Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہندوستان

میکش اکبرآبادی

ہندوستان

میکش اکبرآبادی

MORE BYمیکش اکبرآبادی

    خار و خس کے جھونپڑے مٹی کے بوسیدہ مکاں

    جیسے اندھوں کے اشارے جیسے گونگوں کی زباں

    جس طرح اترے ہوئے چہروں پہ آنسو کے نشاں

    جس طرح سوکھی ہوئی ٹہنی پہ اجڑے آشیاں

    داغ جن کے ساز و ساماں درد جن کا پاسباں

    کیا اسی دنیا میں تو پلتا ہے اے ہندوستاں

    ایک ڈھانچہ ہڈیوں کا ایک چلتی پھرتی لاش

    جس کو قبرستان میں ہے زندگانی کی تلاش

    جس کے دل کی دھڑکنوں میں غم کے پھانسوں کی خراش

    بے کسی جس کا سہارا مفلسی جس کی معاش

    دست و بازو جس کے شل جس کا سفینہ پاش پاش

    کیا اسی کو پالتی ہے مادر ہندوستاں

    دھوپ سے جھلسے ہوئے بچے پہ فاقوں کے ستم

    جس کی ننھی سی زباں سوکھی ہوئی اور آنکھ نم

    جیسے کچی نیند سے نازک پپوٹوں پر ورم

    جیسے مینائے تہی کے دل میں فکر بیش و کم

    جیسے بے رس پھول جیسے بند مٹھی کا بھرم

    کیا اسی کو پالتی ہے مادر ہندوستاں

    اس جفا پروردہ امت کے جفا پرور امام

    قصر و ایواں کے پجاری زر کے بندے و غلام

    خون دہقاں سے ہے رنگیں جن کی عظمت کا مقام

    جن کے مذہب میں صداقت اور ہمدردی حرام

    کیا انہیں کے ہاتھ میں ہے تیری قسمت کی لگام

    شرم اے ہندوستاں افسوس اے ہندوستاں

    ایک ارمان مسرت ایک ارمان قرار

    جیسے بے پایاں سمندر کے کنارے جوئے بار

    جیسے ریگستان میں بھٹکی ہوئی موج بہار

    جیسے وہموں کی پرستش جیسے سایوں کا شکار

    ارض پر جیسے فرشتے شہر میں جیسے گنوار

    کیا یہی ہے اضطراب آرزو ہندوستاں

    ایک آہ نارسا بیگانۂ ذوق سخن

    جیسے پہلی شام کو مہتاب کی مدھم کرن

    جیسے اک اندھی کنواری کا ادھورا بانکپن

    جیسے مرجھائی ہوئی کلیوں میں روداد چمن

    جیسے اک سوئے ہوئے کافر کی ابرو میں شکن

    کیا یہی ہے قوت فریاد اے ہندوستاں

    اک سسکتا سانس اک ٹوٹا ہوا تار رباب

    جیسے گہری فکر میں پچھلے پہر کا ماہتاب

    جیسے باسی پھول کی بو جیسے پت جھڑ کا گلاب

    جیسے دن میں چاند تارے جیسے دریا میں حباب

    جیسے دیوانے کی جنت جیسے مفلس کا شباب

    کیا اسی کو زندگی کہتے ہیں اے ہندوستاں

    موت کی پرچھائیوں میں پلنے والی زندگی

    آنکھوں سے بن ٹمٹما کر جانے والی زندگی

    ظلمتوں میں اپنی آنکھیں ملنے والی زندگی

    تھام کر لغزش کا دامن چلنے والی زندگی

    غم کے سانچے میں مسلسل ڈھلنے والی زندگی

    کیا اسی کو زندگی کہتے ہیں اے ہندوستاں

    قسمتوں کے دائرے میں گھومنے والا سماج

    ڈسنے والی ایک ناگن ایک زہریلا مزاج

    ننگ ہستی سر پہ اک اوہام کی پستی کا تاج

    مفلسوں سے جو لیا کرتی ہے گن گن کر خراج

    دفن ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر روز آج

    کیا اسی کے ہاتھ میں ہے پرچم ہندوستاں

    آنسوؤں کے نام سے کب تک گرایا جائے گا

    نالہ و فریاد میں کب تک سنایا جائے گا

    ایک گہری نیند میں کب تک سلایا جائے گا

    پردۂ تقدیر میں کب تک چھپایا جائے گا

    تو ستایا جا چکا کب تک ستایا جائے گا

    جاگ اے ہندوستاں ہاں جاگ اے ہندوستاں

    مأخذ:

    Maikhana (Pg. E-97 B-82)

    • مصنف: میکش اکبرآبادی
      • اشاعت: 1974
      • ناشر: ولا اکیڈمی، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے