Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asim nadeem Asi's Photo'

عاصم ندیم عاصی

1981 | گوجر خان, پاکستان

عاصم ندیم عاصی کے اشعار

418
Favorite

باعتبار

حسین آج بھی قائم ہے اپنی صورت پر

یزید چہرے بدلتا ہے ہر زمانے میں

دوست داری کے سلیقے سے بہت واقف ہوں

اب مجھے ہاتھ ملانے کا ہنر آتا ہے

اک یقیں پرور گماں اور اک حیات آمیز خواب

جیسے کوئی آئے گا اور الجھنیں لے جائے گا

تجھے چھو کر مجھے کیسا لگے گا

ہوا کے ہاتھ بن کر سوچتا ہوں

تپتے صحرا خون پئیں گے چڑھتا سورج ڈھل جائے گا

بیٹھی ہوئی ہے جس میں سکینہ آج وہ خیمہ جل جائے گا

آگ پانی بھی کبھی ایک ہوئے دیکھے ہیں

آتش ضبط لہو میں بھی نہیں حل ہوگی

ہمارا جسم تو پھر جسم ٹھہرا

دراڑیں عیب ہیں دیوار میں بھی

تم ان کے ہات پہ سکے نہیں دیے رکھو

یہ اندھے لوگ ہیں اور روشنی کے بھوکے ہیں

زمیں کے مالک و مختار کی سنت سمجھ کر

کھڑاویں پہن لیں اور بکریاں رکھی ہوئی ہیں

مرے خمیر سے یہ کائنات اٹھاتے ہوئے

اسے غرور بہت تھا مجھے بناتے ہوئے

ہماری کاروباری زندگی کا کل اثاثہ

یہ کچھ سکے ہیں اور کچھ پرچیاں رکھی ہوئی ہیں

جل رہا ہے جو لب بام ابھی ایک چراغ

بجھ گیا یہ بھی تو پھر رات مکمل ہوگی

وہ کیا کہ جس کو میسر ہے مستقل ہونا

سرشت زخم میں شامل ہے مندمل ہونا

اجالوں کے کسی اوتار ہی سے جا کے پوچھو

جسے سورج کہا جاتا ہے وہ سورج کہاں ہے

میں نے اس حد سے گزرنے کی بہت کوشش کی

جس جگہ رنگ سے تصویر الگ ہوتی ہے

اجاڑ رات میں رہ کر ہوا کے ہوتے ہوئے

کوئی تو ہے جو چراغوں کی بات کرتا ہے

وہی جن چادروں کو دشت میں کھینچا گیا تھا

تبرک میں یہ ان کی دھجیاں رکھی ہوئی ہیں

کوشش کا اک طویل سفر تھا اور اس کے بعد

پانی کی ایک بوند سے پتھر بھی پھٹ گئے

جھاڑ کر ہم ریت اپنے پاؤں سے

بوٹیاں چنتے رہے صحراؤں سے

Recitation

بولیے