aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی

MORE BYمولوی عبدالحق

    غالباً ۱۸۹۲ء یا ۹۳ء کا ذکر ہے جب میں مدرسۃ العلوم مسلمانان علی گڑھ میں طالب علم تھا۔ مولانا حالیؔ اس زمانے میں یونین کی پاس کی بنگلیا میں مقیم تھے۔ میں اس سال تعطیلوں کے زمانہ میں وطن نہیں گیا تھا تو بورڈنگ ہاؤس ہی میں رہا۔ اکثر مغرب کے بعد کچھ دیر کے لیے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ مولوی صاحب اس زمانے میں ‘‘حیات جاوید’’ کی تالیف میں مصروف تھے اور ساتھ ہی ساتھ ‘‘یادگارِ غالب’’ کو بھی ترتیب دے رہے تھے۔ انہیں دنوں میں میرے ایک عزیز میرے ہاں مہمان تھے، میں جو ایک دن مولانا کے ہاں جانے لگا تو وہ بھی میرے ساتھ ہولیے۔ کچھ دیر مولانا سے بات چیت ہوتی رہی۔ لوٹتے وقت رستے میں عزیز مہمان فرمانے لگے کہ ملنے سے اور باتوں سے تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ وہی مولوی حالیؔ ہیں جنھوں نے ‘‘مسدس’’ لکھا ہے۔ یہ مولانا کی فطری سادگی تھی جو اس خیال کا باعث ہوئی۔

    ایک دوسرا واقعہ جو میری آنکھوں کے سامنے پیش آیا اور جس کا ذکر میں نے کسی دوسرے موقع پر کیا ہے۔ یہ ۱۹۰۵ء کا ذکر ہے، جب غفران مآب اعلیٰ حضرت مرحوم کی جو بلی بلدۂ حیدرآباد اور تمام ریاست میں بڑے جوش اور شوق سے منائی جارہی تھی۔ مولانا حالیؔ بھی اس حویلی میں سرکار کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے اور نظام کلب کے ایک حصے میں ٹھہرائے گئے۔ زمانۂ قیام میں اکثر لوگ صبح سے شام تک ان سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک صاحب جو علی گڑھ کالج کے گریجویٹ اور حیدرآباد میں ایک معزز عہدے پر فائز تھے، مولانا سے ملنے آئے، ٹم ٹم پر سوار تھے۔ زینے کے قریب اترنا چاہتے تھے۔ سائیس کی شامت آئی تو اس نے گاڑی دو قدم آگے جاکر کھڑی کی۔ یہ حضرت اس ذرا سی چوک پر آپے سے باہر ہوگئے اور ساڑ ساڑ کئی ہنٹر غریب کے رسید کردیے۔ مولانا یہ نظارہ اوپر برآمدہ میں کھڑے دیکھ رہے تھے اس کے بعد وہ کھٹ کھٹ کرکے سیڑھیوں پر سے چڑھ کر اوپر آئے۔ مولانا سے ملے۔ مزاج پُرسی کی اور کچھ دیر باتیں کرکے رخصت ہوگئے۔ میں دیکھ رہا تھا۔ مولانا کا چہرہ بالکل متغیر تھا، وہ برآمدے میں ٹہلتے جاتے تھے اور کہتے تھے ‘‘ہائے ظالم نےکیا کیا۔’’ اس روز کھانا بھی اچھی طرح نہ کھاسکے، کھانے کے بعد قیلولے کی عادت تھی۔ وہ بھی نصیب نہ ہوا۔ فرماتے تھے ‘‘یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ہنٹر کسی نے میری پیٹھ پر مارے ہیں۔’’ اس کیفیت سے جو کرب اور درد مولانا کو تھا شاید اس بدنصیب سائیس کو بھی نہ ہوا ہوگا۔

    مولانا کی سیرت میں یہ دو ممتاز خصوصیتیں تھیں۔ ایک سادگی اور دوسری درددلی۔ اور یہی شان ان کے کلام میں ہے۔ ان کی سیرت اور ان کا کلام ایک ہے یا یوں سمجھیے کہ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔

    مجھے اپنے زمانے کے نامور اصحاب اور اپنی قوم کے اکثر بڑے شخصوں سے ملنے کا اتفاق ہواہے لیکن مولانا حالیؔ جیسا پاک سیرت اور خصائل کا بزرگ مجھے ابھی تک کوئی نہیں ملا۔ نواب عماد الملک فرمایا کرتے تھے کہ سرسید کی جماعت میں بحیثیت انسان کے مولانا حالیؔ کا پایہ بہت بلند تھا، اس بات میں سرسید بھی انہیں نہیں پہنچتے تھے۔ جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے یا جو ان سے ملے ہیں وہ ضرور اس قول کی تصدیق کریں گے۔

    خاکساری اور فروتنی خلقی تھی، اس قدر بڑے ہونے پر بھی چھوٹے بڑے سب سے جھک کر اور خلوص سے ملتے تھے۔ جو کوئی ان سے ملنے آتا خوش ہوکر جاتا اور پھر عمر بھر ان کے حسنِ اخلاق کا مداح رہتا تھا۔ ان کا رُتبہ بڑا تھا مگر انہوں نے کبھی اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھا۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت تو وہ کرتے ہی تھے لیکن بعض اوقات وہ اپنے چھوٹوں کا بھی ادب کرتے تھے۔ طالب علمی کے زمانہ میں ایک بار جب وہ علی گڑھ میں مقیم تھے، میں اور مولوی حمید الدین مرحوم ان سے ملنے گئے تو وہ سروقد تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ہم اپنے دل میں بہت شرمند ہوئے۔ مولوی حمید الدین نے کہا بھی کہ آپ ہمیں تعظیم دے کر محجوب کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ آپ لوگوں کی تعظیم نہ کروں تو کس کی کروں، آئندہ آپ ہی تو قوم کے ناخدا ہونے والے ہیں۔

    اس سے بڑھ کر خاکساری کا ثبوت کیا ہوگا کہ انھوں نے اپنی کتابوں پر جو اصلی معنوں میں تصنیف ہوتی تھیں ‘‘ہمیشہ مرتبہ’’ لکھا، کبھی ‘‘مؤلفہ’’ یا ‘‘مصنفہ ’’ کا لفظ نہیں لکھا۔

    آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے مشہور سفیر مولوی انوار احمد مرحوم کہتے تھے کہ ایک بار وہ پانی پت گئے۔ جاڑوں کا زمانہ تھا۔ اندھیرا ہوچکا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھے مولانا کے مکان پر پہنچے۔ دالان کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے پردہ اٹھایا اور جھانک کر دیکھا۔ مولوی صاحب فرش پر بیٹھے تھے اور سامنے آگ کی انگیٹھی رکھی تھی۔ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر ملے اور اپنے پاس بٹھالیا مزاج پُرسی کے بعد کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد کھانا منگوایا، انوار احمد مرحوم کھانے کے بہت شوقین تھے۔ پانی پت کی ملائی بہت مشہور تھی۔ ان کے لیے ملائی منگوائی۔ کھانا کھانے کے بعد کچھ وقت بات چیت میں گزرا پھر ان کے لیے پلنگ بچھواکر بستر کرادیا اور خود آرام کرنے کے لیے اندر چلے گئے۔ یہ بھی تھکے ہوئے تھے، پڑ کر سو رہے۔ مولوی انوار احمد کہتے تھے کہ رات کے بارہ ایک بجے انھیں ایسا میسوس ہوا کہ کوئی شخص ان کی رضائی کو آہستہ آہستہ چھو رہا ہے۔ انھوں نے چونک کر پوچھا کون؟ مولوی صاحب نے کہا ، میں ہوں۔ آج سردی زیادہ ہے مجھے خیال ہوا کہ شاید آپ کے پاس اوڑھنے کا سامان نہ ہو تو یہ کمبل لایا تھا اور آپ کو اوڑھا رہا تھا۔ انوار احمد صاحب کہتے تھے کہ مجھ پر ان کی اس شفقت کا ایسا اثر ہوا کہ عمر بھر نہیں بھول سکتا۔

    مہمان کے آنے سے (اور اکثر ایسا ہوتا تھا) وہ بہت خوش ہوتے تھے اور سچے دل سے خاطر تواضع کرتے تھے اور اس کے خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

    مولانا بہت ہی رقیق القلب تھے۔ دوسرے کی تکلیف کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے تھے اور جہاں تک اختیار میں ہوتا اس کے رفع کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حاجت مندوں کی حاجت روا کرنے میں بڑی فراخدلی سے کام لیتے تھے۔ باوجود یہ کہ ان کی آمدنی قلیل تھی لیکن اپنے پرائے خصوصاً مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ سلوک کرتے رہتے تھے۔ سفارشیں کرکے لوگوں کے کام نکالتے تھے۔ اس میں بڑے چھوٹے کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ بامروّت ایسے تھے کہ انکار نہیں کرسکتے تھے۔ اس قلیل آمدنی پر بھی حاجت مندان کے ہاں سے محروم نہیں جاتے تھے۔

    تعصّب ان میں نام کو نہ تھا۔ ہر قوم و ملت کے آدمی سے یکساں خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے حامی تھے۔ جب کبھی ہندو مسلم نزاع کا کوئی واقعہ سنتے تھے انہیں بہت رنج و افسوس ہوتا تھا۔ تحریر و تقریر میں تو کیا نج کی اور بے تکلفی کی گفتگو میں بھی ان کی زبان سے بھی کوئی کلمہ ایسا سننے میں نہیں آیاجو کسی فرقے کی دل آزاری کا باعث ہو بلکہ اگر کوئی ایسی بات کہتا تو برا مانتے اور نصیحت کرتے تھے۔ بے تعصبی کا وصف انہی لوگوں مںآ پایا جاتا ہے جن کی طبعتب مں انصاف ہوتا ہے۔

    ہندی اردو کا جھگڑا ان کے زمانے میں پیدا ہوچکا تھا، اور اس نے ناگوار صورت اختیار کرلی تھی، لیکن باوجود اس کے کہ انہوں نے عمر بھر اردو کی خدمت کی اور اپنی تحریروں سے اردو کا درجہ بہت بلند کردیا۔ وہ انصاف کی بات کہنے سے کبھی نہ چوکے، چنانچہ ‘‘غمخانہ جاوید’’ کے تبصرے میں لکھتے ہیں:

    آج کل اہلِ ملک کی بدقسمتی سے جو اختلاف ہندو اور مسلمانوں میں اردو زبان کی مخالفت یا اس کی حمایت کی وجہ سے برپا ہے اس کی رفعداد ہوسکتی ہے تو اس طریقے سے ہوسکتی ہے کہ ہندو تعلیم یافتہ اصحاب کشادہ دلی اور فیاضی کے ساتھ اردو زبان میں جو درحقیقت برج بھاشا کی ایک ترقی یافتہ صورت اور اسکی ایک پروان چڑھی ہوئی اولاد ہے اسی طرح تصنیف و تالیف کریں جس طرح ہمارے ہر دل عزیز ہیرو نے اس طولانی تذکرے کو ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اور مسلمان مصنفین بے ضرورت اردو میں عربی فارسی کے غیرمانوس الفاظ استعال کرنے سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کریں اور ان کی جگہ برج بھاشا کے مانوس اور عام فہم الفاظ سے اردو کو مالامال کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح دونوں قوموں میں آشتی اور صلح کی بنیاد ڈالیں اور ایک متنازع فیہ زبان کو مقبولۂ فریقین بنائیں جیسی کہ لکھنؤ جانے سے پہلے تقریباً اہل دہلی کی زبان تھی۔ مذکورہ بالا اختلاف کے متعلق جو تعصب اور ناگواری کا الزام ہندؤں پر لگایا جاتا ہے اس قسم کا بلکہ اس سے زیادہ سخت الزام مسلمانوں پر لگایا جاسکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمان باوجود یہ کہ تقریباً ایک ہزار برس سے ہندوستان میں آباد ہیں مگر اس طویل مدت میں انہوں نے چند مستثنیات کو چھوڑ کر کبھی سنسکرت یا برج بھاشا کی طرف باوجود سخت ضرورت کے آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا جس سنسکرت کو یورپ کے محقق لاطینی و یونانی سے زیادہ فصیح، زیادہ وسیع اور زیادہ باقاعدہ بتاتے ہیں اور جس کی تحقیقات میں عمریں بسر کردیتے ہیں۔ مسلمانوں نے عام طور پر کبھی اس کو قابل التفات نہیں سمجھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سنسکرت کا سیکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے تو برج بھاشا جو بمقابلۂ شگفتہ اور فصاحت و بلاغت سے لبریز ہے اس کو بھی عموماً بیگانہ وار نظروں سے دیکھتے رہے حالانکہ جو اردو ان کو اس قدر عزیز ہے اس کی گریمر کا دارومدار بالکل برج بھاشا یا سنسکرت کی گریمر پر ہے۔ عربی فارسی سے اس کو اس قدر تعلق ہے کہ دونوں زبانوں کے اسماء اس میں کثرت کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ باقی تمام اجزائے کلام جن کے بغیر کسی زبان کی نظم و نثر مفید معنی نہیں ہوسکتی، برج بھاشا یا سنسکرت کی گریمر سے ماخوذ ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ہندوستان میں رہنا اور سنسکرت یا کم سے کم برج بھاشا سے بے پروا یا متنفر ہونا بالکل اپنے تئیں اس مثل کا مصداق بنانا ہے کہ ‘‘دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر۔

    یہ بات بعض لوگوں کو بہت ناگوار گزری اور بعض اردو اخباروں نےاس کی تردید بھی چھاپی لیکن جو سچی بات تھی وہ کہہ گزرے، اس خیال کا اظہار انہوں نےکئی جگہ کیا ہے کہ جو شخص اردو کا ادیب اور محقق ہونا چاہتا ہےاسے سنسکرت یا کم سےکم ہندی بھاشا کا جاننا ضروری ہے۔ ‘‘مقدمۂ شعرو شاعری’’ میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:

    ‘‘اردو پر قدرت حاصل کرنے کے لیے صرف دلّی یا لکھنؤ کی زبان کا تتبع ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ عربی فارسی سے کم متوسط درجے کی لیاقت اور نیز ہندی بھاشا میں فی الجملہ دستگاہ بہم پہنچائی جائے۔ اردو زبان کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے ہندی بھاشا پر رکھی گئی ہے، اس کے تمام افعال اور تمام حروف اور غالب حصہ اسماء کاہندی سے ماخوذ ہے اور اردو شاعری کی بنا فارسی شاعری پر جو عربی شاعری سے مستفاد ہے قائم ہوئی ہے، نیز اردو زبان میں بڑا حصہ اسماء کا عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے۔ پس اردو زبان کا شاعر جو ہندی بھاشا کو مطلق نہیں جانتا اور محض عربی و فارسی کے تان گاڑی چلاتا ہے وہ گویا اپنی گاڑی بغیر پہیوں کے منزلِ مقصود تک پہنچانی چاہتا ہے۔ اور جو عربی و فارسی سے نابلد ہے اور صرف ہندی بھاشا یا محض مادری زبان کے بھروسہ پر اس کا بوجھ کا متحمل ہوتا ہے وہ ایسی گاڑی ٹھیلتا ہے جس میں بیل نہیں جوتے گئے۔’’

    ایک بار جب اردو لغت کی ترتیب کا ذکر ان سے آیا تو فرمانے لگے کہ اردو لغات میں ہندی کے وہ الفاظ جو عام بول چال میں آتے ہیں یا جو ہماری زبان میں کھپ سکتے ہیں بلا تکلف کثرت سے داخل کرنے چاہئیں۔ خود اپنی نظم و نثر میں وہ ہندی الفاظ ایسی خوبصورتی سے لکھ جاتے تھے کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ گویا اسی موقع کےلیے وضع ہوئے تھے۔ انھوں نے بہت سے ایسے الفاظ اردو ادب میں داخل کئے جو ہماری نظروں سے اوجھل تھے اور جن کا آج تک کسی ادیب یا شاعر نے تو کیا ہندی ادیبوں اور شاعروں نے بھی استعمال نہیں کیا تھا، لفظ کا صحیح اور برمحل استعمال جس سے کلام میں جان پڑجائے اور لفظ خود بول اٹھے کہ لکھنے والے کے دل میں کیا چیز کھٹک رہی ہے، ادیب کا بڑا کمال ہے اور یہ کوئی حالیؔ سے سیکھے۔ دلوں میں گھر کر لینے کے جو گرُ ادب میں ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔

    نام نمود چھو کر نہیں گیا تھا۔ ورنہ شہرت وہ بدبلا ہے کہ جہاں یہ آتی ہے کچھ نہ کچھ شیخی آہی جاتی ہے۔ ہمارے شاعروں میں تو تعلّی عیب ہی نہیں رہی، بلکہ شیوہ ہوگئی ہے۔ وہ سیدھی سادی باتیں کرتے تھے اور جیسا کہ عام طور پر دستور ہے باتوں باتوں میں شعر پڑھنا، بحث کرکے اپنی فضیلت جتانا اور اشارے کنائے میں دوسروں کی تحقیر اور درپردہ اپنی بڑائی دکھانا ان میں بالکل نہ تھا۔ ہاں شعر میں البتہ کہیں کہیں تعلّی آگئی ہے، مگر وہ بھی ایسے لطیف پیرائے میں کہ خاکساری کا پہلو وہاں بھی ہاتھ سے جانے نہیں پایا۔ مثلاً:

    گرچہ حالیؔ اگلے استادوں کے آگے ہیچ ہے

    کاش ہوتے ملک میں ایسے ہی اب دوچار ہیچ

    یا۔

    مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اس سے بے خبر

    شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکاں سب سے الگ

    ان کا ذوقِ شعر اعلیٰ درجہ کا تھا جیسا کہ ‘‘حیات سعدی، یادگار غالب اور مقدمہ شعر و شاعری’’ سے ظاہر ہے۔ لیکن وہ خواہ مخواہ اس کی نمائش نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہاں جب کوئی پوچھتا یا اتفاق سے بات آپڑتی تو وہ کھل کر اس کے نکات بیان کرتے تھے۔

    ہمارے ہاں یہ دستور سا ہوگیا ہے کہ جب کبھی کوئی کسی شاعر سے ملتا ہے تو اس سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کرتا ہے۔ شاعر تو شاعر سے اس لیے فرمائش کرتا ہےکہ اسے بھی اپنا کلام سنانے کاشوق گدگداتا ہے اور جانتا ہےکہ اس کے بعد مخاطب بھی اس سے یہی فرمائش کرے گااور بعض اوقات تو اس کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، بغیر فرمائش ہی اپنے کلام سے محظوظ فرمانے لگتے ہیں۔ دوسرے لوگ اس لیے فرمائش کرتے ہیں کہ شاعر ان سے اس کی توقع رکھتا ہے (بعض شاعر تو اس کے لیے بے چین رہتے ہیں) لیکن بعض لوگ سچے دل سے اس بات کے آرزو مند ہوتے ہیں کہ کسی شاعر کا کلام اس کی زبان سے نہیں سنیں۔ لوگ مولانا حالیؔ سے بھی فرمائش کرتے تھے، وہ کسی نہ کسی طرح ٹال جاتے تھے اور اکثر یہ عذر کردیتے تھے کہ میرا حافظہ بہت کمزور ہے اپنا لکھا بھی یاد نہیں رہتا۔ یہ محض عذر لنگ ہی نہ تھا اس میں کچھ حقیقت بھی تھی۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ خود نمائی سے بہت بچتے تھے۔

    جن دنوں مولانا حالیؔ کا قیام حیدرآباد میں تھا ایک دن گرامیؔ مرحوم نے چائے کی دعوت کی۔ چند اور احباب کو بھی بلایا، چائے وغیرہ کے بعد جیسا کہ معمول ہے فرمائش ہوئی کہ کچھ اپنا کلام سنائیے۔ مولانا نے وہی حافظہ کا عذر کیا ہرچند لوگوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو یاد وہ فرمائیے، مگر مولانا عذر ہی کرتے رہے، اتنے میں ا یک صاحب کو خوب سوجھی، وہ چپکے سے اٹھے اور کہیں سے دیوانِ حالیؔ لے آئے اور لاکے سامنے رکھ دیا۔ اب مجبور ہوئے کہ کوئی عذر نہیں چل سکتا تھا۔ آخر انھوں نے یہ غزل سنائی جس کا مطلع تھا:

    ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں

    اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جاکر نظر کہاں

    آج کل تو ہمارے اکثر شاعر لےَ سے یا خاص طور سے گاکے پڑھتے ہیں، ان کا ذکر نہیں لیکن جو تحت اللفظ پڑھتے ہیں، ان میں بعض طرح طرح سے چشم و ابرو، ہاتھ، گردن اور جسم سے کام لیتے اور بعض اوقات ایسی صورتیں بناتے ہیں کہ بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ مولانا سیدھے سادے طور سے پڑھتے تھے۔ البتہ موقع کے لحاظ سے اس طرح ادا کرتے کہ اس سے اثر پیدا ہوتا تھا۔ ایک بار علی گڑھ کالج میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ تھا۔ مولانا کا مزاج کچھ علیل تھا۔ انھوں نے اپنی نظم پڑھنے کے لیے مولوی وحید الدین سلیم صاحب کو دی جو بہت بلند آواز مقرر، پڑھنے میں کمال رکھتے تھے۔ سلیم صاحب ایک ہی بند پڑھنے پائے تھے کہ مولانا سے نہ رہا گیا۔ نظم ان کے ہاتھ سے لے لی اور خود پڑھنی شروع کی۔ ذرا سی دیر میں ساری مجلس میں کہرام مچ گیا۔

    سرسید تو اس زمانے میں خیر موردِ لعن و طعن تھے ہی اور ہرکس و ناکس ان پر منہ آتا تھا۔ لیکن اس کے بعد جس پر سب سے زیادہ اعتراضات کی بوچھار پڑی وہ حالیؔ تھے۔ ایک تو ہر وہ شخص جس کا تعلق سید احمد خاں سے تھا، یوں ہی مردود سمجھا جاتا تھا، اس پر ان کی شاعری جو عام رنگ سے جداتھی اور نشانۂ ملامت بن گئی تھی اور ‘‘مقدمۂ شعر و شاعری’’ نے تو خاصی آگ لگادی۔ اہل لکھنؤ اس معاملہ میں چھوئی موئی سے کم نہیں، وہ معمولی سی تنقید کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ انھیں یہ وہم ہوگیا تھا کہ یہ ساری کارروائی انھیں کی مخالفت میں کی گئی ہے۔ پھر کیا تھا ہر طرف سے نکتہ چینی اور طعن و تعریض کی صدا آنے لگی۔ ‘‘اودھ پنچ’’ میں ایک طویل سلسلۂ مضامین ‘‘مقدمہ’’ کے خلاف مدت تک نکلتا رہا جو ادبی تنقید کا عجیب و غریب نمونہ تھا وہ صرف بے تکے اور مہمل اعتراضات ہی کا مجموعہ نہ تھا بلکہ پھکڑ اور پھبتیوں تک نوبت پہنچ گئی تھی، جن مضامین کے عنوان۔

    ابتر ہمارے حملوں سے حالیؔؔ کا حال ہے

    میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے

    تو اس سے سمجھ لیجیے کہ اس عنوان کے تحت کیا کچھ خرافات نہ بکی گئی ہوگی، مولانا یہ سب کچھ سہتے رہے لیکن کبھی ایک لفظ زبان سے نہ نکالا۔

    کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چپ

    سب کچھ کہا انھوں نے پر ہم نے دم نہ مارا

    لیکن آخر ایک وقت آیا کہ نکتہ چینوں کی زبانیں بند ہوگئیں اور وہی لوگ جو انھیں شاعر تک نہیں سمجھتے تھے، ان کی تقلید کرنے لگلے۔

    غل تو بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں

    مخالفت سہنے کا ان میں عجیب و غریب مادہ تھا۔ کیسا ہی اختلاف ہو وہ صبر کے ساتھ رہتے تھے۔ جواب دیتے تھے لیکن حجت نہیں کرتے تھے۔ بعض اوقات نامعقول بات اور کٹ حجّتی پر غصہ آتا تھا لیکن ضبط سے کام لیتے تھے۔ ضبط اور اعتدال ان کے بہت بڑے اوصاف تھے اور یہ دو خوبیاں ان کے کلام میں بھی کامل طور پر پائی جاتی ہیں۔ یہ ادیب کا بڑا کمال ہے۔ یہ بات صرف اساتذہ کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ ورنہ جوش میں آکر آدمی سر رشتۂ اعتدال کھو بیٹھتا ہے اور بہک کر کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے اور بجائے کچھ کہنے کے چیخنے چلاّنے لگتا ہے۔

    ان کا ایک نواسہ تھا، ماں اس کی بیوہ تھی اور اس کا ایک ہی لڑکا تھا۔ اکلوتا لڑکا بڑا لاڈلا ہوتا ہے۔ اس پر ایک آفت یہ تھی کہ صرع کی بیماری میں مبتلا تھا، اس لیے ہر طرح اس کی خاطر اور رضاجوئی منظور تھی۔ وہ مولانا کو بہت دق کرتا مگر وہ اف تک نہ کرتے۔ وہ اینڈے بینڈے سوالات کرتا۔ یہ بڑے تحمل سے جواب دیتے۔ وہ فضول فرمائشیں کرتا، یہ اس کی تعمیل کرتے۔ وہ خفا ہوتا اور بگڑتا، یہ اس کی دلدہی کرتے۔ وہ روٹھ جاتا، یہ اسے مناتے وہ لڑ کر گھر سے بھاگ جاتا یہ اسے ڈھونڈتے پھرتے۔ پانی پت سے کہیں باہر جاتے تو وہ انہیں دھمکی آمیز خط لکھتا۔ یہ شفقت آمیز خط لکھتے اور سمجھاتے بجھاتے۔ کھچ اس کی دُکھیا ماں کا پاس، وہ سب سے زیادہ اس پر شفقت فرماتے اور اس کی ہٹ، خفگی، روٹھنے مچلنے کو سہتے اور کھبی آزردگی یا بیزاری کا اظہار نہ کرتے۔ اگرچہ جوان ہوگیا تھا مگر مزاج اس کا بچوں کا تھا۔ سلیم مرحوم فرماتے تھے کہ ایک بار اس نے مولانا کو ایسا دھمکایا کہ وہ گر پڑے۔ کہیں خواجہ سجاد حسین صاحب نے دیکھ لیا۔ وہ بہت برہم ہوئے اور شاید اس کے ایک تھپڑ ماردیا۔ مولوی صاحب اس پر سخت ناراض ہوئے اور خواجہ صاحب سے بات چیت موقوف کردی اور جب تک انھوں نے اس لڑکے سے معافی نہیں مانگ لی، ان سے صاف نہ ہوئے۔

    مولانا نے دنیاوی جاہ و مال کی کبھی ہوس نہیں کی، جس حالت پر تھے اس پر قانع تھے، اور خوشی خوشی زندگی بسر کرتے اور اس میں اوروں کی بھی مدد کرتے رہتے تھے۔ ان کی قناعت کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ انہیں عربک اسکول میں ساٹھ روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ جب حیدرآباد میں ان کے وظیفے کی کارروائی ہوئی تو انھوں نے ساٹھ سے زیادہ طلب نہ کئے جس کے تخمیناً پچھتر حالی ہوتے ہیں۔ ایک مدت تک پچھتر ہی ملتے رہے۔ بعد میں پچیس کا اضافہ ہوا۔ ریاست حیدرآباد سے معمولی آدمیوں کو بیش قرار وظیفے ملتے ہیں، وہ چاہتے تو کچھ مشکل نہ تھا، مگر انھوں نے کبھی زیادہ کی ہوس نہ کی اور جو ملتا تھا وہ اس کے لیے بہت شکرگذار تھے۔

    غالباً سوائے ایک آدھ کے انھوں نے کبھی اپنی کسی کتاب کی رجسٹری نہ کرائی۔ جس نے چاہا چھاپ لی۔ ان کی تصانیف مال یغما تھیں۔ مسدس تو اتنا چھپا کہ شاید ہی کوئی کتاب چھپی ہو۔ یہ کیسی سیر چشمی اور عالی ظرفی کی بات ہے۔ خصوصاً ایسے شخص کے لیے جس کی آمدنی محدود اور بڑھتی ہوئی ضرورتوں سے کم ہو۔

    مروّت کے پُتلے تھے۔ جب تک خاص مجبوری نہ ہو کسی کی درخواست رد نہیں کرتے تھے۔ وقت بے وقت لوگ آجاتے اور فضول باتوں میں وقت ضائع کرتے، وہ بیٹھے سُنا کرتے لیکن محض دل آزاری کے خیال سے یہ نہ ہوتا کہ خود اٹھ کر چلے جاتے یا کنایتاً اشارتاً کوئی ایسی بات کہتے کہ لوگ اٹھ جاتے۔ حیدرآباد کے قیام میں میں نے اس کا خوب تماشا دیکھا۔

    اسی طرح طبیعت میں حیا بھی تھی۔ جس سال حیدرآباد تشریف لائے، سرسید کی برسی کا جلسہ بھی انہیں کی موجودگی میں ہوا۔ ان سے خاص طور سے درخواست کی گئی کہ اس جلسے کے لیے سرسید کی زندگی پر کوئی مضمون پڑھیں۔ نواب عماد الملک بہادر صدر تھے۔ مولانا نے اس موقع کے لیے بہت اچھا مضمون لکھا تھا۔ مضمون ذرا طویل تھا۔ پڑھتے پڑھتے شام ہوگئی، اس لیے آخری حصہ چھوڑدیا قیام گاہ پر واپس آکر فرمانےلگے میرا گلا بالکل خشک ہوگیا تھا اور حلق میں کانٹے پڑگئے تھے، اچھا ہوا جو اندھیرا ہوگیا ورنہ اس سے آگے ایک حرف نہ پڑھا جاتا۔ میں نے کہا وہاں پانی شربت وغیرہ کا سب انتظام تھا، آپ نے کیوں نہ فرمایا، اسی وقت پانی یا شربت حاضر کردیا جاتا، کہنے لگے اتنے بڑے مجمع میں پانی مانگتے ہوئے شرم معلوم ہوئی۔

    جب کسی ہونہار تعلیم یافتہ نوجوان کو دیکھتے تو بہت خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ قدر دانی کا یہ حال تھا کہ جہاں کوئی اچھی تحریر نظر سے گزرتی تو اس کی فوراً داد دیتے اور خط لکھ کر لکھنے والے کی ہمت بڑھاتے تھے۔ ‘‘پیسہ’’ اخبار جب روزانہ ہوا تو سب سے پہلے مولانا نے مبارک باد کاتار دیا۔ مولوی ظفر علی خاں کی کارگزاریوں سے خوش ہو کر ان کی تعریف میں نظم لکھی۔ ‘‘ہمدرد’’ اور مولانا محمد علی کی مدح سرائی کی اور جب کبھی کوئی ایسی بات دیکھتے جو قابلِ اعتراض ہوتی تو بڑی ہمدردی اور شفقت سے سمجھاتے اور اس کا دوسرا پہلو سمجھاتے۔ ان کے خطوط میں ایسے بہت سے اشارے پائے جاتے ہیں۔ ان کے بعض ہمعصر اس بات سے ناراض ہوتے تھے کہ مولانا داد دینےاور تعریف کرنے میں بڑی فیاضی برتتے ہیں جس سے لوگوں کا دماغ پھر جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ صحیح ہو۔ لیکن اس کادوسرا پہلو بھی تو ہے۔ ان کی ذرا سی داد سے کتنا دل بڑھ جاتا تھا اور آئندہ کام کرنے کا حوصلہ ہوتا تھا۔

    ہم عصروں اور ہم چشموں کی رقابت پرانی چیز ہے اور ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ جہاں تک مجھے ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا اور بعض وقت چھیڑ چھیڑ کر اور کُرید کُرید کر دیکھا اور ان کی تحریروں کے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مولانا اس عیب سے بری معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین آزاد اور مولانا شبلی کی کتابوں پر کیسے اچھےتبصرے لکھے ہیں اور جو باتیں قابل تعریف ہیں ان کی دل کھول کر داد دی ہے ۔ مگر ان بزرگوں میں سے کسی نے مولانا کی کسی کتاب کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ آزاد مرحوم ان کانام تک سننے کے روادار نہ تھے۔ اس معاملے میں ان کی طبیعت کا رنگ بعینہٖ ایسا تھا جیسے کسی سوت کا ہوتا ہے۔ لاہور میں کرنل ہالرائڈ کی زیر ہدایت جو جدید رنگ کے مشاعرے ہوئے ان میں دونوں نے طبع آزمائی کی۔ ‘‘برکھارُت’’، ‘‘حُبِّ وطن’’، ‘‘نشاطِ امید’’ اسی زمانے کی نظمیں ہیں۔ مولانا کی ان نظموں کی جو تعریف ہوئی تو یہ امر حضرت آزاد کی طبع نازک پر گراں گزرا، اس وقت سے ان کا رخ ایسا پھرا کہ آخر دم تک یہ پھانس نہ نکلی۔ آزاد اپنے رنگ کے بے مثال نثار ہیں مگر شعر کے کوچہ میں ان کا قدم نہیں اٹھتا لیکن مولانا کی انصاف پسندی ملاحظہ کیجیے کیسے صاف لفظوں میں اس نئی تحریک کا سہرا آزادؔ کے سر باندھتے ہیں۔

    ‘‘۱۸۷۴ء میں جو کہ راقم پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو سے متعلق اور لاہور میں مقیم تھا، مولوی محمد حسین آزادؔ کی تحریک اور کرنل ہالرائڈ ڈائرکٹر سر رشتۂ تعلیم پنجاب کی تائید انجمن پنجاب نے ایک مشاعرہ قائم کیا تھا جو ہر مہینے ایک بار انجمن کے مکان میں منعقد ہوتا تھا۔’’

    بات میں بات نکل آتی ہے جب ‘‘حیاتِ جاوید’’ شائع ہوئی تو مولانا نے تین نسخے مجھے بھیجے تھے۔ ایک میرے لئے، ایک مولوی عزیز مرزا کے لیے اور تیسرا یک محترم بزرگ اور ادیب جو اس وقت اتفاق سے حیدرآباد میں وارد تھے۔ میں نے لے جاکر یہ کتاب ان کی خدمت میں پیش کی۔ شکریہ تو رہا ایک طرف دیکھتے ہی فرمایا کہ ‘‘یہ کذب و افترا کا آئینہ ہے’’ وہاں اور بھی کئی صاحب موجود تھے۔ میں یہ سن کر دم بخود رہ گیا، یوں بھی کچھ کہنا سوءِ ادب تھا لیکن جہاں پڑھنے سے پہلے ایسی رائے کا اظہار کر دیا ہو وہاں زبان سے کچھ نکالنا بے کار تھا۔

    اب اس مقابلے میں ایک واقعہ سنیے۔ قیامِ حیدرآباد میں ایک روز مولوی ظفر علی خاں مولانا سے ملنے آئے۔ اس زمانے میں وہ ‘‘دکن ریویو’’ نکالتے تھے۔ کچھ عرصے پہلے اس رسالے میں ایک دو مضمون مولانا شبلی کی کسی کتاب یا رسالے پر شائع ہوئے تھے۔ ان میں کسی قدر بے جا شوخی سے کام لیا گیا تھا۔ مولانا نے اس کے متعلق ظفر علی خاں سے ایسے شفقت آمیز پیرائے میں نصیحت کرنی شروع کی کہ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا، اور سرجھکائے آنکھیں نیچی کیے چپ چاپ سنا کئے۔ مولانا نے یہ فرمایا کہ میں تنقید سے منع نہیں کرتا، تنقید بہت اچھی چیز ہے اور اگر آپ لوگ تنقید نہ کریں گے تو ہماری اصلاح کیونکر ہوگی لیکن تنقید میں ذاتیات سے بحث کرنایا ہنسی اڑانا منصبِ تنقید کے خلاف ہے۔

    خود مولانا پر بہت سی تنقیدیں لکھی گئیں اور نکتہ چینیاں کی گئیں لیکن انھوں نے کبھی اس کا برا نہ مانا۔ مولانا حسرت موہانی کا واقعہ جو مجھ سے مولوی سلیم مرحوم نے بیان فرمایا اور اب شیخ اسمٰعیل صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا ہے بہت ہی پرلطف ہے۔

    ۱۹۰۳ء میں جب مولوی فضل الحسن صاحب حسرت موہانی نے علی گڑھ سے ‘‘اردوئے معلّٰی’’ جاری کیا تو جدید شاعری کے اس مجدد اعظم پر بھی اعتراضات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا۔ مولانا کے پاس اگرچہ ‘‘اردوئے معلّٰی’’ باقاعدہ پہنچتا تھا مگر نہ آپ نے کبھی اعتراضات کاجواب دیا اور نہ مخالفت پر ناراضگی کااظہار فرمایا۔

    علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک مرحوم کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے۔ اور حسب معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔ ایک صبح حسرتؔ موہانی دوستوں کو ساتھ لیے ہوئے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے ادھر ادھر کی باتیں ہوا کیں اتنے میں سید صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے سے حسرت کو دیکھا۔ ان مرحوم میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور ‘‘اردوئے معلّٰی’’ کے دو تین پرچے اٹھا لائے۔

    حسرتؔ اور ان کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں اور اٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے مگر زین العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچہ کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالیؔ کو مخاطب کرکے حسرتؔ اور ‘‘اردوئے معلّٰی’’ کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ کسی مضمون کی دوچار سطریں پڑھتے اور واہ! خوب لکھا کہہ کر داد دیتے تھے، حالیؔ بھی ہوں ہاں سےتائید کرتے جاتے تھے۔ مگر حسرتؔ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

    اتنے میں سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے۔ ‘‘اے مولانا! یہ دیکھیے، آپ کی نسبت کیا لکھا ہے؟ اور کچھ اس قسم کے الفاظ شروع کیے ‘‘سچ تو یہ ہے کہ حالیؔ سے بڑھ کر مخرب زبان کوئی ہو نہیں سکتا اور وہ جتنی جلد اپنے قلم کو اردو کی خدمت سے روکیں اتنا ہی اچھا ہے۔’’

    فرشتہ منش حالیؔ ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکراکر کہا تو یہ کہنا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اور یہ عیب میں داخل نہیں۔’’

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرتؔ سے پوچھا کہ ‘‘حالیؔ کے خلاف اب بھی کچھ لکھوگے؟’’ جواب دیا کہ ‘‘جو کچھ لکھ چکا ہوں اسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔’’

    (رسالہ زمانہ ماہِ دسمبر ۱۹۰۸ء، جلد ۱۱ نمبر۶ صفحہ ۲۹۸ تا ۲۹۹)

    (ماخوذ از تذکرۂ حالی صفحہ ۱۹۵ تا ۱۹۸)

    مولانا حالی انگریزی مطلق نہیں جانتے تھے، ایک آدھ بار سیکھنے کا ارادہ کیا، نہ ہوسکا۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ مغربی تعلیم و تہذیب کے منشا کو جیسا کہ وہ سمجھتے تھے اس وقت بہت سے انگریز تعلیم یافتہ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کلام اور ان کی تصانیف اس کی شاہد ہیں۔ اور جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ کرکے دکھایا آج سینکڑوں تعلیم یافتہ موجود ہیں لیکن ان میں سے کتنے ہیں جنھوں نے اس کا عشر عشیر بھی کیا ہو۔ پھر یہی نہیں کہ ہمارے شاعروں اور مصنفوں کی طرح بالکل خیالی شخص تھے۔ بلکہ جو کہتے اور سمجھتے تھے اس پر عامل بھی تھے۔ آدمی مفکر بھی ہو اور عملی بھی، ایسا شاذ ہوتا ہے، تاہم مولانا نے اپنی بساط کے موافق عملی میدان میں بھی اپنی دو یادگاریں چھوڑی ہیں۔ ایک تو انھوں نے اپنے وطن پانی پت میں مدرسہ قائم کیا جو اب حالیؔ مسلم اسکول کے نام سے موسوم ہے اور ایک پبلک اورینٹل لائبریری قائم کی جو پانی پت میں سب سے بلند اور پرفضا مقام پر واقع ہے۔ اس میں کتابوں کاایک اچھا خاصا ذخیرہ ہے جس سے پانی پت والے مستفید ہوتے۔

    موانا کمزوروں اور بے کسوں کے بڑے حامی تھے۔ خاص کر عورتوں کی جو ہمارے ہاں سب سے بے کس فرقہ ہے، انھوں نے ہمیشہ حمایت کی ‘‘مناجات بیوہ’’ اور ‘‘چپ کی داد’’ یہ دو ایسی نظمیں ہیں جن کی نظیر ہماری زبان میں کیا ہندوستان کی کسی زبان میں نہیں۔ ان نظموں کے ایک ایک مصرع سے خلوص، جوش، ہمدردی اور اثر ٹپکتا ہے۔ یہ نظمیں نہیں، دل و جگر کے ٹکڑے ہیں۔ لکھنا تو بڑی بات ہے، کوئی انھیں بے چشم نم پڑھ بھی نہیں سکتا۔

    جن لوگوں نے صرف ان کا کلام پڑھا ہے شاید وہ سمجھتے ہوں گے کہ مولانا ہر وقت روتے اور بسورتے رہتے ہوں گے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کا دل درد سے لبریز تھا اور ذرا سی ٹھیس سے چھلک اٹھتا تھا، مگر وہ بڑے شگفتہ مزاج اور خوش طبع تھے، خصوصاً اپنے ہم صحبت یاروں میں بڑی ظرافت اور شوخی سے باتیں کرتے تھے۔ ان کے کلام میں بھی کہیں کہیں ظرافت اور زیادہ تر طنز کی جھلک نظر آتی ہے۔

    جدید تعلیم کے بڑے حامی تھے اور اس کی اشاعت اور تلقین میں مقدور بھر کوشش کرتے رہے۔ لیکن آخر عمر میں ہمارے کالجوں کے طلبا کو دیکھ کر انھیں کسی قدر مایوسی ہونے لگی تھی۔ مجھے خود یاد ہے کہ جب ان کے نام حیدرآباد میں ایک روز ‘‘اولڈ بوائے’’ آیا تو اسے پڑھ کر بہت افسوس کرنے لگے کہ اس میں سوائے مسخراپن کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ انھیں علی گڑھ کے طلبا سے اس سے اعلیٰ توقع تھی۔

    ان کی بڑی خواہش تھی کہ اردو زبان میں اعلیٰ درجہ کے ناول خصوصاً ڈرامے لکھے جائیں اور اس بات پر افسوس کرتے تھے کہ یورپین زبانوں سے بہترین ناولوں اور ڈراموں کا اردو میں ترجمہ نہیں کیا گیا تاکہ وہ نمونے کا کام دیں۔ یہ گفتگو انھوں نے کچھ اس ڈھنگ سے کی جس سے مترشح ہوتا تھا کہ ان کا جی چاہتا تھا کہ خود کوئی ڈرامہ لکھیں لیکن اسٹیج سے واقف نہ ہونے اور کوئی عمدہ نمونہ سامنے نہ آنے سے مجبور ہیں۔

    آخر میں ان کی دو بڑی تمنائیں تھیں۔ ایک تو اردو زبان میں تذکیر و تانیث کے اصول منضبط کرنا اور ایک کوئی اور بات تھی جو اس وقت میرے ذہن سے بالکل نکل گئی ہے۔ جب میرا تقرر اورنگ آباد پر ہوا تھا تو میں نے مولانا کی خدمت میں لکھا کہ یہاں کی ہوا بہت معتدل اور خوش گوار ہے۔ پانی بہت لطیف ہے، اور خصوصاً جس مقام پر میں رہتا ہوں وہ بہت ہی پُرفضا ہے۔ آپ کچھ دنوں کے لیے یہاں تشریف لے آئیے، صحت کو بھی فائدہ ہوگا اور جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی آسانی سے انجام پاجائے گا۔ کوئی مخل اوقات بھی نہ ہوگا اور یقین ہے کہ آپ یہاں آکر بہت خوش ہوں گے۔ وہ آنے کے لیے بالکل آمادہ تھے مگر ان کے فرزند خواجہ سجاد حسین صاحب اور دوسرے عزیز و اقارب رضامد نہ تھے۔ عُذر یہ تھا کہ دور دراز کا سفر ہے، ضعیفی کا عالم ہے۔ طبیعت یوں بھی ناساز رہتی ہے، ایسی حالت میں اتنی دور کا سفر خلافِ مصلحت ہے۔ مولانا نے یہ سب کیفیت مجھے لکھ بھیجی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ جب تم ادھر آؤ تو دو ایک روز کے لیے پانی پت بھی چلے آنا۔ اس وقت میں تمھارے ساتھ ہولوں گا، پھر کوئی چوں و چرا نہیں کرے گا۔ جب میں گیا تو وہ بیمار ہو چکے تھے اور بیماری نے اتنا طول کھینچا کہ جان لے کر گئی۔

    مرحوم ہماری قدیم تہذیب کا بے مثل نمونہ تھے۔ شرافت اور نیک نفسی ان پر ختم تھی۔ چہرے سے شرافت، ہمدردی اور شفقت ٹپکتی تھی۔ اور دل کو ان کی طرف کشش ہوتی تھی۔ ان کے پاس بیٹھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی چیز ہم پر اثر کر رہی ہے۔ درگزر کا یہ عالم تھا کہ کوئی ان سے کیسی بدمعاملگی اور بدسلوکی کیوں نہ کرے، ان کے تعلقات میں کبھی فرق نہ آتا۔ جب ملتے تو اسی شفقت و عنایت سے پیش آتے اور کیا مجال کہ اس کی بدسلوکی اور بدمعاملگی کاذکر زبان پر آنے پائے۔ اسی سے نہیں کسی دوسرے سے بھی کبھی ذکر نہ آتا۔ اس سے بڑھ کر کیا تعلیم ہوگی۔ ایسے لوگ جن سے ہر شخص حذر کرتا جب ان سے ملتے تو ان کے حسنِ سلوک اور محبت کا کلمہ پڑھتے ہوئے جاتے تھے۔ پرلے درجے کے نکتہ چیں جو دوسروں کی عیب گیری کیے بغیر مانتے ہی نہیں ان کے ڈنک یہاں آکر گرجاتے تھے۔ اخلاق اگر سیکھنے کی چیز ہے تو وہ ایسے ہی پاک نفس بزرگوں کی صحبت میں آسکتے ہیں۔ ورنہ یوں دنیا میں پند ونصائح کی کوئی کمی نہیں، دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ کیسا ہی برا زمانہ کیوں نہ ہو دنیا کبھی اچھوں سے خالی نہیں ہوتی۔ اب بھی بہت سے صاحبِ علم و فصل، باکمال، ذی وجاہت، نیک سیرت اور نیک دل لوگ موجود ہیں مگر افسوس کہ کوئی حالیؔ نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے