Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرا صاحب

سعادت حسن منٹو

میرا صاحب

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    یہ سن سینتیس کا ذکر ہے۔ مسلم لیگ روبہ شباب تھی۔ میں خود شباب کی ابتدائی منزلوں میں تھا جب خواہ مخواہ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ صحت مند تھا، طاقت ور تھا اور جی میں ہر وقت یہی خواہش تڑپتی تھی کہ سامنے جو قوت آئے اس سے بھڑ جاؤں۔ اگر کوئی قوت سامنے نہ آئے تو اسے خود پیدا کردوں اور مد مقابل بنا کر اس سے گتھ جاؤں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آدمی ہر وقت کچھ کرنے کیلئے بیتاب رہتا ہے۔ کچھ کرنے سے میرا مطلب ہے کوئی بڑا کام، کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام نہ ہو، تو سرزد ہی ہو جائے۔۔۔ مگر کچھ ہو ضرور۔

    اس مختصر تمہید کے بعد اب میں پھر اس زمانے کی طرف لوٹتا ہوں جب غالب جوان تھا ۔معلوم نہیں اس نے اپنی جوانی کے دنوں میں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لیا تھا یا نہیں مگر خاکسار لیگ کا ایک سرگرم کارکن تھا۔ غازی آباد کورمجھ ایسے کئی نوجوانوں کی ایک جماعت تھی، جس کا میں ایک مخلص ممبر تھا۔ اپنے اخلاق کا ذکر میں نے اس لیے بڑے وثوق سے کیا ہے۔۔۔ کہ ان دنوں میر ے پاس سوائے اس کے اور کچھ تھا ہی نہیں۔

    یہ اسی زمانے کا ذکر ہے کہ محمد علی جناح دہلی تشریف لائے اور مسلمانوں نے ان کا شاندار جلوس نکالا۔ جیسا کہ ظاہر ہے غازی آباد کور نے اس جلوس کو پررونق اور پرجوش بنانے میں پورا حصہ لیا۔ ہماری جماعت کے سالار انور قریشی صاحب تھے۔ بڑے تنومند جوان جو اب شاعرِ پاکستان کے لقب سے مشہور ہیں۔ ہماری کور کے جوانوں کے ہونٹوں پر انہی کا تصنیف کردہ قومی ترانہ تھا۔ معلوم نہیں ہم سرتال میں تھے یا نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ جوکچھ بھی ہمارے حلق سے باہر نکلتا اس کو سرتال کی پابندیوں میں جکڑنے کا ہوش کسی کو بھی نہیں تھا۔

    فریاد کی کوئی لےنہیں ہے

    نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

    یہ تاریخی جلوس تاریخی شہردلی کی تاریخی جامع مسجد سے شروع ہوا اور پرجوش نعرے بکھیرتا، چاندنی چوک، لال کنواں، حوض قاضی اور چاوڑی بازار سے ہوتا ہوا اپنی منزل یعنی مسلم لیگ کے آفس پہنچ کر ختم ہوگیا۔اجتماعی طورپر اس تاریخی جلوس میں محمد علی جناح صاحب کو قائد اعظم کے غیر فانی خطاب سے نعرہ زن کیا گیا۔ ان کی سواری کے لئے چھ گھوڑوں کی فٹن کا انتظام تھا۔ جلوس میں مسلم لیگ کے تمام سرکردہ اراکین تھے۔ موٹروں، موٹر سائیکلوں، بائیسکلوں اور اونٹوں کا ایک ہجوم تھا مگر بہت ہی منظم۔ اس نظم کو دیکھ کر قائداعظم جو طبعاً بہت ہی نظم پسند تھے۔ بہت مسرور نظر آتے تھے۔

    میں نے اس جلوس میں ان کی کئی جھلکیاں دیکھیں۔ ان کی پہلی جھلک دیکھ کر میرا ردِ عمل معلوم نہیں کیا تھا۔ اب سوچتا ہوں اور تجزیہ کرتا ہوں تو صرف اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ خلوص چونکہ بے رنگ ہوتا ہے اس لئے وہ ردِ عمل بھی یقیناً بے رنگ تھا۔۔۔ اس وقت اگر کسی بھی آدمی کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہا جاتا کہ وہ دیکھو تمہارا قائداعظم ہے تو میری عقیدت اسے قبول کرلیتی اور اپنے سر آنکھوں پر جگہ دیتی۔۔۔ لیکن جب میں نے جلوس کے مختلف موڑوں اور پیچوں میں ان کو کئی مرتبہ دیکھا تو میری تنومندی کو دھکا سا لگا میرا قائد اور اس قدر دبلا۔۔۔ اس قدر نحیف!

    غالب نے کہا تھا

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

    کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

    وہ ہمارے گھر آئے تھے۔ یہ ان کی مہربانی اور خدا کی قدرت تھی۔ خدا کی قسم میں کبھی ان کو دیکھتا تھا۔۔۔ ان کے نحیف و نزار جسم کو، ، اس مشتِ استخوان کو، اور کبھی اپنے ہٹے کٹے ڈیل ڈول کو۔ جی میں آتا کہ یا تو میں سکڑ جاؤں یا وہ پھیل جائیں۔ لیکن میں نے دل ہی دل میں ان کے انہی ناتواں دست و بازو کو نظرِ بد سے محفوظ رکھنے کے لیے دعائیں بھی مانگیں۔ دشمنوں پر ان کے لگائے ہوئے زخموں کا چرچا عام تھا۔

    حالات پلٹا کھاتے ہی رہتے ہیں۔ معلوم نہیں پلٹوں کا نام حالات ہےیا حالات کا نام پلٹے۔ بہرحال کچھ ایسی صورت ہوئی کہ دماغ میں آرٹ کا کیڑا جو کچھ دیر سے سورہا تھا، جاگا اور آہستہ آہستہ رینگنے لگا۔ طبیعت میں یہ ا کساہٹ پیدا ہوئی کہ بمبے چل کر اس میدان میں قسمت آزمائی کی جائے۔ ڈرامے کی طرف بچپن ہی سے مائل تھا۔ سوچا کہ شاید وہاں چل کر اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل جائے۔۔۔ کہاں خدمتِ قوم و ملت کا جذبہ، اور کہاں اداکاری کا ضبط۔۔۔ انسان بھی عجب مجموعۂ اضداد ہے۔

    بمبے پہنچا۔ ان دنوں امپیرئل فلم کمپنی اپنے جوبن پر تھی۔ یہاں رسائی گوبہت ہی مشکل تھی مگر کسی نہ کسی حیلے سے داخل ہو ہی گیا تھا۔ آٹھ آنے روز پر ایکسٹرا کے طور پر کام کرتا تھا اور یہ خواب دیکھتا تھا کہ ایک روز آسمانِ فلم کا درخشندہ ستارہ بن جاؤں گا۔اللہ کے فضل سے باتونی بہت ہوں۔ خوش گفتار نہ سہی تو کچھ ایسا بدگفتار بھی نہیں۔ اردو مادری زبان ہے جس سے امپیرئل فلم کمپنی کے تمام ستارے نا آشنا تھے۔ اس نے میری مدد دہلی کے بجائے بمبے میں کی، وہ یوں کہ وہاں کے قریب قریب تمام ستاروں نے اپنی گردشوں کا حال مجھ سے لکھوایا اور پڑھوایا کرتے تھے ۔ اردو میں کوئی خط آتا تو میں انہیں پڑھ کے سناتا۔ اس کا مطلب بتاتا۔ اس کا جواب لکھتا۔ مگر اس منشی گیری اور خطوط نویسی سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ اکسٹرا تھا اکسٹرا ہی رہا۔

    اس دوران میں امپیرئل فلم کمپنی کے مالک سیٹھ ارڈشر ایرانی کے خاص الخاص موٹر ڈرائیور بُدھن سے میری دوستی ہوگئی۔ اور اس نے حق یوں ادا کیا کہ فرصت کے اوقات میں مجھے موٹر چلانا سکھا دی، مگر چونکہ یہ اوقات نہایت ہی مختصر ہوتے تھے اور بدھن کو ہرقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ سیٹھ کو اس کی چوری کا علم نہ ہو جائے۔ اس لئے میں اپنی تمام ذہانت کے باوصف موٹر چلانے کے فن پر پوری طرح حاوی نہ ہوسکا۔ حاوی ہونا تو بہت بڑی بات ہے بس یوں سمجھیے کہ مجھے بدھن کی مدد کے بغیر الف جیسی سیدھی سڑک پر سیٹھ ارڈشر کی بیوک چلانا آگئی تھی۔ اس کے کل پرزوں کے متعلق میرا علم صفر تھا۔

    اداکاری کی دھن سر پر بہت بری طرح سوار تھی۔ مگر یہ سر کا معاملہ تھا۔ دل میں مسلم لیگ اور اس کے روح رواں قائداعظم محمد علی جناح بدستور بسے ہوئے تھے ۔امپیرئل فلم کمپنی میں، کینیڈی برج پر، بھنڈی بازار اور محمد علی روڈ میں اور پلے ہاؤس پر اکثر مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ کانگرس کے سلوک کا تذکرہ ہوتا تھا۔ امپیرئل میں سب جانتے تھے کہ میں مسلم لیگی ہوں اور قائداعظم محمد علی جناح کا نام لیوا لیکن یہ وہ زمانہ تھا، جب ہندو کسی کے منہ سے قائداعظم کا نام سن کر اس کے جان لیوا نہیں ہو جاتے تھے۔ قیامِ پاکستان کا مطالبہ ابھی منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ میرا خیال ہے، امپیرئل فلم کمپنی کے لوگ جب مجھ سے قائداعظم کا تعریفی ذکر سنتے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ بھی کوئی ہیرو ہے جس کا میں پرستار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دن اس زمانے کے سب سے بڑے فلمی ہیرو ڈی بلیموریا نے ٹائمز آف انڈیا کا پرچہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’لو بھئی، یہ تمہارے جناح صاحب ہیں۔‘‘

    میں سمجھا ان کی کوئی تصویر چھپی ہے۔ پرچہ بلی موریا کے ہاتھ سے لے لیا۔ الٹ پلٹ کرکے دیکھا۔ مگر ان کی شبیہ نظر نہ آئی۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’کیوں بھیا کہاں ہے ان کا فوٹو۔‘‘بلی موریا کی جون گلبرٹ اسٹائل کی باریک باریک مونچھیں مسکراہٹ کے باعث اس کے ہونٹ پر کچھ پھیل سی گئیں، ’’پھوٹوو وٹو نہیں ہے۔۔۔ ان کا اشتہار چھپا ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’اشتہار؟ کیسا۔۔۔ اشتہار!‘‘

    بلی موریا نے پرچہ لیا اور ایک لمبا کالم دکھا کر کہا، ’’مسٹر جناح کو ایک موٹر مکینک کی ضرورت ہے جو ان کے گراج کا سارا کام سنبھال سکے۔‘‘

    میں نے اخبار میں وہ جگہ دیکھی، جہاں بلی موریا نے انگلی رکھی ہوئی تھی، اور یوں ’’اوہ‘‘ کیا جیسے میں نے ایک ہی نظر میں اشتہار کا سارا مضمون پڑھ لیا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خاکسار کو انگریزی اتنی ہی آتی تھی جتنی ڈی بلی موریا کو اردو۔

    جیسا کہ میں عرض چکا ہوں میری موٹر ڈرائیوری صرف الف سیدھی سڑک تک محدود تھی۔ موٹر کی کیا میکنزم ہوتی ہے اس کے متعلق حرام ہے جو مجھے کچھ علم ہو۔ سیلف دبانے پر انجن کیوں اسٹارٹ ہوتا ہے۔ اس وقت اگر مجھ سے کوئی یہ سوال کرتا تو میں یقیناً یہ جواب کہ یہ قانونِ موٹر ہے۔ سیلف دبانے پر بعض اوقات انجن کیوں اسٹارٹ نہیں ہوتا۔۔۔ اس سوال کا جواب یہ ہوتا کہ یہ بھی قانونِ موٹر ہے جس میں انسانی عقل کو کوئی دخل نہیں۔

    آپ کو حیرت ہوگی کہ میں نے بلی موریا سے جناح صاحب کے بنگلے کا پتہ وغیرہ نوٹ کرلیا اور دوسرے روز صبح ان کے پاس جانے کا ارادہ کرلیا۔ اصل میں مجھے ملازمت حاصل کرنے کا خیال تھا نہ اس کی توقع تھی بس یونہی ان کو ان کی رہائش گاہ میں قریب سے دیکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ اپنے خلوص کو ڈپلومے کے طور پر ساتھ لیے میں مونٹ پلینرنٹ روڈ واقع مالا بارہل پر ان کی خوش نما کوٹھی پر پہنچ گیا۔ باہر پٹھان پہرہ دار تھا۔ کئی تھانوں کی سفید شلوار، سر پر ریشمی لنگی، بہت ہی صاف ستھرا اور بارعب، گرانڈیل اور طاقتور، اس کودیکھ کر میری طبیعت خوش ہوگئی۔ دل ہی دل میں کئی مرتبہ میں نے اس کے اور اپنے ڈنڑ کی پیمائش کی اوریہ محسوس کرکے مجھے بڑی عجیب سی تسکین ہوئی کہ فرق بہت معمولی ہے۔ یہی کوئی ایک آدھ انچ کا۔

    مجھ سے پہلے اور کئی امیدوار جمع تھے۔ سب کے سب اپنی اسناد کے پلندے بغل میں دابے کھڑے تھے۔ میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔بڑے مزے کی بات ہے کہ اسناد تو ایک طرف رہیں۔ میرے پاس ڈرائیونگ کا معمولی لائسنس تک نہیں تھا۔ اس وقت دل صرف اس خیال سے دھڑک رہا تھا کہ بس اب چند لمحوں میں قائداعظم کا دیدار ہونے والا ہے۔

    میں ابھی اپنے دل کی دھڑکن کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ قائداعظم پورچ میں نمودار ہوئے۔ سب اٹینشن ہوگئے۔ میں ایک طرف سمٹ گیا۔ ان کے ساتھ ان کی دراز قد اور دبلی پتلی ہمشیرہ تھیں، جن کی متعدد تصاویر میں اخباروں اور رسالوں میں دیکھ چکا تھا۔ ایک طرف ہٹ کر ان کے باادب سکتر مطلوب صاحب تھے۔

    جناح صاحب نے اپنی یک چشمی عینک آنکھ پر جمائی۔ اور تمام امیدواروں کو بڑے غور سے دیکھا، جب ان کی مسلح آنکھ کا رخ میری طرف ہواتو میں اور زیادہ سمٹ گیا۔ فوراً ان کی کھب جانے والی آواز بلند ہوئی مجھے صرف اتنا سنائی دیا، ’’یو۔۔۔؟‘‘ اتنی انگریزی میں جانتا تھا۔ ان کا مطلب تھا۔ ’’تم۔‘‘ مگر وہ ’تم‘ کون تھا۔ جس سے وہ مخاطب ہوئے تھے؟ میں سمجھا کہ میرے ساتھ والا ہے چنانچہ میں نے اسے کہنی سے ٹہوکا دیا اور کہا، ’’بولو۔ تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘

    میرے ساتھی نے لکنت بھرے لہجہ میں پوچھا، ’’صاحب میں؟‘‘

    قائداعظم کی آواز پھر بلند ہوئی، ’’نو۔۔۔ٹم۔‘‘

    ان کی باریک مگر لوہے جیسی سخت انگلی میری طرف تھی۔ میرا تن بدن کانپ اٹھا، ’’جی جی۔۔۔ میں؟‘‘

    ’’یس!‘‘یہ تھری ناٹ تھری کی گولی تو میرے دل و دماغ کے پار ہوگئی۔ میرا حلق۔۔۔ قائداعظم کے نعرے بلند کرنے والا حلق بالکل سوکھ گیا۔۔۔ میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔۔ مگر جب انہوں نے اپنا مونوکل آنکھ سے اتار کر ’’آل رائٹ‘‘ کہا تو میں نے محسوس کیاکہ شاید میں نے کچھ کہا تھا۔ جو انہوں نے سن لیا تھا۔ یا وہ میری کیفیت بھانپ گئے تھے اور میرے نطق کو مزید اذیت سے بچانے کیلئے انہوں نے ’’آل رائٹ‘‘ کہہ دیا تھا۔

    پلٹ کر انہوں نے اپنے حسین و جمیل اور صحت مند سیکرٹری کی طرف دیکھا اور اس سے کچھ کہا۔ اس کے بعد وہ اپنی ہمشیرہ کے ساتھ اندر تشریف لے گیے۔ میں اپنے دل و دماغ کی گڑ بڑ جلدی جلدی سمیٹ کر وہاں سے چلنے ہی والا تھا کہ مطلوب صاحب نے مجھے پکارا اور کہا کہ صاحب نے تمہیں کل دس بجے یہاں حاضر ہونے کے لیے کہا ہے۔

    میں مطلوب صاحب سے یہ سوال نہ کرسکا کہ صاحب نے مجھے کیوں بلایا ہے، ان کو یہ بھی نہ بتاسکا کہ میں بلائے جانے کے ہرگز ہرگز قابل نہیں ہوں۔ اس لئے کہ میں اس ملازمت کا بالکل اہل نہیں جس کے لیے قائداعظم نے اشتہار دیا ہے۔ وہ بھی اندر چلے گئے اور میں گھر لوٹ آیا۔

    دوسرے دن صبح دس بجے پھر درِ دولت پر حاضر ہوا۔ جب اطلاع کرائی تو ان کے خوش پوش حسین و جمیل اور صحت مند سیکرٹری تشریف لائے۔ اور مجھے یہ حیرت انگیز مژدہ سنایا کہ صاحب نے مجھے پسند کیا ہے اس لئے میں فوراً گراج کا چارج لے لوں۔

    یہ سن کر جی میں آئی کہ ان پر اپنی قابلیت کا سارا پول کھول دوں اور صاف صاف کہہ دوں کہ حضرت قائداعظم کو اس خاکسار کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے، میں تو محض تفریحاً یہاں چلا آیا تھا۔ یہ آپ گراج کا بوجھ اس نااہل کے کاندھوں پر کیوں دھر رہے ہیں مگر جانے کیوں میں کچھ نہ بولا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آناً فاناً گراج کا پردھان بنا دیا گیا۔ چابیاں میرے حوالے کردی گئیں۔ چار کاریں تھیں۔ مختلف میک کی۔ اور مجھے صرف سیٹھ ارڈشرایرانی کی بیوک چلانا آتی تھی اور وہ بھی الف جیسی سیدھی سڑک پر۔مالا بارہل تک پہنچنے میں کئی موڑ تھے، کئی خم، اور موٹر میں آزاد کو صرف اپنی اکیلی جان نہیں لے جانا تھی۔ اسے خدا معلوم کن کن اہم کاموں میں اس رہنما کو لیے لیے پھرنا تھا، جس کی زندگی کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کی جان وابستہ تھی۔

    میں نے سوچا چابیاں وغیرہ سب چھوڑ چھاڑکر بھاگ جاؤں۔ بھاگ کے سیدھا گھر پہنچوں۔ وہاں سے اپنا اسباب اٹھاؤں اور ٹکٹ کٹا کے دہلی کا رخ کروں۔ مگر پھر سوچتا یہ درست نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ بلاکم وکاست جناح صاحب کو سارے حقائق سے باخبر کردوں اور معافی مانگ کر انسانوں کی طرح واپس اس جگہ چلا جاؤں جو کہ میرا اصل مقام ہے۔ مگر آپ یقین مانئے کہ مجھے پورے چھ مہینے تک اس کا موقع نہ ملا۔‘‘

    میں نے پوچھا۔ ’’وہ کیسے؟‘‘

    محمد حنیف آزاد نے جواب دیا، ’’آپ سن لیجئے۔۔۔ دوسرے روز حکم ہوا کہ آزاد موٹر لائے۔ وہ جو ایسے موقعوں پر خطا ہوا کرتا ہے، خطا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ جونہی صاحب سامنے آئیں گے سلام کرکے گراج کی چابیاں ان کے حوالے کردوں گا اور ان کے قدموں میں گر پڑوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔۔۔ وہ پورچ میں تشریف لائے تو اس بندۂ نابکار کے منہ سے رعب کے مارے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ فاطمہ صاحبہ تھیں۔ عورت کے سامنے کسی کے قدموں میں گرنا، منٹو صاحب، کچھ بہت وہ تھا۔۔۔‘‘ میں نے آزاد کی موٹی موٹی آنکھوں میں شرم کے لال لال ڈورے دیکھے اور مسکرا دیا، ’’خیر۔۔۔ پھر کیا ہوا۔‘‘

    ’’ہوا یہ منٹو صاحب کہ خاکسار کو موٹر اسٹارٹ کرنی ہی پڑی۔ نئی پیکارڈ تھی۔ اللہ کا نام لے کر اٹکل پچو اسٹارٹ تو کردی اور بڑی صفائی سے کوٹھی کے باہر بھی لے گیا، پر جب مالا بارہل سے نیچے اترتے وقت لال بتی کے موڑ کے پاس پہنچا، جانتے ہیں نہ لال بتی؟‘‘

    میں نے اثبات میں سر ہلایا، ’’ہاں ہاں!‘‘

    ’’بس صاحب، وہاں مشکل پیدا ہوگئی۔ استاد بدھن نے کہا تھا کہ بریک دبا کر معاملہ ٹھیک کرلیا کرو۔ افراتفری کے عالم میں کچھ ایسے اناڑی پن سے بریک دبائی کہ گاڑی ایک دھچکے کے ساتھ رکی۔ قائداعظم کے ہاتھ سے ان کا سگار گر پڑا۔۔۔ فاطمہ جناح صاحبہ اچھل کر دوبا لشت آگے ۔۔۔ لگیں مجھے گالیاں دینے۔۔۔ کاٹو تو لہو نہیں میرے بدن میں۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ دماغ چکرانے لگا۔ قائداعظم نے سگار اٹھایا اور انگریزی میں کچھ کہا۔ جس کا غالباً یہ مطلب تھا کہ واپس لے چلو۔۔۔ میں نے حکم کی تعمیل کی تو انہوں نے نئی گاڑی اور نیا ڈرائیور طلب فرمایا اور جہاں جانا تھا چلے گئے۔۔۔ اس واقعہ کے بعد چھ مہینے تک مجھے ان کی خدمت کا موقع نہ ملا۔‘‘

    میں نے مسکرا کر پوچھا، ’’ایسی ہی خدمت کا؟‘‘ آزاد بھی مسکرایا، ’’جی ہاں۔۔۔بس یوں سمجھئے کہ صاحب نے مجھے اس کا موقع نہ دیا۔ دوسرے ڈرائیور تھے۔ وہ ان کی وردی میں رہتے تھے۔ مطلوب صاحب رات کو بتا دیتے تھے کہ کون ڈرائیور کب اور کس گاڑی کے لئے چاہیے۔ میں اگر ان سے اپنے متعلق کچھ دریافت کرتا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکتے۔ یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا، صاحب کے دل میں کیا ہے، اس کے متعلق کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اور نہ ان سے کوئی کسی امر کے بارے میں استفسار ہی کرسکتا تھا۔ وہ صرف مطلب کی بات کرتے تھے اور مطلب کی بات ہی سنتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے اتنا قریب ہوتے ہوئے بھی یہ معلوم نہ کرسکا کہ اپنے گراج کا قائد بنا کر ایک بے کار پرزے کی طرح انہوں نے مجھے کیوں ایک طرف پھینک رکھا ہے۔‘‘ میں نے آزاد سے کہا، ’’ہو سکتا ہے وہ تمہیں قطعاً بھول ہی گئے ہوں۔‘‘

    آزاد کے حلق سے وزنی قہقہہ بلند ہوا، ’’نہیں جناب نہیں۔۔۔ صاحب بھولے سے بھی کبھی نہیں بھولتے تھے۔ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آزاد چھ مہینے سے گراج میں پڑا روٹیاں توڑ رہا ہے۔ اور منٹو صاحب جب آزاد روٹیاں توڑے تو وہ معمولی روٹیاں نہیں ہوتیں یہ تن و توش ملاخطہ فرما لیجئے۔‘‘

    میں نے آزاد کی طرف دیکھا۔ سن سینتیس، اڑتیس میں جانے اس کا کیا تن وتوش تھا۔ مگر میرے سامنے ایک کافی مضبوط اور تنومند آدمی بیٹھا تھا۔ جس کو آپ ایکٹر کی حیثیت میں یقیناً جانتے ہوں گے۔ تقسیم سے پہلے وہ بمبئی کے فلموں میں کام کرتا تھا، اور آج کل یہاں لاہور میں اپنے دوسرے ایکٹر بھائیوں کے ساتھ فلمی صنعت کی زبوں حالی کا شکار کسی نہ کسی حیلے گزر اوقات کررہا ہے۔

    مجھے پچھلے برس ایک دوست سے معلوم ہوا تھا کہ یہ موٹی موٹی آنکھوں، سیاہ رنگ اور کسرتی بدن والا ایکٹر ایک مدت تک قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا موٹر ڈرائیو رہ چکا ہے، چنانچہ اسی وقت سے میری نگاہ اس پر تھی۔ جب کبھی اس سے ملاقات ہوتی میں اس کے آقا کا ذکر چھیڑ دیتا اور اس سے باتیں سن سن کر اپنے حافظے میں جمع کرتا رہتا۔

    کل جب میں نے یہ مضمون لکھنے کیے لیےاس سے کئی باتیں دوبارہ سنیں تو مجھے قائداعظم کی زندگی کے ایک بہت ہی دلچسپ پہلو کی جھلک نظر آئی۔ محمد حنیف آزاد کے ذہن پر اس بات نے خاص طور پر اثر کیا کہ اس کا آقا طاقت پسند تھاجس طرح علامہ اقبالؒ کو بلند قامت چیزیں پسند تھیں۔ اسی طرح قائداعظم کو تنومند چیزیں مرغوب تھیں، یہی وجہ ے کہ اپنے لئے ملازموں کا انتخاب کرتے وقت وہ جسمانی صحت اور طاقت سب سے پہلے دیکھتے تھے۔

    اس زمانے میں جس کا ذکر محمد حنیف آزاد کرتا ہے، قائداعظم کا سیکرٹری مطلوب بڑا وجیہہ آدمی تھا۔ جتنے ڈرائیور تھے، سب کے سب جسمانی صحت کا بہترین نمونہ تھے۔ کوٹھی کے پاسبان بھی اسی نقطہ نظر سے چنے جاتے تھے۔ اس کا نفسیاتی پس منظر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہےکہ جناح مرحوم خود بہت ہی کمزوراور نحیف تھے، مگر طبیعت چونکہ بے حد مضبوط اور کسرتی تھی اس لئے کسی ضعیف اور نحیف شے کو خود سے منسوب ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔

    وہ چیز جو انسان کو مرغوب اور پیاری ہو، اس کے بناؤ سنگھار کا وہ خاص اہتمام کرتا ہے۔ چنانچہ قائداعظم کو اپنے صحت مند اور طاقتور ملازموں کی پوشش کا بہت خیال رہتا تھا۔ پٹھان چوکیدار کو حکم تھا کہ وہ ہمیشہ اپنا قومی لباس پہنا کرے۔ آزاد پنجابی نہیں تھا۔ لیکن کبھی کبھی ارشاد ہوتا تھا کہ پگڑی پہنے۔ سر کا یہ لباس بڑا طرحدار ہے۔ چونکہ اس سے قدوقامت میں خوش گوار اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس کے سر پر پگڑی بندھوا کر بہت خوش ہوتے تھے اور اس خوشی میں اس کو انعام دیا کرتے تھے۔

    اگر غور کیا جائے تو جسم کی لاغری کا یہ احساس ہی ان کی مضبوط اور پروجاہت زندگی کی سب سے بڑی قوت تھی۔ ان کے چلنے پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے اور بولنے سوچنے میں یہ قوت ہر وقت کارفرما رہتی۔محمد حنیف آزاد نے مجھے بتایا کہ قائداعظم کی خوراک بہت ہی قلیل تھی۔ وہ اتنا کم کھاتے تھے کہ مجھے بعض اوقات تعجب ہوتا تھا کہ وہ جیتے کس طرح ہیں۔ اگر مجھے اس خوراک پر رکھا جاتا تو یقیناً دوسرے ہی روز میری چربی پگھلنے لگتی۔لیکن اس کے برعکس ہر روز چار پانچ مرغیاں باورچی خانہ میں ذبح ہوتی تھیں۔ ان میں سے صرف ایک چوزے کی یخنی اور وہ بھی بمشکل ایک چھوٹی پیالی ان کی خوراک کا جزو بنتی تھی۔ فروٹ ہر روز آتا تھا اور کافی مقدار میں آتا مگریہ سب ملازموں کے پیٹ میں جاتا تھا۔ہر روز رات کے کھانے کے بعد صاحب کاغذ پر اشیاء خوردنی کی فہرست پر نشان لگا دیتے تھے اور ایک سو کا نوٹ میرے حوالے کردیتے تھے۔ یہ دوسرے روز کے طعام کے اخراجات کے لیےہوتا تھا۔‘‘

    میں نے آزاد سے پوچھا، ’’ہر روز سو روپے؟‘‘

    ’’جی ہاں، پورے سو روپے، اور قائداعظم کبھی حساب طلب نہیں فرماتے تھے۔ جو باقی بچتا وہ سب ملازموں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ کبھی تیس بچ جاتے تھےکبھی چالیس اور کبھی کبھی ساٹھ ستر۔ ان کو یقیناً اس بات کا علم تھا کہ ہم ہر روز بہت سے روپے گول کرتے ہیں مگر اس کا ذکر انہوں نے کبھی نہ کیا۔ البتہ مس جناح بہت تیز تھیں۔ اکثر بگڑ جاتی تھیں کہ ہم سب چور ہیں۔ایک آنے کی چیز کا ایک روپیہ لگاتے ہیں۔ مگر صاحب کا سلوک کچھ ایسا تھا کہ ہم سب ان کے مال کو اپنا مال سمجھنے لگے تھے ۔چنانچہ ان کی جھڑکیاں اور گھڑکیاں سن کر اپنے کان سمیٹ لیتے تھے۔۔ صاحب ایسے موقعوں پر اپنی ہمشیرہ سے ’’اٹ از آل رائٹ۔ اِٹ از آل رائٹ۔‘‘ کہتے اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔

    مگر ایک دفعہ ’’اِٹ از آل رائٹ‘‘ کہنے سے معاملہ رفع نہ ہوا اور محترمہ مس جناح نے باورچی کو نکال دیا۔ ایک باورچی کو نہیں دونوں باورچیوں کو، کیونکہ قائداعظم بیک وقت باورچی خانے کے لیے دو ملازم رکھتے تھے۔ ایک وہ جو ہندوستانی کھانے پکانا جانتا ہو، دوسرا جو انگریزی طرز کے کھانے پکانے کی مہارت رکھتا ہو۔ عام طور پر ہندوستانی باورچی بیکار پڑا رہتا تھا لیکن کبھی کبھی بعض اوقات مہینوں کے بعد اس کی باری آتی تھی۔ اور اس کو حکم ملتا تھا کہ وہ ہندوستانی کھانے تیار کرےمگر قائداعظم کو ان سے دلی رغبت نہیں تھی۔

    آزاد نے بتایا، ’’جب دونوں باورچی نکال باہر کیے گیے تو صاحب نے کچھ نہ کہا۔ وہ اپنی ہمشیرہ کے معاملوں میں دخل نہیں دیا کرتے تھے۔ چنانچہ کئی دن دونوں وقت کا کھانا تاج ہوٹل میں تناول فرماتے رہے۔ اس دوران ہم لوگوں نے خوب عیش کیے۔ گھر سے موٹر لے کر نئے باورچیوں کی تلاش میں نکل جاتے اور گھنٹوں ادھر ادھر گھوم گھام کر واپس آجاتے تھے کہ کام کا کوئی آدمی نہ ملا۔ آخر میں مس جناح کے کہنے پر پرانے باورچی واپس بلا لیے گیے۔‘‘

    جو شخص بہت کم خور ہو، وہ دوسروں کو بہت کھاتے دیکھ کر یا تو جلتا بھنتا ہے یا بہت خوش ہوتا ہے۔ قائد اعظم دوسری قبیل کے کم خوروں میں تھے۔ وہ دوسروں کو کھلا کر دلی مسرت محسوس کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ہر روز سو روپے دے کروہ حساب کتاب سے بالکل غافل ہو جاتے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسراف پسند تھے۔ محمد حنیف آزاد ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہے۔

    ’’یہ سن انتالیس کا ذکرہے۔ شام کے وقت ورلی کی سیر ہورہی تھی، میں ان کی سفید پیکارڈ آہستہ آہستہ چلا رہا تھا۔ سمندر کی موجیں ہولے ہولے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں، موسم میں گلابی خنکی تھی، صاحب کا موڈ بہت اچھا تھا، میں نے موقعہ پا کر عید کا ذکر چھیڑا۔ اس سے جو میرا مطلب تھا وہ ظاہر ہے۔صاحب فوراً تاڑ گئے میں نے بیک ویو مرر میں دیکھا، ان کے پتلے ہونٹ مسکرائے۔ نہ جدا ہونے والا سگار منہ سے نکال کر انہوں نے کہا، ’’اوہ۔۔۔ ول ول۔۔۔ ابھی ٹم ایک دم مسلمان ہوگیا ہے۔۔۔ تھوڑا ہندو بنو۔‘‘

    اس سے چار روز پہلے قائداعظمؒ آزاد کو مسلمان بنا چکے تھے۔ یعنی انعام کے طور پر اسے دو سو روپے دے چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو تھوڑا سا ہندو بننے کی تلقین کی۔۔۔ مگر آزاد پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس عید پر وہ سید مرتضےٰ جیلانی فلم پروڈیوسر کے پاس اپنی مسلمانی مستحکم کرنے کی غرض سے آیا تھا کہ اس سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے یہ مضمون تیار کرنے کے لیے اس سے مزید معلومات حاصل کیں۔قائداعظمؒ کی گھریلو زندگی کا صحیح نقشہ مستور ہے اور ہمیشہ مستور رہے گا۔۔۔۔ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کی گھریلو زندگی، ان کی سیاسی زندگی میں کچھ اس طرح مدغم ہوگئی تھی کہ اس کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ بیوی تھی، وہ مدت ہوئی ان سے جدا ہو چکی تھی، لڑکی تھی اس نے ان کی مرضی کے خلاف ایک پارسی لڑکے سے شادی کرلی تھی۔

    محمد حنیف آزاد نے مجھے بتایا، ’’صاحب کو اس کا سخت صدمہ پہنچا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کرے۔ خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو۔ لیکن ان کی لڑکی یہ جواز پیش کرتی تھی کہ ’’جب صاحب کو اپنی شریکِ زندگی منتخب کرنے میں آزادی حاصل تھی تو وہ یہ آزادی اسے کیوں نہیں بخشتے۔‘‘

    قائداعظم نے بمبے کے ایک بہت بڑے پارسی کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے، لیکن یہ بات بہت کم آدمیوں کو معلوم ہے کہ پارسی اس رشتے سے بہت ناخوش تھے، ان کی یہ کوشش اور خواہش تھی کہ جناح صاحب سے بدلہ لیں۔چنانچہ بعض دقیقہ رس اصحاب کا یہ کہنا تھا کہ قائداعظم کی لڑکی کا پارسی لڑکے سے شادی کرنا ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے۔ میں نے جب اس کا ذکر آزاد سے کیا تو اس نے کہا، ’’اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن مجھے صرف اس قدر معلوم ہے کہ صاحب کی زندگی میں اپنی بیوی کی موت کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا۔

    جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کی صاحب زادی نے ایک پارسی سے شادی کرلی ہے تو وہ بے حد متاثر ہوئے، ان کا چہرہ اس قدر لطیف تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ بھی اس پر اتار چڑھاؤ پیدا کر دیتا تھا، جو دوسروں کو فوراً نظر آجاتا تھا۔ ماتھے پر ہلکی سی شکن ایک خوفناک خط کی صورت اختیار کر جاتی تھی۔۔۔ ان کے دل و دماغ پر اس حادثے سے کیا گزری، اس کے متعلق مرحوم ہی کچھ کہہ سکتے تھے۔ ہمیں صرف خارجی ذریعوں سے جو کچھ معلوم ہوا کہ اس کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت مضطرب رہے، پندرہ روز تک وہ کسی سے نہ ملے۔ اس دوران میں انہوں نے سیکڑوں سگار پھونک ڈالے ہوں گےاور سیکڑوں میل ہی اپنے کمرے میں ادھر چکرلگا کر طے کیے ہوں گے۔‘‘

    سوچ بچار کے عالم میں ان کو ادھر ادھر ٹہلنے کی عادت تھی۔ رات کے سناٹے میں وہ اکثر پختہ اور بے داغ فرش پر ایک عرصے تک ٹہلتے رہتے تھے۔ نپے تلے قدم ادھر سے ادھر ایک فاصلہ، خاموش فضا، جب وہ چلتے تو ان کے سفید اور کالے یا سفید اور براؤن شوز ایک عجیب قسم کی یک آہنگ ٹک ٹک پیدا کرتے، جیسے کلاک معین وقفوں کے بعد اپنی زندگی کی خبر دے رہا ہے۔ قائداعظم کو اپنے جوتوں سے پیار تھا، اس لیے کہ وہ ان کے قدموں میں ہوتے تھے اور ہر وقت ان کے اشاروں پر چلتے تھے۔

    پندرہ دن مسلسل ذہنی اور روحانی طور پر مضطرب رہنے کے بعد ایک روز ایکا ایکی نمودار ہوئے، ان کے چہرے پر اب اس صدمے کا کوئی اثر باقی نہیں تھا۔ ان کی گردن جس میں فرطِ غم کے باعث خفیف سا خم پیدا ہوگیا تھا، پھر اسی طرح سیدھی اور اکڑی ہوئی تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس صدمے کو بالکل بھول گئے تھے۔جب آزاد نے قائداعظم کی زندگی کے اس صدمے کا ذکر دوبارہ چھیڑا تو میں نے اس سے پوچھا، ’’وہ اس صدمے کو نہیں بھولے تھے۔ یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا۔‘‘

    آزاد نے جواب دیا، ’’ملازموں سے کیا بات چھپی رہتی ہے۔ کبھی کبھی وہ بڑا صندوق کھلوانے کا حکم دیتے تھے۔ جست کے اس جہازی صندوق میں بےشمار کپڑے تھے، ان کی مرحوم بیوی اور نافرماں بردار لڑکی کے، جب وہ چھوٹی سی بچی تھی۔ یہ کپڑے باہر نکالے جاتے تو صاحب بڑی سنگین خاموشی سے ان کو دیکھتے رہتے۔ ایک دم ان کے دبلے پتلے اور شفاف چہرے پر غم و اندوہ کی لکیروں کا ایک جال سا بکھر جاتا۔ اِٹ از آل رایٹ۔ اِٹ از آل رائٹ، کہہ کر وہ اپنی آنکھ سے مونوکل اتارتے اور اسے پونچھتے ہوئے ایک طرف چل دیتے۔‘‘

    محمد حنیف آزاد کے بیان کے مطابق قائداعظم کی تین بہنیں ہیں۔ ’’فاطمہ جناح، رحمت جناح، تیسری کا نام مجھے یاد نہیں۔ وہ ڈونگری میں رہتی تھیں۔ چوپاٹی کورنر نزد چنائی موٹر ورکس پر رحمت جناح مقیم تھیں، ان کے شوہر کہیں ملازم تھے، آمدن قلیل تھی، صاحب ہر مہینے مجھے ایک بند لفافہ دیتے، جس میں کچھ کرنسی نوٹ ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ایک پارسل سا بھی دیتے جس میں غالباً کپڑے وغیرہ ہوتے تھے۔ یہ چیزیں مجھے رحمت جناح کے ہاں پہنچانا ہوتی تھیں۔ یہاں مس فاطمہ جناح اور خود صاحب بھی کبھی کبھی جایا کرتے تھے۔ وہ بہن جو ڈونگری میں رہتی تھیں شادی شدہ تھیں، ان کے متعلق مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ آسودہ حال تھیں اور کسی امداد کی محتاج نہیں تھیں۔ ایک بھائی تھا۔ اس کی مدد وہ باقاعدہ کرتے تھے مگر اس کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘

    ’’قائداعظم کے اس بھائی کو میں نے بمبے میں دیکھا ہے، سیوائے بار میں ایک شام کو میں نے دیکھا کہ قائداعظم کی شکل و صورت کا ایک آدمی آدھارم کا آرڈر دے رہا ہے۔ ویسا ہی ناک نقشہ، ویسے ہی الٹے کنگھی کیے ہوئے بال، قریب قرب ویسی ہی سفید لٹ، میں نے کسی سے اس کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مسٹر محمد علی جناح کا بھائی احمد علی ہے۔ میں بہت دیر اس کو دیکھتا رہا۔ رم کا آدھا پیگ اس نے بڑی شان سے آہستہ آہستہ لبوں کے ذریعے سے چوس چوس کر ختم کیا۔ بل جو ایک روپے سے کم تھا یوں ادا کیا جیسے ایک بہت بڑی رقم ہے۔ اور اس کی نشست سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بمبے کی ایک گھٹیا بار کے بجائے تاج محل ہوٹل کے شراب خانے میں بیٹھا ہے۔

    گاندھی جناح کی تاریخی ملاقات سے کچھ دیر پہلے بمبے میں مسلمانوں کا ایک تاریخی اجتماع ہوا۔ میرے ایک دوست اس جلسے میں موجود تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پلیٹ فارم پر قائداعظم اپنے مخصوص انداز میں تقریر کررہے تھے۔ اور بہت دور ان کا بھائی احمد علی آنکھ پر مونوکل لگائے کچھ اس انداز سے کھڑا تھا جیسے وہ اپنے بھائی کے الفاظ د انتوں تلے چبا رہا ہے۔

    اندرونِ خانہ کھیلوں میں قائداعظم کو صرف بلیئرڈ سے دلچسپی تھی۔ ’’کبھی کبھی جب ان کو اس کھیل سے شغل فرمانے کی خواہش ہوتی تھی وہ بلیئرڈ روم کھلوانے کا حکم دیتے۔ صفائی یوں تو ہر کمرے میں ہر روز ہوتی تھی، مگر جب وہ کسی خاص کمرے میں جانے کا ارادہ فرماتے تو ملازمین ان کے داخلے سے پہلے اپنا اچھی طرح اطمینان کرلیتے کہ ہر چیز صاف ستھری اور ٹھیک ٹھاک ہے۔ بلیئرڈ روم میں مجھے جانے کی اجازت تھی۔ اس لئے کہ مجھے بھی اس کھیل سے تھوڑا بہت شغف ہے۔ بارہ گیندیں ان کی خدمت میں پیش کردی جاتیں، ان میں سے وہ انتخاب کرتے اور کھیل شروع ہو جاتا۔ محترمہ فاطمہ جناح پاس ہوتیں، صاحب سگار سلگا کر ہونٹوں میں دبا لیتے۔ اور اس گیند کی پوزیشن کو اچھی طرح جانچتے جس کے ٹھوکر لگانا ہوتی تھی، اس جانچ پڑتال میں وہ کئی منٹ صرف کرتے۔ کبھی ایک زاویے سے دیکھتے۔ کبھی دوسرے زاویے سے۔ ہاتھ میں کیو کو تولتے، اپنی پتلی پتلی انگلیوں پر اسے سارنگی کے گز کی طرح پھیرتے۔ زیر لب کچھ کہتے، شست باندھتے، مگر کوئی دوسرا مناسب و موزوں زاویہ ان کے ذہن میں آجاتا اور وہ اپنی ضرب روک لیتے۔ ہر طرف سے اپنا پورا اطمینان کرنے پر جب کیو گیند کے ساتھ ٹکراتے اور نتیجہ ان کے حساب کے مطابق ٹھیک نکلتا تو اپنی بہن کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھ کر مسکرا دیتے۔‘‘

    سیاست کے کھیل میں بھی قائداعظم اسی طرح محتاط تھے۔ وہ ایک دم کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ ہر مسئلے کو وہ بلیئرڈ کے میز پر پڑی ہوئی گیند کی طرح ہر زاویے سے بغور دیکھتے تھے اور صرف اسی وقت اپنے کیو کوحرکت میں لا کر ضرب لگاتے تھے، جب ان کو اس کے کارگرہونے کا پورا وثوق ہوتا تھا۔ وار کرنے سے پہلے شکار کو اپنی نگاہوں میں اچھی طرح تول لیتے تھے۔ اس کی نشست کے تمام پہلوؤں پر غور کرلیتے تھے، پھر اس کی جسامت کے مطابق ہتھیار منتخب کرتے تھے، وہ ایسے نشانچی نہیں تھے کہ پستول اٹھایا اور داغ دیا۔ اس یقین کے ساتھ کہ نشانہ خطا نہیں جائے گا۔ نشانچی کی ہر ممکن خطا شست باندھنے سے پہلے ان کے پیش نظر رہتی تھی۔

    آزاد کے بیان کے مطابق قائد اعظم عام ملاقاتیوں سے پرہیز کرتے تھے۔ دو راز کار باتوں سے انہیں سخت نفرت تھی، صرف مطلب کی بات اور وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ سننے اور کرنے کی عادت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خاص کمرے میں جہاں بہت کم لوگوں کو داخلے کی اجازت تھی۔ صرف ایک صوفہ تھا۔ اس صوفے کے ساتھ ایک چھوٹی سی تپائی تھی۔ اس میں صاحب اپنے سگار کی راکھ پھینکتے تھے۔ صوفے کے بالمقابل دو شوکیس تھے۔ ان میں وہ قرآن مجید رکھے رہتے تھے جو ان کے عقیدت مندوں نے ان کو تحفے کے طور پر دیے تھے۔ اس کمرے میں ان کے ذاتی کاغذات بھی محفوظ تھے۔ عام طور پر وہ اپنا زیادہ وقت اسی کمرے میں گزارتے تھے۔ اس میں کوئی میز نہیں تھا۔ مطلوب یا کوئی اور شخص جب بھی اس کمرے میں بلایا جاتا تو اس دروازے میں کھڑا رہنا پڑتا۔ یہیں وہ صاحب کے احکام سنتا اور الٹے پاؤں چلا جاتا۔

    صوفے کے خالی حصے پر ان کے زیر مطالعہ کاغذات بکھرے رہتے تھے۔ کوئی خط لکھوانا ہوتا تو مطلوب کو یا اسٹینو کو بلواتے اور خط یا بیان کی عبارت بول دیتے۔ ان کے لہجے میں ایک قسم کی کرختگی تھی۔ میں انگریزی زبان کے مزاج سے واقف نہیں ہوں لیکن جب وہ بولتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ زور نہ دینے والے الفاظ پر بھی زور دے رہے ہیں۔‘‘

    آزاد کے مختلف بیانات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم کی جسمانی کمزوری کا غیر شعوری یا تحت الشعوری احساس ہی ان کرخت مظاہر کا باعث تھا، ان کی زندگی حباب برآب تھی، مگر وہ ایک بہت بڑا بھنور بن کر رہتے تھے۔ بعض اصحاب کا تو یہ کہنا ہے کہ وہ اتنے دن صرف اسی قوت کے بل پر جئے۔۔۔ جسمانی کمزوری کے اس احساس کی قوت پر۔

    محمد حنیف آزاد کے بیان کے مطابق بہادر یار جنگ مرحوم قائداعظم کے بہترین دوستوں میں سے تھے۔ صرف انہی سے ان کے مراسم بہت بے تکلفانہ تھے۔ وہ جب بھی ان کے یہاں قیام کرتے تو یہ دونوں شخصیتیں ٹھیٹ دوستانہ انداز میں قومی اور سیاسی مسائل پر غور کرتی تھیں۔ اس وقت قائداعظم اپنی آمریت کچھ عرصے کے لیے اپنی شخصیت سے جدا کردیتے۔ ’’میں نے صرف یہی ایک شخص دیکھا جس سے صاحب ہمجولی کی طرح باتیں کرتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بچپن کے ساتھی ہیں۔ جب آپس میں باتیں کرتے تو کئی مرتبہ قید و بند سے آزاد قہقوں کی آواز سنائی دیتی۔۔۔ بہادر یار جنگ کے علاوہ مسلم لیگ کے دوسرے سربر آوردہ اراکین، مثال کے طور پر راجہ محمود آباد، آئی آئی چند ریگر، مولانا زاہد حسین، نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب اسمٰعیل اور علی امام صاحب اکثر تشریف لاتے تھے۔ لیکن صاحب ان سے بالکل دفتری انداز میں پیش آتے۔۔۔ وہ بے تکلفی کہاں جو بہادر یار جنگ کے لئے مخصوص تھی۔‘‘

    میں نے آزاد سے پوچھا، ’’خان لیاقت علی خاں تو اکثر آتے ہوں گے؟‘‘

    آزاد نے جواب دیا، ’’جی ہاں !صاحب ان سے اس طرح پیش آتے تھے جیسے وہ ان کے سب سے ہونہار شاگرد ہیں۔ اور خان صاحب بھی بڑے ادب اور بڑی سعادت مندی سے ان کا ہر حکم سنتے اور بجا لاتے تھے۔ جب ان کی طلبی ہوتی تو وہ مجھ سے کبھی کبھی پوچھ لیا کرتے تھے۔ کہو آزاد، صاحب کا موڈ کیسا ہے۔ ان کا جیسا موڈ ہوتا میں بتا دیا کرتا تھا۔ جب اس میں کوئی خرابی واقع ہو جاتی تو کوٹھی کے تمام درو دیوار کو فوراً پتہ چل جاتا تھا۔‘‘

    قائداعظم اپنے ملازمین کے کردار و اطوار کا بہت خیال رکھتے تھے۔ جس طرح ان کو تن کے میل سے نفرت تھی، اس طرح وہ من کے میل سے متنفر تھے۔ مطلوب ان کو بہت پسند تھا۔ مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ ایک رضا کار لڑکی سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے تو ان کو بہت کوفت ہوئی۔ مگر وہ اس قسم کی کوفت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس کی طلبی ہوئی اور فوراً ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا مگر اس کو رخصت کرنے کے بعد وہ اس سے اس طرح پیش آئے جس طرح دوستوں سے آتے ہیں۔

    آزاد بیان کرتا ہے، ’’ایک بار میں رات کے دو بجے سیر و تفریح سے فارغ ہو کر کوٹھی آیا۔ وہ دن ایسے تھےجب رگوں میں جوانی کے خون کو کھولانے میں ایک عجیب قسم کی لذت محسوس ہوا کرتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ صاحب کو میرے دیر سے آنے کا علم تک نہ ہوگا مگر ان کو کسی نہ کسی طرح پتہ چل گیا۔ دوسرے روز ہی مجھے طلب فرمایا اور انگریزی میں کہا کہ تم اپنا کیریکٹر خراب کررہے ہو۔ پھر ٹوٹی پھوٹی اردو میں ارشاد ہوا۔ ’’ول، اب ٹمہارا شاڈی بنائے گا۔۔۔‘‘ چنانچہ چار ماہ بعد جب وہ بمبئی سے دہلی اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تو ان کی ہدایت کے مطابق میری شادی ہوگئی۔ اور میری خوش قسمتی ہے کہ محض ان کی وجہ سے میرا رشتہ سادات خاندان میں ہوا، ورنہ میں تو شیخ تھا۔ لڑکی والوں نے مجھے اس لیے قبول کیا کہ آزاد قائداعظم کا غلام ہے۔‘‘

    میں نے آزاد سے دفعتاًایک سوال کیا، ’’کیا تم نے کبھی قائداعظم سے آئی ایم سوری سنا تھا؟‘‘

    آزاد نے اپنی موٹی تنو مند گردن زور سے نفی میں ہلائی، ’’نہیں۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔‘‘ پھر وہ مسکرایا، ’’اگر اتفاق سے کبھی آئی ایم سوری ان کے منہ سے نکل جاتا تو مجھے یقین ہے کہ ڈکشنری میں سے وہ یہ الفاظ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیتے!‘‘

    میرا خیال ہے کہ آزاد کے اس بے ساختہ جملے میں قائداعظم محمد علی جناح کا پورا پورا کردار آجاتا ہے۔

    محمد حنیف آزاد زندہ ہے، اس پاکستان میں جو اس کے قائد اعظم نے اسے عطا کیا ہے۔ اور جواب اس کے ہونہار شاگرد لیاقت علی خاں کی قیادت میں دنیا کے نقشے پر زندہ رہنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ اس آزاد خطہ زمین پر آزاد، پنجاب آرٹ پکچرز کے دروازے کے باہر پان والے کی دکان کے پاس ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر بیٹھا اکثر اپنے آقا کا منتظر رہتا ہے اور اس اچھے وقت کے لیے دست بدعا رہتا ہے جب وقت پر اس کی تنخواہ مل جایا کرے۔ اب وہ قائداعظم کی تلقین کے مطابق ہندو بننے کے لیے بھی تیار ہے۔ بشرطیکہ اس کو اس کا موقعہ دیا جائے۔

    وہ بے حد متفکر تھا، جب میں نے اس سے قائداعظم کی زندگی کے بارے میں اس کے تاثرات کے متعلق استفسار کیا۔ اس کے پاس پان کے لیےبھی پیسے نہیں تھے میں نے جب اس کے تفکرات ادھر ادھر کی باتوں سے کسی قدر دور کیے تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا، ’’صاحب انتقال فرما گئے ہیں۔۔۔ کاش ان کے اس سفر میں مَیں بھی شریک ہوتا۔ ان کی سفید اوپن پیکارڈ ہوتی۔ اس کا وہیل میرے ہاتھوں میں ہوتا اور میں آہستہ آہستہ ان کو منزلِ مقصود تک لے جاتا۔ ان کی نازک طبیعت دھچکوں کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے سنا ہے واللہ اعلم درست ہے یا غلط۔ جب ان کا جہاز کراچی ایرو ڈرم پر پہنچا تو ان کو گورنمنٹ ہاؤس تک پہنچانے کے لیے جو ایمبولینس تھی اس کا انجن درست حالت میں نہ تھا۔ وہ کچھ دور چل کر رک گئی تھی۔ اس وقت میرے صاحب کو کس قدر کوفت ہوئی ہوگی۔‘‘

    آزاد کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو تھے۔

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 7)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے