aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ورثہ

MORE BYساحر لدھیانوی

    یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

    سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

    کتنے ذہنوں کا لہو کتنی نگاہوں کا عرق

    کتنے چہروں کی حیا کتنی جبینوں کی شفق

    خاک کی نذر ہوئی تب یہ نظارے بکھرے

    پتھروں سے یہ تراشے ہوئے اصنام جواں

    یہ صداؤں کے خم و پیچ یہ رنگوں کی زباں

    چمنیوں سے یہ نکلتا ہوا پر پیچ دھواں

    تیری تخلیق نہیں ہے مری تخلیق نہیں

    ہم اگر ضد بھی کریں اس پہ تو تصدیق نہیں

    علم سولی پہ چڑھا تب کہیں تخمینہ بنا

    زہر صدیوں نے پیا تب کہیں نوشینہ بنا

    سینکڑوں پاؤں کٹے تب کہیں اک زینہ بنا

    تیرے قدموں کے تلے یا مرے قدموں کے تلے

    نوع انساں کے شب و روز کی تقدیر نہیں

    یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

    سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

    تیرا غم کچھ بھی سہی میرا الم کچھ بھی سہی

    اہل ثروت کی سیاست کا ستم کچھ بھی سہی

    کل کی نسلیں بھی کوئی چیز ہیں ہم کچھ بھی سہی

    ان کا ورثہ ہوں کھنڈر یہ ستم ایجاد نہ کر

    تیری تخلیق نہیں تو اسے برباد نہ کر

    جس سے دہقان کو روزی نہیں ملنے پاتی

    میں نہ دوں گا تجھے وہ کھیت جلانے کا سبق

    فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے

    فصل کی خاک سے کیا مانگے گا جمہور کا حق

    پل سلامت ہے تو تو پار اتر سکتا ہے

    چاہے تبلیغ بغاوت کے لیے ہی اترے

    ورنہ غالبؔ کی زباں میں مرے ہمدم مرے دوست

    دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

    سوچ لے پھر کوئی تعمیر گرانے جانا

    تیری تعمیر سے ہے جنگ کہ تخریب سے جنگ

    اہل منصب ہیں غلط کار تو ان کے منصب

    تیری تائید سے ڈھالے گئے تو مجرم ہے

    میری تائید سے ڈھالے گئے میں مجرم ہوں

    پٹریاں ریل کی سڑکوں کی بسیں فون کے تار

    تیری اور میری خطاؤں کی سزا کیوں بھگتیں

    ان پہ کیوں ظلم ہو جن کی کوئی تقصیر نہیں

    یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

    سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

    تیرا شکوہ بھی بجا میری شکایت بھی درست

    رنگ ماحول بدلنے کی ضرورت بھی درست

    کون کہتا ہے کہ حالات پہ تنقید نہ کر

    حکمرانوں کے غلط دعووں کی تردید نہ کر

    تجھ کو اظہار خیالات کا حق حاصل ہے

    اور یہ حق کوئی تاریخ کی خیرات نہیں

    تیرے اور میرے رفیقوں نے لہو دے دے کر

    ظلم کی خاک میں اس حق کا شجر بویا تھا

    سالہا سال میں جو برگ و ثمر لایا ہے

    اپنا حق مانگ مگر ان کے تعاون سے نہ مانگ

    جو ترے حق کا تصور ہی فنا کر ڈالیں

    ہاتھ اٹھا اپنے مگر ان کے جلو میں نہ اٹھا

    جو ترے ہاتھ ترے تن سے جدا کر ڈالیں

    خواب آزادی انساں کی یہ تعبیر نہیں

    یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

    سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

    مأخذ:

    Kulliyat-e-Sahir Ludhianvi (Pg. 251)

    • مصنف: SAHIR LUDHIANVI
      • ناشر: Farid Book Depot (Pvt.) Ltd

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے