Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرچھائیاں

ساحر لدھیانوی

پرچھائیاں

ساحر لدھیانوی

MORE BYساحر لدھیانوی

    جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل

    مچل رہا ہے کسی خواب مرمریں کی طرح

    حسین پھول حسیں پتیاں حسیں شاخیں

    لچک رہی ہیں کسی جسم نازنیں کی طرح

    فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط

    زمیں حسین ہے خوابوں کی سرزمیں کی طرح

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح

    وہ پیڑ جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے

    کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح

    انہی کے سائے میں پھر آج دو دھڑکتے دل

    خموش ہونٹوں سے کچھ کہنے سننے آئے ہیں

    نہ جانے کتنی کشاکش سے کتنی کاوش سے

    یہ سوتے جاگتے لمحے چرا کے لائے ہیں

    یہی فضا تھی یہی رت یہی زمانہ تھا

    یہیں سے ہم نے محبت کی ابتدا کی تھی

    دھڑکتے دل سے لرزتی ہوئی نگاہوں سے

    حضور غیب میں ننھی سی التجا کی تھی

    کہ آرزو کے کنول کھل کے پھول ہو جائیں

    دل و نظر کی دعائیں قبول ہو جائیں

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    تم آ رہی ہو زمانے کی آنکھ سے بچ کر

    نظر جھکائے ہوئے اور بدن چرائے ہوئے

    خود اپنے قدموں کی آہٹ سے جھینپتی ڈرتی

    خود اپنے سائے کی جنبش سے خوف کھائے ہوئے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    رواں ہے چھوٹی سی کشتی ہواؤں کے رخ پر

    ندی کے ساز پہ ملاح گیت گاتا ہے

    تمہارا جسم ہر اک لہر کے جھکولے سے

    مری کھلی ہوئی باہوں میں جھول جاتا ہے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    میں پھول ٹانک رہا ہوں تمہارے جوڑے میں

    تمہاری آنکھ مسرت سے جھکتی جاتی ہے

    نہ جانے آج میں کیا بات کہنے والا ہوں

    زبان خشک ہے آواز رکتی جاتی ہے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    مرے گلے میں تمہاری گداز باہیں ہیں

    تمہارے ہونٹوں پہ میرے لبوں کے سائے ہیں

    مجھے یقیں ہے کہ ہم اب کبھی نہ بچھڑیں گے

    تمہیں گمان کہ ہم مل کے بھی پرائے ہیں

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    مرے پلنگ پہ بکھری ہوئی کتابوں کو

    ادائے عجز و کرم سے اٹھا رہی ہو تم

    سہاگ رات جو ڈھولک پہ گائے جاتے ہیں

    دبے سروں میں وہی گیت گا رہی ہو تم

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    وہ لمحے کتنے دل کش تھے وہ گھڑیاں کتنی پیاری تھیں

    وہ سہرے کتنے نازک تھے وہ لڑیاں کتنی پیاری تھیں

    بستی کی ہر اک شاداب گلی خوابوں کا جزیرہ تھی گویا

    ہر موج نفس ہر موج صبا نغموں کا ذخیرہ تھی گویا

    ناگاہ لہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں

    بارود کی بوجھل بو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں

    تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا

    ہر گاؤں میں وحشت ناچ اٹھی ہر شہر میں جنگل پھیل گیا

    مغرب کے مہذب ملکوں سے کچھ خاکی وردی پوش آئے

    اٹھلاتے ہوئے مغرور آئے لہراتے ہوئے مدہوش آئے

    خاموش زمیں کے سینے میں خیموں کی طنابیں گڑنے لگیں

    مکھن سی ملائم راہوں پر بوٹوں کی خراشیں پڑنے لگیں

    فوجوں کے بھیانک بینڈ تلے چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں

    جیپوں کی سلگتی دھول تلے پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں

    انسان کی قسمت گرنے لگی اجناس کے بھاؤ چڑھنے لگے

    چوپال کی رونق گھٹنے لگی بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے

    بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے

    جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے اس راہ پہ راہی جانے لگے

    ان جانے والے دستوں میں غیرت بھی گئی برنائی بھی

    ماؤں کے جواں بیٹے بھی گئے بہنوں کے چہیتے بھائی بھی

    بستی پہ اداسی چھانے لگی میلوں کی بہاریں ختم ہوئیں

    آموں کی لچکتی شاخوں سے جھولوں کی قطاریں ختم ہوئیں

    دھول اڑنے لگی بازاروں میں بھوک اگنے لگی کھلیانوں میں

    ہر چیز دکانوں سے اٹھ کر روپوش ہوئی تہہ خانوں میں

    بد حال گھروں کی بد حالی بڑھتے بڑھتے جنجال بنی

    مہنگائی بڑھ کر کال بنی ساری بستی کنگال بنی

    چرواہیاں رستہ بھول گئیں پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں

    کتنی ہی کنواری ابلائیں ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں

    افلاس زدہ دہقانوں کے ہل بیل بکے کھلیان بکے

    جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے

    کچھ بھی نہ رہا جب بکنے کو جسموں کی تجارت ہونے لگی

    خلوت میں بھی جو ممنوع تھی وہ جلوت میں جسارت ہونے لگی

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    تم آ رہی ہو سر شام بال بکھرائے

    ہزار گونہ ملامت کا بار اٹھائے ہوئے

    ہوس پرست نگاہوں کی چیرہ دستی سے

    بدن کی جھینپتی عریانیاں چھپائے ہوئے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    میں شہر جا کے ہر اک در پہ جھانک آیا ہوں

    کسی جگہ مری محنت کا مول مل نہ سکا

    ستم گروں کے سیاسی قمار خانے میں

    الم نصیب فراست کا مول مل نہ سکا

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    تمہارے گھر میں قیامت کا شور برپا ہے

    محاذ جنگ سے ہرکارہ تار لایا ہے

    کہ جس کا ذکر تمہیں زندگی سے پیارا تھا

    وہ بھائی نرغہ دشمن میں کام آیا ہے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    ہر ایک گام پہ بد نامیوں کا جمگھٹ ہے

    ہر ایک موڑ پہ رسوائیوں کے میلے ہیں

    نہ دوستی نہ تکلف نہ دلبری نہ خلوص

    کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    وہ رہ گزر جو مرے دل کی طرح سونی ہے

    نہ جانے تم کو کہاں لے کے جانے والی ہے

    تمہیں خرید رہے ہیں ضمیر کے قاتل

    افق پہ خون تمنائے دل کی لالی ہے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے

    چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

    اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں

    سہمی ہوئی دوشیزاؤں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے

    اس شام مجھے معلوم ہوا اس کارگہ زرداری میں

    دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے

    اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے

    ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے

    اس شام مجھے معلوم ہوا جب بھائی جنگ میں کام آئیں

    سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے

    سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے

    چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

    تم آج ہزاروں میل یہاں سے دور کہیں تنہائی میں

    یا بزم طرب آرائی میں

    میرے سپنے بنتی ہوں گی بیٹھی آغوش پرائی میں

    اور میں سینے میں غم لے کر دن رات مشقت کرتا ہوں

    جینے کی خاطر مرتا ہوں

    اپنے فن کو رسوا کر کے اغیار کا دامن بھرتا ہوں

    مجبور ہوں میں مجبور ہو تم مجبور یہ دنیا ساری ہے

    تن کا دکھ من پر بھاری ہے

    اس دور میں جینے کی قیمت یا دار و رسن یا خواری ہے

    میں دار و رسن تک جا نہ سکا تم جہد کی حد تک آ نہ سکیں

    چاہا تو مگر اپنا نہ سکیں

    ہم تو دو ایسی روحیں ہیں جو منزل تسکیں پا نہ سکیں

    جینے کو جئے جاتے ہیں مگر سانسوں میں چتائیں جلتی ہیں

    خاموش وفائیں جلتی ہیں

    سنگین حقائق زاروں میں خوابوں کی ردائیں جلتی ہیں

    اور آج جب ان پیڑوں کے تلے پھر دو سائے لہرائے ہیں

    پھر دو دل ملنے آئے ہیں

    پھر موت کی آندھی اٹھی ہے پھر جنگ کے بادل چھائے ہیں

    میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی اپنی ہی طرح انجام نہ ہو

    ان کا بھی جنوں ناکام نہ ہو

    ان کے بھی مقدر میں لکھی اک خون میں لتھڑی شام نہ ہو

    سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے

    چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

    ہمارا پیار حوادث کی تاب لا نہ سکا

    مگر انہیں تو مرادوں کی رات مل جائے

    ہمیں تو کشمکش مرگ بے اماں ہی ملی

    انہیں تو جھومتی گاتی حیات مل جائے

    بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا

    کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں

    بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا

    کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں

    بہت دنوں سے جوانی کے خواب ویراں ہیں

    بہت دنوں سے ستم دیدہ شاہراہوں میں

    نگار زیست کی عصمت پناہ ڈھونڈھتی ہے

    چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے

    کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں

    ہمارا راز ہمارا نہیں سبھی کا ہے

    چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کر لیں

    چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں

    کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے

    جسے لہو کے سوا کوئی رنگ راس نہ آئے

    ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے

    کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا

    تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی

    ہر ایک موج ہوا رخ بدل کے جھپٹے گی

    ہر ایک شاخ رگ سنگ ہوتی جائے گی

    اٹھو کہ آج ہر اک جنگ جو سے یہ کہہ دیں

    کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے

    ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں

    ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے

    کہو کہ اب کوئی تاجر ادھر کا رخ نہ کرے

    اب اس جگہ کوئی کنواری نہ بیچی جائے گی

    یہ کھیت جاگ پڑے اٹھ کھڑی ہوئیں فصلیں

    اب اس جگہ کوئی کیاری نہ بیچی جائے گی

    یہ سر زمین ہے گوتم کی اور نانک کی

    اس ارض پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی

    ہمارا خون امانت ہے نسل نو کے لئے

    ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی

    کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے

    تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں

    جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے

    زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں

    گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار

    عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

    گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار

    عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

    مأخذ:

    Kulliyat-e-Sahir Ludhianvi (Pg. 170)

    • مصنف: SAHIR LUDHIANVI
      • ناشر: Farid Book Depot (Pvt.) Ltd

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے