aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم

MORE BYضیا جالندھری

    1

    بچھی ہوئی ہے بساط کب سے

    زمانہ شاطر ہے اور ہم

    اس بساط کے زشت و خوب خانوں میں

    دست نادیدہ کے اشاروں پہ چل رہے ہیں

    بچھی ہوئی ہے بساط ازل سے

    بچھی ہوئی ہے بساط جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا ہے

    بساط ایسا خلا ہے جو وسعت تصور سے ماورا ہے

    کرشمۂ کائنات کیا ہے

    بساط پر آتے جاتے مہروں کا سلسلہ ہے

    بساط ساکت ہے وقت مطلق

    بساط بے جنبش اور بے حس ہے

    اپنے مہروں سے لا تعلق ہے

    اس کو اس سے غرض نہیں ہے

    کہ کون جیتا ہے

    اور کس نے شکست کھائی

    وجود حادث وجود مہرے

    بساط ساکت کی وسعتوں میں

    زمین اہل زمین افلاک اہل افلاک

    اپنی اپنی معینہ ساعتوں میں ایسے گزر رہے ہیں

    کہ جیسے آنکھوں سے خواب گزریں

    بساط پر جو بھی ہے

    وہ ہونے کی مہلتوں میں اسیر

    پیہم بدل رہا ہے

    وجود وہ حدت رواں ہے

    جو نت نئی ہیئتوں میں باقی ہے

    اور اس کو فنا نہیں

    جہاں پہاڑوں کے آسماں بوس سلسلے ہیں

    وہاں کبھی بحر موجزن تھے

    جہاں بیاباں میں ریت اڑتی ہے

    باد مسموم گونجتی ہے

    وہاں کبھی سبزہ زار و گلگشت کا سماں تھا

    بلند و بالا حقیر و ہیچ

    اس شکست و تعمیر کے تسلسل میں بہہ رہے ہیں

    شکست و تعمیر کے تسلسل میں تو ہے میں ہوں

    ہم ایسے مہرے

    جنہیں ارادے دیے گئے ہیں

    یہ جن کی توفیق پر حدیں ہیں

    جنہیں تمنا کے رنگ دکھلا دیے گئے ہیں

    مگر وسیلوں پر قدغنیں ہیں

    جنہیں محبت کے ڈھنگ سکھلا دیے گئے ہیں

    پہ دست و پا میں سلاسل نو بنو

    تو گردن میں طوق پہنا دیے گئے ہیں

    جو ہے جو اب تک ہوا ہے جو ہو رہا ہے

    اس سے کسے مفر ہے

    کوئی جو چاہے

    کہ عہد رفتہ سے ایک پل پھر سے لوٹ آئے

    کہا ہوا لفظ ان کہا ہو سکے

    تو اس آرزو کا حاصل وہ جانتا ہے

    بہت سہی اختیار و امکاں

    برگ و خس کی تاب و مجال کیا ہے

    نموئے غنچہ میں اس کا اپنا کمال کیا ہے

    تری نگاہوں میں تیرا غم کوہ سے گراں تر ہے

    تو سمجھتا ہے

    تیرے سینے کے سرخ لاوے سے

    شہر و قریہ پگھل رہے ہیں

    خزاں زمستاں تری اداسی کے آئنے ہیں

    تو مشتعل ہو تو زلزلوں سے زمین کانپے

    تجھے گماں ہے

    کہ گل کھلے ہیں ترے تبسم کی پیروی میں

    یہ پھول کو اختیار کب تھا

    کہ کون سی شاخ پر کھلے

    کون کنج میں مسکرائے

    اور کن فضاؤں میں خوشبوئیں بکھیرے

    نحیف شعلہ جمال کونپل

    جو دست نازک کی نرم پوروں سے دھیرے دھیرے

    دریچۂ شاخ کھول کر

    صبح کی سپیدی میں جھانکتی ہے

    یہ سوچتی ہے

    کہ باغ سارا اسی کے دم سے مہک رہا ہے

    اسی کے پرتو سے گوشہ گوشہ دمک رہا ہے

    اسی کے دیدار میں مگن

    خوشبوؤں سے بوجھل ہواؤں میں

    شوخ تتلیاں رقص کر رہی ہیں

    وہ بے خبر ہے

    کہ شاطر وقت کی نظر میں

    کوئی اکائی

    شجر حجر ہو کہ ذی نفس ہو

    نظام کل سے الگ نہیں ہے

    وہ یہ نہیں جانتی کہ ہستی کے کارخانے میں

    اس کا ہونا نہ ہونا بے نام حادثہ ہے

    اور اس کے حصے کا کل اثاثہ

    وہ چند لمحے وہ چند سانسیں ہیں

    جن میں وہ خواب دیکھتی ہے

    سلیقۂ ذات سے چمن کو سنوارنے کا

    بہار جاں کو نکھارنے کا

    ۲

    بجا کہ ناپائیدار ہے یہ وجود میرا

    میں غیر فانی حیات کے سلسلے میں

    اک بیچ کی کڑی ہوں

    رہین گردش بھی مرکز کائنات بھی ہوں

    جو میں نے دیکھا ہے وہ مرے خوں میں رچ گیا ہے

    جو میں نے سوچا ہے مجھ میں زندہ ہے

    اور جو کچھ سنا ہے مجھ میں سما گیا ہے

    ہوا کی صورت ہر ایک احساس

    میری سانسوں میں جی رہا ہے

    ہر ایک منظر مرے تصور میں بس گیا ہے

    میں ذات محدود اپنی پہنائیوں میں

    اک کائنات بھی ہوں

    مری رگوں میں وہ جوشش جاوداں رواں ہے

    جو شاخ میں پھول کی نمو ہے

    جو بحر میں موج کی تڑپ ہے

    پر کبوتر میں تاب پرواز ہے

    ستاروں میں روشنی ہے

    میں اپنے ہونے کے سب حوالوں میں رونما ہوں

    میں جا بجا صورت صبا ہوں

    غزال خوش چشم کی کلیوں میں کھیلتا ہوں

    ہمکتے بچے کی مسکراہٹ ہوں

    پیر شب خیز کی دعا ہوں

    میں مہر میں ماہتاب میں ہوں

    یہ کیسی چاہت ہے جس سے میں

    ایک مستقل اضطراب میں ہوں

    وہ کون سی منزل طلب تھی

    کہ رانجھا رانجھا پکارتی ہیر

    آپ ہی رانجھا ہو گئی تھی

    فلک سے انوار

    کوہ سے چشمے

    شاخ سے پھول پھوٹتے ہیں

    مگر ہر اک پھول میں نمی بھی ہے روشنی بھی

    زباں میں الفاظ

    آنکھ میں دید

    دل میں احساس رکھ دیے گئے ہیں

    پہ لفظ احساس دید اک دوسرے کا پیوند ہو گئے ہیں

    نمو و تخلیق کے عمل بار بار دہرائے جا رہے ہیں

    جمال ارض و سما کی تکمیل ہو رہی ہے

    محبت اعجاز سرمدی ہے

    تمہاری آنکھوں کی مسکراہٹ میں

    میری چاہت کی روشنی ہے

    یوں ہی شگوفوں کے پاس بیٹھی رہو

    شعاعوں کو عارض و لب سے کھیلنے دو

    ہوا کے ہاتھوں کو اپنے گیسو بکھیرنے دو

    بہار کی ساری خوشبوئیں

    اپنے بازوؤں میں سمیٹ لو

    میرے چشم و دل کو یقین دلاؤ

    کہ تم فقط خواب ہی نہیں ہو

    گزرتے بادل کا کوئی عکس رواں نہیں ہو

    تم اک حقیقت ہو محض وہم و گماں نہیں ہو

    مرے قریب آؤ اور مری ذات کو مٹا دو

    مجھے تم اپنے جمال کی ضو میں جذب کر لو

    وصال میں فرد کی فنا ہے

    وصال میں فرد کی بقا ہے

    وصال میں فرد کی بقا ہے

    بہار کی دید عارضی ہے

    بہار تجرید دائمی ہے

    وداع کے وقت آنسوؤں میں

    وہ سارے منظر جھلک رہے ہیں

    جو شاخ جاں پر گلوں کی صورت کھلے ہوئے تھے

    وہ سارے امکاں جھلک رہے ہیں

    جو کرچی کرچی بکھر گئے ہیں

    بکھرنے والوں کو اپنے مرکز کی آرزو ہے

    نہیں مجھے اس طرح نہ دیکھو

    کہ جیسے نظروں میں روح تک امڈی آ رہی ہو

    یہ ہاتھ کچھ دیر اور رہنے دو میرے ہاتھوں میں

    کچھ نہ بولو

    کہ میں یہ نایاب لمحے آنکھوں میں جذب کر لوں

    یہ ثانیے روح میں چھپا لوں

    ہر ایک لمحہ اک ارمغاں ہے

    تمہاری چاہت کا ارمغاں ہے

    یہ ثانیے ایسے پھول ہیں

    جو کہ کھلتے رہتے ہیں دل ہی دل میں

    شگفتہ رہتے ہیں رہتے دم تک

    یہ چند لمحے کسی کسی کے نصیب میں ہیں

    وگرنہ عمریں

    غموں کے کانٹے نکالنے میں گزر گئی ہیں

    ۳

    وہ شام ہوٹل میں اس طرح آئی

    جیسے دشمن کی فوج اترے

    جگہ جگہ جست اور کانسی کے چہرے

    جھم جھم کھنک رہے تھے

    تمام ہوٹل جگر جگر جگمگا رہا تھا

    میں کنج تنہائی میں تحیر سے دیکھتا تھا

    کہ کیسے خوش باش ہیں جنہیں یہ خبر نہیں ہے

    کہ ان کی بنیاد اکھڑ چکی ہے

    ہوائیں مسموم ہو چکی ہیں

    شجر پھلوں سے لدے ہیں لیکن

    جڑوں کا زہر ان پھلوں کے ریشوں تک آ گیا ہے

    جو حال اب ہے کبھی نہیں تھا

    حیات خوار و زبوں تو تھی لیکن اتنی خوار و زبوں نہیں تھی

    وہ دیر سے انتظار گہ میں

    ہر آنے والے کو نظروں نظروں میں ناپتی تھی

    لباس کی شوخی و جسارت

    سنگھار کی جدت و مہارت کے باوجود

    اس کا گوشۂ چشم عمر کی چغلی کھا رہا تھا

    نگاہ نو وارد اجنبی پر پڑی تو اس طرح مسکرا دی

    کہ جیسے اس کی ہی منتظر تھی

    اٹھی قریب آئی اور بولی

    میں ایک مدت سے خدمت خلق کر رہی ہوں

    دکھے دلوں کا علاج کرتی ہوں

    رنگ اور روشنی کے شہروں میں

    شام تنہائی کی دل افسردگی سے واقف ہوں

    آپ اکیلے ہیں تو کوئی انتظام کر دوں

    یہاں سے میں دور دور ملکوں کو

    ہر طبیعت کے گاہکوں کی پسند کا مال بھیجتی ہوں

    وفا محبت پرانی باتیں ہیں اب انہیں کون پوچھتا ہے

    بڑے بڑے اونچے اونچے لوگوں سے رات دن میرا واسطہ ہے

    یہ صاحبان وقار و نخوت

    خریدنا اور بیچنا خوب جانتے ہیں

    یہ دام دیتے ہیں اور راحت خریدتے ہیں

    بجا ہے یہ بھی کہ بے بسوں کی انا و عزت خریدتے ہیں

    مگر جب آتے ہیں بیچنے پر

    تو بے تکلف ضمیر تک اپنا بیچ دیتے ہیں

    جاہ و ثروت کی منڈیوں میں

    میں کہہ رہی تھی کہ آپ چاہیں تو

    آج کی رات کا کوئی انتظام کر دوں

    وہ شام کے وقت خوں میں لت پت

    سڑک کے کنارے پڑا ہوا تھا

    گزرنے والوں سے کہہ رہا تھا

    ہمیں ہمارے محافظوں سے

    نجات کا راستہ بتاؤ

    وہ خواہش اقتدار و دولت میں

    ہم کو نیلام کر رہے ہیں

    اخوت و اتحاد کا درد دینے والے

    خود اپنے بچوں کے خوں سے

    حرص و ہوس کی شمعیں جلا رہے ہیں

    ہماری اقدار

    آج متروک فیشنوں کے لباس کی طرح

    ان کی نظروں سے گر چکی ہیں

    اب ان کی اولاد ان کی ریشہ دوانیوں سے پناہ

    تازہ بتازہ نشوں میں ڈھونڈتی ہے

    انہی کی شہ پا کے نسل نو

    اپنی پیاس اک دوسرے کے خوں سے بجھا رہی ہے

    یہ سنگ دل جشن مرگ انبوہ بے گناہاں منا رہے ہیں

    کوئی ہمیں ان نجیب صورت

    حریص بے مہر کرگوں سے

    نجات کا راستہ بتاؤ

    یہ نغمۂ کائنات کی بے سری صدائیں ہیں

    کوئی ان سے نجات کا راستہ بتاؤ

    ۴

    ہم اپنے خوابوں میں جی رہے ہیں

    ہم اپنے صبح و شام سے تنگ آ کے

    خواب بنتے ہیں اور خوابوں میں جی رہے ہیں

    بساط ساکت سے کوئی شکوہ

    نہ شاطر وقت سے گلہ ہے

    ہمیں شکایت ہے آدمی سے

    کہ آدمی آدمی کا دوزخ بنا ہوا ہے

    عجب تضادات کا مرقع ہے آدمی بھی

    وہ اہرمن بھی ہے اور یزداں جمال بھی ہے

    صداقت و حسن کا طلب گار بھی وہی ہے

    بہیمیت اور وحشت و جبر کا پرستار بھی وہی ہے

    زمین پہ قابیل کے قبیلے کی رسم بیداد اوج پر ہے

    مگر ہمارا عذاب اس سے بھی تلخ تر ہے

    کہ ہم جو ہابیل کے حواری تھے

    عہد ہابیل میں بھی زنجیر ہی رہے ہیں

    شباہتوں کے فریب خوردہ تھے یہ نہ جانا

    نقاب پوشوں میں کون کیا ہے

    ہمیں تو غم تھا کہ نشۂ اقتدار

    قابیل ہو کہ ہابیل

    جس کسی کو چڑھا

    وہ انسانیت کو تاراج کر گیا ہے

    ہمارے خوابوں سے ڈر رہے ہیں

    وہ ڈر رہے ہیں کہ خواب الفاظ میں ڈھلے تو

    دروغ کے پردے چاک ہوں گے

    اور ان کے چہروں کا غازہ اترا

    تو آئنے بھی عذاب ہوں گے

    ہم ایسے مہرے

    جنہیں ارادے دیے گئے ہیں

    یہ جن کی توفیق پر حدیں ہیں

    ہمیں شکستیں ہوئیں مگر ہر شکست مہمیز ہو گئی ہے

    ہمارے ساتھی گرے پہ رفتار اور کچھ تیز ہو گئی ہے

    یہاں کی سنگین بے حسی میں

    ہماری کوشش کا حال یہ ہے

    کہ جس طرح کوئی تیتری

    اک خزاں زدہ باغ بے نمو میں

    بھری بہاروں کی جستجو میں

    تبسم گل کی آرزو میں

    شجر شجر شاخ شاخ بیتاب پھر رہی ہو

    ہمارے ہوتے بہار آئے نہ آئے لیکن

    ہمیں یہ تسکین ہے کہ ہم نے

    حیات ناپائیدار کی ایک ایک ساعت

    چمن کی ہیئت سنوارنے میں گزار دی ہے

    فضائے ہستی نکھارنے میں گزار دی ہے

    مأخذ:

    sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 314)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے