جو عجلت میں کیا ہے کام وہ انسب نہیں ہوتا
جو عجلت میں کیا ہے کام وہ انسب نہیں ہوتا
کوئی یہ بات کیوں کہتا اگر مطلب نہیں ہوتا
ہمارے دور میں ہر کام منصوبے سے ہوتا ہے
جنم ہوتا تھا پہلے حادثہ وہ اب نہیں ہوتا
مہورت دیکھ کر ہم کام سرانجام دیتے ہیں
کہا کس نے ہمارا ماہ در عقرب نہیں ہوتا
کہیں رہ لو نہیں ہوگا کوئی بھی پوچھنے والا
ہمارے شہر بس جاتے ہیں یونہی ڈھب نہیں ہوتا
خدا کی مہربانی سے نظام ملک چلتا ہے
قضیہ بیش و کم کا بھی کہاں اور کب نہیں ہوتا
نہیں ہونے پہ ہوتا ہے سبھی کچھ ملک میں یارو
یہاں داد و ستد کے واسطے منصب نہیں ہوتا
دیانت ہو کہ ایماں ہو یہ فرسودہ تصور ہیں
جہاں دولت کی پوجا ہو وہاں یہ سب نہیں ہوتا
سیاست میں تجارت ہو تو دشمن سے بھی ملتے ہیں
اصولی بے اصولا پن کہیں صاحب نہیں ہوتا
فریب آگہی ہے یاں تصور خیر و شر کا بھی
جہاں ہو فلسفہ غالب وہاں مذہب نہیں ہوتا
گزر جائے جو اچھے سے غنیمت جانئے اس کو
کسی کا مونس و غم خوار شہر شب نہیں ہوتا
ہمارے دیس کا معشوق اس دم ناز کرتا ہے
خلل انداز تنہائی میں کوئی جب نہیں ہوتا
لبوں میں شہد چاہ ناف میں کافور ہوتا ہے
ہمارے دل رباؤں کے چہ غبغب نہیں ہوتا
رمیدہ خوردہ جو ہے تو نشستیں دور ہوتی ہیں
ہمارا لاکھ ہم مکتب ہو ہم مکتب نہیں ہوتا
دکھا کر آگ کاغذ کو ہم اس کے راز پڑھتے ہیں
اگرچہ خط کا مضموں کوئی غیر اغلب نہیں ہوتا
محبت ہم بھی کرتے ہیں محبت وہ بھی کرتا ہے
مگر کیا کیجیے اظہار لب بر لب نہیں ہوتا
اذیت دوش و فردا کی جسے ہر روز رہتی ہے
تو ہم جیسے ملنگوں کا وہ ہم مشرب نہیں ہوتا
برائی پھر نہیں رہتی برائی عام ہونے پر
کسی کو باز خواہی کا اجارہ تب نہیں ہوتا
کہا صہباؔ نے بسم الله مجرہا و مرساہا
مری کشتی کا کیا ہوتا جو حافظ رب نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.