Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہولی

MORE BYنظیر اکبرآبادی

    میاں تو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں

    کہ روٹھے ملتے ہیں آپس میں یار ہولی میں

    مچی ہے رنگ کی کیسی بہار ہولی میں

    ہوا ہے زور چمن آشکار ہولی میں

    عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں

    اب اس مہینے میں پہنچی ہے یاں تلک یہ چال

    فلک کا جامہ پہن سرخیٔ شفق سے لال

    بنا کے چاند کے سورج کے آسماں پر تھال

    فرشتے کھیلیں ہیں ہولی بنا عبیر و گلال

    تو آدمی کا بھلا کیا شمار ہولی میں

    سنا کے ہولی جو زہرہ بجاتی ہے طبنور

    تو اس کے راگ سے بارہ بروج ہیں معمور

    چھوؤں ستاروں کے اوپر پڑا ہے رنگ کا نور

    سبھوں کے سر پہ یہ ہر دم پکارتی ہے حور

    جو گھر کے ابر کبھی اس مزے میں آتا ہے

    تو بادلوں میں وہ کیا کیا ہی رنگ لاتا ہے

    خوشی سے رعد بھی ڈھولک کی گت لگاتا ہے

    ہوا کو ہولیاں گا گا کے کیا نچاتا ہے

    تمام رنگ سے پر ہے بہار ہولی میں

    چمن میں دیکھو تو دن رات ہولی رہتی ہے

    شراب ناب کی گلشن میں نہر بہتی ہے

    نسیم پیار سے غنچے کا ہاتھ گہتی ہے

    تو باغبان سے بلبل کھڑی یہ کہتی ہے

    نہ چھیڑ مجھ کو تو اے بد شعار ہولی میں

    گلوں نے پہنے ہیں کیا کیا ہی جوڑے رنگ برنگ

    کہ جیسے لڑکے یہ معشوق پہنتے ہیں تنگ

    ہوا سے پتوں کے بجتے ہیں تال اور مردنگ

    تمام باغ میں کھیلیں ہیں ہولی گل کے سنگ

    عجب طرح کی مچی ہے بہار ہولی میں

    امیر جتنے ہیں سب اپنے گھر میں ہیں خوش حال

    قبائیں پہنے ہوئے تنگ تنگ گل کی مثال

    بنا کے گہری طرح حوض مل کے سب فی الحال

    مچائے ہولیاں آپس میں لے عبیر و گلال

    بنے ہیں رنگ سے رنگیں نگار ہولی میں

    یہ سیر ہولی کی ہم نے تو برج میں دیکھی

    کہیں نہ ہووے گی اس لطف کی میاں ہولی

    کوئی تو ڈوبا ہے دامن سے لے کے تا چولی

    کوئی تو مرلی بجاتا ہے کہہ کنہیا جی

    ہے دھوم دھام پہ بے اختیار ہولی میں

    گھروں سے سانوری اور گوریاں نکل چلیاں

    کسنبی اوڑھنی اور مست کرتی اچھلیاں

    جدھر کو دیکھیں ادھر مچ رہی ہیں رنگ رلیاں

    تمام برج کی پریوں سے بھر رہیں گلیاں

    مزا ہے سیر ہے در ہر کنار ہولی میں

    جو کچھ کہانی ہے ابلا بہت پیا ماری

    چلی ہے اپنے پیا پاس لے کے پچکاری

    گلال دیکھ کے پھر چھاتی کھول دی ساری

    پیا کی چھاتی سے لگتی وہ چاؤ کی ماری

    نہ تاب دل کو رہی نے قرار ہولی میں

    جو کوئی سیانی ہے ان میں تو کوئی ہے نا کند

    وہ شور بور تھی سب رنگ سے نپٹ یک چند

    کوئی دلاتی ہے ساتھن کو یار کی سوگند

    کہ اب تو جامہ و انگیا کے ٹولے ہیں سب بند

    پھر آ کے کھلیں گے ہو کر دو چار ہولی میں

    نظیرؔ ہولی کا موسم جو جگ میں آتا ہے

    وہ ایسا کون ہے ہولی نہیں مناتا ہے

    کوئی تو رنگ چھڑکتا ہے کوئی گاتا ہے

    جو خالی رہتا ہے وہ دیکھنے کو جاتا ہے

    جو عیش چاہو سو ملتا ہے یار ہولی میں

    مأخذ:

    کلیات نظیر (Pg. 544)

    • مصنف: نظیر اکبرآبادی
      • ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1951

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے