aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہ دولہ چوہا

ساقی فاروقی

شاہ دولہ چوہا

ساقی فاروقی

MORE BYساقی فاروقی

    میں تھا ماندہ اداس

    مقبرے کے پاس

    ایک سبز حجلے میں

    اپنے جمورے کا

    بے چینی سے انتظار کر رہا تھا

    مرجھائی ہوئی دھوپ

    کاہی دولا شاہی

    خانقاہ کی زرنگاہ

    سیڑھیوں سے اترتی

    دالان پار کرتی

    حجرے کی سنہری جالیوں سے

    چھن چھن گزرتی

    مرمریں فرش پر

    ٹوٹے ہوئے چتکبرے پروں کی طرح

    ہلکان پڑی ہوئی تھی

    ایک کونے میں

    ہمالیائی سلک روٹ سے

    اسمگل کیے ہوئے

    بچیوں لڑکیوں عورتوں والے

    چینی فولادی جوتے

    پلوٹھی کے لڑکوں کے انتظار میں

    پگھل پگھل کے

    چھوٹی چھوٹی الٹے کٹوروں جیسی

    بےپھندے کی آہنی

    ترکی ٹوپیوں بنے بیٹھے تھے

    میں چوریاں کرتا

    سسکاریاں بھرتا

    کراچی سے ملتان

    ملتان سے لاہور

    لاہور سے گجرات پہنچا تھا

    طرح طرح کے گھناؤنے پیشوں

    اور گھنے اندیشوں سے

    لڑ بھڑ کے

    فقیری اختیار کی تھی

    یہی قومی مزاج

    اور خطے کا رواج تھا

    مگر دس برس تک

    بھیک مانگ مانگ کے

    تھک چکا تھا

    ہمہ وقت منہ کھلا رکھنے

    اور ہاتھ پھیلانے سے

    انگلیاں اور ہتھیلیاں

    دکھنے لگی تھیں

    جبڑے کراہنے لگے تھے

    ایک دور اندیش

    پرنائے درویش کے

    بر وقت مشورے پر

    ادھر کا سفر اختیار کیا تھا

    پانچ ہزار کی پوٹلی

    خشخشی داڑھی والے

    سجادہ نشین کے حوالے کر دی تھی

    وہ ایک ناریکی سر والے

    چودہ پندرہ برس کے ہنس مکھ

    عجوبے کے ہم راہ

    بغلی تہہ خانے میں

    یہ کہہ کر اتر گئے تھے

    آیا ابھی آیا

    میں چڑھی دوپہر کا سایہ تھا

    اب شام تلملا رہی تھی

    سراسیمہ خیالوں میں

    وسوسوں کے سنپولیے کلبلا رہے تھے

    اچانک آواز آئی

    صاحب ڈلیوری تیار ہے

    تو کیا دیکھتا ہوں

    بچارے مجاور کے

    شانوں سے اکھڑے ہوئے

    اور ٹوٹے ہوئے ہاتھ

    مضبوط رسی سے

    ننگی کمر پر بندھے ہیں

    دیدوں پہ پٹی ہے

    ہونٹوں پہ ٹانکے ہیں

    گردن میں پٹا ہے

    پٹے میں چمڑے کا

    چوڑا سا تسمہ پڑا ہے

    رضاکار چوہے نے

    بلے کو میرے حوالے کیا

    اور چپ چاپ آگے روانہ ہوا

    اس کی جلتی ہوئی منتقم سرخ آنکھوں میں

    صدیوں کے سوگ

    جگر جگر جگمگا رہے تھے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے