Mahboob Khizan's Photo'

محبوب خزاں

1930 - 2013 | کراچی, پاکستان

پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز شاعر

پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز شاعر

محبوب خزاں کے اشعار

6.4K
Favorite

باعتبار

ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے

جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے

ایک محبت کافی ہے

باقی عمر اضافی ہے

تمہیں خیال نہیں کس طرح بتائیں تمہیں

کہ سانس چلتی ہے لیکن اداس چلتی ہے

مری نگاہ میں کچھ اور ڈھونڈنے والے

تری نگاہ میں کچھ اور ڈھونڈتا ہوں میں

دیکھو دنیا ہے دل ہے

اپنی اپنی منزل ہے

دیکھتے ہیں بے نیازانہ گزر سکتے نہیں

کتنے جیتے اس لیے ہوں گے کہ مر سکتے نہیں

اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو

محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

کسے خبر کہ اہل غم سکون کی تلاش میں

شراب کی طرف گئے شراب کے لیے نہیں

کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ

سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر

یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم

شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

الجھتے رہنے میں کچھ بھی نہیں تھکن کے سوا

بہت حقیر ہیں ہم تم بڑی ہے یہ دنیا

کوئی رستہ کہیں جائے تو جانیں

بدلنے کے لیے رستے بہت ہیں

تمہارے واسطے سب کچھ ہے میرے بندہ نواز

مگر یہ شرط کہ پہلے پسند آؤ مجھے

گھبرا نہ ستم سے نہ کرم سے نہ ادا سے

ہر موڑ یہاں راہ دکھانے کے لیے ہے

زخم بگڑے تو بدن کاٹ کے پھینک

ورنہ کانٹا بھی محبت سے نکال

یہ دل نواز اداسی بھری بھری پلکیں

ارے ان آنکھوں میں کیا ہے سنو دکھاؤ مجھے

یہ کیا کہوں کہ مجھ کو کچھ گناہ بھی عزیز ہیں

یہ کیوں کہوں کہ زندگی ثواب کے لیے نہیں

ہوا چلی تو پھر آنکھوں میں آ گئے سب رنگ

مگر وہ سات برس لوٹ کر نہیں آئے

پلٹ گئیں جو نگاہیں انہیں سے شکوہ تھا

سو آج بھی ہے مگر دیر ہو گئی شاید

اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی

اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے

خزاںؔ کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل

کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں

یہ سرد مہر اجالا یہ جیتی جاگتی رات

ترے خیال سے تصویر ماہ جلتی ہے

یہ لوگ سانس بھی لیتے ہیں زندہ بھی ہیں مگر

ہر آن جیسے انہیں روکتی ہے یہ دنیا

ہائے پھر فصل بہار آئی خزاںؔ

کبھی مرنا کبھی جینا ہے محال

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے