شاہد احمد دہلوی کے خاکے
منٹو
دبلا ڈیل، سوکھے سوکھے ہاتھ پاؤں، میانہ قد، چمپئی رنگ، بےقرار آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک، کریم کلر کا سوٹ، سرخ چہچہاتی ٹائی، ایک دھان پان سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔ یہ کوئی چوبیس پچیس سال ادھر کا ذکر ہے۔ بڑا بے تکلف، تیز، طرار، چرب زبان۔ بولا: ‘‘میں
میراجی
دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب جی چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہو رات کو فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سو گئے۔ آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے۔ سال میں کئی کئی پھیرے لاہور کے ہو جاتے تھے۔ لاہور ادیبوں کی منڈی
جوش ملیح آبادی: دیدہ و شنیدہ
میرے والد مرحوم کو اردو کی نئی مطبوعات منگانے کا شوق تھا۔ کتابیں اور رسالے چھپتے ہی ان کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے۔ غالباً ۲۵ء یا ۲۶ء کا ذکر ہے کہ نئی کتابوں میں ایک کتاب ‘‘روحِ ادب’’ بھی آئی تھی۔ یہ کتاب اس زمانہ میں شائع ہونے والی کتابوں میں یکسر مختلف
مولوی نذیر احمد دہلوی
میں نے مولوی نذیر احمد صاحب کو پانچ برس کی عمر میں آخری بار دیکھا۔ اس سے پہلے دیکھا تو ضرور ہوگا مگر مجھے بالکل یاد نہیں۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم تین بھائی ابّا کے ساتھ حیدرآباد دکن سے دلّی آئے تھے تو کھاری باؤلی کے مکان میں گئے تھے۔ ڈیوڑھی کے آگے صحن
جگر مرادآبادی
بعض چہرے بڑے دھوکہ باز ہوتے ہیں۔ کالا گھٹا ہوا رنگ، اس میں سفید سفید کوڑیوں کی طرح چمکتی ہوئی آنکھیں، سر پر الجھے ہوئے پٹھے، گول چہرہ، چہرہ کے رقبے کے مقابلے میں ناک کسی قدر چھوٹی اور منہ کسی قدر بڑا، کثرتِ پان خوری کے باعث مُنہ اگالدان، دانت شریفے