عنصر ہے، اسے آزادی کے بعد مسلم رہنماؤں نے پوری طرح آزاد کرکے فرار والی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ اردو ہی نہیں بلکہ دوسرے مسائل کے تناظر میں بھی راہِ فرار والی نفسیات کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ میں ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کی ۲۰ لاکھ دستخطوں کی مہم کو اس رویے کا اظہار قرار دیتا ہوں۔ اسے جس طرح عمل میں لایا گیا اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس وقت بھی نہیں، جب خود ذاکر صاحب صدر ہوئے۔ اس کے بجائے اردو کی حمایت میں اگر دس پندرہ ایم پی متحد ہوجاتے تو کہیں بڑا پریشر گروپ بنتا اور حکومت کو جھکایا جاسکتا تھا۔ ان حضرات نے جو لائحہ عمل مرتب کیا اس کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اردو تحریک کانگریس کے لیے کسی پریشانی یا شرمندگی کا سبب نہیں بن سکی۔ 

    اطہر فاروقی: موجودہ دور میں اردو کی طرف راغب ہونے والے طالب علموں میں اکثریت دینی مدرسوں کا تعلیمی پس منظر رکھنے والے طلبہ کی ہے اور اقتصادی طور پر ان کی اکثریتی پساندہ طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ کم و بیش یہی حال اردو ذریعہ تعلیم اختیار کرنے والے طلبہ کا ہے۔ خصوصاً یونیورسٹیوں میں آنے والے طلبہ کی اکثریت بہار سے تعلق رکھتی ہے جن کے یہاں زبان کا عرفان مفقود ہے۔ آپ کے خیال میں لسانی سطح پر اردو طلبہ کے یہ نئے طبقات کیا اثرات مرتب کریں گے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: مجھے دینی مدارس سے آنے والے طلبہ کے تعلق سے پریشانی یہ ہے کہ یہ لوگ اردو کی تہذیبی روایت کی روح سے واقف نہیں ہیں۔ ادب سے کوئی لگاؤ تو ان لوگوں کو ہوتا ہی نہیں۔ مگر میرے لیے اس سے بھی زیادہ بلکہ سب سے زیادہ پریشانی کا سبب اردو کی نئی نسل پر ہندی کے اثرات کی روز افزوں یلغار ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندی کھڑی بولی کا دیوناگری روپ ہے۔ ہندی کی ادبی حیثیت تو الگ رہی، ابھی یہ بھی مشکوک ہے کہ یہ تمام ملک میں بولی جاتی ہے۔ اگر ہندی اور اردو کی روح آپس میں نفوذ کرجائے تو مجھے کوئی شکایت نہیں۔ مگر ٹی وی اور ریڈیو والی ہندی کی موجودہ لسانی حیثیت میرے لیے ناقابل قبول ہے۔ ہندی میں جس طرح نئے لفظ گڑھے جارہے ہیں ان کے نتیجے میں ہندی کے ذخیرہ الفاظ میں غیر فصیح اور مکروہ لفظیات کا ہی اضافہ ہوگا۔ مثلاً Infiltrator کے لیے ’’گھس پیٹھیا‘‘ مڈل مین کے لیے ’’بچولیا‘‘ اور بوفورس توپ سودا وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ اور ان کو تراشنے کا انداز کھڑی بولی کے مزاج کے منافی ہے۔ اسے ہم کھڑی بولی کا منفی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں۔ اردو میں بھی ہندی کے زیر اثر آج کل لسانی بداحتیاطی عام ہوتی جارہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کھڑی بولی ہندی میں معیاری زبان کی کوئی روایت نہیں ہے اور ہندی والوں کے پاس معیاری زبان کا وہ تصور ہی نہیں ہے جس کی بنیاد پر الفاظ اور محاوروں کی فصاحت اور استناد متعین ہوسکے۔ اردو میں صورت حال مختلف ہے۔ کسی بھی جملے کو اردو والا فوراً سمجھ لے گا کہ یہ اردو کی عام ٹکسالی زبان کا حصہ ہے یا نہیں۔ 

    اطہر فاروقی: یہ تو ہوئی اردو پر ہندی کے لسانی اثرات کی بات، مگر خود اردو زبان اور کلچر کا ر وایتی تصور معدوم ہو رہا ہے۔ آزادی سے قبل اردو پڑھنے والا طبقہ متوسط یا اشرافیہ طبقہ تھا جب کہ آزادی کے بعد اردو کے تحفظ میں ہندوستانی مسلمانوں کے نچلے متوسط طبقے نے اہم رول ادا کیا۔ کل اس نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ ہی نئے اردو کلچر کی تعمیر کریں گے۔ آپ کے ذہن میں اس نئے اردو کلچر کاکیا تصور ہے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: مسلمانوں کا نچلا اور متوسط طبقہ اردو پہلے بھی پڑھتا تھا مگر آزادی کے بعد اشراف کا روایتی تصور معدوم ہونے کے بعد اب صرف نچلا اور نچلا متوسط طبقہ ہی اردو کے نئے سماجی منظر نامے کی تشکیل کر رہا ہے۔ مگر اس میں بھی ایک فرق ہے۔ سارے ہندوستان کے خوش حال اور اشراف مسلمان آزادی سے پہلے اردو نہیں پڑھتے تھے۔ البتہ شمالی ہند کے تمام خوش حال مسلمانوں کے لیے اردو ایک لازمی قدر کی حیثیت رکھتی تھی جب کہ دوسرے جغرافیائی خطوں میں خوش حال مسلمانوں کاصرف ایک طبقہ اردو پڑھتا تھا۔ تقسیم کے بعد خوش حال مسلمانوں کے باقیات میں اردو پڑھنے والوں کا تناسب کم ہوا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھتا کہ اردو کے نچلے متوسط اور پسماندہ مسلمانوں تک محدود ہوجانے سے نقصان ہوگا بلکہ میرے خیال میں اس کا دائرہ اثر بڑھا ہے۔ 

    اطہر فاروقی: اردو کلچر سے وابستہ Fascination کا سبب اشرافیہ مسلم تہذیب کے وہ نفیس اور دل نشیں عناصر ہیں جن کے سبب آج بھی غیرمسلموں میں اردو کی کشش باقی ہے۔ آج وہ اشرافیہ تہذیب بھلے ہی ماضی مرحوم کا حصہ ہوچکی ہو مگر اس کے تہہ نشیں اثرات تو اردو کے خلقیے (Ethos) میں ہیں جب کہ نچلے اور متوسط طبقات کی اردو پر اجارہ داری کے سبب اردو کی تباہی کا امکان زیادہ ہے۔ اردو کا ان طبقات تک محدود ہوجانا قابل تردید حقیقت اور تاریخی المیہ ہے۔ اس لیے میں آپ کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اردو جیسی Elite ethos language کے مستقبل پر آپ Rural domination کے کیا اثرات دیکھتے ہیں؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میرے خیال میں اردو کلچر کی تعریف یہ ہے کہ اس میں شعر و ادب کو Synchronic اور زندہ حقیقت قرار دیاجائے۔ اردوداں کے لیے میر اور غالب یا دوسرے پیش رو شعرا مردہ نہیں بلکہ اب بھی موجود ہیں۔ میرے اور مجھ جیسے دوسرے لوگوں کے لیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے لیے اردو ادب زندہ حقیقت نہیں رہ گیا ہے بلکہ اب اس کی حیثیت محض کتابی ہو کر رہ گئی ہے۔ عام طور پر اردو نہ پڑھنے کے جواز میں جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اردو روزگار سے وابستہ زبان نہیں ہے تو وہ ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اردو جن کی زندگی میں کسی اہم قدر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ 

    اطہر فاروقی: آج ہندوستان میں سرکاری اردو اداروں کی بھرمار ہے۔ تقریباً ہر اہم صوبے میں اردو اکادمی قائم ہے۔ ترقی اردو بورڈ کا سفید ہاتھی دلی میں موجود ہے۔ دوسرے متعدد ادارے ہیں جنہیں حکومت سے امداد ملتی ہے۔ تقریباً ہر وہ اردو والا جو اردو کی روٹی کھاتا ہے۔ ان اداروں سے کسی نہ کسی طرح مستفید ہو رہا ہے اور اردو کے خلاف حکومت کی سازشوں پر اس خوف سے خاموش رہتا ہے کہ اس سے اس کے مفادات پر زد پڑے گی۔ آپ خود بھی ان اداروں سے متعدد حیثیتوں سے وابستہ رہے ہیں بلکہ ترقی اردو بورڈ کے تو آپ ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔ ان اداروں کے قیام کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ عام اردو والے کا نظریہ تو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میرے خیال میں ان اداروں کے قیام کا مقصد تو صرف مسلمانوں کو خوش کرنا ہی تھا لیکن ان اداروں کے ذریعے اردو دنیا میں پیسہ بہت پھیلا اور وہ بہرحال اردووالوں کو ملا، چاہے وہ ادیب ہوں یا شاعر یا پھر کاتب۔ ان اداروں نے کچھ اچھی پرانی کتابوں کو Reprint بھی کرایا اور اس سے اردو والوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا۔ 

    اطہر فاروقی: ایمرجنسی کے دورِ استبداد میں بھی ایک سرکاری اردو ادارہ قائم ہوا تھا جس کا مقصد (غالباً) سنجے گاندھی کی سرگرمیوں اور مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے اردو اہل قلم کی تائید حاصل کرانا تھا۔ آپ اس ادارے سے بھی متعلق تھے۔ آپ کا اس ادارے سے تعلق آج تک آپ کے پرستاروں کے لیے معما بنا ہوا ہے۔ آج جب آپ سرکاری نوکری کی بندشوں سے آزاد ہوچکے ہیں، کیا اس سلسلے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: دراصل نیشنل رائٹرز فورم سے میری وابستگی کا اصل سبب تو میرا سرکاری افسر ہونا تھا۔ لوگوں نے اسے کچھ ہی نام دیا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے بہت سے مخالفوں کو اگر موقع ملتا تو وہ بڑی خوشی سے اس میں شریک ہوتے۔ میں ہمیشہ سے بہت صاف گو اور آزاد رہا ہوں اور میں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ فورم کو ’’سرکاری مصنفین کی انجمن‘‘ نہ ہونا چاہیے۔ پھر اسی زمانے میں ’’آج کل‘‘ نے ایک سوال نامہ شائع کیا جس میں ایمرجنسی کے فوائد پر لکھنے والوں کی رائے مانگی گئی تھی۔ جواب دینے والوں میں، میں واحد شخص تھا جس نے کہا تھا کہ ایمرجنسی سے اظہارِ خیال کی آزادی پر جو قدغن لگی ہے وہ مبارک نہیں ہے۔ نیشنل رائٹرز فورم کے پہلے جلسے میں بھی میں نے اردو ادیبوں سے یہی کہا تھا کہ فورم میں شامل ہونے کا مطلب کانگریسی کارکن بن جانا ہرگز نہیں بلکہ ادب کی تخلیق کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ فورم دراصل وطن دوست ادیبوں کی انجمن ہے اور ادیب کی وطن دوستی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ اچھا ادب لکھے۔ اس جلسے کی روداد اخباروں میں آئی تھی اور اسے اب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

     

    مأخذ:

    شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو (Pg. 290)

      • ناشر: رعنا کتاب گھر، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے