فکر تونسوی کے طنز و مزاح
کچھ سوال، کچھ جواب
سوال، ’’سوشلزم کے نعرے کی کتنی اہمیت ہے؟‘‘ جواب، ’’امیروں کی ڈائننگ ٹیبل کے ایک لقمے کی!‘‘ سوال، ’’وہ لوگ کہاں گئے جو کہا کرتے تھے ملک میں انقلاب لائیں گے۔‘‘ جواب، ’’وہ مندرجہ ذیل مقامات پر مل جائیں گے، (۱) پبلک پارک میں گلی سڑی مونگ پھلیاں
لغات فکری
الیکشن۔۔۔ ایک دنگل جو ووٹروں اور لیڈروں کے درمیان ہوتا ہے اور جس میں لیڈر جیت جاتے ہیں ووٹر ہار جاتے ہیں۔ الیکشن پٹیشن۔۔۔ ایک کھمبا جسے ہاری ہوئی بلی نوچتی ہے۔ ووٹ۔۔۔ چیونٹی کے پر، جو برسات کے موسم میں نکل آتے ہیں۔ ووٹر۔۔۔ آنکھ سے گر کر مٹی
اور سائیں بابا نے کہا
منہ مانگی موت ایک نحیف و نزار بوڑھا جھلنگی چارپائی پر پڑا کراہ رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا، ’’آہ! نہ جانے موت کب آئے گی؟‘‘ اتنے میں موت آگئی اور بولی، ’’بابا میں آگئی ہوں!‘‘ بوڑھا ناراض ہوکر بولا، ’’بڑی بےوقوف ہو۔ میں نے تو اپنے لڑکے کو بلایا تھا کہ
میر بیمار ہوئے
میں بے حد پریشان بلکہ شرمندہ تھا۔ شرمندگی کا باعث میرا نصیب تھا کہ مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی بیماری آتی وہ نزلہ زکام میں بدل جاتی۔ زیادہ سے زیادہ سر کا درد، پیٹ کا درد یا کوئی پھوڑا ابھرتا اور مجھے جُل دے کر نو دو گیارہ
بیوی کے ہجر میں
اچانک میری بیوی نے اعلان کیا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے میکے جارہی ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی بار کہہ چکی تھی کہ اب میں سسرال کو میکہ بھی سمجھتی ہوں اور ادھر میں کئی برس سے اصرار کر رہا تھا کہ میں تمہارے ہجر کی لذت اٹھانا چاہتا ہوں۔ اس لیے تم کہیں دفع
گمشدہ کی تلاش
یہ اشتہار میں اپنے گم شدہ بھائی چنتا منی کے متعلق دے رہا ہوں۔ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی گم ہوگئے تھے، لیکن اس وقت میں نے اشتہار نہیں دیا تھا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ موصوف خوددار آدمی ہے، اس لیے اس نے ضرور کنوئیں میں چھلانگ لگادی ہوگی۔ لیکن چھٹے دن وہ
محلہ سدھار کمیٹی
بھائیو، بہنو! تھوڑی سی والداؤ اور بہت سے بچّو! آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ مجھے محلہ سدھار کمیٹی کی اس سالانہ میٹنگ کا مہمان خصوصی بنادیا۔ میں مہمان خصوصی بننے سے ہمیشہ بدکتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی عزت ہے جو انسان کو غیرفطری بنادیتی ہے۔ اور اس سے راست
ماڈرن ہتوپدیش
ہریجنوں کا تھانے دار ہریجن خاکروبوں کی ہنگامی میٹنگ میں ہریجن لیڈر غصے کے مارے جھاگ اڑاتے ہوئے بول رہاتھا، ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ اس بددماغ تھانے دار کا خون پی جاؤں گا، جس نے ہمارے ہریجن خاکروبوں کی توہین کی ہے۔ تم مجھے آگیا دے دو تو میں اس کا سر کاٹ کر
دلی جو ایک شہر ہے
دہلی کا آواگون کہتے ہیں دہلی کئی بار اجڑی اور کئی بار آباد ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے ک دہلی کو اجڑنے اور آباد ہونے کا پرانا چسکا ہے۔ وہ اجڑنے کے لیے آباد ہوتی ہے اور آباد ہونے کے لیے اجڑتی ہے۔ یعنی آواگون کی تھیوری میں یقین رکھتی ہے۔ بار بار جنم
میں مالک مکان بنا
اور آخر بیوی کے اصرار پر میں نے وہ ڈیڑھ کمرہ کرائے پر اٹھادیا۔ اس سے اگرچہ خاندان کی روایت ٹوٹ گئی لیکن بیوی نے نئی روایت قائم کردی۔ شادی کے بعد خاندان کی حیثیت بیوی کے مقابلے پر سیکنڈری ہوجاتی ہے۔ یہ ڈیڑھ کمرہ میری مناسب ضروریات سے زیادہ تھا۔ زیادہ