Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی

مرزا غالب

گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    دلچسپ معلومات

    ۱۸۵۳ء

    گھستے گھستے پانو میں زنجیر آدھی رہ گئی

    مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی

    سب ہی پڑھتا کاش کیوں تکبیر آدھی رہ گئی

    کھنچ کے قاتل جب تری شمشیر آدھی رہ گئی

    غم سے جان عاشق دلگیر آدھی رہ گئی

    بیٹھ رہتا لے کے چشم پر نم اس کے رو برو

    کیوں کہا تو نے کہ کہہ دل کا غم اس کے رو برو

    بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے رو برو

    کہہ سکے ساری حقیقت ہم نہ اس کے رو برو

    ہم نشیں آدھی ہوئی تقریر آدھی رہ گئی

    تو نے دیکھا مجھ پہ کیسی بن گئی اے راز دار

    خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار

    مثل زخم آنکھوں کو سی دیتا جو ہوتا ہوشیار

    کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویر یار

    جاگ اٹھا میں کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی

    غم نے جب گھیرا تو چاہا ہم نے یوں اے دلنواز

    مستی چشم سیہ سے چل کے ہو ویں چارہ ساز

    تو صداے پا سے جاگا تھا جو محو خواب ناز

    دیکھتے ہی اے ستمگر تیری چشم نیم باز

    کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر آدھی رہ گئی

    اس بت مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات

    جس کے حسن روز افزوں کی یہ اک ادنی ہے بات

    ماہ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات

    اس رخ روشن کے آگے ماہ یک ہفتہ کی رات

    تابش خرشید پر تنویر آدھی رہ گئی

    تا مجھے پہنچائے کاہش بخت بد ہے گھات میں

    ہاں فراوانی اگر کچھ ہے تو ہے آفات میں

    جز غم و رنج و الم گھاٹا ہے ہر یک بات میں

    کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں

    آتے ہی خاصیت اکسیر آدھی رہ گئی

    سب سے یہ گوشہ کنارے ہے گلے لگ جا مرے

    آدمی کو کیوں پکارے ہے گلے لگ جا مرے

    سر سے گر چادر اتارے ہے گلے لگ جا مرے

    مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے گلے لگ جا مرے

    وصل کی شب اے بت بے پیر آدھی رہ گئی

    میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھر گئے

    پر نصیب اپنا انھیں جاتا سنا جوں پھر گئے

    دیکھنا قسمت وہ آئے اور پھر یوں پھر گئے

    آکے آدھی دور میرے گھر سے وہ کیوں پھر گئے

    کیا کشش میں دل کی اب تاثیر آدھی رہ گئی

    ناگہاں یاد آگئی ہے مجھ کو یارب کب کی بات

    کچھ نہیں کہتا کسی سے سن رہا ہوں سب کی بات

    کس لیے تجھ سے چھپاؤں ہاں وہ پرسوں شب کی بات

    نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات

    خط میں آدھی ہو سکی تحریر آدھی رہ گئی

    ہو تجلی برق کی صورت میں ہے یہ بھی غضب

    ہاں چھ گھنٹے کی تو ہوتی فرصت عیش و طرب

    شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب

    پاس میرے وہ جو آئے بھی تو بعد از نصف شب

    نکلی آدھی حسرت تقریر آدھی رہ گئی

    تم جو فرماتے ہو دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر

    ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے گیا کیوں اس کے گھر

    جان کی پاؤں اماں باتیں یہ سب سچ ہیں مگر

    دل نے کی ساری خرابی لے گیا مجھ کو ظفر

    واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی

    مأخذ:

    دیوان غالب کامل (Pg. 433)

    • مصنف: مرزا غالب
      • ناشر: ساکار پبلیشرز پرائیویٹ لمیٹیڈ، ممبئی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے