وہ کیسا تھا جس پر عاشق
جی سے تھا وہ عاشق صادق
دیدۂ گل میں جاگہ اس کی
نکہت گل گرد رہ اس کی
چشم برہ سارا چمن اس کا
نقش قدم تھا یاسمن اس کا
آگے اس کے کبھو نہ آیا
یہ رو گل نے کہاں سے پایا
گل آشفتہ اس کے رو کا
سنبل اک زنجیری مو کا
جب وہ چہرہ تابندہ ہو
ماہ دو ہفتہ شرمندہ ہو
زلف اس چہرے پر تابندہ
کاکل صبح سے خوش آئندہ
دیکھ اس گل کی نورافشانی
شمع مجلس پانی پانی
ہو ہر چند یہ بدر کامل
اس چہرے کے ہو نہ مقابل
حوصلہ کتنا اس بے تہ کا
منھ دیکھو آئینہ مہ کا
رکھتی تھی دعویٰ خوش چشمی پر
لیکن اس کی چشم نظر کر
بہتوں کی جب جانیں گھل گئیں
نرگس کی بھی آنکھیں کھل گئیں
دور چشم ہے اس کا جب سے
فتنہ اک سوتا نہیں تب سے
رخ لب سے جاں بخش عالم
بلکہ سراپا جان مجسم
عیسیٰ کو گر لب دکھلاوے
ہرگز اس کو بات نہ آوے
کوئی مرو انداز حیا پر
چشم اس کی تھی پشت پا پر
کچھ مت پوچھو تنگی دہن کی
مشکل تھی واں جاے سخن کی
کرکے شمیم زلف گذارہ
پھیلاوے ہے عنبر سارا
خط آیا ہے گرد اس لب کے
شاید شکر تنگ ہو اب کے
دونوں لب اس کے لعل بدخشاں
دست حنائی پنجۂ مرجاں
تھا دیکھا یک رہ پردے میں
برق خرمن مہ پردے میں
جس دم برقع منھ سے اٹھاتا
خورشید اس دم ڈوبا جاتا
پار دلوں کے خدنگ مژہ کا
کاوش کم کم تنگ مژہ کا
بھوں کی کشش کا دوانہ عالم
تیر نگہ کا نشانہ عالم
تیغ و تبر تھی ابرو اس کی
آتش تھی سرکش جو اس کی
ناز کی مے سے مست رہے وہ
اکثر دست بدست رہے وہ
زلفوں کے سب تار پریشاں
سر اوپر دستار پریشاں
سائے سے اس کے سرو بنایا
خاک رہ سے تدرو بنایا
ہووے خراماں جب وہ کافر
کبک کی ہووے جان مسافر
چشم کرشمہ جان تغافل
شایاں اس کے شان تغافل
کیا جانے وہ حال کسو کا
پتھر دل اس آئینہ رو کا
پاتے ہی ابرو کا اشارہ
غمزے نے اک خنجر مارا
جب وہ خرام ناز کرے ہے
جی کو جور نیاز کرے ہے
رخصت دے گر عشوہ گری کو
ایک ہی جلوہ بس ہے پری کو
ہنسنے میں وہ صفاے دنداں
برق خرمن عالم امکاں
رشک سحر کو صافی تن پر
خون صراحی اس گردن پر
آہ صفائی اس سینے کی
غیرت افزا آئینے کی
شکل چیں میں یہ ناز کہاں ہے
صورت ہے انداز کہاں ہے
ایسا خوب جہاں میں کہیں ہے
رحم ہے اس پر اب جو نہیں ہے
جب وہ شکل نظر آتی تھی
کلفت دل کی نکل جاتی تھی
رنگیں اس کے اس کف پا سے
جائیں نکویاں اپنی جا سے
چشم کرو انصاف کی گر وا
یوسف و شیریں لیلیٰ عذرا
کون ہوا اس محبوبی سے
خوبی تو تھی پر اس خوبی سے
بار نزاکت کیونکے اٹھاوے
شاخ گل سا لہکا جاوے
ہے گی رگ گل یا رگ جاں ہے
پر نازک اسرار میاں ہے
صید ملک قربانی اس کا
یوسف اک زندانی اس کا
اور جو خوباں پاویں اس کو
یک دیگر دکھلاویں اس کو
جاویں اس پر جان سبھوں کے
تیغ رہے درمیان سبھوں کے
تھانبا جائے کس کے کنے وہ
غصے ہو تو پھر نہ منے وہ
کیا کوئی شوخی اس کی بتاوے
کچھ ٹھہرے تو کہنے میں آوے
کیا ہے اس کے آب و گل میں
آرزو اس کی سب کے دل میں
سب کو میل اس بت کی ادا کا
بندہ کون رہا ہے خدا کا
دیکھے نہ عاشق زار کو اپنے
پوچھے نہ بیمار کو اپنے
عاشق ظلم و جور و جفا کا
دشمن جانی اہل وفا کا
کوچہ رشک فزاے کعبہ
واں پہنچے نہ دعاے کعبہ
ہر شب اک فریاد و تظلم
اٹھ گئی واں سے رسم ترحم
آہیں جن کی درود و وظائف
سو دل خستے وھاں کے طائف