مردان علی خاں رانا کے اشعار
فرقت کی رات وصل کی شب کا مزہ ملا
پہروں خیال یار سے باتیں کیا کیے
خوب جینے کا مزا پاتے ہیں ہم
خون دل پیتے ہیں غم کھاتے ہیں ہم
درد سر ہے تیری سب پند و نصیحت ناصح
چھوڑ دے مجھ کو خدا پر نہ کر اب سر خالی
آخر ہوا ہے حشر بپا انتظار میں
صبح شب فراق ہوئی مارواڑ میں
ہمارے مرگ پہ شادی عبث اغیار کرتے ہیں
جہاں سے رفتہ رفتہ ایک دن ان کو بھی جانا ہے
غم سوا عشق کا مآل نہیں
کون دل ہے جو پائمال نہیں
پیار کی باتیں کیجیے صاحب
لطف صحبت کا گفتگو سے ہے
بدن پر بار ہے پھولوں کا سایہ
مرا محبوب ایسا نازنیں ہے
نہ آئی بات تک بھی منہ پہ رعب حسن جاناں سے
ہزاروں سوچ کر مضمون ہم دربار میں آئے
خدا را بہر استقبال جلد اے جان باہر آ
عیادت کو مری جان جہاں تشریف لاتے ہیں
لبوں پہ جان ہے اک دم کا اور میہماں ہے
مریض عشق و محبت کا تیرے حال یہ ہے
ابرو آنچل میں دوپٹے کے چھپانا ہے بجا
ترک کیا میان میں رکھتے نہیں تلواروں کو
نہ نکلی حسرت دل ایک بھی ہزار افسوس
عدم سے آئے تھے کیا کیا ہم آرزو کرتے
ہرجائیوں کے عشق نے کیا کیا کیا ذلیل
رسوا رہے خراب رہے در بدر رہے
خاک بھی لطف زندگی نہ رہا
آرزو جی میں ہو وہ جی نہ رہا
پڑا ہوں میں یہاں اور دل وہیں ہے
الٰہی میں کہیں ہوں وہ کہیں ہے
دنیا میں کوئی عشق سے بد تر نہیں ہے چیز
دل اپنا مفت دیجیے پھر جی سے جائیے
ہر دم دم آخر ہے اجل سر پہ کھڑی ہے
دم بھر بھی ہم اس دم کا بھروسہ نہیں کرتے
یہ رقیبوں کی ہے سخن سازی
بے وفا آپ ہوں خدا نہ کرے
کہنا قاصد کہ اس کے جینے کا
وعدۂ وصل پر مدار ہے آج
دیا وہ جو نہ تھا وہم و گماں میں
بھلا میں اور کیا مانگوں خدا سے
کھو گیا کوئے دلربا میں نظامؔ
لوگ کہتے ہیں مارواڑ میں ہے
تیرے آتے ہی دیکھ راحت جاں
چین ہے صبر ہے قرار ہے آج
نہ پوچھو ہم سفرو مجھ سے ماجرا وطن
وطن ہے مجھ پے فدا اور میں فدائے وطن
رسم الٹی ہے خوب رویوں کی
دوست جس کے بنو وہ دشمن ہے
جو چیز ہے جہان میں وہ بے مثال ہے
ہر فرد خلق وحدت حق پر دلیل ہے
اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے
چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے
ہاتھوں میں نازکی سے سنبھلتی نہیں جو تیغ
ہے اس میں کیا گناہ تیرے جاں نثارؔ کا
کی ریا سے نہ شیخ نے توبہ
مر گیا وہ گناہ گار افسوس
کھینچا ہے عکس قلب کی فوٹوگراف میں
شیشے میں ہے شبیہ پری کوہ قاف میں
ہر دم یہ دعا مانگتے رہتے ہیں خدا سے
اللہ بچائے شب فرقت کی بلا سے
ہو غریبوں کا چاک خاک رفو
تار ہاتھ آئے جب نہ دامن سے
دل کو لگاؤں اور سے میں تم کو چھوڑ دوں
فقرہ ہے یہ رقیب کا اور جھوٹھ بات ہے
ناامید اہل خرابات نہیں رحمت سے
بخش دے گا وہ کریم اپنے گناہ گاروں کو
اشک حسرت دیدۂ دل سے ہیں جاری ان دنوں
کار طوفاں کر رہی ہے اشک باری ان دنوں
تم ہو مجھ سے ہزار مستغنی
دل نہیں میرا یار مستغنی
کیوں کر بڑھاؤں ربط نہ دربان یار سے
آخر کوئی تو ملنے کی تدبیر چاہئے
بدن میں زخم نہیں بدھیاں ہیں پھولوں کی
ہم اپنے دل میں اسی کو بہار جانتے ہیں
تم کو دیوانہ اگر ہم سے ہزاروں ہیں تو خیر
ہم بھی کر لیں گے کوئی تم سا پری رو پیدا
ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
بس یہی موت کا بہانہ ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لے قضا احسان تجھ پر کر چلے
ہم ترے آنے سے پہلے مر چلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں شوق وصل میں کیا ریل پر شتاب آیا
کہ صبح ہند میں تھا شام پنچ آب آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن
وہ ماہ چہرے پہ جب ڈال کر نقاب آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کٹا تھا روز مصیبت خدا خدا کر کے
یہ رات آئی کہ سر پہ مرے عذاب آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس کو دیکھو وو نور کا بقعہ
یہ پرستان ہے کہ لندن ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
راہ الفت میں ملاقات ہوئی کس کس سے
دشت میں قیس ملا کوہ میں فرہاد مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ