امام بخش ناسخ کے اشعار
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم
جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم
جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے
جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے
دریائے حسن اور بھی دو ہاتھ بڑھ گیا
انگڑائی اس نے نشے میں لی جب اٹھا کے ہاتھ
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں
غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے
ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ
معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخؔ
ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ
-
موضوع : دنیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
نام لے لے کر ترا راتوں کو چلاتا ہوں میں
اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
اور ہی لایا فراق یار رنگ
اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا
زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل
تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی
-
موضوع : زلف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کس طرح چھوڑوں یکایک تیری زلفوں کا خیال
ایک مدت کے یہ کالے ناگ ہیں پالے ہوئے
فرقت یار میں انسان ہوں میں یا کہ سحاب
ہر برس آ کے رلا جاتی ہے برسات مجھے
وہ نظر آتا ہے مجھ کو میں نظر آتا نہیں
خوب کرتا ہوں اندھیرے میں نظارے رات کو
کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج
سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ
آتی جاتی ہے جا بہ جا بدلی
ساقیا جلد آ ہوا بدلی
رات دن ناقوس کہتے ہیں بآواز بلند
دیر سے بہتر ہے کعبہ گر بتوں میں تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
گو تو ملتا نہیں پر دل کے تقاضے سے ہم
روز ہو آتے ہیں سو بار ترے کوچے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
عین دانائی ہے ناسخؔ عشق میں دیوانگی
آپ سودائی ہیں جو کہتے ہیں سودائی مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل سیہ ہے بال ہیں سب اپنے پیری میں سفید
گھر کے اندر ہے اندھیرا اور باہر چاندنی
دیکھ کر تجھ کو قدم اٹھ نہیں سکتا اپنا
بن گئے صورت دیوار ترے کوچے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جسم ایسا گھل گیا ہے مجھ مریض عشق کا
دیکھ کر کہتے ہیں سب تعویذ ہے بازو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
جس سر زمیں کے ہم ہیں وہاں آسماں نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات
لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
بہ زیر قصر گردوں کیا کوئی آرام سے سوئے
یہ چھت ایسی پرانی ہے کہ شبنم سے ٹپکتی ہے
بہت فریب سے ہم وحشیوں کو وحشت ہے
ہمارے دشت میں ناسخؔ کہیں سراب نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے