aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہر نامہ

احمد فراز

شہر نامہ

احمد فراز

MORE BYاحمد فراز

    وہ عجیب صبح بہار تھی

    کہ سحر سے نوحہ گری رہی

    مری بستیاں تھیں دھواں دھواں

    مرے گھر میں آگ بھری رہی

    مرے راستے تھے لہو لہو

    مرا قریہ قریہ فگار تھا

    یہ کف ہوا پہ زمین تھی

    وہ فلک کی مشت غبار تھا

    کئی آبشار سے جسم تھے

    کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے

    کئی خوش جمال طلسم تھے

    جنہیں گرد باد نگل گئے

    کوئی خواب نوک سناں پہ تھا

    کوئی آرزو تہ سنگ تھی

    کوئی پھول آبلہ آبلہ

    کوئی شاخ مرقد رنگ تھی

    کئی لاپتہ میری لعبتیں

    جو کسی طرف کی نہ ہو سکیں

    جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں

    جو نہ جانے والوں کو رو سکیں

    کئی تار ساز سے کٹ گئے

    کسی مطربہ کی رگ گلو

    مئے آتشیں میں وہ زہر تھا

    کہ تڑخ گئے قدح و سبو

    کوئی نے نواز تھا دم بخود

    کہ نفس سے حدت جاں گئی

    کوئی سر بہ زانو تھا باربدؔ

    کہ صدائے دوست کہاں گئی

    کہیں نغمگی میں وہ بین تھے

    کہ سماعتوں نے سنے نہیں

    کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے

    کہ انیسؔ نے بھی کہے نہیں

    یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں

    یہاں موتیوں کی دکان تھی

    یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں

    یہاں بادلوں کی اڑان تھی

    جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر

    یہاں قمقموں سے جوان تھے

    جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن

    یہاں جگنوؤں کے مکان تھے

    کہیں آبگینہ خیال کا

    کہ جو کرب ضبط سے چور تھا

    کہیں آئینہ کسی یاد کا

    کہ جو عکس یار سے دور تھا

    مرے بسملوں کی قناعتیں

    جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے

    مرے آہوؤں کا چکیدہ خوں

    جو شکاریوں کو سراغ دے

    مری عدل گاہوں کی مصلحت

    مرے قاتلوں کی وکیل ہے

    مرے خانقاہوں کی منزلت

    مری بزدلی کی دلیل ہے

    مرے اہل حرف و سخن سرا

    جو گداگروں میں بدل گئے

    مرے ہم سفیر تھے حیلہ جو

    کسی اور سمت نکل گئے

    کئی فاختاؤں کی چال میں

    مجھے کرگسوں کا چلن لگا

    کئی چاند بھی تھے سیاہ رو

    کئی سورجوں کو گہن لگا

    کوئی تاجر حسب و نسب

    کوئی دیں فروش قدیم ہے

    یہاں کفش بر بھی امام ہیں

    یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے

    کوئی فکر مند کلاہ کا

    کوئی دعوے دار قبا کا ہے

    وہی اہل دل بھی ہیں زیب تن

    جو لباس اہل ریا کا ہے

    مرے پاسباں مرے نقب زن

    مرا ملک ملک یتیم ہے

    مرا دیس میر سپاہ کا

    مرا شہر مال غنیم ہے

    جو روش ہے صاحب تخت کی

    سو مصاحبوں کا طریق ہے

    یہاں کوتوال بھی دزد شب

    یہاں شیخ دیں بھی فریق ہے

    یہاں سب کے نرخ جدا جدا

    اسے مول لو اسے تول دو

    جو طلب کرے کوئی خوں بہا

    تو دہن خزانے کا کھول دو

    وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب

    اسے قمچیوں سے زبوں کرو

    جہاں خلق شہر ہو مشتعل

    اسے گولیوں سے نگوں کرو

    مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے

    اسی قحط زار دمشق میں

    جنہیں کوئے یار عزیز تھا

    جو کھڑے تھے مقتل عشق میں

    کوئی بانکپن میں تھا کوہ کن

    تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی

    جو صراحیاں لیے جسم کی

    مئے ناب خوں سے بھری ہوئی

    تھے صدا بہ لب کہ پیو پیو

    یہ سبیل اہل صفا کی ہے

    یہ نشید نوش بدن کرو

    یہ کشید تاک وفا کی ہے

    کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں

    جو پکارتا کہ ادھر ادھر

    سبھی مفت بر تھے تماش بیں

    کوئی بزم میں کوئی بام پر

    سبھی بے حسی کے خمار میں

    سبھی اپنے حال میں مست تھے

    سبھی رہروان رہ عدم

    مگر اپنے زعم میں ہست تھے

    سو لہو کے جام انڈیل کر

    مرے جاں فروش چلے گئے

    وہ سکوت تھا سر میکدہ

    کہ وہ نم بدوش چلے گئے

    کوئی محبسوں میں رسن بہ پا

    کوئی مقتلوں میں دریدہ تن

    نہ کسی کے ہاتھ میں شاخ نے

    نہ کسی کے لب پہ گل سخن

    اسی عرصۂ شب تار میں

    یوں ہی ایک عمر گزر گئی

    کبھی روز وصل بھی دیکھتے

    یہ جو آرزو تھی وہ مر گئی

    یہاں روز حشر بپا ہوئے

    پہ کوئی بھی روز جزا نہیں

    یہاں زندگی بھی عذاب ہے

    یہاں موت میں بھی شفا نہیں

    مأخذ:

    کلیات احمد فراز (Pg. 681)

    • مصنف: احمد فراز
      • ناشر: فرید بک ڈپو (پرائیوٹ) لمیٹڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے