عاصم ندیم عاصی کے اشعار
حسین آج بھی قائم ہے اپنی صورت پر
یزید چہرے بدلتا ہے ہر زمانے میں
دوست داری کے سلیقے سے بہت واقف ہوں
اب مجھے ہاتھ ملانے کا ہنر آتا ہے
اک یقیں پرور گماں اور اک حیات آمیز خواب
جیسے کوئی آئے گا اور الجھنیں لے جائے گا
تجھے چھو کر مجھے کیسا لگے گا
ہوا کے ہاتھ بن کر سوچتا ہوں
تپتے صحرا خون پئیں گے چڑھتا سورج ڈھل جائے گا
بیٹھی ہوئی ہے جس میں سکینہ آج وہ خیمہ جل جائے گا
آگ پانی بھی کبھی ایک ہوئے دیکھے ہیں
آتش ضبط لہو میں بھی نہیں حل ہوگی
ہمارا جسم تو پھر جسم ٹھہرا
دراڑیں عیب ہیں دیوار میں بھی
تم ان کے ہات پہ سکے نہیں دیے رکھو
یہ اندھے لوگ ہیں اور روشنی کے بھوکے ہیں
زمیں کے مالک و مختار کی سنت سمجھ کر
کھڑاویں پہن لیں اور بکریاں رکھی ہوئی ہیں
مرے خمیر سے یہ کائنات اٹھاتے ہوئے
اسے غرور بہت تھا مجھے بناتے ہوئے
ہماری کاروباری زندگی کا کل اثاثہ
یہ کچھ سکے ہیں اور کچھ پرچیاں رکھی ہوئی ہیں
جل رہا ہے جو لب بام ابھی ایک چراغ
بجھ گیا یہ بھی تو پھر رات مکمل ہوگی
وہ کیا کہ جس کو میسر ہے مستقل ہونا
سرشت زخم میں شامل ہے مندمل ہونا
اجالوں کے کسی اوتار ہی سے جا کے پوچھو
جسے سورج کہا جاتا ہے وہ سورج کہاں ہے
میں نے اس حد سے گزرنے کی بہت کوشش کی
جس جگہ رنگ سے تصویر الگ ہوتی ہے
اجاڑ رات میں رہ کر ہوا کے ہوتے ہوئے
کوئی تو ہے جو چراغوں کی بات کرتا ہے
وہی جن چادروں کو دشت میں کھینچا گیا تھا
تبرک میں یہ ان کی دھجیاں رکھی ہوئی ہیں
کوشش کا اک طویل سفر تھا اور اس کے بعد
پانی کی ایک بوند سے پتھر بھی پھٹ گئے
جھاڑ کر ہم ریت اپنے پاؤں سے
بوٹیاں چنتے رہے صحراؤں سے