Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنام میر مہدی مجروح (۱۰)

مرزا غالب

بنام میر مہدی مجروح (۱۰)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    میر مہدی!

    تم میرے عادات کو بھول گئے؟ ماه مبارک رمضان میں کبھی مسجد جامع کی تراویح ناغہ ہوئی ہے۔ میں اس مہینے میں رام پور کیوں کر رہتا؟ نواب صاحب مانع رہے اور بہت منع کرتے رہے۔ برسات کے آموں کا لالچ دیتے رہے۔ مگر بھائی، میں ایسے انداز سے چلا کہ چاند رات کے دن یہاں آپہنچا۔ یک شنبہ کو غرہ (۱) ماہ مقدس ہوا، اسی دن سے ہر صبح کو حامد علی خاں کی مسجد میں جا کر جناب مولوی جعفر علی صاحب سے قرآن سنتا ہوں۔ شب کو مسجد جامع جا کر نماز تراویح پڑھتا ہوں۔ کبھی جو جی میں آتی ہے تو وقت صوم مہتاب باغ میں جا کر روزہ کھولتا ہوں اور سرد پانی پیتا ہوں۔ واہ، واہ کیا اچھی طرح عمر بسر ہوتی ہے۔

    اب اصل حقیقت سنو۔ لڑکوں کو ساتھ لے گیا تھا۔ وہاں انہوں نے میرا ناک میں دم کر دیا تنہا بھیج دینے میں وہم آیا کہ خدا جانے اگر کوئی امر حادث ہو تو بدنامی عمر بھر رہے۔ اس سبب سے جلد چلا آیا۔ ورنہ گرمی برسات وہاں کا ٹتا۔ اب یہ شرط حیات جریدہ (۲) بعد برسات جاؤں گا اور بہت دنوں تک یہاں نہ آؤں گا۔

    قرارداد یہ ہے کہ نواب صاحب جولائی ۱۸۵۹ ء سے کہ جس کو یہ دسواں مہینہ ہے۔ سور و پیے مجھے ماہ بہ ماہ بھیجتے ہیں۔ اب جو میں وہاں گیا تو سو روپیے مہینہ به نام دعوت اور دیا۔ یعنی رام پور رہوں تو دو سو روپیہ مہینہ پاؤں اور دلی رہوں تو سور و پیے، بھائی، سو دو سو میں کلام نہیں۔ کلام اس میں ہے کہ نواب صاحب دوستانہ و شاگردانہ دیتے ہیں مجھ کو نو کر نہیں سمجھتے ہیں۔

    ملاقات بھی دوستانہ رہی۔ معانقہ و تعظیم، جس طرح احباب میں رسم ہے، وہ صورت ملاقات کی ہے۔ لڑکوں سے میں نے نذر دلوائی تھی، بس یہ ہر حال غنیمت۔ رزق کے اچھی طرح ملنے کا شکر چاہیے کمی کا شکوہ کیا؟ انگریز کی سرکار سے دس ہزار روپیے سال ٹھہرے۔ اس میں سے مجھ کو ملے ساڑھے سات سو روپیے سال۔ ایک صاحب نے نہ دیئے۔ مگر تین ہزار روپیے سال۔

    عزت میں وہ پایہ جو ریکس زادوں کے واسطے ہوتا ہے، بنا رہا، خاں صاحب بسیار مہربان دوستان القاب، خلعت: سات پارچہ اور جیغه و سر پیچ و مالائے مروارید۔ بادشاہ اپنے فرزندوں کے برابر پیار کرتے تھے۔ بخشی، ناظر، حکیم کسی سے توقیر کم نہیں۔ مگر فائدہ وہی قلیل۔ سو میری جان، یہاں بھی وہی نقشہ ہے۔

    کوٹھری میں بیٹھا ہوں مٹی لگی ہوئی ہے۔ ہوا آ رہی ہے۔ پانی کا جھجر دھرا ہوا ہے حقہ پی رہا ہوں۔ یہ خط لکھ رہا ہوں۔ تم سے باتیں کرنے کو جی چاہا یہ باتیں کرلیں میر سرفراز حسین اور میرن صاحب اور میر نصیر الدین کو یہ خط پڑھا دینا اور میری دعا کہہ دینا۔

    جمعہ ۶ اپریل ۱۸۶۰ء

    (۱) غرہ: چاند کی پہلی۔

    (۲) جریدہ: تنہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے