آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر
پھولوں سے اٹھ نگاہیں مکھڑے پہ اس کے ٹھہریں
وہ گل فروش کا جو آیا دکاں کے اوپر
برسات اب کے گزری خوف و خطر میں ساری
چشمک زناں رہی ہے برق آشیاں کے اوپر
رخسار سا کسو کے کاہے کو ہے فروزاں
ہر چند ماہ تاباں ہے آسماں کے اوپر
بے سدھ پڑا رہوں ہوں بستر پہ رات دن میں
کیا آفت آ گئی ہے اس نیم جاں کے اوپر
عشق و ہوس میں کچھ تو آخر تمیز ہوگی
آئی طبیعت اس کی گر امتحاں کے اوپر
الفت کی کلفتوں میں معلوم ہے ہوئی وہ
تھا اعتماد کلی تاب و تواں کے اوپر
محو دعا تھا اکثر غیرت سے لیک گاہے
آیا نہ نام اس کا میری زباں کے اوپر
وہ جان و دل کی خواہش آیا نہیں جہاں میں
آئی ہے اک قیامت اہل جہاں کے اوپر
کیا لوگ ہیں محباں سودائے عاشقی میں
اغماض کرتے ہیں سب جی کے زیاں کے اوپر
حیرت سے اس کے رو کی چپ لگ گئی ہے ایسی
گویا کہ مہر کی ہے میرے دہاں کے اوپر
جو راہ دوستی میں اے میرؔ مر گئے ہیں
سر دیں گے لوگ ان کے پا کے نشاں کے اوپر
مأخذ:
MIRIYAAT - Diwan No- 6, Ghazal No- 1823
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.