Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین گولے

سعادت حسن منٹو

تین گولے

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے، میں غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھااور میرا جی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس شخص کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا۔ غالباً سن چالیس تھا۔ بمبے چھوڑ کرمجھے دہلی آئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ فلیٹ نمبر ایک والوں کا دوست تھا یا ایسے ہی چلا آیا تھا لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ اس نے یہ کہا تھا کہ اس کو ریڈیوا سٹیشن سے پتہ چلا تھا کہ میں نکلسن روڈ پر سعادت حسن بلڈنگز میں رہتا ہوں۔

    اس ملاقات سے قبل میرے اور اس کے درمیان معمولی سی خط و کتابت ہو چکی تھی۔ میں بمبئی میں تھا، جب اس نے ادبی دنیا کے لیے مجھ سے ایک افسانہ طلب کیا تھا۔ میں نے اس کی خواہش کے مطابق افسانہ بھیج دیالیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیاکہ اس کا معاوضہ مجھے ضرور ملنا چاہیے۔ اس کے جواب میں اس نے ایک خط لکھاکہ میں افسانہ واپس بھیج رہا ہوں، اس لیے کہ’’ادبی دنیا‘‘ کے مالک مفت خور قسم کے آدمی ہیں۔ افسانے کا نام، ’’موسم کی شرارت‘‘ تھا۔ اس پر اس نے اعتراض کیا تھا کہ اس شرارت کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے اسے تبدیل کردیا جائے۔ میں نے اس کے جواب میں اس کو لکھا کہ موسم کی شرارت ہی افسانے کا موضوع ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ تمہیں کیوں نظر نہ آئی۔ میرا جی کا دوسرا خط آیا، جس میں اس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ موسم کی شرارت وہ، ’’موسم کی شرارت‘‘ میں کیوں دیکھ نہ سکا۔

    میراجی کی لکھائی بہت صاف اور واضح تھی۔ موٹے خط کے نب سے نکلے ہوئے بڑے صحیح نشست کے حروف، تکون کی سی آسانی سے بنے ہوئے، ہر جوڑ نمایاں، میں اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ مجھے اس میں مولانا حامد علی خاں مدیر ہمایوں کی خطاطی کی جھلک نظر آئی۔ یہ ہلکی سی مگر کافی مرئی مماثلت و مشابہت اپنے اندر کیا گہرائی رکھتی ہے، اس کے متعلق میں اب بھی غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا کوئی شوشہ یا نکتہ سمجھائی نہیں دیتا جس پر میں کسی مفروضے کی بنیادیں کھڑی کرسکوں۔

    حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے۔ اور میرا جی لم تڑنگے اور گول مٹول شعر کہنے والا شاعر مجھ سے بڑے صحیح قدوقامت اور بڑی صحیح نوک پلک کی باتیں کررہا تھا، جو میرے افسانوں کے متعلق تھیں۔ وہ تعریف کررہا تھا نہ تنقیص، ایک مختصر سا تبصرہ تھا، ایک سرسری سی تنقید تھی مگر اس سے پتہ چلتا تھا کہ میرا جی کے دماغ میں مکڑی کے جالے نہیں، اس کی باتوں میں الجھاؤ نہیں تھا اور یہ چیز میرے لیے باعث حیرت تھی اس لیے کہ اس کی اکثر نظمیں ابہام اور الجھاؤ کی وجہ سے ہمیشہ میری فہم سے بالاتر رہی تھیں۔ لیکن شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے وہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ اس کا بے قافیہ مبہم کلام۔ اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لیے اور بھی پیچیدہ ہوگئی۔

    ن، م، راشد بے قافیہ شاعری کا امام مانا جاتا ہے۔ اس کو دیکھنے کا اتفاق بھی دہلی میں ہوا تھا۔ اس کا کلام میری سمجھ میں آجاتا تھا اور اس کو ایک نظر دیکھنے سے اس کی شکل و صورت بھی میری سمجھ میں آگئی۔ چنانچہ ایک بارمیں نے ریڈیو اسٹیشن کے برآمدے میں پڑی ہوئی بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل دیکھ کر اس سے ازراہِ مذاق کہا تھا، ’’لو۔ یہ تم ہو اور تمہاری شاعری۔‘‘ لیکن میرا جی کودیکھ کر میرے ذہن میں سوائے اس کی مبہم نظموں کے اور کوئی شکل نہیں بنتی تھی۔

    میرے سامنے میز پر تین گولے پڑے تھے۔۔۔ تین آہنی گولے۔ سگریٹ کی پنیوں میں لپٹے ہوئے۔ دو بڑے ایک چھوٹا۔ میں نے میرا جی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، اور ان کے اوپر اس کا بڑا بھورے بالوں سے اٹا ہوا سر۔۔۔ یہ بھی تین گولے تھے۔ دو چھوٹے چھوٹے۔ ایک بڑا۔ میں نے یہ مماثلت محسوس کی تو اس کا رد عمل میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ میں نمودار ہوا۔ میرا جی دوسروں کا رد عمل تاڑنے میں بڑا ہوشیار تھا۔ اس نے فوراً اپنی شروع کی ہوئی بات ادھوری چھوڑ کر مجھ سے پوچھا، ’’کیوں بھیا، کس بات پر مسکرائے؟‘‘میں نے میز پر پڑے ہوئے ان تین گولوں کی طرف اشارہ کیا۔ اب میرا جی کی باری تھی۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹ مہین مہین بھوری مونچھوں کے نیچے گول گول انداز میں مسکرائے۔

    اس کے گلے میں موٹے موٹے گول منکوں کی مالا تھی۔ جس کا صرف بالائی حصہ قمیص کے کھلے ہوئے کالر سے نظر آتا تھا۔ میں نے سوچا، ’’اس انسان نے اپنی کیا ہیئت کذائی بنا رکھی ہے۔ لمبے لمبے غلیظ بال جو گردن سے نیچے لٹکتے تھے، فرنچ کٹ سی داڑھی، میل سے بھرے ہوئے ناخن۔ سردیوں کے دن تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہینوں سے اس کے بدن نے پانی کی شکل نہیں دیکھی۔

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب شاعر، ادیب اور ایڈیٹر عام طور پر لانڈری میں ننگے بیٹھ کر ڈبل ریٹ پر اپنے کپڑے دھلوایا کرتے تھے اور بڑی میلی کچیلی زندگی بسر کرتے تھے۔ میں نے سوچا، شاید میرا جی بھی اسی قسم کا شاعر اور ایڈیٹر ہے۔ لیکن اس کی غلاظت، اس کے لمبے بال، اس کی فرنچ کٹ داڑھی، گلے کی مالا اور وہ تین آہنی گولے۔۔۔ معاشی حالات کے مظہر معلوم نہیں ہوتے تھے۔ ان میں ایک درویشانہ پن تھا۔ ایک قسم کی راہبیت۔۔۔ جب میں نے راہبیت کے متعلق سوچا تو میرا دماغ روس کے دیوانے راہب راسپوٹین کی طرف چلا گیا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ بہت غلاظت پسند تھا، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ غلاظت کا اس کو کوئی احساس ہی نہیں تھا۔ اس کے ناخنوں میں بھی ہر وقت میل بھرا رہتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد اس کی انگلیاں لتھڑی ہوتی تھیں۔ جب اسے ان کی صفائی مطلوب ہوتی تو وہ اپنی ہتھیلی شہزادیوں اور رئیس زادیوں کی طرف بڑھا دیتا جو ان کی تمام آلودگی اپنی زبان سے چاٹ لیتی تھیں۔

    کیا میرا جی اسی قسم کا درویش اور راہب تھا۔۔۔؟ یہ سوال اس وقت اور بعد میں کئی بار میرے دماغ میں پیدا ہوا۔ میں امرتسر میں سائیں گھوڑے شاہ کو دیکھ چکا تھا جو الف ننگا رہتا تھا اور کبھی نہاتا نہیں تھا۔ اسی طرح کے اور بھی کئی سائیں اور درویش میری نظر سے گزر چکے تھے جو غلاظت کے پتلے تھے۔ مگر ان سے مجھے گھن آتی تھی۔ میرا جی کی غلاظت سے مجھے نفرت کبھی نہیں ہوئی۔ الجھن البتہ بہت ہوتی تھی۔

    گھوڑے شاہ کی قبیل کے سائیں عام طور پر بقدر توفیق مغلظات بکتے ہیں مگر میرا جی کے منہ سے میں نے کبھی کوئی غلیظ کلمہ نہ سنا۔ اس قسم کے سائیں بظاہر مجرد مگر درپردہ ہر قسم کے جنسی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میرا جی بھی مجرد تھا مگر اس نے اپنی جنسی تسکین کے لیے صرف اپنے دل و دماغ کو اپنا شریکِ کار بنا لیا تھا۔ اس لحاظ سے گو اس میں اور گھوڑے شاہ کی قبیل کے سائیوں میں ایک گونہ مماثلت تھی مگر وہ ان سے بہت مختلف تھا۔ وہ تین گولے تھا۔۔۔ جن کو لڑھکانے کے لیے اس کو کسی خارجی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہاتھ کی ذرا سی حرکت اور تخیل کی ہلکی سی جنبش سے وہ ان تین اجسام کو اونچی سے اونچی بلندی اور نیچی سے نیچی گہرائی کی سیر کراسکتا تھا اور یہ گُر کی انہی تین گولوں نے بتایا تھا جو غالباًاس کو کہیں پڑے ہوئے ملے تھے۔ ان خارجی اشاروں ہی نے اس پر ایک ازلی و ابدی حقیقت کو منکشف کیا تھا۔ حسن عشق اور موت۔۔۔ اس تثلیث کے تمام اقلیدسی زاویے صرف ان تین گولوں کی بدولت اس کی سمجھ میں آئے تھے۔ لیکن حسن اور عشق کے انجام کو چونکہ اس نے شکست خوردہ عینک سے دیکھا تھا، جس کے شیشوں میں بال پڑے تھے، اس لیے اس کو جس شکل میں اس نے دیکھا تھا، صحیح نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے سارے وجود میں ایک ناقابل بیان ابہام کا زہر پھیل گیا تھا، جو ایک نقطے سے شروع ہو کر ایک دائرے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس طور پر کہ اس کا ہر نقطہ اس کا نقطۂ آغاز ہے اور وہی نقطہ انجام۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ابہام نوکیلا نہیں تھا۔ اس کا رخ موت کی طرف تھا نہ زندگی کی طرف۔ رجائیت کی سمت، نہ قنوطیت کی جانب۔ اس نے آغاز اور انجام کو اپنی مٹھی میں اس زور سے بھینچ رکھا تھا کہ ان دونوں کا لہو نچڑ نچڑ کر اس میں سے ٹپکتا رہتا تھا۔ لیکن سادیت پسندوں کی طرح وہ اس سے مسرور نظر نہیں آتا تھا۔ یہاں پھر اس کے جذبات گول ہو جاتے تھے۔ تین ان آہنی گولوں کی طرح، جن کو میں نے پہلی مرتبہ حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں دیکھا تھا۔

    اس کے شعر کا ایک مصرع ہے،

    نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

    مسافر کو رستہ بھولنا ہی تھا۔ اس لیے کہ اس نے چلتے وقت نقطۂ آغاز پر کوئی نشان نہیں بنایا تھا۔ اپنے بنائے ہوئے دائرے کے خط کے ساتھ ساتھ گھومتا وہ یقیناً کئی بار ادھر سے گزرا، مگر اسے یاد نہ رہا کہ اس نے اپنا یہ طویل سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ میرا جی یہ بھول گیا تھا کہ وہ مسافر ہے سفر ہے یا راستہ۔ یہ تثلیث بھی اس کے دل و دماغ کے خلیوں میں دائرے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔

    اس نے ایک لڑکی’ میرا‘ سے محبت کی اور وہ ثناء اللہ سے میرا جی بن گیا۔ اسی میرا کے نام کی رعایت سے اس نے میرا بائی کے کلام کو پسند کرنا شروع کردیا۔ جب اپنی اس محبوبہ کا جسم میسر نہ آیا تو کوزہ گر کی طرح چاک گھما کر اپنے تخیل کی مٹی سے شروع شروع میں اسی شکل و صورت کے جسم تیار کرنے شروع کردیے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اس جسم کی ساخت کے تمام ممزیات، اس کی تمام نمایاں خصوصیتیں تیز رفتار چاک پر گھوم گھوم کر نت نئی ہیئت اختیار کرتی گئیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ میرا جی کے ہاتھ، اس کے تخیل کی نرم نرم مٹی اور چاک، متواتر گردش سے بالکل گول ہوگئے۔ کوئی بھی ٹانگ میرا کی ٹانگ ہو سکتی تھی، کوئی بھی چیتھڑا میرا کا پیراہن بن سکتا تھا، کوئی بھی رہگزرمیرا کی رہگزر میں تبدیل ہو سکتی تھی، اور انتہا یہ ہوئی کہ تخیل کی نرم نرم مٹی کی سوندھی سوندھی باس سڑاند بن گئی اور وہ شکل دینے سے پہلے ہی اس کو چاک سے اتارنے لگا۔

    پہلے میرا بلند نام محلوں میں رہتی تھی۔ میرا جی ایسا بھٹکا کہ راستہ بھول کر اس نے نیچے اترنا شروع کردیا۔ اس کو اس گراوٹ کا مطلقاً احساس نہ تھا۔ اس لیے کہ اترائی میں ہر قدم پر میرا کا تخیل اس کے ساتھ تھا جو اس کے جوتے کے تلووں کی طرح گھستا گیا۔ پہلے میرا عام محبوباؤں کی طرح بڑی خوبصورت تھی لیکن یہ خوبصورتی ہر نسوانی پوشاک میں ملبوس دیکھ دیکھ کر کچھ اس طور پر اس دل کے دل و دماغ میں مسخ ہو گئی تھی کہ اس کے صحیح تصور کی المناک جدائی کا بھی میرا کو احساس نہ تھا۔ اگر احساس ہوتا تو اتنے بڑے المیے کے جلوس کے چند غیر مبہم نشانات اس کے کلام میں یقیناً موجود ہوتے جو میرا سے محبت کرتے ہی اس کے دل و دماغ میں سے نکلنا شروع ہوگیا تھا۔

    حسن، عشق اور موت، یہ تکون پچک کر میرا جی کے وجود میں گول ہوگئی تھی۔ صرف یہی نہیں دنیا کی ہر مثلث اس کے دل و دماغ میں مدور ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ارکانِ ثلاثہ کچھ اس طرح آپ میں گڈ مڈ ہوگئے تھے کہ ان کی ترتیب درہم برہم ہوگئی تھی۔ کبھی موت پہلے حسن آخر اور عشق درمیان میں، کبھی عشق پہلے موت اس کے بعد اور حسن آخر میں اوریہ چکر نامحسوس طور پر چلتا رہتا تھا۔

    کسی بھی عورت سے عشق کیا جائے تگڑا ایک ہی قسم کا بنتا ہے۔ حسن، عشق اور موت۔ عاشق، معشوق اور وصل۔ میرا سے ثناء اللہ کا وصال جیسا کہ جاننے والوں کو معلوم ہے، نہ ہوا یا نہ ہوسکا۔ اس نہ ہونے یا نہ ہوسکنے کا رد عمل میرا جی تھا۔ اس نے اس معاشقے میں شکست کھا کر اس تثلیث کے ٹکڑوں کو اس طرح جوڑا تھا کہ ان میں ایک سا لمیت تو آگئی تھی مگر اصلیت مسخ ہوگئی تھی۔ وہ تین نوکیں جن کا رخ خط مستقیم میں ایک دوسرے کی طرف ہوتا ہے، دب گئی تھیں۔ وصالِ محبوب کے لیے اب یہ لازم نہیں تھا کہ محبوب موجود ہو۔ وہ خود ہی عاشق تھا خود ہی معشوق اور خود ہی وصال۔

    مجھے معلوم نہیں اس نے لوہے کے یہ گولے کہاں سے لیے تھے۔ خود حاصل کیے تھے یا کہیں پڑے ہوئے مل گئے تھے۔ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ ان کے متعلق میں نے بمبئی میں اس سے استفسار کیا تھا تو اس نے سرسری طورپر اتنا کہا تھا، ’’میں نے یہ خود پیدا نہیں کیے اپنے آپ پیدا ہوگیے ہیں۔‘‘ پھر اس نے اس گولے کی طرف اشارہ کیا تھا جو سب سے بڑا تھا، ’’پہلے یہ وجود میں آیا، اس کے بعد یہ دوسرا جو اس سے چھوٹا ہے اس کے پیچھے یہ کوچک!‘‘

    میں نے مسکرا کر اس سے کہا تھا، ’’بڑے تو باوا آدم علیہ السلام ہوئے۔ خدا ان کو وہ جنت نصیب کرے جس سے وہ نکالے گئے تھے۔ دوسرے کو ہم اماں حوا کہہ لیتے ہیں اور تیسرے کو ان کی اولاد!‘‘ میری اس بات پر میرا جی خوب کھل کر ہنسا تھا۔ میں اب سوچتا ہوں تومجھے تو ان تین گولوں پر ساری دنیا گھومتی نظر آتی ہے۔ تثلیث کیا تخلیق کا دوسرا نام نہیں؟ وہ تمام مثلثیں جو ہماری زندگی کی اقلیدس میں موجود ہیں، کیا ان میں انسان کی تخلیقی قوتوں کا نشان نہیں ہے۔

    خدا، بیٹا اور روح القدس، عیسائیت کے اقانیم۔۔۔ ترسول مہادیو کاسہ شاخہ بھالا۔۔۔ تین دیوتا برہما، وشنو، ترلوک۔۔۔ آسمان زمین اور پاتال۔ خشکی، تری اور ہوا۔۔۔ تین بنیادی رنگ سرخ، نیلا اور زرد۔ پھرہمارے رسوم اورمذہبی احکام، یہ تیجے سوئم اور تلینڈیاں۔ وضو میں تین مرتبہ ہاتھ منہ دھونے کی شرط، تین طلاقیں اور سہ گو نہ معانقے۔ اورجوئے میں نرد بازی کے تین پانسوں کے تین نقطے یعنی تین کانے، موسیقی کے تیے۔۔۔ حیاتِ انسانی کے ملبے کو اگر کھود کر دیکھا جائے تو میرا خیال ہے، ایسی کئی تثلیثیں مل جائیں گی اس لیے کہ اس کے توالدو تناسل کے افعال کا محور بھی اعضائے ثلاثہ ہے۔

    اقلیدس میں مثلث بہت اہم حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری اشکال کے مقابلے میں یہ ایسی کٹر اور بے لوچ شکل ہے جسے آپ کسی اور شکل میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن میرا جی نے اپنے دل و دماغ اور جسم میں اس سکون کو جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، کچھ اس طرح دبایا کہ اس کے رکن اپنی جگہوں سے ہٹ گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آس پاس کی دوسری چیزیں بھی اس تکون کے ساتھ مسخ ہوگئیں اور میرا جی کی شاعری ظہور میں آئی۔

    پہلی ملاقات ہی میں میری اس کی بے تکلفی ہوگئی تھی۔ اس نے مجھے دہلی میں بتایا کہ اس کی جنسی اجابت عام طور پر ریڈیو اسٹیشن کے اسٹڈیوز میں ہوتی ہے۔ جب یہ کمرے خالی ہوتے تھے تووہ بڑے اطمینان سے اپنی حاجت رفع کرلیا کرتا تھا۔ اس کی یہ جنسی ضلالت ہی، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کی مبہم منظومات کا باعث ہے ورنہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، عام گفتگو میں وہ بڑا واضح دماغ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اس پر بیتی ہے اشعار میں بیان ہو جائے۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ جو مصیبت اس پر ٹوٹی تھی، اس کو اس نے بڑے بے ڈھنگے طریقے سے جوڑ کر اپنی نگاہوں کے سامنے رکھا تھا۔ اس کو اس کا علم تھا۔ اس ضمن میں وہ اپنی بے چارگی اچھی طرح محسوس کرتا تھا لیکن عام آدمیوں کی طرح اس نے اپنی اس کمزوری کو اپنا خاص رنگ بنانے کی کوشش کی اور آہستہ آہستہ اس میرا کو بھی اپنی گمراہی کی سولی پر چڑھا دیا۔

    بحیثیت شاعر اس کی حیثیت وہی ہے جو گلے سڑے پتوں کی ہوتی ہے جسے کھاد کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہو کے رہے گی۔ اس کی شاعری ایک گمراہ انسان کا کلام ہے جو انسانیت کی عمیق ترین پستیوں سے متعلق ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کے لیے اونچی فضاؤں میں مرغِ باد نما کا کام دے سکتا ہے۔ اس کا کلام ایک’’جِگ ساپزل‘‘ ہے جس کے ٹکڑے بڑے اطمینان اور سکون سے جوڑ کر دیکھنے چاہئیں۔

    بحیثیت انسان وہ بڑا دلچسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ اشخاص جو اپنی خواہشات جسمانی کا فیصلہ اپنے ہاتھوں کو سونپ دیتے ہیں، عام طور پر اسی قسم کے مخلص ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو صریحاً دھوکا دیتے ہیں مگر اس فریب دہی میں جو خلوص ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے۔

    میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ۔ شراب پی، بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ۔ لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔ اپنی زندگی کی ایک عظیم ترین خواہش کو جل دینے کے بعد وہ کسی اور سے دھوکا فریب کرنے کا اہل ہی نہیں رہا تھا۔ اس ا ہلیت کے اخراج کے بعد وہ اس قدر بے ضرر ہوگیا تھا کہ بے مصرف سا معلوم ہوتا تھا۔ ایک بھٹکا ہوا مسافر جو نگری نگری پھر رہا ہے، منزلیں قدم قدم پر اپنی آغوش اس کے لے وا کرتی ہیں، مگر وہ ان کی طرف دیکھے بغیر آگے نکلتا جارہا ہے۔ کسی ایسی جگہ، جس کی کوئی سمت ہے نہ رقبہ۔۔۔ ایک ایسی تکون کی جانب جس کے ارکان اپنی جگہ سے ہٹ کرتین دائروں کی شکل میں اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔

    میں نے میرا جی سے اس کے کلام کے متعلق دو تین جملوں سے زیادہ کبھی گفتگو نہیں کی، میں اسے بکواس کہا کرتا تھا اور وہ اسے تسلیم کرتا تھا۔ ان تین گولوں اور موٹے موٹے دانوں کی مالاکو میں اس کا فراڈ کہتا تھا اسے بھی وہ تسلیم کرتا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں جانتے تھے کہ یہ چیزیں فراڈ نہیں ہیں۔

    ایک دفعہ اس کے ہاتھ میں تین کے بجائے دو گولے دیکھ کرمجھے بہت تعجب ہوا، میں نے جب اس کا اظہار کیا تو میرا جی نے کہا، ’’برخوردار کا انتقال ہوگیاہے۔ مگر اپنے وقت پر ایک اور پیدا ہو جائے گا!‘‘ میں جب تک بمبئی میں رہا، یہ دوسرا برخوردار پیدا نہ ہوا۔ یا تو اماں حوّا عقیم ہوگئی تھی یا باوا آدم مردم خیز نہیں رہے تھے۔ یہ رہی سہی خارجی تثلیث بھی ٹوٹ گئی تھی اور یہ بری فال تھی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرا جی کو اس کا احساس تھا، چنانچہ جیسا کہ سننے میں آیا ہے، اس نے اس کے باقی کے اقنوم بھی اپنے ہاتھ سے علیحدہ کردیے تھے۔

    مجھے معلوم نہیں میرا جی گھومتا گھامتا کب بمبئی پہنچا، میں ان دنوں فلمستان میں تھا۔ جب وہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا، بہت خستہ حالت میں تھا، ہاتھ میں تین گولے بدستور موجود تھے۔ بوسیدہ سی کاپی بھی تھی، جس میں غالباً میرا بائی کا کلام اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ایک عجیب شکل کی بوتل تھی جس کی گردن مڑی ہوئی تھی، اس میں میرا جی نے شراب ڈال رکھی تھی، بوقتِ طلب وہ اس کا کاگ کھولتا اور ایک گھونٹ چڑھا لیتا تھا۔

    داڑھی غائب تھی، سر کے بال بہت ہلکے تھے، مگر بدن کی غلاظت بدستور موجود۔ چپل کا ایک پیر درست حالت میں تھا، دوسرا مرمت طلب تھا۔ یہ کمی اس نے پاؤں پر رسی باندھ کردور کررکھی تھی۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ ان دنوں غالباً، ’’آٹھ دن‘‘ کی شوٹنگ ہورہی تھی۔ اس کی کہانی میری تھی، جس کے لیے دو ایک گانوں کی ضرورت تھی۔ میں نے اس خیال سے کہ میرا جی کو کچھ روپے مل جائیں، اس سے یہ گانے لکھنے کے لیے کہا جو اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے لکھ دیے۔ مگر کھڑے کھڑے قسم کے نہایت واہیات جو یکسر غیر فلمی تھے۔ میں نے جب اس کو اپنا فیصلہ سنایا تو وہ خاموش رہا۔ واپس جاتے ہوئے اس نے مجھ سے سات روپے طلب کیے کہ اسے ایک ادھا لینا تھا۔

    اس کے بعد بہت دیر تک اس کو ہرروز ساڑھے سات روپے دینا میرا فرض ہوگیا۔ میں خود بوتل کا رسیا تھا۔ یہ منہ نہ لگے تو جی پر کیا گزرتی ہے اس کا مجھے بخوبی علم تھا۔ اس لئے میں اس رقم کا انتظام کر رکھتا۔ سات روپے میں رم کا ادھا آتا تھا، باقی آٹھ آنے اس کے آنے جانے کے لیے ہوتے تھے۔

    بارشوں کا موسم آیا تو اسے بڑی دقت محسوس ہوئی۔ بمبئی میں اتنی شدید بارش ہوتی ہے کہ آدمی کی ہڈیاں تک بھیگ جاتی ہیں۔ اس کے پاس فالتو کپڑے نہیں تھے۔ اس لیے یہ موسم اس کے لیے اور بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔ اتفاق سے میرے پاس ایک برساتی تھی جو میرا ایک ہٹا کٹا فوجی دوست صرف اس لیے میرے گھر بھول گیا تھا کہ وہ بہت وزنی تھی اور اس کے کندھے شل کردیتی تھی۔ میں نے اس کا ذکر میرا جی سے کیا اور اس کے وزن سے بھی اس کو آگاہ کردیا۔ میرا جی نے کہا، ’’کوئی پروا نہیں، میرے کندھے اس کا بوجھ برداشت کرلیں گے!‘‘ چنانچہ میں نے وہ برساتی اس کے حوالے کردی جو ساری برسات اس کے کندھوں پر رہی۔

    مرحوم کو سمندر سے بہت دلچسپی تھی۔ میرا ایک دور کا رشتہ دار اشرف ہے وہ ان دنوں پائلٹ تھا۔ جوہو میں سمندرکے کنارے رہتا تھا۔ یہ میرا جی کا دوست تھا، معلوم نہیں ان کی دوستی کی بنا کیا تھی، کیونکہ اشرف کو شعر و شاعری سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ بہر حال میرا جی اس کے ہاں رہتا تھا اور دن کو اس کے حساب میں پیتا تھا۔ اشرف جب اپنے جھونپڑے میں نہیں ہوتا تھا تو میرا جی ساحل کی نرم نرم اور گیلی گیلی ریت پر وہ برساتی بچھاکر لیٹ جاتا اور مبہم شعرفکر کیا کرتا تھا۔

    ان دنوں ہر اتوار کو جوہو جانا اور دن بھر پینا میرا معمول سا ہوگیا تھا۔ دو تین دوست اکٹھے ہوکر صبح نکل جاتے اور سارا دن ساحل پر گزارتے۔ میرا جی وہیں مل جاتا۔ اوٹ پٹانگ قسم کے مشاغل رہتے۔ ہم نے اس دوران میں شاید ہی کبھی ادب کے بارے میں گفتگو کی ہو۔ مردوں اور عورتوں کے تین چوتھائی ننگے جسم دیکھتے تھے۔ دہی، بڑے اور چاٹ کھاتے تھے۔ ناریل کے پانی کے ساتھ شراب ملا کر پیتے تھے اور میرا جی کووہیں چھوڑ کر واپس گھر چلے آتے تھے۔

    اشرف کچھ عرصے کے بعد میرا جی کو بوجھ محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ خود پیتا تھا مگر اپنی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھتا تھا، لیکن میرا جی کے متعلق اسے شکایت تھی کہ وہ اپنی حد سے گزر کر ایک اور حد قائم کرلیتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ بے ہوش پڑا ہے، مگر اور مانگے جارہا ہے۔ اپنی اس طلب کا دائرہ بنا لیتاہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ کہاں سے شروع ہوئی تھی اور اسے کہاں ختم ہونا تھا۔

    مجھے اس کی شراب نوشی کے اس پہلو کا علم نہیں تھا لیکن ایک دن اس کا تجربہ بھی ہوگیا، جس کو یاد کرکے میرا دل آج بھی افسردہ ہو جاتاہے۔

    سخت بارش ہورہی تھی جس کے باعث برقی گاڑیوں کی نقل و حر کت کا سلسلہ درہم برہم ہوگیا تھا، ’’ خشک دن‘‘ ہونے کی وجہ سے شہر میں شراب کی دکانیں بند تھیں۔ مضافات میں صرف باندرہ ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے مقررہ داموں پر یہ چیز مل سکتی تھی۔ میرا جی میرے ساتھ تھا۔ اس کے علاوہ میرا پرانا لنگوٹیا حسن عباس جو دہلی سے میرے ساتھ چند دن گزارنے کے لیے آیا تھا۔ ہم تینوں باندرہ اتر گئے اور ڈیڑھ بوتل رم خرید لی۔ واپس اسٹیشن پر آئے تو راجہ مہدی علی خاں مل گیا، میری بیوی لاہور گئی ہوئی تھی۔ اس لیے پروگرام یہ بنا کہ میرا جی اور راجہ رات میرے ہی ہاں رہیں گے۔

    ایک بجے تک رم کے دور چلتے رہے، بڑی بوتل ختم ہوگئی۔ راجہ کے لیے دو پیگ کافی تھے، ان کو ختم کرکے وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا اور فلمی گیت لکھنے کی پریکٹس کرتا رہا۔ میں، حسن عباس اور میرا جی پیتے اور فضول فضول باتیں کرتے رہے جن کا سر تھا نہ پَیر۔ کرفیو کے باعث بازار سنسان تھا۔ میں نے کہا اب سونا چاہئے، عباس اور راجہ نے میرے اس فیصلے پر صاد کیا۔ میرا جی نہ مانا۔ ادھے کی موجودگی اس کے علم میں تھی، اس لیے وہ اور پینا چاہتا تھا، معلوم نہیں کیوں، میں اور عباس ضد میں آگیے اور وہ ادھا کھولنے سے انکار کردیا۔ میرا جی نے پہلے منتیں کیں، پھر حکم دینے لگا۔ میں اور عباس دونوں انتہا درجے کے سفلے ہوگئے۔ ہم نے اس سے ایسی باتیں کیں کہ ان کی یاد سے مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے۔ لڑ جھگڑ کر ہم دوسرے کمرے میں چلے گئے۔

    میں صبح خیز ہوں۔ سب سے پہلے اٹھا اور ساتھ والے کمرے میں گیا۔ میں نے رات کو راجہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ میرا جی کے لیے اسٹریچر بچھا دے اور خود صوفے پر سو جائے۔ راجہ اسٹریچر میں لبالب بھرا تھا مگر صوفے پر میرا جی موجود نہیں تھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، غسل خانے اور باورچی خانے میں دیکھا۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ میں نے سوچا شاید وہ ناراضی کی حالت میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ واقعات معلوم کرنے کے لیے میں نے راجہ کو جگایا۔ اس نے بتایا کہ میرا جی موجود تھا۔ اس نے خود اسے صوفے پر لٹایا تھا، ہم یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ میرا جی کی آواز آئی، ’’میں یہاں موجود ہوں۔‘‘

    وہ فرش پر راجہ مہدی علی خان کے اسٹریچر کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ اسٹریچر اٹھا کر اس کو باہر نکالا گیا۔ رات کی بات ہم سب کے دل و دماغ میں عود کر آئی لیکن کسی نے اس پرتبصرہ نہ کیا۔ میرا جی نے مجھ سے آٹھ آنے لیے اور بھاری بھر کم برساتی اٹھا کر چلا گیا۔ مجھے اس پر بہت ترس آیا اور اپنے پر بہت غصہ۔ چنانچہ میں نے دل ہی دل میں خود کوبہت لعنت ملامت کی کہ میں رات کو ایک نکمی سی بات پر اس کو دکھ پہنچانے کا باعث بنا۔ اس کے بعد بھی میرا جی مجھ سے ملتا رہا۔ فلم انڈسٹری کے حالات منقلب ہو جانے کے باعث میرا ہاتھ تنگ ہوگیا تھا۔ اب میں ہر روز میراجی کی شراب کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے اس سے کبھی اس کا ذکر نہیں کیالیکن اس کو علم ہوگیا تھا، چنانچہ ایک دن مجھے اس سے معلوم ہوا کہ اس نے شراب چھوڑنے کے قصد سے بھنگ کھانی شروع کردی ہے۔

    بھنگ سے مجھے سخت نفرت ہے۔ ایک دو بار استعمال کرنے سے میں اس کے ذلت آفرین نشے اور اس کے رد عمل کا تجربہ کر چکا ہوں۔ میں نے میرا جی سے جب اس کے بارے میں گفتگو کی تو اس نے کہا، ’’نہیں۔۔۔ میرا خیال ہے یہ نشہ بھی کوئی برا نہیں، اس کا اپنا رنگ ہے، اپنی کیفیت ہے، اپنا مزاج ہے۔‘‘ اس نے بھنگ کے نشے کی خصوصیات پر ایک لیکچر سا شروع کردیا۔ افسوس ہے کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ اس نے کیا کہا تھا۔ اس وقت میں اپنے دفتر میں تھا اور’’ آٹھ دن‘‘ کے ایک مشکل باب کی منظر نویسی میں مشغول تھا اور میرا دماغ ایک وقت میں صرف ایک کام کرنے کا عادی ہے وہ باتیں کرتا رہا اور میں مناظر سوچنے میں مشغول رہا۔

    بھنگ پینے کے بعد دماغ پرکیا گزرتی ہے، مجھے اس کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ گردوپیش کی چیزیں یا تو بہت چھوٹی ہو جاتی ہیں یا بہت بڑی۔ آدمی حد سے زیادہ ذکی الحس ہو جاتاہے، کانوں میں ایسا شور مچتاہے جیسے ان میں لوہے کے کارخانے کھل گئے ہیں۔ دریا پانی کی ہلکی سی لکیر بن جاتے ہیں اور پانی کی ہلکی سی لکیریں بہت بڑے دریا۔ آدمی ہنسنا شروع کرے تو ہنستا ہی جاتا ہے۔ روئے تو روتے نہیں تھکتا۔

    میرا جی نے اس نشے کی جوکیفیت بیان کی وہ میرا خیال ہے اس سے بہت مختلف تھی۔ اس نے مجھے اس کے مختلف مدارج بتائے تھے، اس وقت جب کہ وہ بھنگ کھائے ہوئے تھا۔ غالباً لہروں کی بات کررہا تھا، ’’لو وہ کچھ گڑ بڑ سی ہوئی۔۔۔ کوئی چیز ادھر ادھر کی چیزوں سے مل ملا کر اوپر کو اٹھی، نیچے آگئی۔۔۔ پھر گڑبڑ سی ہوئی، اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ دماغ کی نالیوں میں رینگنے لگی، سرسراہٹ محسوس ہورہی ہے۔۔۔ پر بڑی نرم نرم۔۔۔ پورے اعلان کے ساتھ۔۔۔ اب یہ غصہ میں تبدیل ہورہا ہے۔۔۔ دھیرے دھیرے۔۔۔ ہولے ہولے۔۔۔ جیسے بلی گدگدے پنجوں پر چل رہی ہے۔۔۔ اوہ۔۔۔ زور سے میاؤں ہوئی۔۔۔ لہر ٹوٹ گئی۔۔۔ غائب ہوگئی۔‘‘ اور وہ چونک پڑتا۔

    تھوڑے وقفے کے بعد وہ پھر یہی کیفیت نئے سرے سے محسوس کر تا، ’’لو، اب پھر نون کے اعلان کی تیاریاں ہونے لگیں، گڑبڑ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ آس پاس کی چیزیں یہ اعلان سننے کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔ کانا پھوسیاں بھی ہورہی ہیں۔ ہوگیا۔۔۔ اعلان ہو گیا۔۔۔ نون اوپر کو اٹھا۔۔۔ آہستہ آہستہ نیچے آیا۔۔۔ پھروہی گڑبڑ۔۔۔ وہی کانا پھوسیاں۔۔۔ آس پاس کی چیزوں کے ہجوم میں نون نے انگڑائی لی اور رینگنے لگا۔۔۔ غنہ کھنچ کر لمبا ہوتا جارہا ہے۔۔۔ کوئی اسے کوٹ رہا ہے، روئی کے ہتھوڑوں سے۔۔۔ ضربیں سنائی نہیں دیتیں، لیکن ان کا ننھا منا، پرسے بھی ہلکا لمس محسوس ہورہا ہے۔ غوں، غوں، غوں۔۔۔ جیسے بچہ ماں کا دودھ پیتے پیتے سو رہا ہو۔۔۔ ٹھہرو، دودھ کا بلبلہ بن گیا ہے۔۔۔ لووہ پھٹ بھی گیا۔۔۔‘‘ اور وہ پھر چونک پڑتا۔

    مجھے یاد ہے، میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ اپنے اس تجربے، اپنی اس کیفیت کو اشعار میں من و عن بیان کرے۔ اس نے وعدہ کیا تھا، معلوم نہیں اس نے ادھر توجہ دی یا بھول گیا۔ کرید کرید کر میں کسی سے کچھ پوچھا نہیں کرتا۔ سرسری گفتگوؤں کے دوران میں میرا جی سے مختلف موضوعوں پرتبادلہ خیالات ہوتا تھا، لیکن اس کی ذاتیات کبھی معرض گفتگو میں نہیں آئی تھیں۔ ایک مرتبہ معلوم نہیں کس سلسلے میں اس کی اجابتِ جنسی کے خاص ذریعے کا ذکر آگیا۔ اس نے مجھے بتایا، اس کے لیے اب مجھے خارجی چیزوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسی ٹانگیں جن پر سے میل اتارا جارہا ہے۔۔۔ خون میں لتھڑی ہوئی خاموشیاں۔۔۔‘‘

    یہ سن کر میں نے محسوس کیا تھا کہ میرا جی کی دلالت، اب اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ اسے خارجی ذرائع کی امداد طلب کرنی پڑ گئی ہے۔ اچھا ہوا وہ جلدی مر گیا، کیونکہ اس کی زندگی کے خرابے میں اور زیادہ خراب ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اگر کچھ دیر سے مرتا تو یقیناً اس کی موت بھی ایک دردناک ابہام بن جاتی۔

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 70)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے