Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آدھی سیڑھیاں

طارق چھتاری

آدھی سیڑھیاں

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    سعیدہ بیگم اپنے کمرے سے نکل کر دہرے دالان سے ہوتے ہوئے احمد کے کمرے میں داخل ہوئیں۔

    ’’اٹھ گئے بیٹے؟‘‘

    ’’جی امی جان۔۔۔‘‘

    احمد آنکھیں ملتا ہوا بستر سے اترکر کھڑا ہو گیا۔

    ’’آفتابے میں گرم پانی رکھ دیا ہے، جائو منہ دھولو۔‘‘

    احمد نے منہ دھو لیا تو سعیدہ بیگم ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں آ گئیں۔

    ’’اب شادی میں صرف ایک مہینہ باقی ہے اورتم نے روپیوں کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا۔ مہمانوں کو دعوت نامے بھی پہنچنے ہیں۔ ایک مہینہ پہلے سے تومہمان داری جڑنا ہی چاہیے۔‘‘

    احمد روغنی روٹی کا نوالہ چباتے ہوئے بولا۔

    ’’امی جان، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت کہا ں ہے جو مہینوں پہلے سے شرکت کرے۔ جنہیں بلانا ہوگا ہفتہ بھر پہلے دعوت نامے بھیج دیں گے۔ خاص خاص رشتے داروں کو تو بلانا ہی ہے۔ بھیڑ جمع کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘

    سعیدہ بیگم نے دیکھا کہ رکابی میں خاگینہ اسی طرح رکھا ہوا ہے اور وہ روکھے لقمے نگل رہا ہے۔

    ’’ٹھیک ہے بیٹے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘

    احمد نے ناشتے کے بعد سلفچی میں ہاتھ دھوئے اور صدر دروازے سے نکلتا ہوا لالا دیوی سرن کی بیٹھک کی جانب مڑ گیا۔ لالا چبوترے پرہی دھوپ میں پلنگ ڈالے بیٹھے تھے۔

    ’’آئو احمد میاں۔۔۔ کیسے تکلیف کی؟‘‘

    احمد چارپائی کے برابر رکھے مونڈھے پر بیٹھ گیا۔

    ’’بہت دنوں سے آپ کے درشن نہیں ہوئے تھے۔ پڑھائی لکھائی کے چکر میں علی گڑھ سے آنا ہی نہیں ہوتا۔ سوچا اب آیا ہوں تو آپ سے مل آئوں اور پھر نیوتا جو دینا تھا۔‘‘

    ’’کاہے کا نیوتا احمد میاں۔۔۔‘‘

    لالاجی کا ہاتھ پیٹ پر رینگنے لگا۔

    ’’وہ بات یہ ہے کہ میں۔۔۔ میرا مطلب ہے امی جان نے رشتہ پکاکر دیا ہے۔ ایک مہینے بعد کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’مگر رشتہ تو میاں اپنے سامنے ہی پکاکر گئے تھے۔ روشن نگروالے میاں کی بیٹی کے ساتھ۔‘‘

    ’’وہ بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘

    احمد سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔

    ’’اچھا تو وہاں سے رشتہ ٹوٹ گیا ۔۔۔‘‘

    لالادیوی سرن نے ٹوٹنے پر اس طرح زور دیا جیسے یہ تو ٹوٹنا ہی تھا۔

    ’’ویسے اب کہاں ہوا ہے رشتہ؟‘‘

    احمد کا جی چاہا کہ کوئی جواب نہ دے مگر اس نے الفاظ ڈھکیلے ۔

    ’’علی گڑھ میں ہی ایک لڑکی ہے۔‘‘

    ’’تمہارے سنگ پڑھتی ہوگی۔‘‘

    ’’جی۔‘‘

    مجرم کی طرح احمد نے گردن جھکا لی۔

    ’’احمد میاں جب سے تم علی گڑھ گئے ہو، تمہار ابستی سے کوئی ناتا ہی نہیں رہا۔ کتنی پڑھائی اور ہے؟‘‘

    ’’بس ریسرچ۔۔۔ یعنی کچھ لکھنا ہے بس ایک کتاب۔‘‘

    ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر یہاں۔۔۔ تم نے کھیتی باڑی بھی نوکروں کے اوپر چھوڑ رکھی ہے اور اب توشادی بھی علی گڑھ میں ہی۔۔۔‘‘

    وہ سر نیچا کیے خاموش بیٹھا تھا۔

    ’’بیاہ کی تیاری تو سب ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں تیاری تو ہو رہی ہے۔‘‘

    احمد نے آہستہ سے کہا۔ لالادیوی سرن نے گھاگ نظروں سے اسے دیکھا اور سب کچھ سمجھ گئے۔

    اچھا تم کل صبح نوبجے آ جانا۔‘‘

    صبح اٹھ کر جب وہ ڈیوڑھی کے صدر دروازے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ دو بچے دھوپ میں کنچے کھیل رہے ہیں۔ احمد اونچے چبوترے پر کھڑا چھوٹی چھوٹی کانچ کی ان گولیوں کو دیکھتا رہا جنہیں بچے انگلیوں سے ادھر ادھر لڑھکا رہے تھے۔ ہری گولیوں والا بچہ جیت رہا تھا۔ بچے نے جب سے ہری گولیاں نکال کر اطمینان سے زمین پر پھیلا دیں اور جیتی ہوئی لال گولیوں کو چاک کی جیب میں رکھ لیا۔ احمد نے سامنے دیکھا، دور تالاب کے اس پار اس کے اپنے ہرے ہرے کھیت لہلہا رہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اورجب کھولیں تو محسوس ہوا کہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ اب بازی پلٹ گئی تھی۔ زمین پر بکھری ہری گولیاں غائب تھیں اور لال گولیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ سورج کی کرنیں زمین پر اتر آئی تھیں اور کانچ کی لال گولیوں پر اس طرح پڑ رہی تھیں کہ اس کے کھیت اب سرخ نظر آ رہے تھے۔ احمد نے گھڑی دیکھی، نوبجنے ہی والے تھے۔ وہ لالا دیوی سرن کی گدی پر پہنچا دیکھا کہ لالا اپنا لال بہی کھاتا لیے کچھ لوگوں کے بیچ بیٹھے حساب کتاب میں مشغول ہیں۔

    ’’آداب عرض لالاجی۔۔۔‘‘

    ’’آداب عرض احمد میاں۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘

    ’’جی۔۔۔؟‘‘

    احمد بوکھلا گیا۔

    ’’ارے ہاں۔۔۔ آئو آئو بیٹھو۔ اچھا کندن لال جی کل آنا کام ہو جائےگا اور بھیانند ناتم بھی اپنے گائوں جائو فکرمت کر اور تم یہ لو۔۔۔‘‘

    سب لوگ لالاجی کو نمستے کرتے ہوئے بیٹھک سے اٹھ کر چلے گئے اور جوبیٹھے رہ گئے وہ جیسے آدمی نہ ہوں سامان کی گٹھریاں رکھی ہوں۔۔۔ لالا دیوی سرن نے احمد کی طرف کھسکتے ہوئے آہستہ سے پوچھا

    ’’تمھیں روپیوں کی ضرورت ہے نا؟‘‘

    وہ خاموش بیٹھا رہا ۔دراصل لالا دیوی سرن کا سوال ہی احمد کا جواب تھا۔

    ’’دیکھو کنور صاحب، سرکار نے کچھ ایسے قانون بنا دیے ہیں کہ بغیر کوئی چیز رکھے بیان پر روپیہ دیتے ڈر لگتا ہے۔ اب تو بیاج کا کام ختم ہوتا ہی لگے ہے۔ پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑےگا۔ سوچ رہا ہوں بھینسیں پال کر دودھ کا کام شروع کر دوں۔‘‘

    لالا دیوی سرن بولتے رہے۔

    ’’شادی کے بعد ماتاجی کو تو اپنے ساتھ ہی لے جائو گے، ڈیوڑھی خالی ہو جائےگی، زنان خانہ تو ٹوٹ ہی گیا ہے بس ڈیوڑھی کا حصہ بچا ہے، اگر اسے بیچ دو تو میں اس میں بھینسیں پالنے کا بندوبست کر لوں۔ میرا بھی کام نکل جائےگا اور تمہاری شادی بھی ۔۔۔‘‘

    احمد کی آنکھیں پھیل گئیں۔ کچھ حیرت سے ،کچھ قصداً تاکہ آنسو خشک ہو جائیں اور ٹپکنے نہ پائیں ۔ رنگ برنگے دائرے بننے مٹنے لگے اور نظروں میں بچپن کی دھندلی تصویریں ابھرآئیں۔

    ’ابا حضور دالان میں بیٹھے فرشی حقہ پی رہے ہیں۔ دھوئیں میں شامل خمیرے کی فضا معطر ہے۔ وہ امی جان کے ہاتھ کی کڑھی سچے گوٹے کی کناری والی گول ریشمی ٹوپی پہنے آنگن میں کھیل رہا ہے۔ دھوپ میں جہازی پلنگوں پرابا حضور کی اچکنیں، گرم شیروانیاں اور امی جان کے کمخواب اور پوتھ کے غرارے پھیلے ہوئے ہیں۔ اسے پشمینے کی شالوں اور کشمیری نمدوں میں بسی کافور کی مہک بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ ابا حضور کی آنکھ بچاکر کپڑوں سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے ۔ریاضو گود میں اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بری طرح مچلنے لگتا ہے۔ پائیں باغ میں رحیما بیلے اور ہار سنگار کے پھول چن رہا ہے۔ امی جان ہاتھ میں آب پاش لیے شہتوت کے پیڑ میں پانی لگا رہی ہیں۔ یہ پیڑ دادا جان نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ اس کے شہتوت بہت میٹھے ہیں۔ جب بھی اتر تے ہیں تو امی جان غفورخاں کے ہاتھ روشن نگر ضرور بھیجتی ہیں۔‘

    ’’کیا سو رہے ہو احمدمیاں؟‘‘

    لالا دیوی سرن نے اسے چونکا دیا۔

    ’’لالاجی، میں ڈیوڑھی تو نہیں بیچ سکتا۔‘‘

    احمد نے دوٹوک جواب دیا اور سوچنے لگا کہ ایک تو پہلے ہی بہت کچھ بک چکا ہے۔ ڈیوڑھی کے علاوہ بمبے کے سہارے والی اسی پچاسی بیگھے زمین ہی تو بچی ہے۔ اگر ڈیوڑھی بھی بک گئی تو بستی میں جو کچھ عزت ہے وہ بھی خاک میں مل جائےگی۔ پھر لالا سے مخاطب ہوکر بولا۔

    ’’آپ اگر سود پر روپیہ نہیں دے سکتے تو دس پانچ بیگھے زمین خرید لیجیے۔

    ’’نہیں احمد۔۔۔ ‘‘

    میاں شاید دل میں کہا ہو مگر زبان سے صرف احمد ہی نکلا اور احمد کے بعد تھوڑا وقفہ دیا پھر بولے ۔

    ’’میرے پرکھوں نے بھی کھیتی نہیں کی۔ میں زمین کا کیا کروں گا اور وہ بھی صرف دس پانچ بیگھے۔ اب اتنی سی زمین کے لیے نوکر رکھوں، جوارا بنائوں اور پھر بیل باندھنے کو ایک گھیر۔۔۔ ایک دو بیگھے زمین تو اسی میں گھر جائےگی، پھر بچی ہی کتنی۔۔۔‘‘

    تھوڑی دیر دونوں خاموش رہے پھر لالا دیوی سرن کچھ سوچتے ہوئے بولے۔

    ’’ہاں اگر سو ڈیڑھ سو بیگھے زمین ہو تو اس میں کچھ روپیہ لگایا بھی جائے۔ مجھے زمین کا بیوپار تو کرنا نہیں ہے کہ تم سے اونے پونے داموں میں خرید کر کسی اور کو بیچ دوں۔‘‘

    ’’لالاجی امی جان نے آپ ہی کے بھروسے تاریخ طے کی تھی۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر ساری زمین بیچ دو۔ میں خرید لوں گا۔ تمہیں کون سی کھیتی باڑی کرنی ہے ۔ پڑھ لکھ کر تو نوکری ہی کروگے۔‘‘

    لالا دیوی سرن احمد کا چہر ہ پڑھنے لگے۔ پھر خاموش بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا اور الماری سے پوتھی نکال کرپٹ اس طرح بند کیے جیسے احمد کو باہر نکال کر دروازہ بند کر لیا ہو۔ احمد نے محسوس کیا کہ وہ سامان کی گٹھری بن گیا ہے۔

    اس نے پہلو بدلا تو لالا نے اس پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور بولے۔

    ’’یا پھر کسی کسان سے بات کر لو۔ کوئی نہ کوئی مل ہی جائےگا۔

    احمد کہاں گھر گھر جاکر زمین بیچنے کی بات کرتا گھومتا۔ اس نے دو چار لوگوں سے بات کی بھی مگران کے لیے اتنی جلدی روپیوں کا انتظام کرنا مشکل تھا۔ جن کے پاس روپیے تھے وہ اس کی ضرورت کا فائدہ اٹھاکر کوڑیوں کے دام خریدنا چاہتے تھے۔ شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے اور ابھی تک پاندان کی چھالیوں بھر کا انتظام بھی نہ ہو پایا تھا۔ بدنامی کے خوف سے تاریخ بھی نہیں بڑھائی جا سکتی تھی۔

    مغرب کی اذان ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی ۔بمبے والے کھیت اندھیرے میں ڈوب گئے تھے، مگر وہ ڈیوڑھی کی بالائی منزل پر کھڑا اپنے کھیتوں کو گھورے جا رہا تھا۔ زینے سے اترکر جب اس نے سعیدہ بیگم کے کمرے میں جھانکا تو وہ دعاکے بعد جانماز لپیٹ رہی تھیں۔ جب وہ پلنگ پر تسبیح لے کر بیٹھیں تو احمد بھی کمرے میں داخل ہو گیا۔ سعیدہ بیگم نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گیا۔

    ’’وہ ایسا ہے امی جان۔۔۔‘‘

    ’’کیا ہے بیٹے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں، آج سردی بہت ہے۔‘‘

    ’’کیا بتو کی اماں نے تمہارے پلنگ کے نیچے بھوبھل کا کونڈا نہیں رکھا؟‘‘

    انھوں نے کچھ اس انداز سے باہر جھانکا جیسے بتو کی اماں کو پکارنے والی ہوں۔

    ’’بھوبھل تو رکھ دی ہے مگر سوچا کچھ دیر آپ کے پاس ہی بیٹھ لوں۔‘‘

    ’’ہاں بیٹے۔۔۔ تمہارا یہاں دل بھی تونہیں لگتا ہوگا۔ بچپن میں ہی تو شہر چلے گئے تھے۔ کبھی ایک دو روز کے لیے آتے ہو، دل لگے بھی کیسے۔‘‘

    ’’نہیں امی جان یہ بات نہیں ہے، دراصل آپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘

    ’’ہاں کہو۔۔۔‘‘

    سعیدہ بیگم نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’بات تو کوئی خاص نہیں ہے ۔بس یوں ہی اپنے فیوچر۔۔۔ میرا مطلب ہے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پڑھائی سال ڈیڑھ سال میں ختم ہو جائےگی۔ آج کل نوکریاں تو ملتی نہیں ہیں اور پڑھائی لکھائی کے بعد یہاں آکر کھیتی باڑی کرنا۔۔۔ کھیتی باڑی بھی کوئی کیا کرے، حکومت نے سیلنگ کا ایسا چکر چلایا ہے کہ پتا نہیں یہ زمین بھی رہے یا نہیں۔ میں نے سوچا ہے ۔۔۔‘‘

    احمد کہتے کہتے رک گیا۔

    ’’کیا سوچا ہے ؟‘‘

    سعیدہ بیگم نے پوچھا۔

    ہمیں اب کھیتی کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے۔ آمدنی کا کوئی اور ذریعہ۔۔۔‘‘

    ’’بات تو ٹھیک ہے، مگر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

    سعیدہ بیگم غور سے سننے کے لیے تھوڑا آگے کھسک آئیں۔

    ’’آج کل شہروں میں مکانوں کے کرائے بہت ہیں، اگر کچھ مکان بنوا دیے جائیں تو ماہانہ آمدنی خاصی ہو جائےگی اور پھر رہنے کو بھی ایک مکان ہو جائےگا، کرائے کے مکان میں تو۔۔۔ آپ کا بھی یہاں اکیلے دل گھبراتا ہوگا، وہیں ساتھ رہیں گے۔ آپ کا دل بھی لگا رہےگا۔‘‘

    احمد ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا تو سعیدہ بیگم نے چھت کی طرف دیکھا۔ ایک جنگلی کبوتر شہتیر کے کنڈے میں جھول رہا تھا۔ معلوم نہیں کیا ہوا کہ اپنے پر پھلانے لگا اور پھرکنڈے کے دائرے سے نکل کر پر پھڑپھڑاتا ہوا دیوار سے جا ٹکرایا۔ نیچے فرش پر گرنے ہی والا تھا کہ سنبھلا اور روشن دان کی طرف اڑا۔ روشن دان کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا، کبوتر تیزی سے نکلا اور باہر تاریکی میں گم ہو گیا۔ سعیدہ بیگم نے احمد کے چہرے کو غور سے دیکھا۔

    ’’لیکن بیٹے، اس کے لیے پیسا بھی تو چاہیے۔‘‘

    ’’امی جان نوکروں کی کھیتی میں بچتا ہی کیا ہے اور اس وقت لالا دیوی سرن ہماری زمین کے دام بھی اچھے لگا رہے ہیں۔ آئندہ معلوم نہیں کیسا موقع ہو، اگر آپ کی اجازت ہو۔۔۔‘‘

    سعیدہ بیگم کی آنکھ سے آنسو گرا اور لحاف کی روئی میں جذب ہو گیا۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولیں۔

    ’’اس بچی کھچی زمین کو کیوں بیچتے ہو۔ تمہارا یہاں سے بالکل اکھڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے کبھی کبھار آ بھی جاتے ہو ۔ پڑی رہنے دو اسے اپنے ابا حضور کی نشانی سمجھ کر۔ ‘‘

    ’’لیکن امی جان، شادی کے لیے روپیوں کا انتظام بھی تو نہیں ہو پایا ہے۔ لالا نے سود پر دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ میں نے چاہا دس پانچ بیگھے زمین بیچ دوں مگر کوئی گاہک نہیں ملا۔ لالا تیار ہیں مگر کہتے ہیں، ساری زمین بیچو تو خرید بھی لوں۔۔۔‘‘

    ’’کوئی اور صورت نکل سکتی ہو تو اچھا ہے بیٹے۔‘‘

    ’’بس ایک ہی طریقہ ہے کہ چار پانچ معمولی سے جوڑے ہو جائیں اور ابا حضور کے جو بٹن ہیں۔۔۔‘‘

    سعیدہ بیگم نے جلدی سے احمدکی بات کاٹ دی۔

    ’’نہیں احمد، ہمیں برات لے کر دوسرے کی دہلیز پر جانا ہے۔ اپنی نہیں تو اپنے ابا حضور کی عزت کا تو خیال کرو، اگر شادی دھوم دھام سے نہیں ہوئی تو بستی والے کیا کہیں گے۔‘‘

    ’’مگر اب روپیوں کا تو کہیں سے انتظام نہیں ہو سکتا۔‘‘

    ’’کچھ بھی ہوبیٹے، زمین بیچنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

    سعیدہ بیگم نے لیٹتے ہوئے کہا۔

    احمد اپنے کمرے میں جلتی ہوئی لالٹین کی لَو کبھی تیز کرتا تو کبھی کم۔ جب لو اتنی کم ہو جاتی کہ لالٹین کے بجھ جانے کاگمان ہونے لگتا تو وہ ہڑبڑاکر اس کی لو تیز کر دیتا کہ چمنی چٹخ جانے کا خوف اس کے جسم میں تیر جاتا۔ چمنی اتنی سیاہ ہو چکی تھی کہ شیشے کی قید سے باہر نکلنا اب روشنی کے بس میں نہیں تھا۔

    ’’آنکھیں بند کر لینا اور سوجا نا ہی بہتر ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔

    وہ بستر پر لیٹ تو گیا مگر نیند لالا دیوی سرن کی چوکھٹ پر کھڑی رہی اور اس کی آنکھیں رات بھر چھت کی کڑیاں گنتی رہیں۔

    سعیدہ بیگم کو کچھ بتائے بغیر سب طے ہو گیا۔ لالا دیوی سرن نے آدھی رقم دے کر کاغذ کرا لیا اور باقی روپیے بیع نامے کے وقت دینے کا وعدہ کر لیا۔ احمد نے جب سعیدہ بیگم کے ہاتھ میں روپیے لاکر دیے تو ان کے ہاتھ کانپ گئے ۔احمد کے چہرے کا جائزہ لیا، پھر بولیں۔

    ’’کیا تم نے زمین بیچ دی۔۔۔؟‘‘

    ’’اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘

    ’’تو کیا یہ ڈیوڑھی بھی بیچ دوگے؟‘‘

    سعیدہ بیگم کی بوڑھی نظریں ڈیوڑھی کی دیواروں پر رینگنے لگیں۔

    ’’نہیں امی جان، عید بقرعید تو ہم یہیں کریں گے۔‘‘

    احمد نے اپنی دانست میں سعیدہ بیگم کو مطمئن کر دیا۔

    شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ہار، بندے، بالیاں ،جھمکے، بازو بند، نتھ ،جھومر، چوڑی اور کنگن، سبھی زیورات خریدے گئے۔ ریشم کے کسی کپڑے پر زری تو کسی پر زردوزی کا کام شروع ہو گیا۔ سینے پرونے میں ماہر محلے بھر کی لڑکیاں اپنی انگلیوں کے کرتب دکھانے لگیں۔ تلے دانیاں نکل آئیں، دالان میں کہیں سلمے تو کہیں ستارے اور کہیں کلابتو بکھرے نظر آنے لگے۔ مسالوں کی کُٹائی کے لیے ہاون دستے نکل آئے۔ تانبے کے نقشیں خاص دان، گلاب پاش، پاندان ، حسن دان، بادیے اورطبق قلعی گرکی دکان پر پہنچ گئے اورتاکید کردی گئی کہ قلعی کاسب سے قیمتی کشتہ استعمال کیا جائے۔ دیواروں، دروں، طاقوں اور محرابوں کی مرمت ہوئی اور پوری ڈیوڑھی کی پُتائی کے بعد شامیانے اور قناتیں لگاکر چھت میں قندیلیں لٹکا دی گئیں اور مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ جگہ تخت بچھا دیے گئے۔ سعیدہ بیگم کی خواہش کے مطابق احمدمیاں کی برات میں بستی کے ہندو مسلمان سبھی نے شرکت کی۔ صبا دلہن بن کر آئی تو خوشی میں رات بھر آتش بازی چھوٹتی رہی۔ ولیمے کی دعوت میں قرب وجوار کے گائوں والوں کو بھی بلایا گیا اور پھر ڈیوڑھی شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئی۔ بڑا ساغسل خانہ سمٹ کر باتھ روم بن گیا۔ قدمچوں کارنگ سفید پڑ گیا۔ چولھے سے گیس نکلنے لگی اور کمروں کی چھتیں اتنی نیچی کھسک آئیں کہ سعیدہ بیگم کا دم گھٹنے لگا۔ اس دن سعیدہ بیگم کو سخت کوفت ہوئی جب ان کاپیتل کا کٹورا انگریزی نسل کے پالتو کتے نے چاٹ لیا اور مانجنے کے لیے ان کے گھر میں تو کیا پڑوس میں بھی راکھ نہ مل پائی۔ سردیاں گزر گئیں۔ نہ سقاوہ، نہ تتیڑا، نہ آتش دان، نہ انگیٹھی، سعیدہ بیگم کے ہاتھ کوئلے کی آنچ کو ترستے ہی رہے۔ ہاں دن میں کئی کئی بار چائے پینے کو ملتی رہی۔

    ’’تم لوگ کتنی چائے پیتے ہو؟ چائے پیتے میری توزبان موٹی ہو گئی ہے۔‘‘

    آخر ایک دن سعیدہ بیگم نے ٹوک ہی دیا۔

    ’’اور یہ جو تم نے نوکر رکھا ہے بلا کا سست، دوپہر کا کھانا شام ہونے کو آتی ہے تب جاکے پکا پاتا ہے۔ کچھ کہو تو بڑبڑانا شروع۔ کیا یہاں نوکر کم ملتے ہیں؟

    ’’یہی بہت مشکل سے ملا ہے۔‘‘

    احمد نے کہا اور سعیدہ بیگم کی نظروں میں ریاضو، رحیما اور غفور خاں کے سعادت مند چہرے گھومنے لگے۔

    ’’مجھ سے تمہارا یہ چولھا جلانا نہیں آتا ورنہ میں ہی پکا دیا کرتی اور یہ جو سیٹی والا دیگچہ ہے، اس میں کھانا بھلے ہی جلدی پکتا ہو مگر ہوتا بالکل بےمزہ ہے۔ میں نے تو ایک وقت بھی پیٹ بھر نہیں کھایا۔‘‘

    احمد مسکرانے لگا، سنبھل کر بیٹھا اور سمجھانے کے انداز میں بولا۔

    ’’امی جان اس میں پکا ہوا کھانا بہت مفید ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی بھاپ نکلنے نہیں پاتی، اس لیے سارے وٹامن ،مطلب ساری طاقت اندر رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو بیٹے تمہارے خیال میں کھوئے میں تو بالکل طاقت نہیں ہوتی ہوگی۔‘‘

    الغرض احمد کا کوئی جواب سعیدہ بیگم کو مطمئن نہ کر سکا۔ سرہانے رکھی پان کی پٹاری اٹھائی، پان لگایا، منہ میں رکھا، تھوڑی دیر چبایا اور پھر پلنگ کے نیچے جھانک کر دیکھا، وہاں پیکدان نہیں تھا۔ وہ اٹھیں اور برآمدے میں لگے واش بیسن کی طرف چل دیں۔

    دونوں وقت مل رہے ہیں۔ روشنی پوری طرح ختم نہیں ہوئی اور اندھیرا پائوں پسارنے لگا۔ سعیدہ بیگم چھوٹے سے لان کے ایک کونے میں بید کے اسٹول پر تنہا بیٹھی گھنٹوں سے گزرے زمانے کی مالا گوندھ رہی ہیں۔ کیاری میں منی پلانٹ کی بیل بائونڈری کے سہارے اوپر چڑھ رہی ہے۔ کیاری سوکھ چکی ہے۔ احمداورصبا کو فرصت ہی کہاں ہے اور سعیدہ بیگم پانی لگائیں تو کس پودے میں؟ مولسری ہے، نہ چنبیلی اور نہ شہتوت۔ کچھ کانٹے دار پودے ہیں تو کچھ کو گملے میں قید کرکے بونا بنا دیا گیا ہے۔ کسی میں پانی زیادہ لگتا ہے، کسی میں کم اور کسی میں بالکل نہیں۔ اب اس عمر میں اجنبی پودوں سے کہاں تک مانوس ہوا جائے۔ سعیدہ بیگم نے ایک نگاہ چھوٹے سے فلیٹ کی دیواروں پر ڈالی۔ نگاہوں میں ڈیوڑھی کا صدر دروازہ گھوم گیا۔ ان کی پالکی اندر داخل ہو رہی ہے۔ انھوں نے سچے کام کے بھاری دوپٹے کے گھونگھٹ سے جھانکا۔ محلے بھر کی کنواری لڑکیوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اسی طرح مہینوں تک دلہن بنی بیٹھی رہی تھیں۔ اماں بیگم نے سال بھر تک کسی کام سے ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا۔ جب انھوں نے پہلی بار کھیر کی ہنڈیا میں ڈوئی چلائی تو اس پر نیاز دے کر اماں بیگم نے اسے پورے محلے میں تقسیم کیا تھا۔ پریشر کوکر کی سیٹی نے انھیں چونکا دیا۔ احمد اور صبا کی شادی کو کچھ ہی ہفتے گزرے تھے اور صبا کچن میں کھانا پکا رہی تھی۔ وہ روزانہ سبزی گوشت پھل سبھی کچھ خود ہی خرید کر لاتی ہے۔ انھیں محسوس ہوا کہ صبا کا وجود ان کے چاروں طرف ہیولے کی شکل میں گرد ش کر رہا ہے اور ان کا اپنا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ صبا کہاں جا رہی ہے؟ کون آ رہا ہے؟ کیوں آ رہا ہے؟ کس کے لیے چائے بن رہی ہے؟ کمرے میں احمد کے دوستوں کے درمیان صبا کن باتوں پر قہقہہ لگا رہی ہے؟ سعیدہ بیگم کو کسی بات کا علم نہیں تھا۔ آخرکار ایک دن انھوں نے احمد کو بلایا اور سمجھانے لگیں۔

    ’’بیٹے یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بہو بازار۔۔۔‘‘

    اس پروہ ہنس دیا اور سعیدہ بیگم کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔وہ خود کوبہت چھوٹا محسوس کرنے لگیں۔ یہ گھر، یہ ماحول، اپنا بیٹا اپنی بہو سب کچھ پرایا سالگنے لگا اور وہ اپنے بیٹے بہو سے بہت دور ہوتی چلی گئیں۔

    ایک دن احمد نے صبا سے پوچھا۔

    ’’تم سے کوئی بات ہوئی ہے امی جان کی؟ کچھ خاموش رہتی ہیں، بالکل گم سم سی۔‘‘

    ’’نہیں تو، مجھ سے تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ میں نے ایک دن پوچھا بھی تھا، پہلے چپ رہیں پھر کچھ اس طرح جواب دیا کہ اس کے بعد کوئی بات پوچھنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔‘‘

    احمد سوچنے لگا۔

    ’’معلوم نہیں امی جان کو کیا ہو گیا ہے۔ بالکل غیروں کی طرح برتائو کرتی ہیں ۔لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی۔۔۔‘‘

    وقت گزرتا رہا۔ ریسرچ مکمل ہونے کے بعد اسے عارضی نوکری مل گئی۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو اس نے سوچا کہ بیع نامہ ان ہی چھٹیوں میں کر دیا جائے تاکہ باقی روپیہ مل سکے۔ لہٰذا سب کاقصبے جانے کا پروگرام بن گیا۔ سعیدہ بیگم نے ڈیوڑھی میں پہنچ کر سب سے پہلے شہتوت کے پیڑ میں پانی لگایا ۔بتو کی اماں کو خبرہوئی تو وہ آ گئیں۔ پوری ڈیوڑھی دھول مٹی سے اٹی پڑی تھی۔

    باغیچہ سوکھ کر بنجر ہو گیا تھا۔ دیواروں اور چھتوں پر مکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے۔ بتوکی اماں محلے کے دو چار بچوں کو بلا لائیں۔ بدلو سقے کو خبر ہوئی تو مشک بھر کر لے آیا۔ کوڑاکرکٹ ایک طرف کرکے صحن میں چھڑکائو کر دیا گیا۔ بتو کی اماں سعیدہ بیگم کے کمرے کی صفائی میں جٹ پڑیں اور سعیدہ بیگم نے اپنی بہو کے کمرے کو جھاڑ پونچھ کر ٹھیک کر دیا۔ احمد بازار سے ضرورت بھر جنس لے آیا۔ سعیدہ بیگم نے پوری ڈیوڑھی کو سر پر اٹھا لیا۔

    ’’بتو کی اماں جلدی سے چاول بین لو۔ بہو کے لیے مزعفر بنانا ہے۔‘‘

    ’’کیا بیگم صاحبہ؟‘‘

    ’’ارے سب کچھ بھول گئیں۔ زردہ۔ اور کیا؟ اور دیکھو کباب کا قیمہ اچھی طرح پیسنا۔ کمبخت ہریا ابھی تک کھویا لے کر نہیں آیا۔ آج کل کے بچے اتنے کام چور ہیں کہ ذراسے کام میں جان نکلتی ہے اور یہ نتھن تو کسی دین کا نہیں ہے، میوے منگائے تو سیلے ہوئے لے آیا۔ اب رحیما اور غفور خاں جیسے آدمی کہاں سے آئیں۔‘‘

    پھر انھیں کچھ یاد آیا اور چونک کر بولیں۔

    ’’ارے ہاں، چائے کا پانی رکھنا تو میں بھول ہی گئی۔ بہو کو چائے پینے کی عادت ہے، بےچاری نے صبح سے نہیں پی۔‘‘

    سعیدہ بیگم بہوکے کمرے میں گئیں تو وہاں صبا کو محلے کی لڑکیاں گھیرے بیٹھی تھیں۔

    ’’یہ کیا۔۔۔ اب تم گھر جائو۔ تھوڑی دیر تو بہو کو آرام کرنے دو۔ کل آ جانا۔ بہوکے ہاتھ سے کھیر پکےگی۔ سمجھیں۔۔۔‘‘

    انھوں نے سب لڑکیوں کو رخصت کرکے بہو کو مسہری پر لٹایا اور کمرے کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں۔

    احمد نے لالا دیوی سرن کے نام بیع نامہ کرکے بقایا وصول کر لیا۔ دیوڑھی کی تجوری اپنے پرانے انداز میں کھلنے اور بند ہونے لگی، شہتوت کے مرجھائے پتے سرسبز ہو گئے کہ اچانک سعیدہ بیگم کو معلوم ہوا، چھٹیاں گزرگئی ہیں۔ انھیں لگا کہ ابھی تو ایک لمحہ بھی نہیں گزرا اور۔۔۔

    ’’امی جان کل جانا ہے۔ آپ کی تیاری تو سب ہے نا؟ صبح ذرا جلدی چل دیں گے۔۔۔‘‘

    احمد یہ کہتا ہوا پنی مچھردانی میں جاکر سو گیا۔

    رات آدھی سے زیادہ ہو چکی تھی۔ احمد نے کروٹ لی۔ ایک آہٹ سی ہوئی، آہٹ ڈیوڑھی کے دالان میں ہوئی تھی۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا سعیدہ بیگم ہاتھ میں تسبیح لیے ادھر سے ادھر ٹہل رہی ہیں۔

    ’’امی جان ابھی تک نہیں سوئیں۔۔۔؟‘‘

    اس نے سوچا۔ اٹھنا چاہا مگر اٹھا نہیں، بس چپ چاپ لیٹا انھیں دیکھتا رہا۔ دالان کی محراب میں لالٹین لٹک رہی تھی جو ہوا کے جھونکے سے ہلنے لگی تھی۔ سعیدہ بیگم کا سایہ کبھی طویل ہوکر دبے پائوں ڈیوڑھی کی دیواروں پر چڑھنے لگتا اور کبھی سمٹ کر ان کے قدموں میں دم توڑ دیتا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صحن کو پار کرکے باغیچے میں لگے شہتوت کے قریب پہنچیں، پانی سے بھری بالٹی اٹھائی اور شہتوت کے پیڑ میں انڈیل دی۔ وہاں سے لوٹ کر صدر دروازے تک آئیں۔ نقش ونگار والے برسوں پرانے موٹے کواڑ چھوئے، پھر دالان میں لٹکی لالٹین اتار کر زینے کی طرف مڑیں اور سیڑھیاں چڑھنے لگیں مگر آدھی سیڑھیوں تک ہی پہنچی ہوں گی کہ جانے کیا سوچ کر واپس اتر آئیں۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے