سید کامران زبیر کامی کے اشعار
کہاں تک ساتھ دے گی تو ہمارا دشت غربت میں
تجھے اس قید سے اے زندگی آزاد کرتے ہیں
درخشاں چاند سے رخ نے مری ویران آنکھوں میں
بہت سے بھر دئے جگنو چمک ان میں ابھر آئی
فکر جہاں نہیں ہے امید وفا نہیں
جینے کا کوئی بھی تو بہانہ نہیں رہا
سرد موسم جو گزارا تھا دل ویراں نے
بوڑھے برگد نے وہ موسم نہ گزارا ہوگا
گھر کے سناٹے ترے حلقۂ آغوش میں ہوں
مہرباں تو نے مجھے دشت میں جانے نہ دیا
مرہون التفات فراوانیٔ ستم
آشفتہ حال دشت میں لایا گیا مجھے
سب پہ کیفیت عیاں ہوتی نہیں ہے عشق کی
مبتلائے عشق پر کھلتا ہے یہ راز نہاں
میری نسبت سے کرے تجھ کو نہ رسوا دنیا
خوف پلتا رہا کل تجھ سے ملاقات کے بعد
وہ اکثر دیکھتے ہیں بادل نا خواستہ مجھ کو
نصیب دشمناں یارو یہاں تک بات آ پہنچی
آنسو مری آنکھوں سے نکل جاتے ہیں اکثر
وہ دور محبت کبھی بھولا تو نہیں ہوں
اگر ہے جرم تو مجرم ہے دل جرم محبت کا
خمار قید کو ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
دل چٹخ جاتا ہے میرا دیکھتا ہوں خود کو جب
برسر پیکار شیشے میں کھڑے اک شخص سے
پھر سے دنیائے محبت اجڑی
پھر سے اک شعر غزل کا ہوگا
تو جب نہیں تھا سامنے تیرے خیال سے
اے چودھویں کے چاند بہلنا پڑا مجھے