کل دل آزردہ گلستاں سے گزر ہم نے کیا
کل دل آزردہ گلستاں سے گزر ہم نے کیا
گل لگے کہنے کہو منہ نہ ادھر ہم نے کیا
کر گئی خواب سے بیدار تمہیں صبح کی باؤ
بے دماغ اتنے جو ہو ہم پہ مگر ہم نے کیا
سیدھے تلوار کے منہ پر تری ہم آئے چلے
کیا کریں اس دل خستہ کو سپر ہم نے کیا
نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا
پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہوگی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
کھا گیا ناخن سر تیز جگر دل دونوں
رات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیا
کام ان ہونٹوں سے وہ لے جو کوئی ہم سا ہو
دیکھتے دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر ہم نے کیا
جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی
آہ یوں کوچۂ دلبر سے سفر ہم نے کیا
بارے کل ٹھہر گئے ظالم خونخوار سے ہم
منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا
اس رخ و زلف کی تسبیح ہے یاں اکثر میرؔ
ورد اپنا یہی اب شام و سحر ہم نے کیا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0693
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.