Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saleem Kausar's Photo'

سلیم کوثر

1947 | کراچی, پاکستان

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

سلیم کوثر کے اشعار

19.2K
Favorite

باعتبار

قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں

کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں

کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے

وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے

اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی

ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

ہم نے تو خود سے انتقام لیا

تم نے کیا سوچ کر محبت کی

آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر

ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے

وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ

یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے

پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے

جو لوگ ڈوب گئے کشتیاں بناتے ہوئے

دنیا اچھی بھی نہیں لگتی ہم ایسوں کو سلیمؔ

اور دنیا سے کنارا بھی نہیں ہو سکتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے

کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں

تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے

ہم نے اس بار بھی توہین عدالت نہیں کی

مجھے سنبھالنے میں اتنی احتیاط نہ کر

بکھر نہ جاؤں کہیں میں تری حفاظت میں

تم نے سچ بولنے کی جرأت کی

یہ بھی توہین ہے عدالت کی

دیکھتے کچھ ہیں دکھاتے ہمیں کچھ ہیں کہ یہاں

کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ

بہت دنوں میں کہیں ہجر ماہ و سال کے بعد

رکا ہوا ہے زمانہ ترے وصال کے بعد

یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر

نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے

تمام عمر ستارے تلاش کرتا پھرا

پلٹ کے دیکھا تو مہتاب میرے سامنے تھا

کیا عجب کار تحیر ہے سپرد نار عشق

گھر میں جو تھا بچ گیا اور جو نہیں تھا جل گیا

سلیمؔ اب تک کسی کو بد دعا دی تو نہیں لیکن

ہمیشہ خوش رہے جس نے ہمارا دل دکھایا ہے

کچھ اس طرح سے وہ شامل ہوا کہانی میں

کہ اس کے بعد جو کردار تھا فسانہ ہوا

اے مرے چارہ گر ترے بس میں نہیں معاملہ

صورت حال کے لیے واقف حال چاہئے

خاموش سہی مرکزی کردار تو ہم تھے

پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں

میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں

اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں

محبت اپنے لیے جن کو منتخب کر لے

وہ لوگ مر کے بھی مرتے نہیں محبت میں

سانس لینے سے بھی بھرتا نہیں سینے کا خلا

جانے کیا شے ہے جو بے دخل ہوئی ہے مجھ میں

قدموں میں سائے کی طرح روندے گئے ہیں ہم

ہم سے زیادہ تیرا طلب گار کون ہے

اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں

جو یہاں آباد ہیں ان پر بھی گھر کھلتا نہیں

تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے

پھر پس دیوار زنداں رات بھر روتا ہے کون

یاد کا زخم بھی ہم تجھ کو نہیں دے سکتے

دیکھ کس عالم غربت میں ملے ہیں تجھ سے

اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں ہوگی یعنی

اک دریا میں دوسری بار اترا نہیں جا سکتا

دست دعا کو کاسۂ سائل سمجھتے ہو

تم دوست ہو تو کیوں نہیں مشکل سمجھتے ہو

زوروں پہ سلیمؔ اب کے ہے نفرت کا بہاؤ

جو بچ کے نکل آئے گا تیراک وہی ہے

انتظار اور دستکوں کے درمیاں کٹتی ہے عمر

اتنی آسانی سے تو باب ہنر کھلتا نہیں

سائے گلی میں جاگتے رہتے ہیں رات بھر

تنہائیوں کی اوٹ سے جھانکا نہ کر مجھے

میں جانتا ہوں مکینوں کی خامشی کا سبب

مکاں سے پہلے در و بام سے ملا ہوں میں

ایک طرف ترے حسن کی حیرت ایک طرف دنیا

اور دنیا میں دیر تلک ٹھہرا نہیں جا سکتا

ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا

غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا

بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے

کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا

اہل خرد کو آج بھی اپنے یقین کے لیے

جس کی مثال ہی نہیں اس کی مثال چاہئے

مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

جدائی بھی نہ ہوتی زندگی بھی سہل ہو جاتی

جو ہم اک دوسرے سے مسئلہ تبدیل کر لیتے

میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی

جو نہیں لکھا ابھی اس کی بشارت دوں گا

تو نے دیکھا نہیں اک شخص کے جانے سے سلیمؔ

اس بھرے شہر کی جو شکل ہوئی ہے مجھ میں

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی

تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

کیسے ہنگامۂ فرصت میں ملے ہیں تجھ سے

ہم بھرے شہر کی خلوت میں ملے ہیں تجھ سے

یہ آگ لگنے سے پہلے کی بازگشت ہے جو

بجھانے والوں کو اب تک دھواں بلاتا ہے

میں اسے تجھ سے ملا دیتا مگر دل میرے

میرے کچھ کام نہیں آئے وسائل میرے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے