گرو نانک دیو جی
ترے جمال سے اے آفتاب ننکانہ
نکھر نکھر گیا حسن شعور رندانہ
کچھ ایسے رنگ سے چھیڑا رباب مستانہ
کہ جھومنے لگا روحانیت کا مے خانہ
تری شراب سے مدہوش ہو گئے مے خوار
دوئی مٹا کے ہم آغوش ہو گئے مے خوار
ترا پیام تھا ڈوبا ہوا تبسم میں
بھری تھی روح لطافت ترے تکلم میں
نوائے حق کی کشش تھی ترے ترنم میں
یقیں کی شمع جلائی شب توہم میں
دلوں کو حق سے ہم آہنگ کر دیا تو نے
گلوں کو گوندھ کے یک رنگ کر دیا تو نے
تری نوا نے دیا نور آدمیت کو
مٹا کے رکھ دیا حرص و ہوا کی ظلمت کو
دلوں سے دور کیا سیم و زر کی رغبت کو
کہ پا لیا تھا ترے دل نے حق کی دولت کو
ہجوم ظلمت باطل میں حق پناہی کی
فقیر ہو کے بھی دنیا میں بادشاہی کی
تری نگاہ میں قرآن و دید کا عالم
ترا خیال تھا راز حیات کا محرم
ہر ایک گل پہ ٹپکتی تھی پیار کی شبنم
کہ بس گیا تھا نظر میں بہشت کا موسم
نفس نفس میں کلی رنگ و بو کی ڈھلتی تھی
نسیم تھی کہ فرشتوں کی سانس چلتی تھی
تری شراب سے بابا فرید تھے سرشار
ترے خلوص سے بے خود تھے صوفیان کبار
کہاں کہاں نہیں پہنچی ترے قدم کی بہار
ترے عمل نے سنوارے جہان کے کردار
تری نگاہ نے صہبائے آگہی دے دی
بشر کے ہاتھ میں قندیل زندگی دے دی
ترے پیام سے ایسی کی تھی مسیحائی
ترے سخن میں حبیب خدا کی رعنائی
ترے کلام میں گوتم کا نور دانائی
ترے ترانے میں مرلی کا لحن یکتائی
ہر ایک نور نظر آیا تیرے پیکر میں
تمام نکہتیں سمٹی ہیں اک گل تر میں
جہاں جہاں بھی گیا تو نے آگہی بانٹی
اندھیری رات میں چاہت کی روشنی بانٹی
عطا کیا دل بیدار زندگی بانٹی
فساد و جنگ کی دنیا میں شانتی بانٹی
بہار آئی کھلی پیار کی کلی ہر سو
ترے نفس سے نسیم سحر چلی ہر سو
رضائے حق کو نجات بشر کہا تو نے
تعینات خودی کو ضرر کہا تو نے
وفا نگر کو حقیقت نگر کہا تو نے
ظہور عشق کو سچی سحر کہا تو نے
جہان عشق میں کچھ بیش و کم کا فرق نہ تھا
تری نگاہ میں دیر و حرم کا فرق نہ تھا
بتایا تو نے کہ عرفاں سے آشنا ہونا
کبھی نہ عاشق دنیائے بے وفا ہونا
بدی سے شام و سحر جنگ آزما ہونا
خدا سے دور نہ اے بندۂ خدا ہونا
نشے میں دولت و زر کے نہ چور ہو جانا
قریب آئے جو دنیا تو دور ہو جانا
جو روح بن کے سما جائے ہر رگ و پے میں
تو پھر نہ شہد میں لذت نہ ساغر مے میں
وہی ہے ساز کے پردے میں لحن میں لے میں
اسی کی ذات کی پرچھائیاں ہر اک شے میں
نہ موج ہے نہ ستاروں کی آب ہے کوئی
تجلیوں کے ادھر آفتاب ہے کوئی
ابد کا نور فراہم کیا سحر کے لئے
دیا پیام بہاروں کا دشت و در کے لئے
دیے جلا دئے تاریک رہ گزر کے لئے
جیا بشر کے لئے جان دی بشر کے لیے
دعا یہ ہے کہ رہے عشق حشر تک تیرا
زمیں پہ عام ہو یہ درد مشترک تیرا
خدا کرے کہ زمانہ سنے تری آواز
ہر اک جبیں کو میسر ہو تیرا عکس نیاز
جہاں میں عام ہو تیرے ہی پیار کا انداز
خلوص دل سے ہو پوجا خلوص دل سے نماز
ترے پیام کی برکت سے نیک ہو جائیں
یہ امتیاز مٹیں لوگ ایک ہو جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.