Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پارو دیوی

سعادت حسن منٹو

پارو دیوی

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    ’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی کا صدمہ ہمارے دل و دماغ سے قریب قریب مند مل ہو چکا تھا۔ گیان مکرجی، فلمستان کے لیے ایک پروپیگنڈہ کہانی لکھنے میں ایک عرصے سے مصروف تھے۔

    کہانی لکھنے لکھانے اور اسے پاس کرانے سے پیشتر نلنی جیونت اور اس کے شوہر وریندر ڈیسائی سے کنٹریکٹ ہو چکا تھا۔ غالباً پچیس ہزار روپے، ایک سال اس کی میعاد تھی۔ مسٹر ششودھر مکرجی حسبِ عادت سوچ بچار میں دس مہینے گزارچکے تھے۔ کہانی کا ڈھانچہ تھا کہ تیار ہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ بصد مشکل جوں توں کرکے ایک خاکہ معرض وجود میں آیا جسے گیان مکرجی اپنی جیب میں ڈال کر روانہ ہوگیے تاکہ زبانی طور پر اس میں اور کچھ چیزیں ڈال کرحکومت سے پاس کرالیں۔

    خاکہ پاس ہوگیا، جب شوٹنگ کا مرحلہ آیا تو وریندر ڈیسائی نے یہ مطالبہ کیا کہ اس کے ساتھ ایک برس کا کنٹریکٹ کیا جائے اس لیے کہ پہلے معاہدے کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔ رائے بہادر چونی لال منیجنگ ڈائریکٹر بڑے اکھڑ قسم کے آدمی تھے ۔چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ مقدمہ بازی ہوئی۔ فیصلہ وریندر ڈیسائی اور ان کی خوبرو بیوی نلنی کے حق میں ہوا۔ اس طرح پروپیگنڈا فلم جس کی کہانی کا ابھی صرف غیر مکمل خاکہ ہی تیار ہوا تھا، پچیس ہزارروپوں کے بوجھ تلے آگئی۔

    روائے بہادر کو بہت عجلت تھی کہ فلم جلد تیار ہو کیونکہ بہت وقت ضائع ہو چکا تھا ،چنانچہ جلدی جلدی میں ولی صاحب کو بلا کر ان کی بیوی ممتاز شانتی سے کنٹریکٹ کرلیا گیا اور اس کو چودہ ہزار روپے بطور پیشگی ادا کردیے گیے۔ (بلیک میں بعنی بغیر رسید)

    دو دن شوٹنگ ہوئی۔ ممتاز شانتی اور اشوک کمارکے درمیان مختصر سا مکالمہ تھا جو بڑی مین میخ کے بعد فلمایا گیا مگر جب اسے پردے پر دیکھا گیا تو سب نے ممتاز شانتی کو ناپسند کیا۔ اس ناپسندیدگی میں اس بات کا بھی بڑا دخل تھا کہ ممتاز برقع پہن کر آتی تھی اور ولی صاحب نے صاف طور پر مکرجی سے کہہ دیا تھا کہ اس کے جسم کو کوئی ہاتھ واتھ نہیں لگائے گا۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ ممتاز شانتی کو فلم سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس بہانے سے کہ جو کردار اسے اس کہانی میں ادا کرنا ہے،اس کے لیے مناسب و موزوں نہیں۔۔۔کیونکہ اس میں ایسے کئی مقام آئیں گے جہاں ہیروئن کو اپنے جسم کے بعض حصوں کی عریاں نمائش کرنا پڑے گی۔ قصہ مختصر کہ یہ چودہ ہزار بھی گیے۔

    اب کہانی کا نامکمل ڈھانچہ انتالیس ہزار روپے کے نیچے دبا پڑا تھا۔۔۔ رائے بہادر چونی لال، لال پیلے ہورہے تھے، ’’ چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی نے کمپنی کی حالت بہت پتلی کردی تھی۔ مارواڑیوں سے قرض لے لے گزارہ بصد مشکل ہورہا تھا۔ رائے بہادر کی خفگی اور پریشانی بجا تھی۔

    ایک دن میں، واچا، پائی اور اشوک اسٹوڈیو کے باہر کرسیوں پر بیٹھے کمپنی کی انہی حماقتوں کا ذکر کررہے تھے جن کے باعث اتنا وقت اور اتنا روپیہ ضائع ہوا کہ اشوک نے انکشاف کیا کہ جو چودہ ہزار رائے بہادر نے ممتاز شانتی کو دیے تھے، وہ انہوں نے اس سے قرض لیے تھے۔ اشوک نے یہ انکشاف اپنی کالی پنڈلی کو کھجلاتے ہوئے کچھ اس انداز سے کیا کہ ہم سب بے اختیار ہنس پڑے لیکن فوراً ہی ہم چپ ہوگیے۔

    سامنے بجری بچھی روش پر ایک اجنبی عورت ہماری بھاری بھر کم ہیئر ڈریسر کے ساتھ میک اپ روم کی طرف جارہی تھی۔ دتّا رام پائی نے اپنے کالے، موٹے اور بدشکل ہونٹ وا کیےاور خوفناک طور پر آگے بڑھے ہوئے اوندھے سیدھے میلے دانتوں کی نمائش کی اور واچا کو کہنی کا ٹھوکا دے کر اشوک سے مخاطب ہو ا، ’’یہ۔۔۔کون ہے؟‘‘

    واچا نے پائی کے سرپر ایک دھول جمائی، ’’سالے تو کیوں پوچھتا ہے؟‘‘

    پائی بدلہ لینے کے لیےاٹھا تو واچا نے اس کی کلائی پکڑلی، ’’بیٹھ جا سالے، مت جا ادھر، تیری تو شکل دیکھتے ہی بھاگ جائے گی۔‘‘

    پائی اپنے اوندھے سیدھے دانت پیستا رہ گیا۔ اشوک جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، بولا، ’’شکل و صورت سے تو اچھی خاصی ہے۔‘‘

    میں نے ایک لحظے کے لیے غور کیا اور کہا، ’’ہاں۔۔۔ نظروں پر گراں نہیں گزرتی۔‘‘

    اشوک میرا مطلب نہ سمجھا، ’’کہاں سے نہیں گزرتی؟‘‘

    میں مسکرایا، ’’میرا مطلب یہ تھا کہ جو عورت یہاں سے گزر گئی ہے، اسے دیکھ کر آنکھوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔۔۔ بڑی صاف ستھری ہے لیکن قد کی ذرا چھوٹی ہے۔‘‘

    پائی نے پھر اپنے دانتوں کی نمائش کی، ’’ارے۔۔۔ چلے گی۔۔۔ کیوں واچا؟‘‘

    واچا، پائی کے بجائے اشوک سے مخاطب ہوا، ’’دادا منی! تم جانتے ہو، یہ کون ہے؟‘‘

    اشوک نے جواب دیا، ’’زیادہ نہیں جانتا، مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘

    کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ لیا گیا جسے ہم سب نے پردے پر دیکھا اوراپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا، مکالمہ ادا کرتے وقت اس کے ابروپیشہ و رقاصاؤں کی طرح ناچتے تھے۔ مسکراہٹ بھی غیر دلکش تھی۔۔۔ لیکن پائی اس پر لٹو ہوگیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکرجی سے کہا کہ ’’ونڈر فل سکرین فیس‘‘ ہے۔

    دتّا رام پائی، فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر، فلمستان چونکہ ایک ایسا ادارہ تھا جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہار رائے کی آزادی تھی اس لیے دتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دو چار ہوتا تھا۔ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا لیکن ایس مکرجی نے اس عورت کو جس کا نام پاروتھا، پروپیگنڈا فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کرلیا۔ چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کرلیا۔

    اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گُھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب تمام رنگین مزاج رئیسوں کی منظورِ نظر تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی، پر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا چنانچہ یہ شوق اسے کھینچ کر فلمستان میں لے آیا۔

    جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوش ملیح آبادی اور مسٹر ساغر نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ چھوٹی آستینوں والے پھنسے پھنسے بلاؤز میں سے اس کی ننگی باہیں ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔۔۔ سفید سڈول، متناسب اور خوبصورت، جلد میں ایسی چکنی چمک تھی جو دیودار لکڑی پر رندہ پھیرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ صبح اسٹوڈیو آتی، نہائی دھوئی، صاف ستھری، اجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساری میں ملبوس، شام کو جب گھرروانہ ہوتی تو دن گزرنے کے گردوغبار کا ایک ذرہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تروتازہ ہوتی جیسی صبح کو تھی۔

    دتّا رام پائی اس پرزیادہ لٹو ہوگیا۔ شوٹنگ شروع ہوئی نہیں تھی اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی، چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔۔۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے، اس کے اوندھے سیدھے میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخنوں کو کیسے برداشت کرتی تھی۔۔۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کرسکتی ہے۔

    پروپیگنڈہ فلم کی کہانی کا ڈھانچہ میرے حوالے کیا گیا کہ میں اس کا بغور مطالعہ کروں اور جو ترمیم و تنسیخ میری سمجھ میں آئے،بیان کردوں۔ میں نے اس ڈھانچے کے تمام جوڑ دیکھے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا بے جوڑ ڈھانچہ شاید ہی کسی سے تیار ہوسکے۔کوئی سر تھا نہ پیر، لیکن چونکہ میری قابلیت اور ذہانت کا امتحان تھا اس لیے میں نے اپنا ڈھانچہ تیار کیا۔ بڑے خلوص اور بڑی محبت سے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈائریکشن کے فرائض ساوک واچا کو سونپے جانے والے تھے جو میرا عزیز دوست تھا۔

    نیا ڈھانچہ جب فلمستان کی’فل بینچ‘ کے سامنے پیش ہوا تو میری وہ حالت تھی جو کسی مجرم کی ہوسکتی ہے۔ایس مکرجی نے اپنا فیصلہ ان چند الفاظ میں دیا، ’’ٹھیک ہے مگر اس میں اصلاح کی ابھی کافی گنجائش ہے۔‘‘ گیان مکرجی سے پوچھا گیا تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق منہ موڑ کر صرف اتنا کہا، ’’آل موسٹ ٹھیک ہے۔‘‘ یہ وہ حضرت تھے جو ایس مکرجی کے ڈائریکٹ کیے ہوئے تمام فلموں کے ڈائریکٹرتھے حالانکہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک فٹ بھی فلم ڈائریکٹ نہیں کی تھی۔

    اصل میں فلمستان میں کام کرنے کا ڈھب ہی نرالا تھا، سارا فلم آپ نے ڈ ائریکٹ کیا ہے لیکن پردے پر نام میرا دیا جارہا ہے۔ کہانی میں نے لکھی ہے لیکن اس کا مصنف آپ کو بنا دیا گیا ہے۔ بات یہ تھی کہ وہاں سب مل جل کر کام کرتے تھے۔ آپ اس سے اندازہ کرلیجئے کہ دتّا رام پائی جسے معلوم نہیں تھا کہ فلمی کہانی کیا ہوتی ہے، مجھے مشورہ دیا کرتا تھا۔

    پروپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں کچھ وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے تھی کہ مجھے پاروکو اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیش نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہر حال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہوگیے اور کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہوگئی۔

    ہم نے باہمی مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے، وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی دنیا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتّا رام پائی اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ چنانچہ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا، ’’سالے تو کیوں جلتا ہے؟‘‘

    جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گُھلو مِٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن سے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہوگئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کردیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارودیوی لکھا گیا۔

    دتّا رام نے ایک قدم اور بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا، پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں دومرتبہ باقاعدگی کے ساتھ پارو کے یہاں جا دھمکنا شروع کردیا۔پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ادھیڑ عمر کا ایک مرد رہتا تھا جو قدوقامت میں اس سے دوگنا تھا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔۔۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور’’تھامو‘‘ زیادہ نظر آتا تھا۔

    پائی ایسے فخر و ابتہاج سے کنٹین میں پارو سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر نیم عاشقانہ انداز میں کرتا کہ ہنسی آجاتی۔ میں اور ساوک واچا اس کا خوب مذاق اڑاتے مگروہ کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی پارو بھی موجود ہوتی۔ میں اس کی موجودگی میں بھی پائی کے خام اور بھونڈے عشق کا مذاق اڑاتا۔ پارو برا نہ مانتی اور مسکراتی رہتی۔ اس مسکراہٹ سے نے میرٹھ میں جانے کتنے دلوں کو غلط فہمی میں مبتلا کیا ہوگا۔

    پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا، چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگوکرسکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیر نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقے سے تھا جو کبھی کبھی ناشائستگی کی طرف محض تفریح کے طور پر مائل ہوا کرتا ہے۔

    پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بہت اچھی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی نئی ایکٹریس بنتی ہے تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی زیادہ جلدی نہیں تھی۔

    محسن عبداللہ (پر اسرار نینا کا خاوند) اپنی ایک آہنگ، خشک مجرد زندگی سے اکتا کرپارسی لڑکی ویرا کو جس کی زندگی اسی کی زندگی کے مانند سپاٹ تھی، شریک حیات بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ چنانچہ اس غرض کے لیے اسے ہمارے ساتھ سیکنڈ کلاس میں سفر کرنا چھوڑنا پڑا کیونکہ ویرا فرسٹ کلاس میں آتی جاتی تھی۔ اس کے بعد اس کو ’ایٹی کیٹ‘ کے مطابق آتے جاتے اس کی کتیا کی زنجیر تھامنا پڑی۔۔۔ عاشقوں کے امام میاں مجنوں کو بھی تو لیلیٰ کی کتیا عزیز تھی۔

    واچا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے بڑی مشکلوں سے تازہ تازہ اپنی بدکار فرانسیسی بیوی سے نجات حاصل کی تھی۔ ایس مکرجی، پری چہرہ نسیم بانو کے چکر میں تھا۔ گیان مکرجی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔اپنے متعلق میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اس کی جلد بہت پسند تھی۔ ایک دن میں نے شاہد لطیف سے اس کا ذکر کیا تو اس نے مسکرا کر کہا، ’’جلد پسند ہے، ٹھیک ہے لیکن تمہیں کیا معلوم کہ اندر کیسی کتاب ہے، مضمون کیسا ہے؟‘‘

    پائی کی حالت اب بہت زیادہ مضحکہ خیز ہوگئی تھی اس لیے کہ پارو نے ایک روز اسے اپنے گھرمدعوکیا تھا اور اپنے ہاتھ سے اسے دو پیگ جونی واکر وسکی کے پلائے تھے۔ جب اس کو بہت زیادہ نشہ ہوگیا تھا تو پارو نے اس کو بڑے پیار سے اپنے صوفے پرلٹا دیا تھا۔۔۔ اب اس کو یقین ہوگیا کہ وہ اس پر مرتی ہے اور ہم لوگ چونکہ ناکام رہے اس لیے حسد کی آگ میں جلتے ہیں۔۔۔ اس بارے میں پارو کا رد عمل کیا تھا، یہ مجھے معلوم نہیں۔

    شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو کو ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر کے فلمائے جانے کا وقت آتا گیا میرے اندیشے بڑھتے گیے، مجھے ڈر تھاکہ وہ امتحان میں پوری نہیں اترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہوگی۔

    آخروہ دن آگیا، جب اس کا پہلا ’’شوٹنگ ڈے‘‘ تھا۔ میک اپ روم اور کسٹیوم سے مزّین ہو کر اسے کیمرے کے سامنے لایا گیا۔عجیب وغریب تراش کی بھڑکیلے رنگوں والوں پھنسی پھنسی چولی، ناف سے اوپر پیٹ کی ہلکی سی جھلک، گھٹنوں سے بالشت بھراوپر لہنگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کیمرے، مائیک اور خیرہ کن روشینوں سے قطعاً مرعوب یا خائف نہیں۔ مکالمہ اس کو اچھی طرح یاد کرادیا گیا تھا۔ امید تھی کہ بول جائے گی مگر جب ’’ٹیک‘‘ کا وقت آیا تو اس کا سارا وجود لکڑی ہوگیا۔ منہ کھولاتو مکالمہ سپاٹ، کئی ریہرسلیں کرائی گئیں مگر اس لکڑی میں جان کے آثار پیدا نہ ہوئے۔ پیشہ ور رقاصاؤں کی طرح اپنے ابرونچاتی تھی جیسے بھاؤ بتا رہی ہو۔ تین چار ’ری ٹیک‘ ہوئے تو میں بالکل مایوس ہوگیا۔ واچا طبعاً بہت جلد گھبرا جانے والا ہے کہ اس اونٹنی کی کوئی کل سیدھی نہیں تو اس نے ایس مکر جی سے کہا کہ وہی اس کو ٹھیک کرے۔ مکرجی اس کو کیا ٹھیک کرتا۔ وہ بنی ہی کچھ ایسے آب و گل سے تھی جس میں بتاوے اور بھاؤ کوٹ کوٹ کے بھرے تھے۔ چنانچہ ایک’ٹیک‘ میں اس نے کسی قدر گوارا ایکٹنگ کیا تو مکر جی نے غنیمت سمجھ کر صاد کردیا۔

    ہم سب نے بڑی کوشش کہ اس کا تصنّع اور چوبی پن‘ کسی نہ کسی حیلے دور ہو جائے مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کوکیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا مگر سیٹ پر وہ حسب منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔۔۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔ بہر حال ہمیں اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔

    چونکہ مجھے اس کی طرف سے بہت مایوسی ہوئی تھی اس لیے میں نے اس کے’رول‘ میں کتربیونت شروع کردی تھی۔ میری اس’چالاکی‘ کا علم اسے پائی کے ذریعے سے ہوگیا۔ چنانچہ اس نے خالی اوقات میں میرے پاس آنا شروع کردیا۔ گھنٹوں بیٹھی ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہتی۔ بڑے شائستہ انداز میں، مناسب و موزوں الفاظ میں جن میں چاپلوسی کا رنگ نہیں ہوتا، میری تعریف کرتی۔

    ایک دو مرتبہ اس نے مجھے اپنے گھر پر مدعو بھی کیا۔ میں شاید چلا جاتا لیکن ان دنوں بہت مصروف تھا۔ ہر وقت میرے اعصاب پر پروپیگنڈہ فلم کا منظر نامہ سوار رہتا تھا۔ یوں تو میرا ہاتھ بٹانے کے لیے تین آدمی موجود تھے۔ راجہ مہدی علی خاں۔۔۔ محسن عبداللہ اور ڈکشٹ۔۔۔ راجہ مہدی علی خاں نے تعاون سے صاف انکار کردیا۔۔۔ اس لیے کہ وہ ہر وقت اپنی روٹھی ہوئی بیوی کو خط لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ محسن عبداللہ ویرا سے اپنے تعلقات مستحکم کرنے میں مشغول اور مسٹر ڈکشٹ پارو کو مکالمے یاد کراتے رہتے تھے۔

    میں کچھ عرصے سے نوٹ کررہا تھا کہ پارو اور اشوک سیٹ پر جب آمنے سامنے آتے ہیں اور پارو کو اپنے جارحانہ عشق کا اظہار کرنا ہوتا تو اس کی آنکھیں اشوک کی آنکھوں میں گڑ جانا چاہتی ہیں۔۔۔ جیسے اس کو یہ بتانا مقصود ہے کہ دیکھو جو کچھ یہ ہورہا ہے، جھوٹ نہیں سچ ہے۔ اشوک طبعاً بہت جھینپو قسم کا آدمی ہے۔ وہ کسی عورت کے کھلم کھلا اظہار عشق کو برداشت نہیں کرسکتا۔۔ یہ مجھے معلوم تھا کہ اشوک کو پارو پسند ہے، لیکن اس میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس سے جسمانی تعلق پیدا کرلیتا۔۔۔ اس کی زندگی میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں لڑکیاں آئیں۔ وہ لارڈ بائرن بن سکتا تھا مگر شرمیلی طبیعت کے باعث ان آسانی سے پھنس جانے والی تتلیوں سے اپنا دامن چھڑا کے بھاگ جاتا رہا۔

    اشوک کمار کایہ وہ زمانہ تھا جب وہ کسی بھی ایکٹریس پر ہاتھ ڈ ال سکتا تھا،بڑی آسانی سے کئی ایکٹرسیں اپنا دل اس کے قدموں میں ڈالنے کے لیے تیار تھیں۔ میں نے سوچا اگر پارو کے دل میں بھی کھد بد ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔۔۔ پھر پارو نو وارد تھی۔ خود کو اشوک کے ساتھ منسلک کرکے وہ بامِ شہرت پر بڑی جلدی پہنچ سکتی تھی۔

    فلم میں پارو کا رول ایک آزاد قبیلے کی نیم جنگلی خود سر اور جارحانہ قسم کا عشق کرنے والی لڑکی کا تھا۔ وہ اشوک سے محبت کرتی تھی مگر وہ ویرا کے عشق میں گرفتار تھا۔ یہ فلمی تثلیث پارو کے اندرونی جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کافی سامان بہم پہنچا رہی تھی۔شوٹنگ جاری تھی، ان ڈور، آؤٹ ڈور۔۔۔ ایک دن کشتیوں کا سین فلمایا جانے والا تھا اس لیے بہت دور ایک کھاڑی منتخب کی گئی۔ دو کشتیاں تھیں، ایک میں اشوک کو سوار ہونا تھا دوسری میں پارو کو۔۔۔ اسے یہ ہدایت تھی کہ جب اس کی کشتی، اشوک کی کشتی کے پاس پہنچے تو وہ اس میں کود جائے۔

    پانی بہت گہرا تھا۔ حسب ہدایت پارو، اشوک کی کشتی میں کودی مگر ایسا کرتے ہوئے دونوں کشتیوں میں فاصلہ کچھ زیادہ ہوگیا اور وہ پانی میں گر پڑی۔ واچا مدد کے لیے چلایا، فوراً ساحل پر سے دو تین مچھیرے پانی کے اندر گھسے اور پاروکو گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔

    عورت ذات، مگر حیرت ہے کہ اس حادثے نے اسے بالکل خوف زدہ نہیں کیا تھا۔ کپڑے خشک ہوئے تو وہ فوراً دوسرے ٹیک کے لیے تیار تھی۔

    جب وہ اپنے بھیگے ہوئے کپڑے نچوڑ رہی تھی، تو میں نے اور اشوک نے اس کی ٹانگ کی ایک جھلک دیکھی جو کافی دلچسپ اور شریر تھی۔ جب ہم ’لوکیشن‘ سے فارغ ہوکر گھر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں اشوک نے مجھ سے کہا، ’’منٹو۔۔۔ ٹانگ بڑی اچھی تھی، جی چاہتا تھا کہ روسٹ بنا کے کھا جاؤں!‘‘

    عجیب بات ہے کہ اشوک جیسا ڈرپوک اور جھینپو اندرونی طور پر سادیت پسند تھا۔ اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ چونکہ اپنے جذبات دبا دینے کا عادی تھا اس لیے رد عمل کی صورت میں سادیت پیدا ہوگئی تھی۔ٹوسٹیر ایم جی کار میں اشوک اور میں دونوں اسٹوڈیو سے گھر واپس جایا کرتے تھے اور راستے میں ادھر ادھر کی مختلف باتیں کیا کرتے تھے۔۔۔ موٹر اس سڑک پرسے بھی گزرتی تھی جس سے ملحقہ گلی میں پارو کا فلیٹ تھا۔ ایک شام جب ہم وہاں سے گزرے تو تھوڑی دور آگے نکل کر اشوک نے موٹرروک لی۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘

    مڑ کر اشوک نے اس گلی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’آج ہولی کی خوشی میں پارو نے دعوت دی ہے۔۔۔جاؤں یا نہ جاؤں؟‘‘

    مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، ’’جاؤ!‘‘

    ’’تو چلو تم بھی چلو!‘‘

    میں نے کہا، ’’میں کیوں چلوں۔۔۔ مجھے اس نے مدعو نہیں کیا۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔۔۔! یہ کہہ کر اس نے تیزی سے موٹر گھمائی اور پارو کے فلیٹ کے پاس بریک لگائی۔ ہارن بجایا تو بالکنی میں واچا اور پائی نمودار ہوئے۔

    پائی نے مجھے دیکھا تو اپنے مکروہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا، ’’ارے۔۔۔تم بھی آگئے!‘‘

    واچا نے اشوک سے کہا، ’’آؤ دادا منی آؤ۔۔۔ تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔‘‘

    پارو خلافِ معمول بنارسی ساڑی میں ملبوس دلہن سی بنی بیٹی تھی۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو اس نے اٹھ کر استقبال کیا۔ مجھے دیکھ کر اس نے بڑے مناسب و موزوں الفاظ میں معذرت کی کہ وہ مجھے مدعو کرنا بھول گئی۔فوراً شراب کا دور شروع ہوگیا۔ پہلا پیگ ختم ہوا تو پائی جھومنے لگا، واچا نے فرمائش کہ ایک آدھ گانا ہو جائے۔ پارو نے چغلیاں کھانے والی نگاہوں سے اشوک کی طرف دیکھا اور کہا، ’’کیوں اشوک صاحب! آپ کچھ سنیں گے؟‘‘

    اشوک جھینپ گیا اور اپنے مخصوص اکھڑ انداز میں صرف اتنا کہہ سکا، ’’آپ گائیں گی تو میں سنوں گا۔‘‘

    گانا شروع ہوا۔ بازاری قسم کی ٹھمری تھی۔ اس کے بعد ایک غزل ہوئی۔ پھر کوئی فلمی گیت، اس دوران میں پارو کا شوہر یا جو کوئی بھی وہ تھا، گلاسوں میں شراب اور سوڈا انڈیلتا رہا۔ دوسرے پیگ کے بعد پائی کی آنکھیں مندنے لگیں۔ اشوک زیادہ پینے کا عادی نہیں، اس لیے وہ ڈیڑھ پیگ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ واچا نے تیسرے پر اپنے گلاس کا منہ بند کردیا۔

    ٹھمریاں، غزلیں، گیت بہت دیر تک ہوتے رہے۔ آخر میں جب اس نے بھجن سنایا تو اس نے میری موجودگی کا احساس کرکے ایک نعت شروع کی لیکن میں نے فوراً اس کو روک دیا، ’’پارو دیوی! یہ محفلِ نشاط ہے۔۔۔ شراب کے دور چل رہے ہیں۔ یہاں کالی کملی والے کا ذکر نہ کیا جائے تو اچھا ہے۔‘‘

    اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مجھ سے معافی کی طلبگار ہوئی۔ کھانا بہت اچھا تھا۔۔۔ اشوک جلدی فارغ ہوگیا۔ اس کے ہاتھ دھلوانے کے لیےپارو اٹھی۔۔۔ جب اشوک واپس آیا تو وہ گھبرایا ہوا تھا۔ جلدی جلدی اس نے رخصت چاہی اور مجھے ساتھ لے کر وہاں سے چل دیا۔

    راستے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ اس نے مجھے میرے گھر چھوڑا اور چلا گیا۔

    کئی دن گزر گئے۔ شوٹنگ بڑی باقاعدگی سے ہورہی تھی۔۔۔ ایک شام جب میں اور اشوک واپس گھر جارہے تھے تو شیواجی پارک کے جہاں پارو کا فلیٹ کا تھا، اشوک نے موٹر کی رفتار کم کی اور مجھ سے مخاطب ہوا، ’’منٹو! تمہیں ایک دلچسپ بات بتاؤں؟‘‘ اس کے لہجے میں کس قدر کپکپاہٹ تھی۔میں نے ایک لحظے کے لیے سوچا کہ یہ دلچسپ بات کیا ہوسکتی ہے، ’’بتاؤ! ‘‘

    اشوک ہنسنے لگا، ’’تمہیں یاد ہے، اس روز جب ہم پارو کے ہاں کھانا کھارہے تھے، تو وہ میرے ہاتھ دھلوانے کے لیے اٹھی تھی۔‘‘ اشوک نے کہا یہ تو مجھے گھبراہٹ یاد آگئی، ’’ہاں ہاں!‘‘

    جب غسل خانے میں اس نے مجھے تولیہ دیا تو مجھ سے آہستہ سے کہا،کل آپ اکیلے آئیے۔۔۔ شام کو ساڑھے چھ بجے۔۔۔ میں گھبرا گیا اور تولیہ پھینک کر باہر نکل آیا۔ اشوک نے موٹر سڑک کے کنارے ٹھہرالی۔

    میں نے اس سے پوچھا، ’’تم گئے؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔!‘‘ اشوک نے اسٹیئرنگ ویل سے ہاتھ ہٹائے اور انہیں زور زور سے ملنے لگا، ’’لیکن وہاں سے بھی بھاگ آیا۔‘‘

    میں تفصیل جاننا چاہتا ہوں، ’’ہوا کیا۔۔۔پورا سین تو بتاؤ۔۔۔‘‘

    ’’میں بڑا ڈرپوک ہوں۔۔۔جانے مجھے ایسے موقعوں پر کیا ہو جاتا ہے۔۔۔ اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا۔ آپ قالین پر میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ دو پیگ مجھے پلائے۔ خود بھی تھوڑی سی پی اور پھر۔۔۔ پھر وہ لگی اپنی محبت دکھانے۔۔۔ میں سنتا رہا اور کانپتا رہا۔ جب اس نے میرا ہاتھ دبایا تو میں نے اسے بڑے زور سے جھٹک دیا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، لیکن فوراً کہیں غائب ہوگیے۔۔۔ وہ مسکرانے لگی۔۔۔بھیا اشوک! میں تو آپ کا امتحان لے رہی تھی۔۔۔ میں نے یہ سنا توچکرا گیا۔ اٹھا تو اس نے پھرکہا، اشوک صاحب! میں تو آپ کو اپنا بھائی سمجھتی ہوں۔۔۔ میں نے کچھ نہ کہا اور نیچے اتر گیا۔ کار میں بیٹھا۔۔۔ گھر پہنچ کر میں نے آدھا پیگ پی کر سوچا تو مجھے بڑا افسوس ہوا۔۔۔ کیا ہرج تھا اگر میں۔۔۔!‘‘

    اشوک کے لہجے میں تاسف تھا۔

    میں نے کہا، ’’کوئی ہرج نہیں تھا۔‘‘

    اشوک کے لہجے میں تاسف اور زیادہ ہوگیا ، ’’اور۔۔۔ مجھے وہ پسند بھی تھی۔‘‘

    یہ سن کر میرے سامنے وہ منظر آگیا جو اس وقت وقوعے کے روز رات کے نو بجے اسٹوڈیو کے باہر سخت سردی میں فلمایا جا رہا تھا۔ جشن مسرت میں لوگ ناچ گا رہے تھے۔۔۔۔ اشوک اپنی ہیروئن ویرا کی بانہوں میں بانہیں ڈالے محورقص تھا اور پارو ایک طرف مجسمہ افسردگی بنی اکیلی کھڑی تھی۔۔۔!

    مأخذ:

    لاؤڈ اسپیکر (Pg. 190)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے