Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سامان دیوالی کا

نظیر اکبرآبادی

سامان دیوالی کا

نظیر اکبرآبادی

MORE BYنظیر اکبرآبادی

    ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا

    ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا

    سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دوالی کا

    کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا

    عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا

    جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار

    کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار

    کھلونے کھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار

    ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار

    سبھوں کو فکر ہے اب جا بجا دوالی کا

    مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی

    پکارتے ہیں کہ ''لا لا! دوالی ہے آئی''

    بتاشے لے کوئی برفی کسی نے تلوائی

    کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی

    گویا انہوں کے واں راج آ گیا دوالی کا

    صرف حرام کی کوڑی کا جن کا ہے بیوپار

    انہوں نے کھایا ہے اس دن کے واسطے ہے ادھار

    کہے ہے ہنس کے قرض خواہ سے ہر اک اک بار

    دوالی آئی ہے سب دے دلائیں گے اے یار

    خدا کے فضل سے ہے آسرا دوالی کا

    مکان لیپ کے ٹھلیا جو کوری رکھوائی

    جلا چراغ کو کوڑی وہ جلد جھنکائی

    اصل جواری تھے ان میں تو جان سی آئی

    خوشی سے کود اچھل کر پکارے او بھائی

    شگون پہلے کرو تم ذرا دوالی کا

    شگن کی بازی لگی پہلے یار گنڈے کی

    پھر اس سے بڑھ کے لگی تین چار گنڈے کی

    پھری جو ایسی طرح بار بار گنڈے کی

    تو آگے لگنے لگی پھر ہزار گنڈے کی

    کمال نرخ ہے پھر تو لگا دوالی کا

    کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری

    جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری

    کسی نے چیز کسی کسی کی چرا چھپا ہاری

    کسی نے گٹھری پڑوسن کی اپنی لا ہاری

    یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دوالی کا

    کسی کو داؤ پہ لانکّی موٹھ نے مارا

    کسی کے گھر پہ دھرا سوختہ نے انگارا

    کسی کو نرد نے چوپڑ کے کر دیا زارا

    لنگوٹی باندھ کے بیٹھا ازار تک ہارا

    یہ شور آ کے مچا جا بجا دوالی کا

    کسی کی جورو کہے ہے پکار اے پھڑوے

    بہو کی نوگرے بیٹے کے ہاتھ کے کھڑوے

    جو گھر میں آوے تو سب مل کیے ہیں سو گھڑوے

    نکل تو یاں سے ترا کام یاں نہیں بھڑوے

    خدا نے تجھ کو تو شہدا کیا دوالی کا

    وہ اس کے جھونٹے پکڑ کر کہے ہے ماروں گا

    ترا جو گہنہ ہے سب تار تار اتاروں گا

    حویلی اپنی تو اک داؤ پر میں ہاروں گا

    یہ سب تو ہارا ہوں خندی تجھ بھی ہاروں گا

    چڑھا ہے مجھ کو بھی اب تو نشا دوالی کا

    تجھے خبر نہیں خندی یہ لت وہ پیاری ہے

    کسی زمانے میں آگے ہوا جو جواری ہے

    تو اس نے جورو کی نتھ اور ازار اتاری ہے

    ازار کیا ہے کہ جورو تلک بھی ہاری ہے

    سنا یہ تو نے نہیں ماجرا دوالی کا

    جہاں میں یہ جو دیوالی کی سیر ہوتی ہے

    تو زر سے ہوتی ہے اور زر بغیر ہوتی ہے

    جو ہارے ان پہ خرابی کی فیر ہوتی ہے

    اور ان میں آن کے جن جن کی خیر ہوتی ہے

    تو آڑے آتا ہے ان کے دیا دوالی کا

    یہ باتیں سچ ہیں نہ جھوٹ ان کو جانیو یارو!

    نصیحتیں ہیں انہیں دل سے مانیو یارو!

    جہاں کو جاؤ یہ قصہ بکھانیو یارو!

    جو جواری ہو نہ برا اس کا مانیو یارو

    نظیرؔ آپ بھی ہے جواریا دیوالی کا

    مأخذ:

    Kulliyat-e-Nazeer Akbarabadi (Pg. 158)

    • مصنف: Nazeer Akbarabadi
      • اشاعت: 1922
      • ناشر: Munshi Nolkishore, Lucknow
      • سن اشاعت: 1922

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے