Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پوپھٹے

خدیجہ مستور

پوپھٹے

خدیجہ مستور

MORE BYخدیجہ مستور

    کانپور میں بھی فساد شروع ہوگیا۔

    شہر میں سناٹا طاری ہے۔ گھروں میں ویرانی کا پہرہ ہے، آزادی ملی ہے مگر یہ تم سب ایک دوسرے کو نوچے کیوں کھاتے ہو۔ یہ ’’نمستے‘‘ اور رام رام سے جڑے ہوئے ہاتھوں میں چمکدار چھرے کس نے پکڑا دیے اور تمہارے سلام علیکم میں شیطانی قہقہے کہاں سے سماگئے۔ یہ انسانوں کے جتھے ٹرینوں میں لد لد کر کہاں سے آرہے ہیں۔ یہ کون بھیج رہا ہے؟ میں کس سے پوچھوں کوئی بھی تو نہیں بتاتا۔ مارے خوف کے ہمارے دل ننھی سی فاختہ کی طرح کانپ رہے ہیں۔ فساد بڑھتا جارہا ہے ہماری اماں جانے کیا کیا سوچ رہی ہیں۔ ان کا سوچ بچار ماتھے کی شکنیں بن کر ابھر آیا ہے۔ انھوں نے ہنسنا بولنا چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے شفقت کا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ دوگھنٹہ کا راستہ۔ آج تو میری چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کی ہنسی بھی رخصت ہوگئی ہے۔ امی آج صبح سے کسی گہری سوچ میں غرق ہیں۔ اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ پاکستان بھاگنا پڑے گا۔‘‘ امی شاید اتنے دنوں سے یہی فیصلہ کرنا چاہتی تھیں۔

    ’’یقیناً کانپور میں فساد ہونے کے بعد تو ہم لوگ ذرا بھی محفوظ نہیں۔‘‘ عائشہ باجی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

    ’’اب محفوظ نہ رہنے کا خیال بھی نہ کرنا چاہیے۔‘‘ ہاجرہ دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ملنے لگی۔ شاید اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔

    مگر ہمارے لکھنؤ کے باسی لڑائی جھگڑے سے الگ ہی رہتے ہیں، بڑے خاموش لوگ ہیں اور پھر ہمارا محلہ مشہور مشہور باعزت حکیموں کا محلہ ہے، یہاں بھلا کیا ہوگا؟ میں نے ہاجرہ کی طرف دیکھا اور جیسے وہ چڑچڑا اٹھی تھی۔

    ’’چہ خوب! اور جو سارے ملک میں فساد ہو رہا ہے تو وہ شریفوں سے خالی ہے، کیا ملک کی ساری آبادی کمینوں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا پتہ کہ آج جس محلہ میں ہم بیٹھے ہیں کل یہاں کیا ہو۔‘‘ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور میں کھڑکی سے باہر حکیموں کا خاندانی قبرستان دیکھنے لگی جو دوسروں کو موت کے ہاتھوں سے بچاتے بچاتے آخر خود ہی مرگئے اور اب ان کی سفید سنگ مرمر کی قبروں سے کسی فن کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔

    ’’ہاجرہ تم سمجھتی ہو کہ مسلمانوں کی ساری آبادی پاکستان چلی جائے گی۔ میں تو یہیں رہوں گا۔ آخر ہم کیوں جائیں یہاں ہماری زمینیں ہیں، ہمارا مکان ہے، ہمارے دوست ہیں ہماری تہذیب ہے، کیا ہم اسے چھوڑ دیں، اور سن لو کہ میں تم لوگوں کو بھی نہ جانے دوں گا۔‘‘ مقتدا بھیا بڑے بڑے جوش سے بولے۔

    مقتدا بھیا تم ہو نرے احمق، ابھی کوئی ذرا چھرے کی نوک تمہارے سینے پر رکھ دے تو پھر پوچھوں گی کہ اب کیا ارادے ہیں۔ حضرت لکھنؤ اور کانپور سے فساد کو آنے جانے میں صرف دو گھنٹے لگیں گے۔ سنا آپ نے؟‘‘

    ’’تم سب پھپھوند چل کر رہو، گاؤں میں کچھ بھی نہ ہوگا۔‘‘ مقتدا بھیا کی آوازمیں التجا تھی۔

    ’’پھر وہی بات۔ بھیا تمہارے دماغ میں تو جانے کیا انٹ شنٹ سمایا ہے یعنی کہ پھپھوند میں فساد ہوگا تو تم ہتھیلی لگالوگے؟‘‘

    ’’ہوں، تم خود پاگل ہو۔‘‘ بھیا اٹھ کھڑے ہوئے ان کے چہرے سے کچھ ایسا عزم جھلکتا تھا جیسے وہ واقعی ہمیں نہیں جانے دیں گے۔ میرا جی چاہا کہ بھیا سے پوچھوں کہ کیا واقعی تم ہمیں نہیں جانے دوگے۔ کیا واقعی تم ہمیں فساد کی آگ سے بچائے رکھوگے۔ کیا تم یقین کے ساتھ ذرا سی بھی امید لاسکتے ہو۔ کیا سچ مچ ہم یہاں محفوظ رہیں گے۔ مگر بھیا سے میری آٹھ دس دن سے لڑائی تھی، اس لیے بول چال بند تھی۔ بھیا نے میری طرف دیکھا مگر میں نے منہ پھیر کر سمجھادیا کہ ہماری تمہاری کٹی ہے۔ ہم سے مت بولو ہم تمہاری طرف سے بولنے کو تیار نہیں۔۔۔ بھیا مارے کھسیاہٹ کے زور زور سے ہنسنے لگے۔

    ’’لاحول ولا، کوئی بھی نہیں جائے گا۔ مار کے پھینک دوں گا سب کو۔‘‘ بھیا کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں آنسو آنے لگے مگر وہ زور زور سے ہنسے جارہے تھے۔ میرا جی چاہا کہ بھیا کے کلیجے سے لپٹ جاؤں۔ یہ ہم سے کتنی محبت کرتے ہیں حالانکہ انہیں تو ہم سے نفرت کرنی چاہیے۔ انہیں آخر ہماری جدائی کا کیوں غم ہو۔ زمانے نے ان کے اور ہمارے گھروں کی دوستی کے دیرینہ تعلقات ختم کرانے میں کوئی کسر نہ رکھی تھی۔ وقت کی بے بسی نے ہمیں ان کی سوتیلی بہنیں بنادیا تھا پھر بھی یہ نفرت نہ کرسکے، یہ اس پرانی محبت سے دور نہ بھاگ سکے۔ یہ اپنی ماں بہنوں کے بجائے ہمارے پاس اس طرح رہتے ہیں جیسے وہ سگے بھائی ہوں۔ یہ ہمارے ہر برے وقت پر کام آتے رہے۔ آج بھی جب کہ سارا ملک نفرت کی آگ میں جل رہا ہے تو یہ محبت کی گھنی چھاؤں میں ٹہل رہے ہیں۔

    ’’ذرا سوچو تو مقتدا۔ مرحوم کی یہ نشانیاں ہی میری زندگی ہیں۔ پھر بھلا میں ان کو خطرے میں کیسے ڈالوں۔ بھلا اپنے وطن کو کوئی یوں آسانی سے چھوڑتا ہے۔ بس کل کا خطرہ اتنے دنوں سے نیند حرام کیے ہوئے ہے۔‘‘ امی کی آنکھیں خالی خالی تھیں۔

    ’’کچھ بھی نہ ہوگا خالہ۔‘‘ مقتدا بھیا جانے کیوں پیر پٹختے باہر نکل گئے۔ مقتدا بھیا کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے وہ اپنی محبت کے آگے کچھ سوچتے ہی نہیں۔ صبوحی کے ابا کا خط آیا ہے تو وہ بھی لکھ رہے ہیں کہ تم سب فوراً پاکستان کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اس کے بعد وہ بھی کمپنیوں سے اپنا حساب ختم کرنے کے بعد آجائیں گے۔ زیادہ دیر لگائی تو نکلنا بھی نصیب نہ ہوگا۔ امی نے صبوحی کو اپنے سینے سے لگالیا۔

    نانا میاں بڑی خاموشی سے ہم سب کی باتیں سن رہے تھے اور ان کا رعشہ زدہ ہاتھ بار بار اٹھتا اور پھر گرجاتا۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہ رہے تھے۔

    ’’ابا آپ بھی تو کچھ کہیں۔‘‘ امی نے آخر پوچھ ہی لیا۔ مدت سے نانا میاں گھر کے ہر معاملہ میں الگ تھلگ رہے۔ ضعیفی کی وجہ سے اب وہ اپنی رائے کی کوئی وقعت نہ سمجھتے، جو کچھ ان سے کہا جاتا ہاں میں ہاں ملادیتے۔

    ’’بیٹا لکھنؤ میں تو ہمارے بابا دادا کی قبریں ہیں اور اب میری قبر بھی یہیں بنتی تو اچھا تھا۔ تم مجھے یہیں چھوڑ جاؤ میں اپنے بھتیجوں کے پاس خوشی سے رہوں گا۔‘‘

    ’’تو پھر ابا آپ ہم سب کو اپنے ہاتھ سے مار دیجیے، پرائے ہاتھوں سے کیوں مریں۔‘‘ امی نے بڑی رکھائی سے کہا اور نانامیاں چپ ہوگئے، یعنی وہ جانے پر راضی ہوگئے۔ شام کی سیاہی ہولے ہولے رات میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ہم سب ایک ہی چھت پر لیٹے ہیں۔ قبرستان میں الو جیسے بین کر رہا ہے ہمارے پڑوس میں کامریڈ شکیل، حکیم رفیق حسین صاحب اور ان کی بیوی اور بچوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ان کی آوازوں میں خوف چیخ رہا ہے۔

    عائشہ باجی ننھی منی صبوجی کو سینے سے لگائے اپنے بستر پر لیٹی ہیں۔ مقتدا بھیا اپنے بستر پر بار بار کروٹیں بدل رہے ہیں۔ نانا میاں اونگھ رہے ہیں۔ امی پاندان کھولے کسی گہری فکر میں کھوئی ہوئی ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ ہم آٹھ سال سے اس پیارے مکان میں رہتے ہیں۔ یہیں ہماری افسانہ نگاری کی ابتدا ہوئی ہے، یہیں ہم نے گول کمرے میں غالیچہ پر لیٹ کر افسانے لکھے تھے، اور کل یہ کمرہ ویران ہوجائے گا۔ شاید ہمیشہ کے لیے ہم اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اور پھر مجھے خیال آیا کہ غیرمطبوعہ افسانوں کو سامان کے ساتھ بالکل نہ رکھا جائے کیا پتہ کہ سامان لٹ جائے۔

    ’’ہاجرہ ہم اپنے تازہ افسانے بلاؤزوں میں چھپاکر رکھیں گے کیا پتہ کہ سامان بہ حفاظت پاکستان پہنچے گا بھی یا نہیں؟‘‘

    ’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ ہاجرہ نے سوچتے سوچتے چونک کر کہا۔

    ’’خدا نہ کرے کہ ہمارے سامان لٹے۔‘‘ امی کی آواز میں شک تھا۔

    ’’کیا بکواس ہے کوئی بھی نہیں جائے گا۔‘‘

    ’’تم بھی ساتھ چلے جاؤ مقتدا۔‘‘ سکندر خالہ آہستہ سے بولیں۔

    ’’ہنھ‘‘۔ بھیا نے جیسے پھٹکارا،‘‘ ’’بڑے خوش ہیں آپ سب، جیسے ایک جگہ سے تفریحاً دوسری جگہ جارہی ہیں۔ ارے ایک ملک سے دوسرے ملک جا رہی ہیں۔ بہت لمبا فاصلہ ہے۔‘‘ سب چپ ہوگئے۔ سب کچھ سوچنے لگے لیکن امی نے اس خاموشی کو جلد ہی توڑدیا، وہ ان سے سفر کے متعلق تبادلہ خیال کرنے لگیں۔ کیا کیا ضروری ہے اور کیا کیا نہیں۔۔۔ پروگرام بناتے بناتے سب تھک کر سوگئے مگر مقتدا بھیا کے پاؤں آہستہ آہستہ ہل رہے ہیں اور میں دیکھ رہی ہوں چاند آہستہ آہستہ جیسے وسط آسمان پر آگیا ہے۔ مگر وہ سیاہی کا گولہ ہے جس سے محبت اور سکون سے مالا مال نور کسی نے چھین لیا ہے۔

    صبح سارے گھر کانقشہ بدل رہا ہے۔ امی کہہ رہی ہیں کہ سارا سامان ساتھ جائے گا اور بھائی بدرالزماں انہیں سمجھا رہے ہیں کہ جانیں بچاکر نکلنا ہی مشکل ہے۔ پہننے کے کپڑوں، بستروں اور تھوڑے سے کپڑوں کے علاوہ سب کچھ کباڑ ہے۔ کسی کو دکھائیے کیوں کہ اب جب کہ لوگ بھاگ رہے ہیں تو سامان کا اچھی قیمت اور اچھے لوگوں کے ہاتھ بکنا مشکل ہے۔‘‘

    ’’کباڑی کو‘‘۔۔۔ امی کی آنکھیں ساری پیشانی کو سمیٹ کر بدالزماں بھائی کو تکنے لگیں۔۔۔ ’’بدرالزماں تمہارے چچا کے مرنے کے بعد سب کچھ لٹ گیا تھا۔ دوبارہ بڑی مشکل سے گھر بنایا ہے۔ یہ صوفہ ایک سو اسی کا خریدا تھا اور یہ میز۔۔۔ امی سارے سامان کی قیمت بتارہی تھیں اور ادھر ناصر نانا نے کباڑیے کو لاکر دروازے پر کھڑا کردیا تھا۔

    ’’یہ سینری میں نے تیس روپے میں بنوائی تھی‘‘ امی چیزوں کو اٹھتے دیکھ کر جیسے بین کرنے لگیں۔ بدرالزماں تجھے یہ صوفہ بہت پسند تھا۔ یہ گلدان میں نے بمبئی سے منگوائے تھے اور جب یہ آئے تھے تو میں دو دن تک انہیں خوش ہو ہو کر دیکھتی رہی تھی اور بدرالزماں یہ تخت بڑھئی کو گھر بٹھاکر سامنے بنوائے تھے۔ اتنے مضبوط ہیں کہ چھت سے نیچے پھینک دو تو ٹوٹنے کا نام نہ لیں۔ اور بدرالزماں یہ قالین میرے چچاز دبھائی نے ایران سے لاکر تحفے میں دیا تھا اور بدرالزماں یہ مسہری تمہارے مرحوم چچا کی ہے اور اب امی کانپتے کانپتے رونے لگیں۔

    ہاجرہ ان چیزوں پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتی جارہی ہے جنہیں مزدور اٹھاکر لے جارہے تھے۔

    ’’بھائی صاحب مزدوروں سے کہیے کہ سامان اس طرح نہ کھینچیں کہ دیواروں کی قلعی اڑ جائے۔‘‘ ہاجرہ دیواروں سے جڑی ہوئی قلعی کا پتر دیکھ کر غصہ ہوگئی اور پھر آپ ہی جانے کیوں سرجھکالیا۔

    ’’میں کہتا ہوں خالہ آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ آپ کہاں جارہی ہیں؟ وہیں نا، جہاں کے لوگوں سے آپ واقف نہیں ہیں، آپ ان کی زبان سے لے کر مزاج تک سے واقف نہیں ہیں۔ پنجابی بڑے بد دماغ ہوتے ہیں وہ زبان کے بجائے لکڑی سے بات کرتے ہیں۔‘‘

    مقتدا بھیا اب کمینے پن سے تعصب کا اظہار کر رہے تھے وہ مقتدا بھیا جو تعصب سے کوسوں دور تھے وہ ہمیں روکنے کی خاطر خود کو کمینہ ثابت کر رہے تھے۔

    ’’تم ایسے متعصب ہو بھیا۔‘‘ ہاجرہ نے حقارت سے دیکھا۔

    بڑے شرم کی بات ہے بھیا۔ عائشہ بجیا نے بھی انہیں غیرت دلائی اور بھیا جیسے ہار مان کر سر جھکانے پر مجبور ہوگئے۔

    ’’پھر میں تم سب کو کیسے روکوں؟ بھیا کی آواز کانپ رہی تھی اور ہاجرہ جانے کیوں خواہ مخواہ دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی اور جب میں نے اسے آواز دی تو اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

    بھیا احتجاج کے طور پر ہم سب سے ناراز ہوگئے۔ انھوں نے سامان باندھنے میں ذرا بھی مدد نہ کی۔ باقی سب لوگ کام کرکے تھکے جارہے ہیں لیکن بھیا کا دل نہیں پسیجتا۔

    ’’یار مقتدا ذرا تو ہاتھ بٹا۔‘‘ بدرالزماں بھائی نے تلخی سے کہا۔

    ’’بس مجھے تو معاف ہی رکھیے۔‘‘ بھیا نے سخت رکھائی سے جواب دیا۔ اور ایک کتاب اٹھاکر ورق الٹنے لگے۔

    ’’یہ کتابیں۔۔۔ ارے بھائی صاحب یہ کتابیں بھی کباڑیے کو دے رہے ہیں۔‘‘ میں اور ہاجرہ ایک ساتھ چیخیں۔

    ’’تو پھر یہ چھکڑا بھر بوجھ کیسے جائے گا۔‘‘ بھائی صاحب نے تنک کر کہا:

    ’’اور ہم لاجواب ہوگئے۔‘‘ہائے اللہ ہم نے ان کتابوں کو کس کس طرح حاصل کیا تھا۔ انہیں کتابوں نے ہمیں تاریکیوں سے نکالنے میں مدد دی تھی۔ انہوں نے ہمیں آگے بڑھایا تھا اور آج ہم ان سے محروم ہورہے ہیں۔

    ’’کتابیں مقتدا بھیا اپنے ساتھ پھپھوند لے جائیں گے۔ پھر جب ہم اچھے حالات میں واپس آئیں گے تو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘ میں نے تجویز پیش کی اور کتابیں واپس لے لی گئیں۔ میں اور ہاجرہ زمین پر بیٹھ کر اس طرح کتابوں کے ورق الٹنے لگے جیسے دفنانے سے پہلے اب انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں رہ گیا۔ صحن میں بیٹھے ہوئے کاغذ، ٹوٹی ہوئی بوتلیں اور جھاڑو کی تیلیاں بکھری ہوئی تھیں۔

    ’’پاکستان میں ہمیں گھر مل جائے گا۔‘‘ امی کی آوازمنوں بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ ’’ہاں ہاں ملے گا کیوں نہیں، اس سے اچھا لیجیے۔‘‘ عائشہ بہن بڑے وثوق سے بولیں۔ اور امی انہیں مشکوک نظروں سے دیکھنے لگیں۔

    ’’ہاں وہاں تمہارے لیے ایک بہت شاندار محل تیار ہوگا۔‘‘

    بکو مت مقتدا بھیا محل بنے ہوئے کسے ملتے ہیں مگر انسان حاصل تو کر سکتا ہے۔‘‘ بجیا غصہ سے بولیں،

    ’’ہوں! تمہارے پاس دولت ہے اس لیے حاصل کرلوگی مگر جولوگ گھر چھوڑ کر صرف حقہ لے کرجارہے ہیں انہیں بھی تم محل دلادوگی۔‘‘

    ’’بس آپ کو تو سارے زمانے کا درد کھائے جاتا ہے اور سارا زمانہ صرف ہمارے جانے کی وجہ سے یاد آرہا ہے۔‘‘ بجیا لڑنے پر تل گئیں۔

    ’’بات تو ٹھیک ہے‘‘ بھیا نے شاید پھر ہار مان لی۔ ہماری بحث سے الگ امی ناصر نانا کی کرسی کے پاس مونڈھے پر بیٹھی انھیں تسلیاں دے رہی تھیں۔

    ’’چچا آپ گھبرائیں نا۔ ہم آپ کو بھول نہیں سکتے ہم وہاں بیٹھ کر بھی اسی طرح آپ کی خدمت کریں گے‘‘ ناصر نانا بالکل چپ تھے۔ ان کے چہرے پر اس غضب کی سنجیدگی کبھی نہ دیکھی تھی۔

    ’’ان لونڈیوں سے مجھے کس قدر پیار ہے مگر مجھے امید نہیں کہ یہ چڑیلیں بھی کبھی یاد کریں گی۔‘‘ دو آنسو صرف نانا کے رخساروں پر بہہ گئے ہم بہنیں ان سے لپٹ کر اپنی محبت کے ثبوت میں ان کے ہاتھ چومنے لگے۔

    نہیں ناصر نانا۔ یہ چڑیلیں آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گی۔

    آج رات کتنی آہستہ آہستہ بیت رہی ہے۔ چاندنی جیسے آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔ قبرستان کے اونچے گھنے درختوں پر جانے کون کون پرندے پھڑپھڑا رہے ہیں۔ سفر کی صعوبتوں اور قتل و غارت کا ذکر کرتے کرتے اب سب لوگ چپ ہوگئے ہیں، سب اپنے اپنے بستروں پر کسمسا رہے ہیں۔

    شبنم سے بھیگے ہوئے بستر پر پڑی میں کتنی اداس ہوں۔ مقتدا بھیا نے کسی کی باتوں میں حصہ نہیں لیا وہ کمرے میں بند ہونے کے سبب چپ ہوگئے ہیں۔ تو سب ان سے بول بول کر تھک گئے ہیں لیکن ایک آدھ طنز کرنے کے علاوہ سیدھے منہ بات نہ کی۔۔۔ بھیا تم کیو ں چپ ہو۔۔۔ تم کیا سوچ رہے ہو۔ کیا تم یہ سوچ رہے ہو کہ اب جب تمہیں تمہاری یاد ستائے گی تو تم آسانی سے نہ مل سکو گے۔ اب ایک گاؤں سے ایک شہر کافاصلہ نہ ہوگا۔۔۔ ارے بھیا دنیا میں تو یہی ہوتا رہا ہے۔ کل میں جارہی ہوں کیا تم مجھے مناؤگے نہیں؟ تم خود ہی تو مجھ سے لڑے تھے۔ غلطی تمہاری تھی ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں میں تم کو نہیں منا سکتی۔۔۔ میں دیر تک انتظار کرتی رہی کہ شاید بھیا مجھے منالیں اور پھر جانے کب سوگئی۔

    صبح محلے کے سارے ملنے والے ہمیں رخصت کرنے کے لیے آگئے تھے۔ سب کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ہمارے جانے کے خیال نے جیسے سب کے پاؤں اکھیڑ دیے تھے، سب پر عجیب سا خوف طاری تھا۔ لیکن وہ مجبور تھے، وہ نہیں جاسکتے تھے۔ امی سب سے مل کر رو رہی تھیں۔ بے حد پیاری امینہ مجھ سے لپٹی کھڑی تھی اور اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔

    ’’سامان تانگے پر رکھ دیا گیا۔‘‘ بدرالزماں بھائی نے اطلاع دی۔

    ’’بھیا کہاں ہو؟‘‘ عائشہ نے ہر طرف دیکھا۔

    ’’بھیا کہاں ہے؟‘‘ ہاجرہ گھبراکر بھائی صاحب کی طرف دیکھنے لگی۔

    ’’کہاں ہے؟‘‘ بھائی صاحب خود ہم سے پوچھ رہے تھے۔

    ’’باہر چلاگیا ہوگا سگریٹ لینے۔‘‘ نانا میاں نے اطلاع دی۔

    ’’جاؤ تو حنیف باہر دیکھو جاکر۔‘‘ امی نے حکم دیا اور پھر ہم سب گھر کے ایک ایک گوشہ میں یونہی گھومنے لگے۔ ہر طرف خالی ڈبے، شیشیاں اور پھٹے ہوئے کاغذ پڑے تھے۔ امی لمبی لمبی آہیں بھر رہی تھیں۔

    ’’مقتدا بھیا!‘‘میں چیخ پڑی۔ سب سے نیچے کے اندھیرے کمرے میں بھیا زمین کے فرش پر اوندھے منہ لیٹے سسک رہے تھے۔ امی نے انہیں گلے سے لگالیا۔

    ’’میں بھی چلوں گا خالہ۔‘‘ بھیا بچوں کی طرح مچل گئے۔

    ’’تم کیسے جاؤگے بیٹے؟ تمہارے والدین یہاں ہیں، تمہاری بہنیں، تمہارے بھائی کیا تم انہیں چھوڑدوگے؟‘‘

    ’’پھر بتائیے میں کیا کروں؟‘‘ بھیا نے بڑی بے بسی سے پوچھا اور امی زار زار رونے لگیں۔

    ’’خدا کے لیے بھیا مت رو، تم نے تو جان پر بنا دی۔‘‘ عائشہ بجیا نے بھیا کے آنسو پوچھ کر گدگدایا۔

    ’’اچھا خدیجہ خدا حافظ، چلو میری غلطی تھی معاف کردو۔ مگر اب میں کس سے لڑوں گا۔‘‘

    ’’ہاں! اب ٹھیک ہوئے ہو۔‘‘ میں بھیا سے لپٹ گئی۔

    ’’تم عائشہ اور ہاجرہ مجھے دنیا میں بہت پیاری ہو۔ میں سوچتا تھا ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ اور اگر ساتھ بھی نہ رہے تو جب چاہیں گے مل لیں گے۔ مگر اب تو۔۔۔‘‘ بھیا پھر رونے لگے۔

    ’’ٹرین چھٹ جائے گی۔‘‘ بھائی صاحب نے پھر اطلاع دی اور ہم سب ایک لمحہ کو بالکل چپ ہوگئے۔

    ’’خدا حافظ۔۔۔ میرے بہت اچھے پیارے پڑوسیو خداحافظ! بھیا خدا حافظ!‘‘

    ہم گھر سے باہر نکل رہے ہیں اور بہت سی یادیں ہمارے پیچھے بھاگی چلی جارہی ہیں۔ امی نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ دروازے پاٹوں پاٹ کھلے ہوئے تھے۔

    ’’دروازے بند کردو، ورنہ آوارہ کتے گھر میں گند پھیلائیں گے۔‘‘ امی نے آہستہ سے کہا۔۔۔ وہ پھر اپنی ہی بات پر دم بخود رہ گئیں۔

    مأخذ:

    اردو میں رپور تاژ نگاری (Pg. 333)

    • مصنف: عبدالعزیز
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے