aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نور جہاں سرور جہاں

سعادت حسن منٹو

نور جہاں سرور جہاں

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وہ بے بی تھی۔ حالانکہ پردے پروہ ہرگز ہرگز اس قسم کی چیز معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کے جسم میں وہ تمام خطوط، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو ایک جوان لڑکی کے جسم میں ہو سکتی ہیں اور جن کی وہ بوقت ضرورت نمائش کرسکتی ہے۔

    ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔ سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سرپر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آوازفضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپدگاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خدادا چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پرواضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہےلیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صد ا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

    نور جہاں کو میں نے صرف پردے پر دیکھا تھا۔ میں اس کی شکل و صورت اور اداکاری کا نہیں، اس کی آواز کا شیدائی تھا۔ وہ کم عمر تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ وہ کیونکر اتنے دل فریب طریقے سے گا سکتی ہے۔ ان دنوں دو آدمیوں کا دور دورہ تھا۔ مرحوم سہگل کا اور نور جہاں کا۔ یوں تو ان دنوں خورشید چھائی ہوئی تھی، شمشاد کے بھی چرچے تھے مگر نور جہاں کی آواز میں سب کی آواز دب گئی۔

    ثریا بعد کی پیداوار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سہگل اور ثریا اکٹھے فلم میں پیش ہوئے لیکن نور جہاں اور وہ دونوں الگ الگ رہے۔ معلوم نہیں، پروڈیوسروں کے دماغ میں ان دونوں کو یکجا کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا یا کسی اور وجہ سے پروڈیوسر ان کو ایک فلم میں کاسٹ نہ کرسکے۔ بہر حال مجھے اس کا افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر وہ دونوں آمنے سامنے ہوتے تو موسیقی کی دنیا میں نہایت خوشگوار انقلاب برپا ہوتا۔

    نور جہاں سے میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔۔۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میں کئی برس تک بمبئی کی فلمی دنیا میں گزار کر چند وجوہ کی بنا پر دل برداشتہ ہوکر دہلی چلا گیا۔ وہاں پر میں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ مگر یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا۔ بمبئی سے’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر نذیرلدھیانوی کے متعدد خطوط آئے کہ تم واپس چلے آؤ۔ ’خاندان‘کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی یہاں آئے ہوئے ہیں اور میرے ہی پاس ٹھہرے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے لئے ایک کہانی لکھو۔

    میں دہلی چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرپس مشن فیل ہو چکا تھا۔ میں غالباً۷ اگست۱۹۴۷ء کو بمبئی پہنچا۔ شوکت سے میری پہلی ملاقات۱۷ اڈلفی چیمبرز کلیئر روڈ پر ہوئی۔ جو دفتر بھی تھا اور رہائشی مکان بھی۔ بڑا بانکا چھیلا نوجوان تھا۔ گورا رنگ، گالوں پر سرخی، مہین مہین جون گلبرٹ اسٹائل کی مونچھیں، گھنگھریالے بال، لمبا قد، بہت خوش پوش، بے داغ پتلون، شکنوں سے بے نیاز کوٹ ٹائی کی گرہ نہایت عمدہ، چال میں لٹک، ہم پہلی ملاقات میں ہی خوب گھل مل گئے۔

    میں نے اس کوبہت مخلص انسان پایا۔ میں دہلی سے اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ سگریٹ یعنی کریون اے کا کافی اسٹاک لے کر آیا تھا۔ جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے بمبئی میں یہ سگریٹ قریب قریب نایاب تھے۔ شوکت نے میرے پاس بیس پچیس ڈبے اور پچاس کے قریب ڈبیاں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔

    ہم دونوں کا قیام وہیں17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھےجہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ شوکت’’خاندان‘‘ کے بعد گو بہت بڑا ڈائریکٹر بن گیا تھا۔ مگر لاہور سے بمبئی پہنچنے اور وہاں کچھ دیر رہنے کے دوران میں وہ سب کچھ خرچ ہو چکا تھا جو اس نے لاہور میں فلم کی ہنگامی اور اخراجات سے پر زندگی گزارنے کے بعد پس انداز کیا تھا۔ اور میرے پاس تو صرف چند سوتھے جو کہ ہرن مارکہ وسکی میں غرق ہوگئے۔

    بہر حال کسی نہ کسی حیلے گزر ہوتا رہا۔ وہ وقت بہت نازک تھا۔ میں سات اگست کو وہاں پہنچا اور ۹ اگست کی صبح کو جب میں نے کہیں ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی تو لائن’’ڈیڈ‘‘ یعنی مردہ تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں چونکہ عمل میں آرہی تھیں، اس لیے احتیاطاً ٹیلی فون کا سارا سلسلہ منقطع کردیا گیا تھا۔

    گاندھی جی، جواہر لعل نہرہ اور ابو الکلام آزاد وغیرہ سب گرفتار کر لیے گیے، اور کسی نامعلوم جگہ منتقل کردیے گئے۔ شہر کی فضا بالکل ایسی تھی جیسے بھری بندوق۔ باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ کئی دن تک ہم ہرن مارکہ شراب پی کر اپنا وقت کاٹتے رہے۔ اس دوران فلم انڈسٹری میں بھی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے اس لیے کسی نئے فلم کی تیاری کون کرتا۔ چنانچہ جن لوگوں سے شوکت کی بات چیت ہورہی تھی، ایک غیر معینہ عرصے کے لئے کھٹائی میں پڑ گئی اور ہم نذیر لدھیانوی کے ہاں پکے ہوئے بدمزے کھانے کھا کرلمبی تان کر سوتے رہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے تھے اور ہم کہانیوں کے متعلق سوچنا شروع کردیتے تھے۔

    اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں بھی بمبئی میں ہے لیکن ٹھہریئے! میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ میرا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اصل میں مجھے یہ آٹھ اگست ہی کو معلوم ہوگیا تھا جبکہ میری ملاقات ابھی شوکت سے نہیں ہوئی تھی۔

    مجھے ماہم جا کر اپنے چند رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایک ریڈیو آرٹسٹ ثمینہ کا پتہ لینا تھا۔ (بعد میں کرشن چندر سے جس کے مراسم رہے۔) اس لڑکی کو میں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بمبئی بھیجا تھا کیونکہ اس کو فلم میں کام کرنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے پرتھوی راج اور برج موہن کے نام تعارفی خط لکھ کر دے دیے تھے اور اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ فلمی دنیا میں داخل ہو چکی ہے یا نہیں۔۔۔! لڑکی ذہین تھی، کردار اس کا بہت اچھا تھا، مکالمے بہت روانی کے ساتھ ادا کرتی تھی، شکل و صورت کی بھی خاصی تھی۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگئی ہوگی۔

    مجھے پتہ چلا کہ وہ شیوا جی پارک میں کہیں رہتی ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ ثمینہ خاتون کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ میں نظامی صاحب کے ہاں روانہ ہوگیا جو قریب ہی کیڈل روڈ پر رہتے تھے۔ مجھے ان کا ایڈریس معلوم تھا کہ وہ اکثر مجھے خط لکھتے رہتے تھے۔ یہ وہی نظامی ہیں جنہوں نے ممتاز شانتی کو تربیت دی۔ جن کے پاس ولی صاحب برسوں پڑے رہے اور آخر میں ممتاز شانتی کو نظامی صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت ہی لے اڑے۔ یہ وہی نظامی صاحب ہیں جن کی بیوی گیتا نظامی کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی اور جس نے نظامی صاحب کو لات مار کر پے در پے کئی شادیاں کیں۔ عدالتوں میں جس کے کئی مقدمے چلے اور جو اب ایک نئی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی بنا کرشہربہ شہر پاکستان کا پرچار کر رہے ہیں۔

    نظامی صاحب سے میری ملاقاتیں صرف خطوط تک ہی محدود تھیں اور وہ بھی بڑے رسمی تھے۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ان کے فلیٹ پر دیکھا۔ میں اگر اس ملاقات کو بیان کروں تو میرا خیال ہے، دس پندرہ صفحے اس کی نذر ہو جائیں گے، اس لیے میں اختصار سے کام لوں گا۔ نظامی صاحب جو کہ دھوتی اور بنیان پہنے تھے، مجھے بڑے تپاک سے ملے۔ انہوں نے میرے آنے کا مقصد پوچھا جومیں نے عرض کردیا۔ آپ نے کہا، ’’ثمینہ خاتون ابھی آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائےگی۔‘‘

    ان کا ایک مریل قسم کا ہندو منیجر تھا۔ اس کو آپ نے حکم دیا کہ منٹو صاحب کے لئے فوراً ثمینہ خاتون کو حاضر کرو۔ یہ حکم دینے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ وہ میرے لیے ہر قسم کی خدمت کےلیے حاضر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً زبانی طور پر میرے لیے ایک عمدہ فلیٹ، بہترین فرنیچر اور ایک عدد کار کا بندوبست کردیا۔

    ظاہر ہے کہ میں بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے مناسب اور موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جس کی ان کو بالکل ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ وہ میرے افسانوں کے گرویدہ تھے۔ قارئین سے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نظامی صاحب زبانی جمع خرچ کے بادشاہ ہیں۔ نظامی کچھ بھی ہو، لوگ اسے بھڑوا کہیں، کنجر کہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو۔ مجھے اس کا حدود اربعہ معلوم نہیں۔ لیکن میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ وہ ایک مہم جو انسان ہے۔ وہ اپنے فن میں پوری پوری مہارت رکھتا ہے۔ میں نے اس روز، یعنی پہلی ملاقات کے دن ہی دیکھا ممتاز شانتی پر اس کا اتنا رعب داب تھا کہ کسی باپ کا بھی نہیں ہوسکتااور ولی صاحب اس کے سامنے یوں جھکتے تھے کہ جیسے کوئی سائیس!

    وہ اس گھر کا بادشاہ تھا جس کو سب خراج ادا کرتے تھے۔ اس کا کام صرف پروڈیوسروں کو کھانے اور شراب کی دعوتیں دینا، اور بلیک مارکیٹ سے پٹرول خریدنا تھا اور ممتاز شانتی کو کامیاب ہونے کے گر بتانا تھا کہ دیکھو! اگر تم یوں مسکراؤ گی تو فلاں پروڈیوسر سے تمہیں کنٹریکٹ لینے کا ذمہ میں لیتا ہوں۔ اگر تم فلاں سیٹھ سے یوں ہاتھ ملاؤ گی تو اس کا مطلب ہے کہ دس ہزار روپے اسی رات ہماری جیب میں ہوں گے۔ میں وہاں بیٹھا تھا اور حیران ہورہا تھا کہ میں کس دنیا میں آنکلا ہوں۔ وہاں ہر چیز مصنوعی تھی۔ ولی صاحب، نظامی صاحب کے حکم پر ان کا سلیپر اٹھا کے لائے اور جھک کر ان کے قدموں میں رکھ دیا۔ اس میں بناوٹ تھی۔۔۔ خدا کی قسم! یکسر بناوٹ تھی۔

    اور ممتاز شانتی دوسرے کمرے میں معمولی لباس میں۔۔۔ نہایت معمولی لباس میں، کھڑکی کے پردوں کے لئے کیلیں ٹھونک رہی تھی، اور نظامی کہہ رہا تھا، ’’منٹو صاحب! یہ بچی نہایت سادہ ہے۔ فلم لائن میں رہ کر بھی اسے آس پاس کی دنیا کا کچھ علم نہیں۔ مردوں کی طرف تو یہ نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی اور یہ سب میری تربیت کا نتیجہ ہے۔‘‘

    میرا دل کہتا تھا کہ یہ سب فراڈ ہے، یہ سب جعل ہے، لیکن مجھے نظامی صاحب کی ا ن کے منہ کے سامنے تعریف کرنا پڑی۔

    لیکن بات نور جہاں کی ہورہی تھی۔

    ممتاز شانتی کو سیدھے راستے پرلگانے اور اس کو صالح تربیت دینے کے متعلق باتیں ہورہی تھیں تو نظامی صاحب نے نور جہاں کا ذکرکیا اور مجھے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی ان کے زیر سایہ ہے اور ممتاز کی طرح تربیت حاصل کررہی ہے۔ آپ نے کہا:

    ’’منٹو صاحب! اگر یہ لڑکی زیادہ دیر لاہور میں رہتی تو اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا، میں نے اسے یہاں اپنے پاس بلا لیا ہے اور سمجھایا ہے کہ دیکھو بیٹا! صرف فلم اسٹاربننے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی سہارا بھی ہونا چاہئے۔ اول تو شروع میں عشق لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ادھر ادھر دونوں طرف سے خوب کماؤ۔ جب بینک میں تمہارا کافی روپیہ جمع ہو جائے تو کسی ایسے شریف آدمی سے شادی کر لو جو ساری عمر تمہارا غلام بن کے رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے منٹو صاحب! آپ تو بڑے داناہیں۔‘‘

    میری ساری دانائی تو نظامی صاحب کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی نیچے فٹ پاتھ پربھاگ گئی تھی۔ میں کیا جواب دیتا؟ بس کہہ دیا کہ آپ جو کررہے ہیں وہ مصلحت کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے آواز دے کر نور جہاں کو بلایا مگر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور چند لمحات کے بعد نور جہاں کی آواز کسی کمرے سے آئی، ’’ابھی آتی ہوں، کمال صاحب کا فون آیا ہے۔‘‘

    نظامی صاحب زیرِ لب مسکرائے۔ یہ کمال صاحب، حیدر امروہی تھے۔۔۔ ’’پکار کے شہرت یافتہ‘‘ نظامی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’میں عرض کررہا تھا کہ سہارا ہوناچاہیے تو نور جہاں کے لئے کمال امروہی سے بہتر سہارا اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ شادی وادی کا معاملہ غلط ہے، بس اپنا الوسیدھا کیے جاؤ۔ کمال کما سکتا ہے۔ اس کی آدھی کمائی اگر نور جہاں کو مل جایا کرے تو کیا ہرج ہے۔ اصل میں منٹو صاحب ان ایکٹرسوں کو روپیہ کمانے کے گر آنے چاہئیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ گرو جو موجود ہیں۔‘‘ نظامی خوش ہوگیا اور اس نے مجھے فوراً ایک فسٹ کلاس لیمن سکواش پلایا۔

    بس یہاں۔۔۔ نظامی صاحب کے فلیٹ میں، جہاں نور جہاں کی سائنٹیفک طریقے پر تربیت ہورہی تھی، اس کو و ہ تمام چلتر خالص نظامی صاحب کی نگرانی میں سکھائے جارہے تھے، میری نور جہاں سے سرسری سی ملاقات ہوئی اور میرا رد عمل یہ تھا کہ یہ لڑکی اپنی جوانی کی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہی ہے اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہنسی تجارتی رنگ اختیار کررہی ہے اور جوموٹاپے کی طرف مائل ہے، اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی۔

    لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

    نظامی کی خواہش دراصل یہ تھی کہ جس طرح ممتاز شانتی اس کے قبضے میں ہے اور اس کا رعب داب تسلیم کرتی ہے اسی طرح وہ ایک بوڑھی نائکہ کی طرح نور جہاں کو بھی اپنی نوچی بنالے۔

    ممتاز شانتی کی ساری آمدنی نظامی کی تحویل میں رہتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ممتاز شانتی کے مقابلے میں نور جہاں کی قدر و قیمت بہت زیادہ تھی اور نظامی کا ہوشیار دماغ اچھی طرح جانتا تھا کہ نور جہاں کا مستقبل خیرہ کن ہے۔ چنانچہ وہ اس کو اپنے جال میں پھنسانے کی تیاریاں مکمل کررہا تھا کہ۔۔۔

    سید شوکت حسین رضوی بمبئی پہنچ گیا۔ وہ شوکت، وہ رضوی جس سے نور جہاں کا عشق پنچولی اسٹوڈیوز میں لڑ چکا تھا، مقدمہ بازی بھی ہو چکی تھی اور بچنے کی خاطر نور جہاں نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ شوکت صاحب سے اس کا کوئی ناجائز تعلق نہیں وہ تو انہیں اپنا بھائی سمجھتی ہے۔

    نور جہاں کا یہ عدالتی بھائی اب بمبئی میں موجود تھا۔ وسیع و عریض بمبئی میں، جو فلمی دنیا کی ہالی ووڈ تھی۔

    میں نے شوکت سے بات کی کہ میں نور جہاں سے ملا ہوں۔ اس وقت مجھے ان کے رومان کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ میں نے صرف برسبیلِ تذکرہ اس کو بتایا تھا کہ نور جہاں سے میری ملاقات نظامی صاحب کے گھر میں ہوئی ہے۔ ہرن مارکہ شراب کا گلاس زور سے تپائی پر رکھ کر اس نے بڑی تندہی سے کہا، ’’لعنت بھیجو، اس پر۔‘‘ میں نے ازراہِ مذاق کہا، ’’میں ہزار بار اس کے لیے تیار ہوں، مگر بھئی! وہ تمہارے خاندان کی ہیروئن رہ چکی ہے۔‘‘

    شوکت ذہین ہے۔ فوراً سمجھ گیا کہ میں لفظ’’خاندان‘‘ پر کھیلا ہوں اور اسے ذومعنی استعمال کیا ہے، مسکرا دیا، ’’منٹو تم بہت شریر ہو۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں اس کے متعلق کوئی بات نہیں سننا چاہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ بمبئی میں ہے۔ سالی! میرے پیچھے پیچھے آئی ہے لیکن مجھے اب اس سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘

    میں نے جب اس کو بتایا کہ وہ کمال امروہی کو ٹیلیفون کررہی تھی اور یہ کہ نظامی ان دونوں کو قریب لانا چاہتا ہے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بظاہر بےاعتنائی اور بے پرواہی ظاہر کررہا ہےمگر اندرونی طور پرسخت بے چین ہوگیا ہے۔ اس لیے فوراً ہی ہرن مارکہ وسکی کا ایک اور ادھا مرزا مشرف سے منگوایا اور ہم رات دیر تک پیتے رہے۔

    اس دوران میں لمبے وقفوں کے بعد نور جہاں کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ میں نے شوکت کی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ ابھی تک اس کی محبت میں گرفتارہے۔ بھائی والا معاملہ تومحض حکمتِ عملی تھا۔ اس کو وہ راتیں یادآرہی تھیں جب نغموں کی ننھی منی شہزادی اس کی آغوش میں ہوتی تھی۔ اور جب غالباً دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔

    میں نے ایک دن شوکت سے پوچھ ہی لیا، ’’دیکھو یار بتاؤ! بچو سچ بتاؤ۔۔۔! کیا تمہیں نور جہاں سے محبت نہیں ہے؟‘‘شوکت نے زور سے اپنے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور کسی قدر کھسیانے پن سے کہا، ’’ہے یار۔۔۔ ہے۔۔۔ مگر لعنت بھیجو اس پر۔ میں اس کو آہستہ آہستہ بھول جاؤں گا۔‘‘

    لیکن قدرت زیر لب مسکرا رہی تھی، وہ جو فیصلہ کر چکی تھی، اٹل تھا۔ شوکت کا کنٹریکٹ سیٹھ وی۔ ایم ویاس سے ہوا جو اس سے پہلے ایک فلم کے لئے نور جہاں سے معاہدہ کر چکا تھا۔

    اب لگے ہاتھوں سیٹھ وی۔ ایم ویاس کے متعلق بھی سن لیجئے۔ یہ ایک کائیاں آدمی ہے۔ شروع شروع میں طبلچی تھا، پھر کیمرہ قلی ہوا، آہستہ آہستہ کیمرہ مین بن گیا۔ ترقی کے اور زینے طے کیے تو ڈائرکشن کا موقع مل گیا۔ یہاں سے چھلانگ لگائی تو پروڈیوسر، اب وہ ڈائرکٹر اور پروڈیوسر ہے اور لاکھوں میں کھیل رہا ہے۔ بہت ہی منحنی قسم کا انسان ہے مجھ سے بھی کہیں پتلا۔ اتنا پتلا کہ اسے قمیص کے نیچے ایک موٹا اونی بنیان پہننا پڑتا ہے کہ اس کی پسلیاں لوگوں کو نظر نہ آئیں۔ مگر بلا کا پھرتیلا ہے اور بڑا محنتی۔ اس کے مقابلے میں پہلوان تھک جائیں گے مگر وہ ڈٹا رہےگا جیسے مشقت اس پر اثر انداز ہو ہی نہیں سکتی۔

    اس کی ایک خوبی اور ہے کہ وہ اپنے ذاتی سرمائے سے فلم نہیں بناتا۔ ایک فلم تیار کرکے اور اس کو ٹھکانے لگا کر وہ اپنے دوسرے فلم کا اعلان کردیتا ہے۔ اس وقت کے جتنے اونچے ستارے ہوتے ہیں وہ اپنی کاسٹ میں جمع کرلیتا ہے۔ کہانی کا اس وقت نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی’’ فائی نینسر‘‘ اس کے دام میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اس سے روپیہ لے کر وہ’کالی‘ کا نام لے کر کام شروع کردیتا ہے۔

    نور جہاں بمبئی آئی تو اس کو پتہ چل گیا، چنانچہ اس نے فوراً ہی نور جہاں سے کنٹریکٹ کرلیا۔ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ’’خاندان‘‘ اور دوسرے فلموں کی قابلِ رشک کامیابی کے بعد اس کا نام ہی کسی’’فائی نینسر‘‘ کو پھانسنے کے لئے کافی ہے۔ اور جب اس کو معلوم ہوا کہ خاندان کا ڈائریکٹر بھی بمبئی میں موجود ہے تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے فوراً اپنے کارندے دوڑائے۔ شوکت حسین رضوی سے کئی ملاقاتیں کیں اور اس کے ساتھ بھی ایک پکچر کا معاہدہ کرلیا۔

    فلم کیا ہوگا؟ کیسا ہوگا؟ کہانی کیا ہے؟ یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ مگر سیٹھ وی۔ ایم ویاس نے جب اپنے’فائی نینسر‘ کو نور جہاں اور شوکت سے اپنی’’سن رائیز پکچرز‘‘ کے کنٹریکٹ دکھائے تو مطلوبہ سرمایہ کسی دقت کے بغیر فوراً مل گیا۔

    قدرت بھی عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ نہ شوکت کو معلوم تھا کہ نور جہاں’’سن رائیز‘‘ میں آچکی ہے اور نہ نور جہاں کو پتہ تھا کہ اس کا عدالتی بھائی شوکت بھی اس کا ہمراہی ہے۔ بڑی لمبی داستان ہے۔ میں اسے مختصرکرنا چاہتا ہوں۔

    ایک دن یہ رازفاش ہوگیا۔ نظامی بہت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے۔ جو فلم شوکت کو ڈائریکٹ کرنا تھی، اس کی ہیروئن نور جہاں مقرر کی گئی تھی۔ دونوں کا ’’پنر ملن‘‘ نظامی کے لئے بڑا اندوہناک ثابت ہو سکتا تھا۔ چنانچہ نور جہاں کے والی کی حیثیت سے اس نے سیٹھ ویاس سے کہا کہ وہ ہرگز ہرگز اس قسم کا سلسلہ برداشت نہیں کرے گا۔ مگر سیٹھ دیاس نظامی سے کچھ زیادہ ہی کائیاں نکلا کہ اس نے اپنی گجراتی حکمتِ عملی سے جو کہ پنجابی حکمت عملی کے معاملے میں بڑی گہری اور دھانسو قسم کی ہوتی ہے، نظامی کو ہموار کردیا اور وہ راضی ہوگیا کہ نور جہاں شوکت کی پکچر میں کام کرے گی اور ضرور کرے گی، چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے۔ چنانچہ وہیں دفتر میں دونوں نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔ ہاتھ ملائے اور ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔

    اب دونوں اپنی اپنی جگہ پر خوش تھے۔ سیٹھ ویاس اس لیے کہ اس نے اپنا الو سیدھا کرلیا تھااور نظامی اس لیے کہ اس نے ایک فلمی سیٹھ کی خوشنودی حاصل کرلی تھی اور اس کو زیرِ احسان کرلیا تھا۔ سیٹھ ویاس کٹر قسم کاوشنو تھا۔ ورنہ نظامی اسے اسی رات گھر بلا کر ممتاز شانتی کے ہاتھ کے پکے ہوئے مرغ اور پلاؤ سے اپنی اور اس کی دوستی ضرور مستحکم کرتااور اگر سیٹھ بوتل کا رسیا ہوتا تو وہ اپنے مریل منیجر کے ذریعے سے دو عدد سکاچ بلیک مارکیٹ سے ضرور منگواتا۔

    بہر حال بات پکی ہو گئی۔ کیونکہ نظامی سینے پر ہاتھ رکھ کرسیٹھ دیاس سے کہہ چکا تھا کہ’’سیٹھ! اب جبکہ تم نے مجھے بھائی کہہ دیا ہے، میں تم کو بچن دیتا ہوں کہ مینہ یا آندھی یا۔۔۔ طوفان بھی ہو۔۔۔ تمہاری شوٹنگ ہوگی تو بے بی نور جہاں وقت پر پہنچے گی۔‘‘

    اب ایک لطیفہ سنیے۔ بات تو خیر پکی ہوگئی تھی۔ میرا بھی سیٹھ ویاس سے ایک کہانی کے لیے کنٹریکٹ ہوگیا تھا۔ چنانچہ میں اور شوکت اس کا موضوع تلاش کرنے میں مصروف تھے۔ ’’پیشگیاں‘‘ مل چکی تھیں۔ اس لیے ناسک کی ہرن مارکہ وسکی کی فراوانی تھی۔ دور پر دور چلتے تھے۔ مرزامشرف، چاولہ اور سہگل( یہ دونوں حضرات اب بڑے ڈ ائریکٹر بن چکے ہیں) ہماری اردلی میں ہوتے تھے، ذرا وسکی ختم ہوئی اور چاولہ بھاگے ناگپاڑے۔ کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی تو مرزا مشرف حاضر تھے۔

    لطیفے میں سے لطیفہ نکلتا ہے۔ مرزا مشرف ہمارے ساتھ پیتے تھے۔ عجیب بات ہے کہ تیسرے پیگ کے بعد رونا شروع کردیتے۔ زار و قطار روتے تھے۔ شوکت کے ہاتھ پاؤں چومتے اور شکوک جو شوکت کے دل میں ان کے بارے میں کبھی گزرے بھی نہیں تھے، ان کا ذکر کرتے اور کہتے تھے کہ وہ سب غلط ہیں۔ اس کے بعد وہ رو رو کر اپنی نئی بیاہتا بیوی کو یاد کرنے لگتے تھے اور پھر گانا سنانا شروع کردیتے تھے۔ یہ سب فراڈ یعنی جعل تھا۔ مگر فلمی دنیا میں اس کے سوا اور ہوتا بھی کیا ہے؟

    اب میں اصل لطیفے کی طرف آتا ہوں کہ وہ اس مضمون کا سب سے دلچسپ حصہ ہے۔

    سیٹھ ویاس اپنی فلم کی شوٹنگ کر چکا تھا۔ جو سین فلمائے گئے تھے ان میں نور جہاں نہیں تھی۔ دوسرے الفاظ میں شوکت اور نور جہاں کی ابھی تک صحیح معنوں میں ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک رات نوٹس بورڈ پر یہ اعلان چسپاں ہوگیا کہ نور جہاں سیٹ پر آرہی ہے۔ اس کو باضابطہ طور پر کمپنی کی طرف سے مطلع کردیا گیا تھا۔ اسی رات کو میں گھومتا گھومتا شیوا جی پارک میں رفیق غزنوی کے پاس چلا گیا۔ اس مشہور نغمہ ساز اور موسیقار کے پاس جس کی مختلف ٹائیوں کی گرہوں میں مختلف قسم کے رومان بندھے ہیں۔

    رفیق غزنوی میرا دوست ہے۔ میرے اس کے بڑے ہی بے تکلف مراسم ہیں۔ میں اس کے فلیٹ پر پہنچا تو محفل جمی ہوئی تھی۔ میں بے دھڑک اندر داخل ہوگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صوفے پر تازہ ترین بیوی خورشید عرف، ’’انورادھا‘‘ بیٹھی ہے۔ اس کے ساتھ نور جہاں ہے۔ ایک کرسی پر شری نظامی جی براجمان ہیں اور فرش پر ہمارے رفیق غزنوی صاحب یوں بیٹھے ہیں جیسے کسی سومنات پر حملے کی تیاری کررہے ہوں۔

    رفیق غزنوی کے متعلق میں چند سطروںیا چند صفحات میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اس کا تشخص و کردار اتنا وسیع ہے کہ اس پر اگر کوئی ضخیم کتاب نہیں تو ایک طویل مضمون ضرور ہونا چاہئے۔ میں اپنے قارئین سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ قرض بھی میں ایک نہ ایک دن ضرور چکا دوں گا۔ رفیق میرا دوست ہے۔ میں اگر کل کلاں موت کی آغوش میں چلا گیا اور وہ بھی کچھ دیر بعد میری طرح سو گیا تو حق رفاقت کون ادا کرے گا ؟کون اتنے بڑے موسیقار، اتنے بڑے دلچسپ کردار کی داستانِ حیات بیان کرے گا۔ انشاء اللہ میں یہ کروں گا مگر وقت آنے پر۔

    خیر، یہ جملہ معترضہ تھا۔۔۔ رفیق۔۔۔ سومنات پر اتنے تازہ ترین حملے کی تیاری کررہا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ نظامی اس سے غافل تھا یا نہیں یا نور جہاں کو اس کے ارادوں کا علم تھا۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

    مجھے نظامی سے اتنا معلوم ہوا کہ ممتاز(شانتی) ابھی آنے ہی والی ہے۔ میں حیران تھا کہ ادھر شوٹنگ ہونے والی ہے ادھر اسکاچ کے دور چل رہے ہیں، نظامی کے ہاتھ میں گلاس تھا۔ نور جہاں بھی ہولے ہولے خوش رنگ مشروب اپنے ہونٹوں سے چوس رہی تھی۔ خورشید عرف انورادھا تو خیر پختہ کار شرابیوں کی طرح گھونٹ بھرتی تھی اور رفیق۔۔۔ غزنہ کا رفیق۔ اس غزنہ کا جس نے محمود پیدا کیا تھا اور جو ایک ایاز کی محبت میں گرفتارتھا۔ گلاس زمین پر رکھے میراثیوں کے لطیفے سنا رہا تھا۔

    میں جب اندر داخل ہوا تو اس نے حسب عادت استقبال کے طور پر ایک بھاری بھر کم گالی اپنے منہ سے اگلی۔ لیکن پھر فوراً ہی شریفانہ لب و لہجہ اختیار کرکے مجھ سے کہا، ’’جانتے ہو ان کو؟‘‘میں نے جواب دیا، ’’جانتا ہوں۔‘‘

    رفیق چارپیگ پینے کے بعد عام طور پر شرابی ہو جاتا ہے۔ لکنت بھرے لہجے میں اس نے مجھ سے کہا، ’’ نہیں! تم کچھ نہیں جانٹے منٹو۔۔۔ یہ نور ہے۔۔۔ نور جہاں ہے۔ سرورِ جاں ہے۔ خدا کی قسم! ایسی آواز پائی ہے کہ بہشت میں خوش الحان سے خوش الحان حور بھی سنے تو اسے سیند ور کھلانے کے لئے زمین پر اتر آئے۔‘‘

    میں جانتا تھا کہ وہ تعریف کے یہ پل کیوں باندھ رہا تھا۔ دراصل ان پلوں کے ذریعے ہی وہ نور جہاں کے جسم تک پہنچنا چاہتا تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ نور جہاں کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ رفیق کی یہ باتیں سنتی تھی اور اسے خوش کرنے کے لیے ایک مصنوعی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر پیدا کرلیتی تھی۔

    رفیق اول درجے کا کنجوس ہے۔ مگر اس دن اس نے غیر معمولی فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ بوتل میں سے میرے لیے ایک بہت بڑاپیگ عنایت کیا اور اصرار کیا کہ میں اسے ایک ہی جرعے میں ختم کردوں تاکہ ایک دوسرا بھی رہے۔ سب پی رہے تھے۔ نور جہاں کاپیگ بہت ہلکا تھا جسے وہ آہستہ آہستہ ہونٹوں کے ذریعے چوس رہی تھی۔ جیسے مکھیاں پھولوں سے آہستہ اور ہولے ہولے رس چوستی ہیں۔ رفیق، نور جہاں کی تعریف و توصیف کے مزید پل باندھ رہا تھا کیونکہ پہلے پل سب ٹوٹ گئے تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔

    خورشید عرف انورادھا نے اپنے دبلے پتلے مگر خوبصورت ہاتھ سے ٹیلی فون کا چونگا اٹھایا اور کان کے ذریعے سے دوسری طرف کی آواز سنی اور سٹپٹا سی گئی۔ فوراً چونگے کا منہ بند کرکے نور جہاں سے مخاطب ہوئی، ’’سیٹھ ویاس ہیں۔‘‘ نظامی نے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ کیا اور کہا، ’’ بیٹا! کہہ دو کہ نور جہاں ان کے یہاں نہیں ہے۔‘‘ خورشید عرف انورادھا نے سیٹھ دیاس سے مناسب وموزوں الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ یہاں نہیں ہے۔‘‘ جب ٹیلی فون کا سلسلہ ختم ہوا تو رفیق نے خورشید سے کہا۔ ’’شیداں۔۔۔! جاؤ، اندر سے ہارمونیم لاؤ۔۔۔ سیٹھ دیاس جائے جہنم میں۔‘‘

    شیداں اندرگئی اور ہارمونیم کی پیٹی لے آئی۔ رفیق نے اس کو کھولا۔ اس کا ڈھکنا اٹھایا اور ہوا بھر کے اپنے مخصوص انداز میں ایک سرچھیڑا اور خود ہی جھومنے لگا، ’’ہائے۔۔۔ سبحان اللہ!۔۔۔ واہ!‘‘ دیر تک وہ باجے کے مختلف سروں کو چھیڑ کر’’ ہائے، سبحان اللہ، اور واہ واہ‘‘ کرتا رہا۔۔۔ میرا خیال ہے رفیق پر علامہ اقبال کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے۔

    دیتے ہیں سرور اول، لاتے ہیں شراب آخر

    گانے سے پہلے ہی رفیق سامعین پر وجد طاری کردینے کا عادی ہے۔ مگر اس دن وہ نہ گایا، اس لیے کہ اس کی ساری توجہ نور جہاں پر تھی۔ ایک سُر چھیڑ کر اس نے مخمور آنکھوں سے نور جہاں کی طرف دیکھا اور درخواست کی، ’’نور۔۔۔ بس ہو جائے کوئی چیز۔۔۔ ہائے کتنا پیارا اور مدھرسر ہے۔۔۔ چلو گاؤ۔۔۔‘‘ آپ پردے پر ایکٹر، ایکٹرسوں کے ڈرامے دیکھتے ہیں اور ان کی کردار نگاری سے متاثر ہوتے ہیں۔ میں آپ کو اس ڈرامے کی ایک جھلک دکھاتا ہوں جو اس روز وہاں کھیلا گیا۔۔۔ جیتے جاگتے سو فیصدی حقیقی ڈرامے کی جھلک۔

    نور جہاں نے ہارمونیم صوفے پر رکھ لیا۔ اس کے پاس خورشید عرف انور ا دھا وسکی کا گلاس ہاتھ میں لیے بیٹھی ہے۔ رفیق غزنوی قالین پر آلتی پالتی مارے نور جہاں کی طرف اپنی عشق پیشہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور گانا سننے سے پہلے ہی جھوم رہا ہے۔ دائیں ہاتھ کرسی پرشری نظامی جی براجمان ہیں۔ اور ان کے ساتھ ہی خاکسار ہے جو اپنا دوسرا پیگ پی رہا ہے۔

    نور جہان گانا شروع کرتی ہے۔ غالباً پیلو کی ٹھمری ہے ؂

    تورے نین کا جوبن کارے

    کہ ایک موٹر ہولے سے پورچ میں رکتی ہے۔ ایک صاحب اس کے اندر سے نکلتے ہیں اور سیدھے اندر چلے آتے ہیں۔۔۔ یہ سیٹھ ویاس ہیں۔

    ایک لحظہ کے لئے سب بوکھلا جاتے ہیں مگر نظامی فوراً ہی حالات پر قابو پالیتا ہے۔ سیٹھ ویاس کی آمد سے گویا بے خبر وہ چلا کر خورشید سے کہتا ہے۔ ’’بیٹا! یہ کیا ظلم کررہی ہوتم۔ اسے اتنی تکلیف ہے اور تم اسے گانے پر مجبور کررہی ہو۔ دیکھو! ایک بول گانے کے بعد اس کا کیا حال ہوگیا ہے۔ پھر وہ نور جہاں سے تشویش بھری آواز میں کہتا ہے، ’’لیٹ جاؤ نور جہاں۔۔۔ لیٹ جاؤ۔‘‘ اور وہ آگے بڑھ کر اسے لٹا دیتا ہے۔ نور جہاں زور زور سے کراہنا شروع کردیتی ہے۔ رفیق بھی اٹھ کر انتہائی تشویش کا اظہار کرتاہے۔ نظامی خورشید سے مخاطب ہوتا ہے، کسی قدر تیز لہجے میں۔ ’’شیداں! اٹھ، بیٹھی کیا سوچ رہی ہے۔ جا جلدی سے گرم پانی کی بوتل لا۔ بڑے زور کا دورہ پڑا ہے۔‘‘ شیداں اٹھ کرتیز قدمی سے اندر چلی جاتی ہے۔ نظامی کراہتی ہوئی نور جہاں کو پچکارتا ہے، پھرسیٹھ ویاس سے مخاطب ہوتا ہے، ’’بھائی جان۔۔۔! وہ۔ وہ تکلیف ہے۔ وہی جو عورتوں کو ہوا کرتی ہے۔‘‘

    سیٹھ ویاس خاموش رہتا ہے۔ میں بھی دم بخود ہوں۔ نظامی ایک بار پھر کراہتی ہوئی، دوہری ہوتی ہوئی نور جہاں کو پچکارتا ہے اور سیٹھ ویاس کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ’’کل سے غریب درد کے مارے پیچ و تاب کھا رہی ہے۔ مجھ سے کہتی تھی۔ چچا جان! مجھ سے شوٹنگ نہ ہوسکے گی۔ پر میں نے کہا۔ نہیں بیٹا! یہ برا شگون ہے۔ یہاں بمبئی میں یہ تمہاری پہلی پکچر ہے اور پھر شوٹنگ کا پہلا دن۔۔۔ یہ بھی چھوڑو۔ سیٹھ ویاس مجھے اپنا بھائی کہہ چکا ہے۔ تم مر جاؤ مگر ضرور جاؤ۔۔۔ چنانچہ ہم اسی لیے یہاں آئے تھے کہ رفیق سے تھوڑی سی برانڈی لیں اور اس کی کارلے کر اسٹوڈیو پہنچ جائیں۔ آپ کچھ فکر نہ کریں۔ آپ کا نقصان میرا نقصان ہے۔ نور جہاں ابھی پہنچتی ہے۔ آپ میرے بھائی ہیں۔ سیٹھ ویاس خاموش رہا۔۔۔ نظامی کے سوا اور سب خاموش تھے۔ رفیق غزنوی دانتوں سے اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں گلاس ہاتھ میں لیے سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟

    کہانی میری تھی۔ میوزک رفیق غزنوی دے رہا تھا۔۔۔ اور سیٹھ ویاس، ہمارا آقا، عین موقعہ پر پہنچ گیا تھا جبکہ ہم رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ رنگ رلیاں ہی تو تھیں اور کیا تھا۔ وسکی کا دور چل رہا تھا اور نور جہاں گا رہی تھی۔۔۔

    تورے نین کا جوبن کارے

    اچھا خاصا مجرا ہورہا تھا۔

    نظامی نے اپنے مخصوص انداز میں سیٹھ ویاس سے کچھ اور باتیں کیں اور اسے یقین دلایا کہ جب دونوں ہی ایک دوسرے کو بھائی کہہ چکے ہیں تو دلوں میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔

    اتنے میں خورشید گرم پانی کی بوتل لے کر آگئی جو نور جہاں کے پیٹ پر رکھ دی گئی۔ اس سے اس کوکچھ سکون ہوا۔ اس پر نظامی نے سیٹھ ویاس سے جو ابو الہول بنا بیٹھا تھا، کہا، ’’آپ تشریف لے چلیے، میں اور رفیق نور جہاں کو ساتھ لے کر ابھی آتے ہیں۔۔۔‘‘ پھر اس نے اپنے آپ سے کہا، ’’میرا خیال ہے، خورشید بھی ساتھ چلے۔ عورتیں، عورتوں کے سب معاملات جانتی ہیں۔‘‘

    سیٹھ ویاس اٹھا اور اپنی ٹوپی ٹھیک کرتا ہوا چلا گیا۔۔۔ سب کی جان میں جان آئی۔ نور جہاں نے اپنے پیٹ سے گرم پانی کی بوتل الگ کی، جو ٹھنڈے پانی سے بھری ہوئی تھی اور نظامی سے کہا، ’’نظامی چچا۔۔۔!آپ نے تو کہا تھا۔ مت جانا۔‘‘

    نظامی سنجیدہ ہوگیا، ’’بیٹا! وہ میں نے تمہارے بھلے کے لئے ہی کہا تھا۔ پہلے ہی دن آدمی شوٹنگ پر چلا جائے اور پروڈیوسر کو پھیرے نہ کرائے تو وہ سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ اپنی ممتاز سے پوچھو، جب تک ا سٹوڈیو سے گاڑی نہ آئے، مجال ہے جو وہ شوٹنگ میں جائے اور پھر جب گاڑی بھی آتی ہے تو میں اسے کم از کم ایک گھنٹہ نیچے کھڑی رکھتا ہوں۔ رائے بہادر چونی لال میرے اتنے دوست ہیں مگر میں ان کی بھی پروا نہیں کرتا۔۔۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ وہ خود اپنی گاڑی میں ممتاز کو لینے آئے۔ بہر حال اب سب ٹھیک ہے۔ خود آیا ہے یہاں چل کر، اور پھر تم بیمار ہو اور بیماری کی حالت میں جارہی ہو۔ سیٹھ ویاس کو اس کا خیال رہے گا۔‘‘

    نظامی نے کچھ دیر اور پروڈیوسر اور آرٹسٹ کے باہمی رشتے کی باریکیاں بیان کیں اور وہ تمام گربتائے جو آرٹسٹ کو استعمال کرنے چاہئیں۔ اس کے بعد گفتگو آہستہ آہستہ شوکت حسین رضوی میں تحلیل ہوگئی۔ نظامی اپنی باتوں سے زبردستی نور جہاں کے دل و دماغ میں یہ خیال ٹھونسنا چاہتا تھا کہ اب اس کو اس شخص سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے دل میں اب اس کے لئے کوئی جگہ نہیں اور یہ کہ اسے وہی راستہ اختیارکرنا چاہئے جس پر ممتاز شانتی اس کی ہدایات کے مطابق اتنے عرصے سے چل رہی ہےاور اتنا نام اور روپیہ پیدا کر چکی ہے۔

    اس گفتگو میں مجھے بھی حصہ لینا پڑا کہ شوکت سے میری اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی اور وہ اس بات کا اقرار بھی کر چکا تھا کہ اسے نور جہاں سے محبت ہے۔ اور مرزا مشرف سے جو ا س کا سلسلہ جاری تھا، اس سے تو قطعی طور پریہ ثابت ہوتاتھا کہ وہ دوسری عورتوں کی آغوش میں نور جہاں کی یاد کو دفن کرنا چاہتا ہے، اور ہرن مارکہ جیسی تھرڈ کلاس وسکی سے اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

    اصلاً شوکت گھڑی ساز تھا اور اپنے فن میں مہارت تامہ رکھتا تھا۔ اس لیے وہ ہر شے کی نوک پلک درست کرتا رہتا تھا۔ اس کی طبیعت کسی اکھڑے ہوئے پرزے، کسی ٹیڑھی کیل، کسی غلط وقت دینے والی گھڑی، کپڑے میں کسی شکن اور سلوٹ کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اس کی جبلت میں ایک نظم ہے، وہی نظم جو ایک اچھی گھڑی میں ہوتا ہے۔ مگر یہاں نور جہاں کے معاملے میں وہ خود کو بے بس سمجھتا ہے۔ وہ اس گھڑی کے کل پرزے کیسے درست کرسکتا تھا جس کو دل کہتے تھے۔ اگر یہ کوئی ایسی چیز ہوتی جسے وہ اپنے سامنے رکھ کر محدب شیشے میں دیکھ سکتا، اس کی بال کمانی اور اس کی گراریوں کا مطالعہ کرسکتاتو یقیناً وہ پیچ کش لے کر اسے سب کا سب کھول دیتا جو گڑ بڑ پیدا ہونے کا موجب ہورہی تھیں مگر یہ دل کا معاملہ تھا۔

    ادھر نور جہاں بھی جو اپنے گلے سے باریک سے باریک سر نکال سکتی تھی، حیران تھی کہ اپنے دل سے شوکت کی یاد کیسے نکالے۔ وہ خیال بڑے بڑے استادوں کی طرح گا سکتی تھی مگر ایک خیال اس کے دل و دماغ پر ہر وقت چھایا رہتا تھا اور یہ خیال اس کے محبوب کا تھا، بانکے چھبیلے شوکت کا۔ جس نے اس کی زندگی کو بہترین لذت بخشی تھی۔ جس نے اس کے بدن میں وہ حرارت پیدا کی تھی جو موسیقی جیسی لطیف چیز بھی پیدا نہیں کرسکتی۔ وہ اسے کیسے بھول سکتی تھی، وہ جو اس کے جسم میں ایک عرصہ تک ڈبکیاں لگاتا رہا تھا۔

    شوکت کے متعلق گفتگو شروع ہوئی اور نور جہاں نے اوپرے دل سے اس کے متعلق اپنی نفرت کا اظہار کیا تو مجھ سے نہ رہا گیا میں نے اس سے کہا، ’’نور جہاں! یہ سب بکواس ہے۔ جو کچھ تم نے کہا ہے، خدا کی قسم! وہ تمہارے دل سے نہیں نکلا اور جو کچھ میں اس خر ذات شوکت سے سنتا ہوں۔ خدا کی قسم! وہ بھی قطعاً جھوٹ ہوتا ہے۔ تم دونوں ایک دوسرے پر مرتے ہو۔ مگر دونوں ہی خود فریب ہو۔۔۔ ابھی کل مصور کے دفتر میں تمہاری باتیں ہورہی تھیں اور۔۔۔ کل شام کیا، ہر شام جب میں اور شوکت پینا شروع کرتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی حیلے تمہاری بات چھیڑ دیتا ہے۔ پھر خود ہی کہتا ہے کہ اس کی بات نہ کرو۔ یہی حال تمہارا ہے۔ میں نے تمہاری یاد میں اس کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں اورمیں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ وہ اگر تم سے دور رہا، تو وہ اپنی جوانی اور اپنی صحت تباہ کرلے گا۔ وہ تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ معلوم نہیں، تم نے اس پر کیا جادو پھونک رکھا ہے۔‘‘

    نور جہاں پر سکتہ طاری ہوگیا۔

    میں نے پھر کہنا شروع کیا، ’’نور جہاں! خود فریبی سے کام نہ لو۔ میں مانتا ہوں کہ نظامی صاحب بڑے جہاں دیدہ آدمی ہیں۔ لیکن عشق و محبت میں وہ گر کبھی نہیں چلتے، جو زندگی کے دوسرے بازاروں میں چلتے ہیں۔ یہ کھوٹے سکے ہیں۔۔۔‘‘ میں ایک دم نظامی سے مخاطب ہوا، ’’کیوں نظامی صاحب! کیا یہ جھوٹ ہے۔‘‘

    نظامی صاحب کچھ ایسے میری تقریر میں گم تھے کہ انہوں نے جب نفی میں اپنا سرہلایا تو انہیں مطلق اس کا احساس نہیں تھا۔ پھر جب ایک دھچکے کے ساتھ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں بہت آگے نکل چکا تھا۔ میں نور جہاں سے جس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے، کہہ رہا تھا، ’’ تم دونوں بے وقوف ہو۔ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو مگر اسے چھپائے پھرتے ہو۔ کس سے؟۔۔۔ کن سے!۔۔۔ یہ دنیا تو۔۔۔ معاف کرنا نور جہاں، کسی کو بھی محبت کرتے نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ لوگ محبت کرنا ہی چھوڑ دیں۔۔۔ ممتاز شانتی کی زندگی واقعی قابلِ رشک ہے۔ نظامی صاحب جیسے شفیق اور ہوشیار چچا کی سرپرستی میں وہ یقیناً خدا کے فضل و کرم سے اور بھی ترقی کرے گی۔ لیکن۔۔۔ (یہاں میں پھر نظامی سے مخاطب ہوا)۔۔۔ لیکن نظامی صاحب! آپ سے یہ مخفی نہیں ہوگا کہ ہر آدمی کے لئے ایک ہی چچا کام نہیں دے سکتا۔ آپ نے جو ہدایات ممتاز کے لئے سوچی تھیں، ظاہر ہے کہ وہ نور جہاں کے لیے کارآمد نہیں ہوسکتیں، دونوں کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں؟‘‘

    میں اب نظامی کو اس مقام پر لے آیا تھا جہاں وہ میری کوئی بات جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ میں نے موقعہ غنیمت جانا اور بولتا چلا گیا۔ میں نے نور جہاں کے دل و دماغ پر جو کہ اس کے لیے غالباً پہلے ہی سے تیار تھا، یہ حقیقت اچھی طرح مرتسم کردی کہ وہ اور شوکت ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں اور جو خود فریبی سے کام لے رہے ہیں، بڑی مہلک چیز ہے۔

    نظامی جب اٹھا تو وہ کوئی خوش آدمی نہیں تھا (اس جملے میں انگریزی پن ہے مگر یہ مجھے پسند ہے) مگر اپنی فطرت سے مجبور وہ مجھ سے روکھے پن کا اظہار نہ کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے نور جہاں سے یہ کہہ کر کہ وہ ٹھنڈی بوتل کی بجائے گرم بوتل لے کر خورشید کے ساتھ اسٹوڈیو چلی جائے اوروہاں وقتاً فوقتاً درد کا بہانہ کرتی رہے۔۔۔ تو اس نے بڑی خندہ پیشانی سے مجھ سے گفتگو کی اور مجھے یقین دلایا کہ میرے فلیٹ اور فرنیچر وغیرہ کا مکمل بندوبست کررکھا ہے۔ اس کو حیرت تھی کہ میں اتنے دنوں کہاں غائب رہا۔ فلیٹ کی چابی اس کے منیجر کے پاس تھی اور وہ میرا منتظر تھا۔ بلیک مارکیٹ سے پٹرول حاصل کرنے کے لیے بھی انہوں نے ویسا ہی مکمل انتظام کر چھوڑا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی دلی خواہش تھی کہ میں ان کی دعوت قبول کروں جس میں وہ میری تواضع علاوہ مرغوں کے’’ جونی واکر کی بلیک لیبل‘‘ سے کریں گے۔

    میں نے مناسب و موزوں الفاظ میں اس کا شکریہ ادا کیا، لیکن وہ مصر تھاکہ میں ضرور اس کی دعوت قبول کروں۔ چنانچہ میں نے قبول کرلی، مگر مجھے یقین تھا کہ اگر میں اس کے ہاں چلا بھی گیا تو مرغ اور جونی واکر بلیک لیبل کا ذکرتک بھی نہیں ہوگا۔

    خیر۔۔۔! نظامی صاحب کو چھوڑیے کہ وہ نظامی صاحب ہیں۔۔۔ معلوم نہیں کس رعایت سے۔ ممکن ہے حسن نظامی دہلوی کے مرید ہوں یا خود ساختہ نظامی ہوں۔ مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ میری اس شام کی تقریر نما گفتگو نے نظامی کے تمام پلان درہم برہم کردیے۔

    مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں اب کمال امروہی سے کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔ اس کے ٹیلی فون آتے ہیں مگر وہ کوئی جواب نہیں دیتی۔ وہ اپنی سیکنڈ ہینڈ کار لے کر آتا ہے مگر وہ کسی کمرے میں چھپ جاتی ہے اور نظامی کی ہدایات کے مطابق عمل نہیں کرتی۔

    ان تمام باتوں کی رپورٹ میرے ذریعے سے شوکت تک پہنچ جاتی تھی۔ ہمیں اس بات کا کامل احساس تھا کہ وہ مرد تسمہ پا نظامی کے شکنجے میں ہے اور اس کا وہاں سے نکلنا مشکل ہے۔ چنانچہ ہم نے ایک کانفرنس کی۔ جس میں نذیرلدھیانوی ایڈیٹر مصّور ویکلی، میں اور شوکت شامل تھے۔ طے ہوا کہ وہیں یعنی کیڈل روڈ پر کوئی مکان حاصل کیا جائے۔

    نذیر لدھیانوی کی کوششوں سے کیڈل روڈ پر ساحلِ سمندر کے بالکل قریب گراؤنڈ فلور پر ایک نہایت عمدہ فلیٹ مل گیا، جس میں تین غسل خانے تھے۔ کئی کمرے تھے اور ایک وسیع و عریض ڈرائنگ روم تھا۔ نذیر نے جو کہ۱۷ اڈلفی چیمبرز جیسے واہیات فلیٹ میں رہتے رہتے اکتا گیا تھا، شوکت سے کہا کہ وہ شرکت کرنے کے لئے تیار ہے۔

    دونوں اکٹھے رہیں گے۔ چنانچہ فوراً فلیٹ حاصل کرلیا گیا۔ کرایہ غالباً ایک سو پچھتر روپے یا دو سو روپے ماہوار تھا۔ فرنیچر اور دوسرے سازو سامان سے چند دن کے اندر اندر یہ جہازی فلیٹ سجا دیا گیا۔ شوکت کا بیڈ روم سمندر کی طرف تھا۔ ادھر سے اگر پانچ سوقدم کا فاصلہ طے کیا جاتا تو نظامی کا فلیٹ آتا تھا۔ مطلب یہ کہ اب نور جہاں اور شوکت میں صرف اتنے ہی قدموں کا فاصلہ باقی رہ گیا تھا۔

    میرے ذمے جو کام تفویض کیا گیا تھا، وہ میں خوش اسلوبی سے نبھا رہا تھا۔ کبھی کبھی نظامی کے ہاں جانکلتا تھااور اگر نور جہاں موجود ہوتی تو اس کو بتا دیتا تھا کہ شوکت نے کتنی آہیں اس کے لئے بھری ہیں اور رات کو پینے کے بعد وہ کتنی مرتبہ اس کے فراق میں رویا ہے۔ نور جہاں کو میرے ذریعے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ شوکت اس کے پڑوس میں مقیم ہے اور یہ کہ صرف پانچ سو قدم ساحل کے ساتھ چل کروہ اس کے پاس پہنچ سکتی ہے یا وہ اس کے پاس۔۔۔ سیرکی سیر اور دیدارِ یار بھی۔

    میں نے کئی دفعہ محسوس کیا کہ یہ کام جو میں کررہا ہوں کسی بوڑھی کٹنی کا ہے۔ مگر دوست کے لئے آدمی کیا کچھ نہیں کرتا۔۔۔؟ یہاں میں آپ پر یہ واضح کردوں کہ میں دونوں کی شادی کے سخت خلاف تھا۔ ایکٹرس سے شادی کا سلسلہ ہی میرے نزدیک غلط بات ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ بس ٹھیک ہے۔ جب اکتا جائیں تو اپنا راستہ لیں۔۔۔ مگر شوکت پٹہ لکھوانے کا قائل تھا کہ زمین ساری عمر اسی کی ملکیت رہے۔ میں نے اسے بہت سمجھایا۔ وہ مان گیا کہ اگر نور جہاں سے اس کا ملاپ ہوگیا تو وہ شادی نہیں کرے گا۔

    مجھے جوکرنا تھا، کرچکا تھا۔ میں اب اپنی کہانی جس کا عنوان’’نوکر‘‘ تجویز ہوا تھا، کا منظر نامہ لکھنے میں بے طرح مصروف تھا۔ اس کے علاوہ کیڈل روڈ اور بائی کلہ میں کئی میل حائل تھے، اس لئے شوکت کے ہاں میرا آنا جانا کم ہوگیا۔

    ان دنوں اچھی بیئر نایاب تھی۔ اتفاق سے امریکی بیئر کی چار فربہ اندام بوتلیں مجھے مل گئیں۔ میں یہ ساتھ لے کر کیڈل روڈ پہنچا۔ صبح کا وقت تھا۔ میں چاہتا تھا کہ یہ مشروب ناشتے ہی سے شروع کیا جائے۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ فلیٹ سنسان ہے۔ نذیر لدھیانوی نہا دھو کر اور ناشتہ کرکے دفتر روانہ ہو چکا ہے اور شوکت سو رہا ہے۔ میں اس کی خواب گاہ کے پاس پہنچا اور دستک دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ پھر ذرا زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے شوکت کی خواب آلود آواز آئی، ’’کون ہے؟‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’منٹو! ‘‘

    شوکت نے کہا، ’’ٹھہرو!‘‘

    میں ٹھہرا رہا۔ تین منٹ کے بعد دروازہ کھلا۔ کمرے کے اکلوتے پلنگ پر نور جہاں لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس کو دیکھتے ہی نعرہ لگایا، ’’انقلاب زندہ باد۔‘‘

    نور جہاں کی آنکھیں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی وہ لانڈری سے دھل کے آئی ہیں۔ میں نے شوکت کو دیکھا کہ وہ کسی قدر مضمحل تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’تو چتوڑگڑھ فتح ہوگیا۔‘‘ شوکت مسکرا دیا۔ اس کی یہ مسکراہٹ اطمینان بھری تھی۔ کہنے لگا، ’’آؤبیٹھو!‘‘ میں ان کے پلنگ کے پاس ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھ گیا اور شوکت سے مخاطب ہوا، ’’کیوں بھائی! یہ محترمہ کیسے تشریف لائیں؟‘‘

    شوکت نے فاتحانہ نظروں سے نور جہاں کو دیکھا جو پلنگ پر چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ رہی تھی، ’’بس کچے دھاگے سے بندھی آئی ہیں۔‘‘

    معلوم نہیں وہ کچے دھاگے سے بندھی آئی تھی یا پکے دھاگے سے بندھی آئی تھی، پر میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ دھاگہ جیسا بھی تھا اس کی تخلیق ہاتھوں سے نہیں، دلوں سے ہوئی تھی۔ بڑے عمدہ طریقے سے بٹا ہوا تھا۔ ورنہ وہ پانچ سو قدموں کا فاصلہ اتنی جلدی اور اتنی خوبی سے پاٹا نہیں جاسکتا تھا۔

    قصہ مختصر یہ ہے کہ شوکت کے بیڈ روم میں جس فرنیچر کی کمی تھی، وہ پوری ہوگئی تھی۔۔۔ اور اب وہ مکمل طور پر سج گیا تھا۔ لیکن ادھر نظامی کے فلیٹ میں ایک بتی بجھ گئی تھی۔ وہ بتی جو ایک پورے بجلی گھرمیں تبدیل ہو سکتی تھی۔ نظامی نے اسے بہت سمجھایا بجھایا، بھائیوں نے اسے بہت دھمکیاں دیں، پرجب عشق کا بھوت سر پر سوار ہوتو کانوں کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دھمکیاں اور بھبھکیاں، پند و نصائح قطعاً اثر انداز نہیں ہوتے۔ شوکت نے مجھ سے کہا، ’’منٹو! میرا خیال ہے، میں سالی سے شادی کرڈالوں۔‘‘

    میں نے پھر اس سے کہا، ’’یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم اس کے مالک ہو، لیکن میری ایمان دارانہ رائے یہی ہے کہ تمہارا یہ اقدام درست نہیں ہوگا۔ کیا تم نے اس بارے میں اپنے گھر والوں سے مشورہ کیا ہے؟اس سوال کا جواب شوکت گو ل کر گیا۔ بہر حال اب مجھے یقین تھا کہ وہ اب سوچ سمجھ کرقدم اٹھائے گا اور عجلت سے کام نہ لے گا۔

    بمبئی میں ایک بزرگ حکیم ابو محمد طاہر اشک عظیم آبادی کے نام سے تھے۔ یہ ایک عجیب شے تھے۔ عمر آپ کی پچھتر برس کے قریب تھی، مگر دل جوان تھا۔ آنکھوں کی بینائی بالکل درست تھی۔ دانت سلامت تھے۔ ہر نئے فلم کا پہلا شو دیکھتے تھے۔ پانچ زبانیں بولتے تھے۔ اردو، فارسی، عربی، انگریزی اور پنجابی۔ بڑے معرکے کے آدمی تھے۔ طبابت سے شغف تھا اور شعرو شاعری سے بھی۔ شوکت سے میں نے ان کی ملاقات کرائی تو وہ ان کے گرویدہ ہوگئے اور ان کو چچا جان کہنے لگے۔ حکیم صاحب نے ان سے دور دراز کا کوئی رشتہ بھی پیدا کرلیا تھا۔ ان کے کہنے کے مطابق وہ شوکت کے خاندان سے بہت پرانے مراسم رکھتے تھے۔

    جیسا کہ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں، شوکت کے ہاں میرا آنا جانا بہت کم ہوگیا تھا۔ اس لیے کہ بائی کلہ اور کیڈل روڈ میں فاصلہ کافی تھا۔ اس کے علاوہ میں کہانی کی منظر نویسی میں مشغول تھا۔ چند دن گزرے تو حکیم صاحب تشریف لائے۔ مجھے ان سے بڑی عقیدت تھی کہ میری زبان درست کرنے میں آپ نے غیر شعوری طور پر میری بہت مدد کی تھی۔ ان کو بھی مجھ سے محبت تھی کہ میں ان کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ باتوں باتوں میں آپ نے مجھے بتایا کہ شوکت بیٹے کا نکاح نور جہاں سے ہوگیا ہے۔ میں بہت حیران تھا کہ مجھے اس کی خبر تک نہ ہوئی۔

    جب میں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو حکیم صاحب نے سارا معاملہ گول کرنے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہے تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’دیکھو سعادت! یہ سب کچھ خفیہ طور پر ہوا ہے تاکہ لوگوں میں چرچا نہ ہو۔ میں نے تم سے ذکر کردیا کہ تم بھی شوکت کی طرح میرے بیٹے ہو، اس لیے یہ راز راز ہی رہے۔‘‘

    یہ راز کب تک راز ر ہ سکتا تھا؟ میں پچھتر برس کے بڈھے سے کیا بحث کرتا! غصہ تو مجھے صرف اس بات کا تھا کہ شوکت نے مجھ سے یہ بات کیوں چھپائے رکھی؟ اگر اسے نکاح کرنا ہی تھا تو میری شمولیت اس میں کیوں ضروری نہ سمجھی؟ اور مجھے کیوں تاش کی گڈی میں سے جو کر سمجھ کر الگ کردیا گیا۔۔۔ میرے دل میں تکدر تھا، لیکن شوکت سے میں نے اس کا ذکر نہ کیا کہ اس سے میرے اور اس کے تعلقات یقیناً کشیدہ ہو جاتے۔

    دن گزرتے گئے۔

    نظامی تھک ہار کربیٹھ گیا۔ سید کمال حیدر امروہی نے ہزار ہا مرتبہ ٹیلی فون کیا۔ سیکڑوں مرتبہ اپنی سیکنڈ ہینڈ کار میں نظامی کے فلیٹ کے چکرکاٹے۔ آخر وہ بھی ناامید ہو کر دیگر مشاغل میں مصروف ہوگیا۔ شوکت کا بیڈ روم آباد تھا۔ وہاں ہنسی کے چھینٹے اڑتے تھے۔ نور جہاں کے گلے سے نور برستا تھا۔ رفیق غزنوی سے جس قسم کی دھنیں بنوانی ہوتی تھیں، ان کی ریہرسل ہوتی تھی۔ دو جوانیاں کیڈل روڈ کے اس فلیٹ میں کُھل کھیل رہی تھیں۔

    میں آپ کو ایک لطیفہ سناؤں۔

    میرے بھائی جان، سعید حسن بیرسٹر، جزائر فجی سے ایک مدت کے بعد امرتسر جانے کے لئے تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وہ بذریعہ ہوائی جہاز آرہے ہیں۔ ان دنوں میں میں ماہم میں رہتا تھا اور ہمارا فلیٹ بہت ہی چھوٹا تھا۔ میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ مصور کے ایڈیٹر نذیر لدھیانوی بھی موجود تھے۔ طے یہ پایا کہ ان کو اس فلیٹ میں ٹھہرایا جائے جہاں نذیر اور شوکت دونوں اکٹھے رہتے ہیں۔

    یہ فلیٹ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، بہت بڑا تھا۔ نذیر چھڑا چھٹانک تھا۔ شوکت تھا، اس کی نور جہاں تھی۔ ان کو تو بس فقط ایک بیڈ روم چاہئے تھا۔ باقی کمروں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے بھائی جان کے لئے جو یورپی طرز رہائش کے عادی تھے۔ ایک علیٰحدہ کمرے اور غسل خانے کا انتظام بڑی آسانی سے ہوسکتا تھا۔ چنانچہ جب وہ بمبئی تشریف لائے اور چند روز کے لئے وہاں رکے تو میں انہیں کیڈل روڈ پرلے گیا۔

    وہ یہ فلیٹ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ عمارت قریب قریب نئی تھی، جدید طرز کی، دو منزلہ تھی۔ اوپر کی منزل میں صاحب مکان رہتے تھے۔ پچھلی طرف یعنی جدھر سمندر کا ساحل تھا، کوئی دو سو قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا بغیچہ تھا۔ اس میں بچوں کے کھیلنے کیلئے جھولے تھے اور وہ جنہیں انگریزی میں’’سی سا‘‘ کہتے ہیں اور وہ پھسلنے والے تختے!

    سمندر کی مرطوب ہوا ہر وقت آتی رہتی تھی۔ بعض اوقات یہ اس قدر تیز ہو جاتی تھی کہ فلیٹ کے وہ تمام دروازے، وہ تمام کھڑکیاں، جن کا رخ سمندر کی طرف تھا، بند رکھنا پڑتی تھیں کہ چیزیں اپنی جگہ سلامت رہیں۔ اس فلیٹ میں بھائی جان اپنے مختصر سے اسباب کے ساتھ اترے اور بہت خوش ہوئے۔ لیکن چند ہی روز میں ایک ٹریجڈی وقوع پذیرہوگئی۔

    شوکت نور جہان کو دوبارہ پاکر بہت خوش تھا۔ اس خوشی کا نکاس کسی نہ کسی طرح نفسیاتی طور پر ہونا ہی چاہیے تھا۔ پھر مرزا مشرف تھا، شوکت کی دیگ کا بہت بڑا چمچہ، چاولہ تھا، سہگل تھا اور دوسرے تھے جو شوکت کے فلم میں شریک ہونے کے لئے بے قرار تھے۔

    فلمی دنیا دراصل رات کی دنیا ہے۔ دن بھر یہ سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے تھے اور سرِ شام شوکت کے ہاں جمع ہو جاتے تھے۔ وسکی کے دور چلتے تھے، سوقیانہ قسم کی ہنسی ٹھٹھے ہوتے تھے۔ گانے گائے جاتے تھے۔ کہانیاں سنائی جاتی تھیں اور بعض اوقات تو اتنا شور برپا ہوتاتھا کہ اوپر کی منزل والوں کو پکار پکار کر کہنا پڑتاتھا کہ بابا خاموش رہو۔

    ایک رات شوکت نے غالباً ایم۔ اے مغل کو جو پری چہرہ نسیم بانو کے ڈھنڈورچی کی حیثیت سے مشہور تھے، اپنے ہاں مدعو کیا۔ مرزا مشرف بھی تھے، میں بھی تھا اور میری بیوی بھی تھی۔ دعوتِ طعام سے فارغ ہوکر میں اور میری بیوی تو فوراً چلے گئے کہ ہمیں ایک ضروری کام سے کہیں جانا تھا۔ بھائی جان شوکت علی کے بیٹے زاہد کے ہاں مدعو تھے۔ وہ دیر سے لوٹے۔ مگر جب انہوں نے ہال میں قدم رکھا تو دیکھا کہ رندی و سرمستی اپنے بال کھولے ناچ رہی ہے۔ وہ ہاوہُو ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ معلوم نہیں، انہوں نے اور کیا کچھ دیکھا کہ صبح ہوتے ہی اپنا سامان بندھوا کرخلافت ہاؤس چلے گئےاور مجھے اور میرے دوستوں کو اس قدر تند و تیز لہجے میں برا بھلا کہا کہ اب میں نے اس واقعہ کو یاد کیا ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ اتررہا ہے۔

    انہوں نے اصل میں اپنی ساری زندگی قانون کی کتابوں میں گزاری تھی۔ ساری عمر مقدمے لڑتے رہے تھے۔ لاہور میں، بمبئی میں، مشرقی افریقہ اور جزائر فجی میں۔ ان کو کیا معلوم کہ فلمی دنیا کیا ہوتی ہے؟ اور اس کے عاشق و معشوق کس قسم کے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور خلافت ہاؤس میں جا کر پناہ لی۔ پرلطف کی بات یہ ہے کہ یہ خلافت ہاؤس ایک ایسی گلی میں واقع ہے جس کا نام’’لَو لین‘‘ ہے، یعنی محبت کی گلی ہے۔

    یہ قصہ تو خیر ضمناً آگیا کہ زیبِ داستان کے لئے ضروری تھا۔ اب میں نور جہاں کی طرف لوٹتا ہوں جس کی بڑی بہن وہیں کیڈل روڈ پر پاس ہی اپنے بھائی کے ذریعے سے پیشہ کراتی تھی مگر پرائیویٹ طور پر۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ دونوں بہنیں آپس میں ملتی تھیں یا نہیں، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، شوکت نے اس کی اجازت نور جہاں کو کبھی نہ دی ہوگی۔

    نور جہاں کا بھائی پرلے درجے کا جواری تھا۔ سٹہ کھیلتا تھا۔ تاش کے پتوں پر داؤ لگاتا تھا، ریسوں میں جاتا تھا۔ اس کو ظاہر ہے کہ نور جہاں اور شوکت کا ملاپ سخت شاق گزرا تھا۔ جیسا کہ میں اس سے پیشتر عرض کر چکا ہوں۔ اس نے چچا نظامی سے مل کر بہت کوشش کی کہ وہ پھر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں نور جہاں ان دونوں کی روزی کا ٹھیکرہ بن جائے مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ شوکت کو ہر قسم کی دھمکیاں دی گئیں مگر وہ بھی ایک دبنگ آدمی ہے، اس لئے ان کی کوئی پروانہ کی اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ یہ محاذ بالکل خاموش ہوگیا۔

    فلم’’نوکر‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی۔ رفیق اس کی موسیقی مرتب کررہا تھا۔ بظاہر وہ اپنے کام میں پورے انہماک سے دلچسپی لیتا تھا، مگر میں صاف محسوس کرتا تھا کہ رفیق غزنوی ہر وقت الجھن سی محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی عین ناک کے نیچے( یہ بھی انگریزی محاورہ ہے) ایک اور شخص اس لونڈیا کو اڑا لے گیا تھا جس پر اس کی عشق پیشہ آنکھ تھی۔

    بہر حال فلم’’نوکر‘‘ کی تکمیل افتاں و خیزاں جاری تھی۔ اس دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ شوکت فلم سازی کے معاملے میں بے حد متلون مزاج ہے۔ اس کو ایک آدمی کا کام پسند نہیں آتابلکہ یوں کہیے کہ اس کو فقط ایک آدمی کے کام سے اطمینان نہیں ہوتا۔ میں نے اس کو کہانی کا منظر نامہ معہ مکالموں کے لکھ کر دے دیا تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ خفیہ طور پر کئی آدمیوں سے مکالمے لکھوا رہا ہے۔ اس میں ہمارے بزرگ اشک عظیم آباد بھی تھے۔ مجھے بہت تاؤ آیا۔ جہاں تک اشک صاحب کا تعلق تھا، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر دوسروں کو میں قطعاً برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ میں نے بڑے گرم الفاظ میں شوکت سے اپنی شکایت کا اظہار کیا۔ آدمی سمجھ دارہے۔ حکمتِ عملی سے کام لے کر اس نے میرے دماغ پر برف کی کئی سلیں رکھ دیں مگر میں دل برداشتہ ہو چکا تھا کیونکہ کہانی بھی میری مرضی کے مطابق نہیں لکھی گئی تھی اور اس کے ہر کونے اور ہر موڑ پر شوکت نے اپنی من مانی کی تھی۔

    میں بڑا ہٹ دھرم اور ضدی آدمی ہوں، لیکن شوکت کے سامنے میری کوئی پیش نہ چلتی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے چند دن اس کے ساتھ کام کرکے قطعی طور پر جان لیا تھا کہ یہ شخص جو میرے ساتھ ہرن مارکہ وسکی اور کریون اے کے سگریٹ پیتا رہا ہے اور میری ہر بات مانتا رہا ہے، فلم سازی کے معاملے میں وہی کچھ کرے گا جو اس کا گھڑی ساز دماغ مناسب سمجھتا ہوگا۔ چنانچہ یہی ہوا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ دبے پاؤں فلم’’نوکر‘‘ کی پروڈکشن سے باہر نکل جاؤں گا۔

    میں نے ایسا ہی کیا۔ شوکت چونکہ میرے اڑیل مزاج سے واقف تھا، اس لیے اس نے میرے اس فرار کوسکون کے لئے اچھا سمجھاکیونکہ بہت ممکن تھا کہ اگر میں کسی نکتے پر اڑ جاتا تو فلم کی شوٹنگ مہینوں تک کھٹائی میں پڑی رہتی۔

    مجھے اس سے شکایت تھی، اس کو بھی اپنی جگہ یقیناً ہوگی۔ مگر ہمارے دوستانہ تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا۔ میں اس سے پیشترعرض کر چکا ہوں کہ ملک میں سیاسی گڑ بڑ کے باعث فلم انڈسٹری کی حالت بالکل چھوئی موئی کی سی تھی۔ کسی نے اسٹول پر چڑھ کر’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا تو کئی فلموں کا اسقاط ہو جاتا تھا۔ یوں بھی ان دنوں جنگ کے باعث خام مال قریب قریب نایاب تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے، اس لیے بہت کم فلم ڈائرکٹروں کی مالی حالت اچھی تھی۔ پروڈیوسروں کے پاس ایک گڑھاگڑھایااور بہت معقول بہانہ موجود تھا کہ روپیہ کہاں سے لائیں؟ جنگ شروع ہے۔ آج کریٹ کی لڑائی ہے اور کل فن لینڈ کی۔ پرسوں جاپان کے حملے کا خطرہ ہے۔ مگر سچ پوچھئے تویہی وہ زمانہ تھا کہ جب پروڈیوسروں اور سرمایہ لگانے والوں نے جھولیاں بھر بھر کے کمایا۔

    شوکت کا اس دوران میں ایک اور جگہ کنٹریکٹ ہوا۔ غالباً سیٹھ زویری( بمبئی میں جوہری کی بگڑی ہوئی شکل) سے۔ یہ ایک بڑابرخود غلط قسم کا انسان تھا۔ بڑے ادنیٰ درجے سے تعلق رکھتا تھا، مگر جنگ نے اسے سیٹھ بنا دیا تھا۔ اب وہ کھل کھیلنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فلم کمپنی کھڑی کردی تھی۔ دو چار موٹریں لے لی تھیں۔ اونچی جگہوں پر تو اس کا ہاتھ نہ پہنچتا تھا مگر وہ ایکسٹرا لڑکیوں کو پھانسنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔

    اس سیٹھ سے شوکت کا کنٹریکٹ ہوا تو اس نے تین ہزارروپے پیشگی دیے۔ میں شوکت کے ساتھ تھا۔ جب چیک کیش ہوگیا تو میں نے روپے اس سے لے لیے اور اس سے کہا، ’’چلو! ڈاک خانے چلیں۔‘‘ ڈاک خانے پہنچ کر میں نے وہ روپے سب کے سب ہی شوکت کے گھر رجسٹری اور بیمہ کراکے بھیج دیے۔ میرا خیال ہے نور جہاں کو میری یہ حرکت یقیناً ناگوارگزری ہوگی۔ لیکن میرا اس سے کیا سروکار؟

    اسی دوران میں شوکت کو میں نے مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی کا بیمہ کرالے۔ وہ میری باتوں کو بہت کم ردکرتا تھا، فوراً مان گیا۔ چنانچہ دس ہزارروپے کی پالیسی لے لی گئی۔ معلوم نہیں، مجھے یہ سب باتیں اور یہ تمام حرکات بزرگانہ ہونے کے بجائے طفلانہ معلوم ہوتی ہیں۔ صاف اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت والا معاملہ تھا۔

    نور جہاں اب خوب نکھر گئی تھی۔ مرد کی قربت بھی عورت کے حسن کے لئے کتنی ضروری ہوتی ہے۔۔۔ اس کے جسم کے خطوط اب واضح شکل اختیار کر چکے تھے۔ وہ تمام خالی جگہیں جو لاہور میں پر نہ ہوئی تھیں، یہاں بمبئی میں پر ہو گئی تھیں اور اس پر جسم کی لذتوں کے قریب قریب تمام اسرار منکشف ہو چکے تھے۔ نور جہاں گو اب بھی لوگوں کی زبان پر’’بے بی نور جہاں‘‘ تھی مگر وہ عشق و محبت کا جھولا جھول جھول کر ان تمام جھونٹوں سے آگاہ ہو چکی تھی جو اس کی رسیوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔

    ایک دن آؤٹ ڈور شوٹنگ تھی۔ بمبئی کے مضافات میں کسی کا ایک خوبصورت باغ تھا جس کو شوکت نے منتخب کیا تھا۔ کیمرے کے لینس کے ساتھ ریڈ فلٹر لگا کر منظر کشی کرنا تھی کہ دن کی بجائے رات معلوم ہو اور جو دھوپ ہووہ چاندنی نظر آئے۔

    شوکت نے اصرار کیا کہ میں اس کے ساتھ ضرور چلوں۔ مجھے دیر ہوگئی۔ اس لیے میں سیٹھ ویاس کی گاڑی میں وہاں پہنچا۔ نور جہاں کو میں نے لوکیشن پر دیکھا تو میری آنکھوں کو زبردست دھکا لگا۔ عجیب و غریب لباس پہنے تھی۔ لباس کی وضع قطع میرے لئے نئی نہیں تھی۔ معمولی شلوارقمیص تھی مگر اس میں آنکھوں کے لئے بڑی خارش پیدا کرنے والی حدت تھی۔

    شلوار جالی کی تھی، جسے انگریزی میں’’نٹ‘‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ کپڑا کھڑکیوں کے پردوں کیلئے استعمال ہوتا ہے معلوم نہیں یہ نور جہاں کی ایج تھی یا سید شوکت حسین رضوی کی مگر وہ یہ لاکھوں کھڑکیوں والی شلوار پہنے تھی جس میں اس کی ٹانگیں بغیر کسی تکلف کے چھن چھن کے باہر آرہی تھیں۔ قمیص بھی اسی کپڑے کی تھی۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ اس ملبوس نے نور جہاں کو ڈھانکنے کی کتنی کوشش کی ہوگی۔

    شوبھنا سمر تھ بھی موجود تھی۔ نور جہاں کو اس لباس میں دیکھ کر واللہ میں تو بوکھلا گیا تھا۔ ایسا لباس، پھر روشنی کے پیش منظر میں، میں نے اپنی زخمی نگاہیں ادھر سے ہٹائیں اور شوبھنا کے پاس چلا گیا کہ وہ مستور تھی۔ شوبھنا سمرتھ تعلیم یافتہ عورت ہے۔ گفتگو کا سلیقہ رکھتی ہے۔ چونکہ اچھے مرہٹی خاندان کی ہے، اس لیے اس میں ہلکٹ پن(بمبئی کی زبان میں) نہیں۔ بڑی ہی باتمیز عورت ہے۔ وہ بھی اس فلم میں کام کررہی تھی۔ میں اس کے ساتھ گھاس کے ایک تختے پر بیٹھ گیا اور اپنی وہ کوفت اور اپنا وہ تکدر دور کرتا رہا جو نور جہاں کا کھڑکیوں والا لباس دیکھ کرمیرے دل و دماغ میں پیدا ہوا تھا۔

    جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کرچکا ہوں، مجھے فلم’’نوکر‘‘سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ شوکت اپنی من مانی کررہا تھا اور میں اس میں دخل دینے سے کتراتا تھا کہ میرے اور اس کے تعلقات کہیں خراب نہ ہو جائیں۔

    نور جہاں سے اس کے گھر میں کئی مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں۔ میں نے اس کا جب بھی اور زیادہ غور سے مطالعہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ جس طبقے سے تعلق رکھتی ہے، اسی کی خصوصیات اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس کی ہر ادا میں اور ہر حرکت میں ایک بناوٹی ادا تھی، ایک نخرہ تھا جسے سنجیدہ نگاہیں شاید ہی قبول کرسکیں۔

    مجھے تعجب ہے کہ سیٹھ شوکت ٹھیٹھ ہندوستانی(یعنی یو پی کا باشندہ) اور وہ ٹھیٹھ پنجابی، ایک لحاظ سے جٹنی، گاؤں کی مٹیار۔۔۔ لیکن دونوں بہت خوش تھے۔ شوکت پنجابی نما اردو بولنے کی کوشش کرتا اور وہ اردو نما پنجابی۔ خاصی دلچسپ چیز تھی۔

    فلم’’نوکر‘‘ ختم ہوئی تو شوکت اورمیرے درمیان فاصلہ بڑھ گیا۔ وہ عشق کے جھولے جھول کر اب کاروباری دھندوں میں مشغول ہوگیا تھا اور میں اپنے کاموں میں۔ گاہے گاہے کسی فلم کمپنی کے دفتر میں، یا سڑک پر اس سے ملاقات ہو جاتی تھی مگروہ بھی چند منٹوں کی خیر خیریت دریافت کی اور اپنی اپنی راہ لی۔

    فلم انڈسٹری کی حالت اب بہتر تھی۔ جنگ کا خوف پروڈیوسروں کے سر سے اتر چکا تھااور فلم انڈسٹری کے تمام متعلقین کو معلوم ہو چکا تھا کہ یہ زمانہ کمانے کا ہے۔ چنانچہ لاکھوں روپے ادھر سے ادھر آجا رہے تھے۔

    شوکت ذہین ہونے کے علاوہ کاروباری آدمی بھی ہے۔ چنانچہ اس نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور کچھ عرصے کے بعد اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کی اور ایک بڑا کامیاب فلم بنایا۔ یوں تو اس کی ساکھ پہلے ہی قائم تھی کہ فلم انڈسٹری کے لوگ اسے ایک قابل ڈائرکٹر اور ماہر اڈیٹر مانتے تھے لیکن جب اس نے اپنی ذاتی فلم کمپنی کھڑی کی تو انڈسٹری کے حلقوں میں اس کا وقار اور بھی بڑھ گیا۔

    عام طور پر ڈائریکٹر یا پروڈیوسر فلمی دنیا میں کسی ایکٹرس سے صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ وہ ان کی کشتی حیات میں پتوار کا کام دے۔ معلوم نہیں شوکت نے نور جہاں سے کیا اسی مقصد کے پیش نظر شادی کی تھی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اس سے شادی نہ بھی کرتا تو بھی اس کی آمدنی میں روز افزوں ترقی ہوتی رہتی، اس لئے کہ وہ اپنے فن کو جانتا ہے اور پھر مزدوروں کی طرح مشقت کرسکتا ہے۔

    مجھے معلوم نہیں، شوکت بمبئی کو چھوڑ کر پاکستان کیو ں آیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ بڑا کٹرقسم کا مسلمان ہے۔ اگروہاں بمبئی میں کسی نے مسلمانوں کے خلاف ایک جملہ بھی کہہ دیا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کی کھوپڑی پیچ کش سے کھول دیتا اور اس کی اصلاح کرنے کی ناکام کوشش کرتا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نور جہاں نے اسے مجبور کیا ہو کہ اسے لاہور بہت پیارا ہے۔ کیونکہ پنجابیوں کے کہنے کے مطابق’’لاہور لاہور ہے۔‘‘

    بمبئی میں وہ بہت کامیاب تھا۔ اس نے ایک دو فلم ایسے بنائے تھے جن سے اس کی دھاک بیٹھ گئی تھی، وہ کروڑوں روپے وہاں پیدا کرسکتاتھا، لیکن اس نے پاکستان کو اپنا گھر بنایا۔ اس کا گھڑی ساز دماغ جو سوئی کی ایک خفیف سی غلط حرکت کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لئے جو حالت نزع میں تھی، کام آیا۔ اس نے شوری کا جلا ہوا، سڑا ہوا، نہایت شکستہ، اسٹوڈیو حاصل کیا اور اسے ایک اعلیٰ ترین نگار خانے میں تبدیل کردیا۔

    آپ میں سے بہت کم حضرات جانتے ہوں گے کہ شاہ نور اسٹوڈیو میں جو بھی کیل ٹھکی ہے، اس میں شوکت حسین رضوی کا ہاتھ ہے۔ جو پیچ لگا ہے، اس پر شوکت کے پیچ کش کا نشان ہے۔ وہاں چھوٹے سے بوٹے سے لے کر لیبارٹری کی بھاری بھر کم مشینری تک سب اس کے ہاتھ کی لگی ہے۔

    یہ بہت بڑا وصف ہے۔۔۔ اتنا بڑا کہ اس کے اور دوسروں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ ہر بات میں عملی طور پر دخل دینے سے اس نے کئی گڑ بڑ گھوٹالے(بمبئی کی زبان) میں کیے ہیں۔ یوں وہ بڑے ٹھاٹ سے رہتا ہے لیکن میں آپ کو ایک پرلطف قصہ سناتا ہوں۔

    یہاں لاہورمیں آکر بھی وہ میرا دوست ہے۔ اکثر میری مددکرتا رہا ہے۔ ایک بار میں اس کے پاس گیا۔ اس کی بے داغ سفید قمیص کے بٹن موجود نہیں تھے۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟

    اس نے مسکرا کر کہا، ’’کیا بتاؤں یار۔۔۔ پیسے ہی نہیں کہ بٹن خرید سکوں۔۔۔‘‘

    جب میں نے اس سے سگریٹ طلب کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ دس روز سے وہ سگریٹ ادھار لے رہا ہے۔۔۔‘‘

    یہ اس شخص کی حالت تھی جس کے اسٹوڈیو میں لوگوں کوریفریجریٹر سے ٹھنڈا پانی ملتا ہے، جہاں پر پھول کھلتے ہیں، جہاں کئی مالی کام کرتے ہیں، جہاں سیکڑوں مزدور ہیں، جہاں نور جہاں ہے جو اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑے پہنتی ہےاور موٹروں میں گھومتی ہے۔

    نور جہاں کے متعلق کئی افواہیں مشہور ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ حقیقت پرمبنی بھی ہوں۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دو نہایت پیارے بچوں کی ماں ہے جو چیفس کالج کے صاف ستھرے ماحول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہ ان سے پیار کرتی ہے۔

    پچھلے دنوں چیفس کالج میں ایک جلسہ تھا۔ جس میں چند ننھے منے بچوں نے حصہ لیا تھا۔ اس میں ایک ڈانس تھا۔ رادھا کرشنا ڈانس۔ نور جہاں کا بڑا لڑکا ایک گوپی بنا ہوا تھا۔ اس نسوانی لباس میں وہ بہت پیارا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا رقص بھی بہت خوب تھا۔ نور جہاں یقیناً رقص جانتی ہے۔ معلوم نہیں اس نے اپنے اکبر کو خود تعلیم دی ہے یا وہ خود بخود خون کے ذریعے یہ سب کچھ سیکھا۔ بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ اکبر، اور اصغر جو کہ چیفس کالج میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، آگے چل کرکیا بنتے ہیں؟

    کیا یہ بیری موروں اور پرتھوی راجوں کا خاندان بنے گا۔۔۔؟ فی الحال ہم اس کے متعلق کیا کچھ کہہ سکتے ہیں۔

    نور جہاں ذرا بد دماغ ہے۔ اس کو اپنے حسن پر تو ناز نہیں ہونا چاہئے کہ ایسی کوئی چیزاس میں نہیں ہے۔ ایک فقط آواز ہے، گلا ہے، جو نور سے بھرا ہے۔ اس پر اگر اسے ناز ہے تو بجا ہے۔ مگر بددماغ ہونے کا پھربھی کوئی صحیح جواز نہیں۔

    مجھے یاد ہے۔ ایک مرتبہ میری بیوی نے بمبئی میں مجھ سے کہا، ’’آپ نور جہاں کو جانتے ہیں۔ وہ ہمارے گھرکئی مرتبہ آچکی ہے۔ کیا وہ اب نہیں آسکتی۔ میری چند سہیلیاں اس سے ملنا چاہتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’کیوں نہیں آسکتی۔ ہزار مرتبہ آسکتی ہے۔‘‘ میں نے شوکت سے کہا تو اس نے دوسرے ہی روز اسے بھیج دیا۔ میں نے بہت سی ایکٹرسیں دیکھی ہیں۔ بڑے اونچے پائے کی، بہت مشہور، بہت معروف، مگر ان میں مجھے وہ تکلف نظر نہیں آیا جو نور جہاں میں ہے۔ وہ بنتی ہے۔ اس کی مسکراہٹ، اس کی ہنسی، اس کا سلام، اس کی مزاج پرسی سب مصنوعی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں یہ چیز اس کی طبیعت میں کیسے داخل ہوئی۔ بعض اوقات جب میں اس کی اور شوکت کی ازدواجی زندگی کا تصور کرتا ہوں تو مجھے وہ بھی مصنوعی سی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن خدا کا شکرہے کہ ایسی نہیں!

    نور جہاں آئی، سب سے بڑے پر خلوص تپاک سے، جسے میں اب بھی مصنوعی سمجھتا ہوں ملی۔ میں تو چاہتا تھا کہ عورتوں کو چھوڑ کر چلا جاؤں کہ وہ آزادانہ طور پرگفتگوکرسکیں گی۔ مگر میری بیوی کی ایک سہیلی نے اصرارکیا کہ میں موجود رہوں اور نور جہاں سے کہوں کہ وہ گانا گائے۔

    چنانچہ میں نے فوراً بڑے بے تکلف اندازمیں نور جہاں سے کہا کہ بھئی ایک دو گانے ہو جائیں کہ یہ لوگ تمہاری آواز کا ’’زندہ ناچ و گانا‘‘ سننا اور دیکھنا چاہتی ہیں۔ نور جہاں نے اپک پرتکلف ادا سے جواب دیا، ’’نہیں منٹو صاحب! پھر کبھی۔۔۔ میرا گلا ٹھیک نہیں۔‘‘

    میں کباب ہوگیا۔ اس کا گلا بالکل ٹھیک تھا۔ اس کا گلا فولاد کا گلا ہے جو کبھی خراب ہی نہیں ہوسکتا۔ صریحاً نخرے کررہی تھی۔ میں نے اس سے پھر کہا، ’’نور جہاں! یہ بہانہ نہیں چلے گا۔۔۔ تمہیں گانا پڑے گا۔ میں تو تمہیں ہزار مرتبہ سن چکا ہوں۔ مگران لوگوں کو اشتیاق ہے، اس لئے تمہیں اچھے برے گلے کے ساتھ ہی گا دینا چاہئے۔۔۔‘‘ بہت دیر تک ادھر سے انکار، ادھر سے اصرار ہوتا رہا۔ میری بیوی نے کہا، جانے دو، جب وہ نہیں گانا چاہتیں تو آپ اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ مگر۔۔۔ میں بھی ایک ضدی ہوں، نور جہاں کے پیچھے پڑ گیا۔ آخر اس کو فیض کی وہ غزل گانی پڑی ؂

    آج کی رات سازِ دلِ پُر درد نہ چھیڑ

    کم بخت نے کیا دھن بنائی تھی اور کیا آواز تھی کہ اب اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی میرے کان اس شہد بھری آواز کو سن سکتے ہیں۔

    نور جہاں کے کئی عاشق ہوں گے۔ میں ایسے کئی باورچیوں کو جانتا ہوں جو چولھے کے پاس نور جہاں کی تصویریں لگا کر اپنے صاحبوں اورمیموں وغیرہ کا کھانا پکاتے ہیں اور اس کے گائے ہوئے گیت اپنی کن سری آواز میں گاتے ہیں۔

    گھروں کے ان نوکروں کو بھی میں جانتا ہوں جو نمی، نرگس اور کامنی کوشل کو پسند نہیں کرتے لیکن نور جہاں کے والہ و شیدا ہیں، جہاں کہیں اس کی تصویر مل جائے، کاٹ کر اپنے ٹوٹے ہوئے ٹرنک میں رکھ لیتے ہیں اور فرصت کے وقت دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھیں سینکتے ہیں اور نور جہاں کو اگر کوئی برا کہے تو لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

    اور میرے گھر میں اس کا ایک عاشقِ زار موجود ہے۔ وہ ہر خوبصورت لڑکی، ہر دلہن، ہرسرخ پوش عورت کو نور جہاں کہتا ہے۔ اس کو نور جہاں کے گائے ہوئے گانے قریب قریب سب یاد ہیں۔ وہ خود بھی بڑا حسین ہے لیکن جانے اسے نور جہاں کی کون سی ادا بھا گئی ہے کہ وہ دن رات اسی کا ذکر کرتا ہے۔

    وہ میرا قریب ترین عزیز ہے۔ میری سالی اور میرے بھانجے کا لڑکا ہے۔ اس کا نام شاہد جلال ہے۔ ہم سب اسے پیار سے ٹاکو کہتے ہیں۔ اس کو ہم سب بہت سمجھا بجھا چکے ہیں کہ دیکھو تم نور جہاں کا خیال چھوڑ دو، وہ ایک بیاہتا عورت ہے جس کے کئی بچے ہیں۔ تمہاری اور اس کی شادی نہیں ہوسکتی۔ مگر وہ نہیں مانتا۔ فلم دیکھتا ہے لیکن اگر اس میں نور جہاں نہ ہو تو اسے بہت کوفت ہوتی ہے۔ یہ کوفت وہ گھر آکر نور جہاں کے گائے ہوئے گانے گا کر دور کرتا ہے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے کہتاہے کہ مجھے اور کوئی نہیں چاہئے، صرف نور جہاں چاہیے۔

    پچھلے دنوں اس کے دادا میاں جلال دین، شوکت رضوی کے پاس گئے تھے اور انہوں نے اس سے کہا تھا کہ، ’’دیکھو! تمہاری بیوی کا ایک عاشق پیدا ہوگیا ہے جو بری طرح اس پر لٹو ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی روز نور جہاں کو لے اڑے اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ۔‘‘ وہ بہت حیران ہوا۔ اس لیے کہ میاں صاحب موصوف نے یہ بات شوکت کو بتائی تھی۔ پہلے تو وہ جھینپا، پھر اس نے پوچھا، ’’میاں صاحب! وہ کون شخص ہے؟‘‘

    میاں صاحب نے مسکرا کر اس سے کہا، ’’میرا پوتا۔‘‘

    ’’آپ کا پوتا۔۔۔؟ کیا عمر ہے اس کی؟‘‘

    میاں صاحب نے جواب دیا، ’’ یہی، چار برس کے قریب۔۔۔!‘‘

    یہ حال ہی کی بات ہے۔ نور جہاں نے جب یہ ساری بات سنی تو بہت محظوظ ہوئی۔ اس نے کہا، ’’میں خود اپنے عاشق کے پاس جاؤں گی اور اس سے شادی کرلوں گی۔‘‘ شاہد جلال بہت خوش ہے کہ وہ اس دن کا بڑی بے تابی سے انتظار کر رہا ہے جب نور جہاں خود اس کے پاس چل کر آئے گی اور وہ اسے اپنی دلہن بنا لے گا۔

    پچھلے دنوں نور جہاں کے ایک اور عاشق کا قصہ سننے میں آیا تھا مگر وہ چار برس کا نہیں تھا۔ اچھا خاصا جوان تھا اور غالباً نائی یعنی حجام تھا۔ ہر وقت اس کے گائے ہوئے گانے گاتا رہتا تھا اور اسی کی باتیں کرتا تھا۔ ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’کیا واقعی تمہیں نور جہاں سے محبت ہے؟‘‘حجام نے بڑے پرخلوص انداز میں اسے جواب دیا، ’’اس میں کیا شک ہے۔‘‘ اس کے دوست نے اس کا امتحان لینا چاہا، ’’اگر تمہیں اس سے سچی محبت ہے تو کیا مہینوال کی طرح تم اس کے لئے اپنا گوشت دے سکتے ہو کہ کباب بنا کر اسے بھیجے جائیں؟‘‘

    حجام نے تیز استرا نکال کر اپنے دوست کے ہاتھ میں دے دیا اور اپنے دوست سے کہا، ’’جہاں سے چاہو، تم میرا گوشت کاٹ لو۔‘‘ اس کا دوست بھی معلوم نہیں، کس قسم کا انسان تھا کہ اس نے اس کے بازو سے پاؤ بھر گوشت کا ٹکڑا استرے سے کاٹ کر الگ کردیا اور خود بھاگ گیاکہ حجام صاحب اس قربانی کے بعد خون کے بہاؤ کے باعث بے ہوش ہوگئے۔ اس عاشقِ زار کو جب میو ہسپتال میں داخل کیا گیا اور جب اس کو تھوڑا سا ہوش آیا تو اس کی زبان پر نور جہاں کا نام تھا۔

    (یہاں سے تین صفحے کمپوز ہونے سے رہ گیے ہیں۔۔۔ پروف :شیطان، صفحہ 189 سے 192 دیکھ لیا جائے)

    اس کے علاوہ آج کل نور جہاں پر ایک مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ الزام یہ ہے کہ اس نے ایک نئی نویلی دلہن ایکٹرس نگہت سلطانہ کو اپنے اسٹوڈیو میں خوب مارا پیٹا، اس کا منہ نوچا اور اس کی خوب مرمت کی اور مقدمہ عدالت میں ہے۔ اس لیے میں اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ توہین عدالت کے مترادف ہوگا۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ نور جہاں نے اس نگہت سلطانہ کی مرمت کیوں ضروری سمجھی۔ سچ پوچھئے تو میں نے پچھلے دنوں ہی جب اس جھگڑے کی خبر سنی تو نگہت سلطانہ کا نام سنا۔ معلوم نہیں، یہ محترمہ کب اور کیسے ایکٹرس بنیں؟ سنا ہے کہ ڈھاکے کی رہنے والی ہیں۔۔۔ ہوگا، دیکھئے اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟

    نور جہاں کا خاوند بانکا چھبیلا سید شوکت حسین ر وی موجود ہے۔ اس کی خوبصورت اولاد ہے۔ وہ ماں ہے۔ اس کے لئے لاہور کا حجام اپنی ران کا نہیں تو اپنے بازو کا پاؤبھر گوشت دے سکتا ہے۔ اس کا چاربرس کا معصوم عاشق شاہد جلال عرف ٹاکو ہے جو ہر وقت اس کو دلہن بنانے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ وہ باورچی ہیں جو اس کی تصویر چولھے کے پاس رکھ کر کھانا پکاتے ہیں۔ جو اس کے برتن مانجھتے ہیں اس کے گائے ہوئے گانے اپنی کن سری آوازمیں گاتے ہیں اور یوں اپنی مشقت کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ اور ایک میں ہوں کہ جو اس کی واہیات انگیا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔۔۔ معلوم نہیں، وہ اتنی اٹھان میں کیا خوبصورتی دیکھتی ہے اور سید شوکت حسین رضوی اس زیادتی کی اجازت کیوں دیتا ہے، جو باذوق نگاہوں پر بہت گراں گزرتی ہے۔

    مأخذ:

    نور جہاں سرور جاں (Pg. 4)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ایم ہارون اینڈ کو
      • سن اشاعت: 1953

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے