علامہ اقبال
دہر میں شان حجازی منتشر ہونے لگی
ٹوٹ کر امروز و فردا میں کہیں کھونے لگی
کہکشاں نے نور کا تحفہ دیا اس حال میں
سوز کی بجلی رواں کی قالب اقبالؔ میں
قوم کو تاریک غاروں میں تری کرنیں ملیں
خواب منزل یوں دکھایا دل کی کلیاں کھل اٹھیں
مرد مومن پر خودی کا راز وا ہوتا گیا
ہند میں روشن ستارے آسماں بوتا گیا
ہے وہی اقبالؔ جو سوز چمن کی آگ میں
عمر بھر سلگا مگر بانٹی ضیا ہر راگ میں
زخم پر مرہم زباں پر بانکپن احسان ہے
روشنی بحر تفکر میں تری پہچان ہے
یوں تری للکار سے کشتی کنارے آ لگی
قوم کی توقیر ہم دوش ثریا ہو گئی
نیند سے جن کو جگایا تو نے اپنے ساز سے
پھر وہی سونے لگے ہیں اک نئے انداز سے
غیرت ایماں جو تیرے سوز نے بیدار کی
تہہ چڑھی جاتی ہے پھر سے شیوۂ اغیار کی
دیکھ لے تہذیب کا ڈھانچہ پڑا بیمار ہے
ہے مسیحا پاس لیکن جان سے بیزار ہے
ہیں نئے موسیٰ یہاں کتنے نئے فرعون ہیں
راز کھلتا ہی نہیں اصلی مسیحا کون ہیں
روح تیری ہر حسیں جذبے کا گرمائے لہو
زندۂ جاوید ہے افکار کی صورت میں تو
اب ترا شاہیںؔ تھپیڑوں سے بہت کمزور ہے
آ مرے اقبالؔ تیرے جاگنے کا دور ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.