قرۃ العین خرم ہاشمی کے افسانے
بارش کے اس پار
کن من کن من برستی بوندیں اسے اچھی لگتیں تھیں مگر۔۔۔! تیز موسلا دھار بارش اسے عجیب سی بے چینی میں مبتلا کر دیتی تھیں۔ وہ ایک توانا مرد تھا۔ باہمت اور جوان۔۔۔! اپنے حوصلوں سے پہاڑ کو مٹی میں بدل دینے والا۔۔۔! وہ آسمان سے برستے پانی سے ڈرتا نہیں
یاد کا بوڑھا شجر
’’ابا میاں کہاں ہیں؟'' صبا نے آہستگی سے پوچھا تھا کیونکہ بڑی بھابھی غضب ناک تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔ ’‘آ گیا تمہیں بڑے میاں کا خیال؟ پتا بھی ہے کہ بڑے میاں پچھلے کئ دنوں سے شدید بیمار ہیں۔ ڈاکڑ نے انھیں مکمل بیڈ ریسٹ بتایا ہے مگر وہ ہیں کہ کچھ سُنتے
لکیریں
اجواد اپنے کو لیگ مبشر سید کے ساتھ باتیں کرتا ہوا وہاں سے گزر رہا تھا۔ اجواد کا تعلق ایک شو آرگنایزر گروپ سے تھا۔ موہنجوڑرو میں انھیں ایک شو آرگنایز کروانا تھا۔ اسی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے کھنڈرات میں عجیب میلہ کا سماں تھا۔ تاریخی ورثہ کو خوبصوتی
رمزمحبت
اس نے ڈاکٹر مارتھا کے کلینک سے باہر نکل کر ایک نظر ہر طرف بچھی برف کی سفید چادر پر ڈالی اور تیز تیز قدم اٹھاتی سڑک پہ چلتے اجنبی ہجو م کا حصہ بن گئی! پردیس کی فضاؤں میں گھلی اجنبیت اور ان سرد ہواؤں میں لپٹا، وجود کو تھپکتا تنہائی کا دکھ۔۔۔ جب اسے
بابا رنگوں والا
وہ ایک خوبصورات شھر تھا رنگوں تتلیوں جگنووؤں سے بھرا ہوا وہاں خونصورات پھول تھے اور ان کی دلفریب خوشبو سے ماحول معطر رہتا تھا۔ عبداللہ کو یاد ہے۔ وہ بہت چھوٹا تھا رنگوں اور تتلیوں کے اسی شہر میں رہتا تھا نام اور جگہ تو اسے یاد نہں تھی۔ مگر آج بڑھاپے