متاع رائیگاں
یہ درد زندگی کس کی امانت ہے کسے دے دوں
کوئی وارث نہیں اس کا متاع رائیگاں ہے یہ
مسیحا اب نہ آئیں گے یہی نشتر رگ جاں میں
خلش بنتا رہے گا میری سانسوں میں نہاں ہے یہ
خدایا ہم سے پہلے لوگ بھی جو اس زمیں پر تھے
یونہی پامال ہوتے تھے، جو اس کے بعد آئیں گے
امید صبح کے خنجر سے زخمی ہو کے جائیں گے؟
(کہاں جا کر رکے گا قافلہ ان سوگواروں کا)
یہ پھر بھی تیرے بندے ہیں تری ہی حمد گائیں گے
انہیں آنکھیں تو دے دی ہیں بصارت بھی انہیں دے دے
تجھے سب ڈھونڈتے ہیں اس طرح اندھے ہیں سب جیسے
اسی کورے ورق پر کچھ عبارت بھی انہیں دے دے
کھڑا ہے منہ کیے مشرق کی جانب، کوئی مغرب کی
مری تصویر میں ان چیختے رنگوں کی ایسی کیا ضرورت تھی)
خدایا بخش دے ان بے گناہوں کے گناہوں کو
یہ معنی ڈھونڈتے ہیں کشمکش میں رات اور دن کی
حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں سال اور سن کی
یہ سب مجبور ہیں ان پر در توبہ کھلا رکھنا
یہ دنیا خوف اور لالچ پہ جس کی نیو رکھی ہے
اسی مٹی سے پھوٹے ہیں اسی دھرتی کے پالے ہیں
اجالا بھی یہی ہیں اس زمیں کا اور اندھیرا بھی
یہی شہکار ہیں تیرا یہی پاؤں کے چھالے ہیں
(یہ سب کے سب لباس فاخرہ میں میلی بھیڑیں ہیں)
الہ العالمیں ان کی خطا سے در گزر کرنا
بہت معذور ہیں یہ خود نگر اپنی جبلت سے
مقدر ان کا ہے شام و سحر کو روز سر کرنا
مساعی ان کی سیم و زر کے ڈھیروں میں بدل دینا
ترے پاس آئیں، موتی کے محل محنت کا پھل دینا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.