فارحہ ارشد کے افسانے
آنکھ کی پتلی کا تماشا
’’مجھے اس سے دس گھنٹے محبت ہوئی تھی صرف دس گھنٹے۔۔۔ اس کے بعد میرا دل خالی ہو گیا۔‘‘ وہ خالی نظروں سے دور کہیں ان دیکھے منظروں میں کھوئی کہہ رہی تھی۔ میں نے کچھ حیرانی اور قدرے دلچسپی سے اسے دیکھا اور بنا ٹوکے اسے کہنے دیا جو نجانے کب سے وہ کہنا
میری ہم رقص
یہ ایک عریاں شام تھی۔ جس کے برہنہ سینے پہ وہ رقصاں تھی اور رقص بھی ایسا کہ نرت نرت پہ وقت ٹھہر کر اس کے نازواندازپہ نچھاور ہونے لگا۔ ڈھولک اور طبلے والےنئی سے نئی گت پیش کر رہے تھے۔ بھدے نقوش مگر سریلی آواز والی مغنیہ نے تان باندھی پریشاں ہوکے
زمیں زادہ
وہ جس کے سر سے جنگلی کبوتروں کی خوشبو آتی تھی، اسے کافور کی بو نے بد حواس کردیا۔ اس بُو کے ادراک نے اسے انکار کا حرف سکھایا اور وہ رات کے اندھیرے میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ کتنی کھائیوں میں گرا، کتنی چوٹیں کھائیں۔ کیسے زخموں نے نڈھال کیا، یہ ایک خوفناک
ننگے ہاتھ
اس روزخاندان میں طوفان آ گیا جب اس نے چچا کو اپنے ننگے ہاتھ سے چھو لیا۔ دالانوں اور بالکنیوں سے رنگین کڑھائیوں اور چمکتے ستاروں سے آراستہ دستانوں والے جانے کتنے ہاتھ برآمد ہوئے اور اسے گھسیٹتے ہوئے تاریکی میں گم ہو گئے۔ 'خدایا! مجھے ہمت دے میں
اماں ھو مونکھے کاری کرے ماریندا
جانے کب اسے یہ لگنے لگا کہ کوئی اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے اس کے ساتھ سائے کی طرح جڑا رہتا ہے۔ پانی بھرنے کے لئے مٹکا سر پہ رکھے وہ سہج سہج کر یوں زمیں پہ پاؤں دھرتی گویا انڈوں پہ چل رہی ہو۔ من کے بھیتر کیا چل رہا تھا وہ تو خود بھی بڑی بے خبر تھی۔
توبہ سے ذرا پہلے
"مجھے تم سے نفرت ہے‘‘۔۔۔ ایک کردار نے دوسرے سے کہا اور اس نے یوں اسے مڑ کر دیکھا کہ وہ خود بھی ایک لمحے کو ساکت ہو گیا بالکل اس کی نظر کی طرح ٹھنڈا، یخ، ساکت۔ "تو گویا محبت نہ ہوئی کوئی تھیٹر پلے ہو گیا۔ چلیے جی یہ سین ختم۔۔۔ اٹھائیے کرسی، میز اور