Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

در ہجو خانۂ_خود کہ بہ_سبب شدت_باراں خراب شدہ بود

میر تقی میر

در ہجو خانۂ_خود کہ بہ_سبب شدت_باراں خراب شدہ بود

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    جسم خاکی میں جس طرح جاں ہے

    اس طرح خانہ ہم پہ زنداں ہے

    ظلمتیں اس کی سب پہ روشن ہیں

    زندہ درگور ہم کئی تن ہیں

    ہے جو سرکوب اک بڑی دیوار

    واں سے جھانکو تو ہے اندھیرا غار

    بخت بد دیکھ سارے پرنالے

    اس کے معمار نے ادھر ڈھالے

    اب جو آیا ہے موسم برسات

    دن کو ہے اپنے ہاں اندھیری رات

    صحن میں آب نیزہ بالا ہے

    کوچۂ موج ہے کہ نالا ہے

    مینھ میں گھر کے پانچ چھ چھپر

    ہم غریبوں کے ہوتے ہیں سر پر

    پر تلک تنکے تھے کچھ ایک نئے

    سو وے چڑیوں کے گھونسلوں کو گئے

    دل ہے کچھ مکڑیوں کا احساں مند

    کہ جنھوں نے کیے ہیں جھانکے بند

    پھوس کچھ ہے کہیں سو آٹا ہے

    بانس کو جھینگروں نے چاٹا ہے

    اڑ گئی گھاس مٹی ہے والا

    ہے جو بندھن سو مکڑی کا جالا

    اپنے بندھن سے جو کہ چھوٹا ہے

    ہم پہ گویا وہ بانس ٹوٹا ہے

    کیا کہوں آہ گھر ہے کہنے کو

    باندھتا ہوں مچان رہنے کو

    بند جھانکوں کو کیجیے تاکے

    یاں تو اک آسمان ٹوٹا ہے

    ٹھیکے دینے کو جا اڑے ہیں ہم

    سر پہ ٹھٹھر لیے کھڑے ہیں ہم

    ٹٹیاں تھیں جو آگے چھپر کے

    بہتی پھرتی ہیں صحن میں گھر کے

    تا گلے سب کھڑے ہیں پانی میں

    خاک ہے ایسی زندگانی میں

    اب تو اپنا بھی حال بدتر ہے

    سر پہ گٹھری ہے تس پہ چھپر ہے

    پانی بہہ کر جھکا جو ہے دالان

    سر پہ رہتا ہے طرۂ ایوان

    چاک اس ڈول سے ہے ہر دیوار

    جیسے چھاتی ہو عاشقوں کی فگار

    متصل ٹپکے ہے نہ باراں ہے

    گریۂ زار سوگواراں ہے

    گھر کی صورت جو اور ہوتی ہے

    چھت بھی بے اختیار روتی ہے

    مینھ یک بارگی جو ٹوٹ پڑا

    کڑی تختہ ہر ایک چھوٹ پڑا

    داسے پایان کار ٹوٹ بہے

    طاقچے بھر رہے تھے پھوٹ بہے

    بہہ گئے گولے تختے ڈوب گئے

    غرض اجزاے سقف خوب گئے

    موج خشتی ستون میں پیٹھی

    جان غم ناک خون میں بیٹھی

    لے گیا پیچ و تاب پانی کا

    کوٹھری تھی حباب پانی کا

    یوں دھنسا گھر کہ بار خاطر تھا

    آہ کس کا غبار خاطر تھا

    اکھڑی دہلیز سب منڈیر گری

    لہر پانی کی جھاڑو دیتی پھری

    ساری بنیاد پانی نے کاٹی

    اینٹ کے گھر کو کردیا ماٹی

    جھک گئے سب ستون در بیٹھا

    وہی چھپر کھڑا ہے گھر بیٹھا

    جب اجارے پہ آکے چھت ٹھہری

    ہم سبھوں میں یہ مصلحت ٹھہری

    آؤ اب چھوڑ کر یہ گھر نکلیں

    کسو ٹٹی پہ بیٹھ کر نکلیں

    دب کے مرنے سے ڈوب مرنا خوب

    ہے کنارہ ہی یاں سے کرنا خوب

    سن کے ہر اک کے جی میں ڈر آیا

    خاطروں میں یہ حرف ٹھہرایا

    گٹھری کپڑوں کی میں اٹھائی تھی

    سر پہ بھائی کے چارپائی تھی

    بوجھ کپڑوں کا جن نے باندھا تھا

    اس کا سارا فگار کاندھا تھا

    ساتھ کوئی چراغ لے نکلا

    کوئی سر پر اجاغ لے نکلا

    چھاج کی کرکے کوئی اوٹ چلا

    مینھ کے مارے کوئی لوٹ چلا

    منھ پہ چھلنی کو ایک نے روپا

    ایک نے سرکی کا کیا گھوپا

    ایک نے چھینکے حال حال لیے

    پائے پٹی گلے میں ڈال لیے

    ایک نے بوریا لپیٹ لیا

    اور پایا جو کچھ سمیٹ لیا

    اپنا اسباب گھر سے ہم لے کر

    الگنی سب کے ہاتھ میں دے کر

    صف کی صف نکلے اس خرابی سے

    تاکہ پہنچیں کہیں شتابی سے

    جن نے اس وقت آنکھ کو کھولا

    ہنس کے بے اختیار وہ بولا

    میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں

    جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں

    سن کے اس بات کو تر آئے ہم

    بارے اک بھائی کے گھر آئے ہم

    تب سے رہنے کو اب تلک ہیں خراب

    نہیں ملتا ہے گھر بقدر حباب

    جس میں خوش یک نفس معاش کریں

    طور پر اپنے بود و باش کریں

    مأخذ:

    kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے